علمِ بیان

تحریر و تقریر کی خوبیوں کے ذکر اور ان کی بحث کو علم بیان کہتے ہیں۔ علم بیان کی چار قسمیں ہیں: تشبیہ، استعارہ ،مجاز مرسل اور کنایہ۔

تشبیه

بنانے سنوارنے سے ہر چیز خوب صورت نظر آنے لگتی ہے۔ درودیوار پر رنگ نہ ہو تو گھر بے رونق معلوم ہوتا ہے۔ سادہ تصویر کو رنگین کر دیا جائے تو قیمت بڑھ جاتی ہے۔ رنگین اور پھول دار کپڑے اسی لیے تو پسند کیے جاتے ہیں کہ ان میں بیل بوٹے اور طرح طرح کے رنگ ہوتے ہیں ۔ نثر کے مقابلے میں نظم پسند کرنے کی وجہ لفظوں کا خوب صورت استعمال اور اس میں مختلف صنعتوں کا استعمال ہے۔ صنعت کاری گری کو کہتے ہیں اور صنائع جمع ہے۔ صنائع لفظی ، الفاظ کی کاری گریاں اور صنائع معنوی معنی و مفہوم کی کاری گریاں اور حسن پیدا کرنے والے طریقے جیسے تشبیہ استعارہ مجاز مرسل کنایہ ایسی چیزیں ہیں جن سے عبارت میں آرائش کا کام لیا جاتا ہے۔ ان سے عبارت چمک اٹھتی ہے۔ فقروں میں حسن اور مضمون میں دل کشی پیدا ہو جاتی ہے۔ لوگ اپنے روز مرہ میں ان سب چیزوں کو استعمال کرتے ہیں، لیکن انجان آدمی پہنچانتا نہیں۔ گھر کی صفائی اور کمرے کی سفیدی دیکھ کر مختلف حضرات مختلف انداز میں تعریف کرتے ہیں۔
گھر کس قدر صاف ہے واہ وا سفید برّاق نظر آتا ہے۔
کمرہ آئینے کی طرح سفید ہے۔
کمرہ کیا ہے آئینہ ہے۔
تینوں جملوں کا مطلب ایک ہی ہے، مگر غور کرنے سے مطلب ادا کرنے اور خیال واضح کرنے میں کچھ فرق نظر آئے گا۔ الفاظ کی ترتیب اور معنوں کی ادائیگی میں پہلا جملہ سادہ اور صفت موصوف کی ترکیب سے مرکب ہے۔ دوسرے جملے میں تشبیہ اور تیسرے میں استعارہ، تشبیہ اور استعارے سے عبارت میں حسن پیدا ہوتا ہے اور مضمون میں جان پڑ جاتی ہے۔
زید حاتم کی طرح گئی ہے۔
شمیم طوطے کی مانند رہتا ہے۔
بکر شیر جیسا بہادر ہے۔
مجید کوے کی طرح سیانا ہے۔
ان جملوں کو اگر یوں تقسیم کر دیا جائے تو کچھ باتیں زیادہ اچھے طریقے سے ذہن میں آجائیں گی۔
زید حاتم کی طرح سخی
شمیم کا طوطے کی طرح رہنا
بکر شیر جیسا بہادر
مجید کوے کی طرح سیانا
زید کو حاتم، بکر کوشیر، شمیم کوطوطا اور مجید کو کوا کہا گیا ہے۔ زید بڑا سخی ہے اور حاتم بہت بڑا سخی تھا اور اس کی سخاوت بہت مشہور ہے۔ زید کی سخاوت سمجھانے یا اس کی بڑائی واضح کرنے کے لیے حاتم سے مشابہ بتایا گیا۔ اس عمل کو تشبیہ” کہتے ہیں، یعنی کسی ایک چیز کو کسی مشتر کہ خوبی یا برائی کی وجہ سے کسی دوسری چیز جیسا قرار دینا” تشبیہ“ کہلاتا ہے۔
آپ نے دیکھ لیا کہ "سخاوت” کی وجہ سے "زید” کو "حاتم” سے مشابہ ظاہر کیا گیا ہے۔ اسی طرح شیر بڑا دلیر اور بڑا بہادر ہوتا ہے بکر کی بہادری کی تعریف میں اسے شیر کی مانند کہا گیا ہے۔
رٹنے میں طوطے اور سیان پن میں کوے کو شہرت اور امتیاز حاصل ہے۔ جب کسی طالب علم کی رٹنے کی صفت کو اجاگر کرنا ہو یا کسی کے سیان پن کی تصویر دکھانا ہو تو طوطے اور کوے کی مثال سے کام لیتے ہیں۔
ارکان تشبیه
مشبّہ
مشبّہ بہ
وجه شبه
حرف تشبیه

مشبّہ

جسے تشبیہ دیں ….. زید

مشبّہ بہ

جس سے تشبیہ دیں ….. حاتم

وجہ شبہ

وہ صفت جس کی بنا پر تشبیہ دی جائے۔ عام طور سے مشبہ بہ اس مخصوص صفت میں اتنا مشہور ہوتا ہے کہ سب کو معلوم ہوتی ہے۔ اسی لیے دوسری چیز یعنی مشبہ کو اس کے مانند بنا کر مشبہ کی ایک خاص صفت کو نمایاں کیا جاتا ہے۔

حرف تشبیہ

وہ کلمہ یا کلے جو مشبہ اور مشبہ بہ کو ملا ئیں جیسے: مانند جیسا کی طرح مثل بچہ چاند جیسا خوب صورت ہے اس فقرے میں :
بچه: مشبّہ
چاند: مشبّہ بہ
جیسا: حرف تشبیه
خوب صورتی: وجہ شبہ ہے
"کیا خوب صورت بچہ ہے چہرہ چاند کی طرح گول اور چمک دار گال گلاب جیسے سرخ ہونٹ پنکھڑی کی مانند نازک ۔“
ایک عبارت میں کئی مشبّہ اور مشبّہ بہ جمع ہو گئے ہیں۔
مشبّہ : چہرہ وجہ شبہ: گولائی چمک
مشبّہ بہ: چاند حرفِ تشبیہ: کی طرح

مشبّہ : گال وجہ شبہ: سرخی
مشبّہ بہ: گلاب حرفِ تشبیہ: جیسے

مشبّہ :ہونٹ وجہ شبہ: نزاکت
مشبّہ بہ: پنکھڑی حرفِ تشبیہ:مانند

میر کا شعر ہے: ؎
گھر کہ تاریک و تِیرہ زنداں ہے
سخت دل تنگ يُوسُفِؑ جاں ہے
اور علامہ اقبال کا مصرع ہے:
ہر مسلماں رگ باطل کے لیے نشتر تھا
گھر کو زندان’ جان کو یوسفؑ اور مسلمان کو نشتر کہنا تشبیہ ہے۔ گھر اور زندان میں وجہ شبہ تاریکی ہے اور جان کو یوسفؑ سے تشبیہ دینے کی وجہ قید میں دل کی تنگی ہے اور مسلمان کو نشتر سے اس لیے تشبیہ دی گئی ہے کہ باطل کو کاٹ دیتا ہے۔
♦♦♦

استعاره

استعاره لغت میں عاریتاً لینے اور کچھ دیر کے لیے اُدھار مانگ لینے کو کہتے ہیں یعنی ہم نے ذیل میں دی گئی مثالوں میں لفظ ”شیر“ کوحضرت عباس ” کے لیے اور لفظ ” چاند کو ” بیٹے کے لیے عاریتاً لے لیا۔
تعریف
کسی ایک چیز کو کسی مشترکہ خوبی برائی یا نقص کی وجہ سے بعینہ دوسری چیز قرار دے دینا ” استعارہ ” کہلاتا ہے جیسے: بہادر کوشیر۔ بزدل کو گیدڑ ۔ شریرلڑکے کو شیطان کہنا۔ مثالیں:
کس شیر کی آمد ہے کہ رن کانپ رہا ہے
رن ایک طرف ، چرخ کہن کانپ رہا ہے
ماں کہتی ہے میرا چاند آیا ۔
پہلی مثال میں جرات و شجاعت کے باعث حضرت عباس کو شیر کہا گیا ہے لیکن شعر میں ان کا ذکر نہیں ۔ اسی طرح مثال میں ماں اپنے خوب صورت بیٹے کو چاند کہتی ہے اور بیٹے کا نام نہیں لیتی ۔
سب جانتے ہیں کہ شیر ایک دلیر جانور کا نام ہے اور چاند ایک سیارہ ہے مگر ہم اصلی اور مجازی معنوں کا خیال کیے بغیر لفظ بعینہ دوسرے معنوں میں استعمال کرتے ہیں۔
استعارہ کی 10 مثالیں:
کسی بزدل کو گیڈر کہنا
عقل مند کو افلاطون کہنا
بہادر کو شیر کہنا
محبوب کو چاند کہنا
محبوب کو صنم (بُت) کہنا
محبوب کو کافر کہنا
عالم آدمی کو روشن دماغ کہنا
بے وقوف کو اُلّو کہنا
بے وقوف کو گدھا کہنا
آنسو کو موتی کہنا
استعارہ کی شعری مثالیں:
پتا پتا بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے
جانے نہ جانے گُل ہی نہ جانے ، باغ تو سارا جانے ہے

میں ہوا کافر تو وہ کافر مسلماں ہو گیا

جادو ہیں تیرے نین غزالاں سے کہوں گا

وزیروں نے کی عرض کہ اے آفتاب
نہ ہو ذرا تجھ کو کبھی اضطراب

کھڑکی کوئی کُھلے، کوئی چہرہ دکھائی دے
اے چاند تو یا کوئی تجھ سا دکھائی دے

کس شیر کی آمد ہے کہ رن کانپ رہا ہو
زُن ایک طرف چرخِ کہن کانپ رہا ہے

استعارہ کے ارکان:
استعارہ کے تین ارکان ہیں۔
استعارے کے دو حصے یا دو اطراف ہوتے ہیں۔ ایک مستعارلہ، اور دوسرا مستعار منہ۔ شریر لڑکا، مستعارلہ اور شیطان، مستعار منہ ہے۔ استعارے میں مستعارلہ، کا تذکرہ نہیں ہوتا۔ یہی اس کا امتیاز ہے۔ اسی طرح ”مستعارلہ “ اور ”مستعار منہ” میں مشترک بات یعنی وجہ جامع ( جسے تشبیہ میں وجہ شبہ کہتے ہیں ) بھی بیان نہیں کرتے ۔ اگر مستعار منہ، وجہ جامع اور حرف استعارہ جیسی چیز بیان کر دیں تو اسے تشبیہ کہیں گے۔
شعبِ صدا میں پنکھڑیاں جیسے پھول میں
بُلبُل چہک رہا تھار یاضِ رسولؐ میں
پہلے مصرعے میں، آواز کے اتار چڑھاؤ اور اس کے جوڑ کو پھول کی پنکھڑیوں سے تشبیہ دی ہے اور حرف تشبیہ” جیسے” موجود ہے۔ دوسرے مصرعے میں حضرت علی اکبر رضی اللہ عنہ کو بلبل اور مجمع اہل بیت علیہم السلام کو ریاض ( باغ ) رسولؐ سے استعارہ کیا ہے۔
مستعارلہ:جس کے لیے استعارہ کیا جائے (تشبیہ میں اسے مشبہ کہتے ہیں )حضرت علی اکبر جن کے لیے بلبل کا کلمہ استعمال ہوا ہے۔
مستعار منہ: جس کا استعارہ کیا جائے ( تشبیہ میں اسے مشبہ بہ کہتے ہیں) بلبل مستعار منہ ہے۔
وجہ جامع: مستعارلہ اور مستعار منہ، میں پائی جانے والی مشترک خصوصیات ۔
حضرت علی اکبر کا اذان دینا اور بلبل کی خوش آوازی اور کشش ایک جیسی ہے۔
♦♦♦

مجاز مرسل

تعریف
وہ لفظ جس کے مجازی معنی مراد ہوں مگر حقیقی اور مرادی معنوں میں تشبیہ کا تعلق نہ ہو۔
رستم سہراب کا باپ تھا۔
رستم نے لاہور میں انتقال کیا۔
چڑیا گھر میں شیر بھی ہے۔
شیر کا تیور دیکھا تو سب ڈر گئے۔
رستم
ایران کا پہلوان تھا، جو زال کا بیٹا اور سہراب کا باپ تھا۔
بہت بہادر آدمی۔ وہ بہادر جس کے مقابلے میں کوئی نہ ٹھہر سکے۔
شیر
ایک درندہ جانور جوسب جانوروں سے زیادہ بہادر اور خوف ناک ہوتا ہے۔
بہادر آدمی نڈر انسان رعب داب رکھنے والا۔
گدھا
مضبوط جفاکش بار بردار چوپایہ۔
بے وقوف آدمی جاہل، کندہ نا تراش۔
مذکورہ بالا لفظوں میں ہر لفظ کے دو معانی درج ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر لفظ کو شروع شروع میں صرف ایک معنی کے لیےاستعمال کیا گیا۔ رفتہ رفتہ لوگ اسے دوسرے معنوں میں بھی استعمال کرنے لگے ۔ لفظ جب پہلے معنوں میں استعمال ہو تو یہ استعمال "حقیقت” کہلاتا ہے اور جب دوسرے معنوں میں استعمال ہو تو "مجاز“ہے۔
یونین کی صدارت تک اس کا ہاتھ نہیں پہنچتا۔
ہم آپ کی چشم عنایت کے محتاج ہیں۔
ایک گلاس ہمیں بھی دیجیے۔
ہاتھ :
جسم کا ایک جزو ( حقیقی معنٰی )
قدرت و امکان ( مجازی معنٰی )
چشم :
آنکھ (حقیقت)
توجه (مجاز)
گلاس :
ایک برتن کا نام (حقیقت)
پانی (مجاز)
کلمات کا یہ استعمال ” مجاز مرسل” ہے۔
چشمِ کرم – دستِ عنایت
کرم کی آنکھ اور عنایت کا ہاتھ نہیں ہوتا۔ نہ آنکھ اور ہاتھ کے ساتھ کرم یا عنایت کو تشبیہ دی جاسکتی ہے مگر آنکھ سے تو جہ اور ہاتھ سے سخاوت ہوتی ہے اور توجہ وصفت سخاوت سے احسان ہوتا ہے۔ اس سبب سے دونوں لفظوں کے مجازی معانی مراد لیے گئے ہیں ۔ یونین کی صدارت تک ہاتھ نہیں پہنچتا۔ یہاں کل (ہاتھ ) بول کر اس کا اثر یعنی قابو مراد لیا گیا ہے۔
ایک گلاس ہمیں بھی دیجیے… یہاں ظرف ( گلاس) بول کر مظروف یعنی پانی مراد لیا گیا ہے۔
پروفیسر سے میلے …..یہاں ایم۔ اے کے طالب علم کو پروفیسر کہنا مستقبل کی امید کے تعلق سے ہے۔
تحصیل دار آئے تھے ..ریٹائر ڈ تحصیل دار کی آمد کی خبر دیتے ہوئے یہ جملہ عام ہے۔ مراد یہ ہے کہ ماضی میں جو تحصیل دار تھے وہ آئے تھے۔
مجاز مرسل کے استعمال کی کئی صورتیں ہیں، کل بول کر جز و مراد لینا۔ جزو بول کر کل مراد لینا۔ مسبب کی جگہ سبب اور سبب کی جگہ مسبب بولنا۔ اسی طرح ظرف کی جگہ مظروف اور مظروف کی جگہ ظرف بولنا۔ مثالیں ذیل میں دی جاتی ہیں :
جزو کہ کرکل مراد لینا
مثلاً یہ کہیں کہ” زندگی دو دن کی ہے” زندگی کو فانی سمجھتے ہوئے دو دن کی کہا۔ زندگی طویل بھی ہو سکتی ہے سو سال کی بھی ہو سکتی ہے۔ اسے دودن کی زندگی کہا گو یا جزو کہ کر کل مراد لیا۔
کل کہ کر جزو مراد لینا
بچے کے ہاتھ میں چھری دیکھ کر کہتے ہیں۔” بیٹے ! چھری رکھ دو کہیں ہاتھ نہ کٹ جائے ۔” ہاتھ تو نہیں کرتا البتہ ہاتھ کے کسی حصے پر زخم لگ سکتا ہے۔ گو یا کُل کہ کر جز و مراد لیا۔ جب کوئی شخص یہ کہے کہ میں نے دنیا دیکھی ہے تو اس سے مراد یہ ہے کہ اس نے دنیا کا کچھ حصہ دیکھا ہے۔
سبب کہ کر نتیجہ مراد لینا
مثال کے طور پر یہ کہیں کہ بادل خوب برسا۔ یہاں بادل سبب ہے اس کا نتیجہ بارش ہے کیوں کہ بادل نہیں برستا بلکہ بارش ہوتی ہے۔ گویا بادل کَہ کر بارش مراد لی، یعنی سبب کَہ کر مسبب یا نتیجہ مراد لیا۔
مسبب کَه کر سبب مراد لینا
مثلا یہ کہیں کہ” آگ جل کر رہی ۔ “ آگ نہیں جلتی بلکہ لکڑی جلتی ہے۔ یہاں آگ مسبب ہے اور لکڑی سبب ۔ گویا ذ کر ہم نے آگ ( مسبب ) کا کیا اور مراد لکڑی ( سبب ) تھی۔
♦♦♦

کنایه

کنایہ کے معانی ہیں اشارے سے بات کہنا اور کنایہ کی تعریف ہے :
"کسی لفظ سے ایسی بات مراد لینا جو اس کے معنوں کو لازم ہو ۔ مثلاً
شُتر بے مہار: زبان دراز ۔بے ہودہ باتیں کرنے والا ۔
پیٹ کا ہلکا: راز کی بات ََکہ دینے والا ۔
"شُتر بے مُہار”کا معنی ہے "وہ اونٹ جس کی نکیل نہ ہو ۔ دوسرے مرکب کا معنی ہے ” پتلے اور ہلکے پیٹ والا آدمی” لیکن جب ان کلمات سے ایسے معافی مراد لیے جائیں جو ان کے اصلی معنوں کے لیے لازمی یا صفاتی ہیں تو اس لفظ یا کلمے یا مرکب کو کنایہ کہیں گے ۔ جب اونٹ کے نکیل نہ ہوگی تو لاز م وہ بلبلاتا پھرے گا۔ ہلکے پیٹ کی لازمی صفت یہ ہوگی کہ کوئی چیز اس میں نہ ٹھہرے گی۔ علمِ بیان کی یہ بہت اچھی صفت ہے جس سے بیان میں لطف پیدا ہوتا ہے اور بات واضح طور پر بیان بھی نہیں ہوتی۔
مرزا غالب کا شعر ہے:
کیوں ردِّ قدح کرے ہے زاہد
مَےہے، یہ مگس کی قَے نہیں ہے
قدح : پیاله مراد شراب (مجاز مرسل)
مگس : مکھی’ شہد کی مکھی
مگس کی قَے : شہد کے معنوں میں کنایہ
غالب کا ہی ایک شعر ہے:
صبح آیا جانب مشرق نظر
اک نگار آتشیں رخ’ سر کھلا
دوسرا مصرع آفتاب کے لیے کنایہ ہے شاعر نے ایک چیز کے لیے بہت سی صفتیں بیان کر دی ہیں:
(1) مشرق میں نظر آیا۔
(۲) صبح کا وقت۔
(۳) چہرہ گرم اور سرخ ہونا۔
(۴) سرجس پر کوئی پردہ نہ ہو اور بال کھلے اور پریشان ہوں۔ یہ کلیہ ہے کہ کنایہ ہمیشہ وضاحت کرنے سے زیادہ لطف دیتا ہے۔

اگر آپ چاہیں تو یہ بھی پڑھ سکتے ہیں

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top