حکیم الامت دانائے راز ، مرد خود بین و خودآگاه مفکر ملت علامہ اقبال نے اپنی قومی شاعری اور ایمان افروز پیغامات سے مسلمانان عالم کو بالعموم اور مسلمانان ہند کو بالخصوص خواب غفلت سے جگا کر تصور پاکستان پیش کیا۔ تخلیق ارض پاک انہی کی فکری کاوشوں سے سر انجام پائی ۔
آپ ۹ نومبر ۱۸۷۷ء کو شہر سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ آپ کا آبائی وطن کشمیر تھا۔ آپ کے والد بزرگوار شیخ نورمحمد نہایت پر ہیز گار اور متقی انسان تھے۔ ابتدائی تعلیم ایک دینی مدرسہ میں پائی اور میٹرک پاس کرنے کے بعد مرے کالج سیالکوٹ میں داخلہ حاصل کیا یہیں سے انہوں نے ایف اے پاس کیا۔ اس کے بعد بی اے اور ایم اے گورنمنٹ کالج لاہور سے امتیازی حیثیت سے پاس کیا اور پنجاب بھر میں اول آئے۔ میٹرک پاس کرنے کے بعد جب آپ سیالکوٹ کے مشن میں پہنچے تو وہاں پر آپ کو مولوی میر حسن جیسے فاضل اور شفیق استاد مل گئے جنہوں نے ان کے جو ہر قابل کو پہچان لیا ۔ انہوں نے ان کی ذہنی تربیت فرمائی اور ان میں اسلامی ذوق پیدا کیا۔
گورنمنٹ کالج لاہور میں آپ کو پروفیسر آرنلڈ جیسی شخصیت کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کرنے کا موقع ملا جنہوں نے اقبال میں تجسس اور تحقیق کی صفات کو اجا گر کر دیا۔ یہاں سے فارغ التحصیل ہو کر آپ پہلے اور ینٹل کالج اور پھر گورنمنٹ کالج لاہور میں پروفیسر رہے ۔ اس کے بعد ۱۹۰۵ء میں آپ قانون کی اعلیٰ تعلیم کے لئے انگلستان چلے گئے اور کیمبرج یونیورسٹی سے بارایٹ لاء کی سند حاص کی ۔ فلسفہ ایران پر ایک کتاب لکھ کر آپ نے جرمنی کی میونخ یونیورسٹی سے پی۔ ایچ۔ ڈی۔ کی ڈگری حاصل کی ۔ ۱۹۰۸ء میں آپ وطن واپس آگئے۔ علامہ اقبال کو اپنے فاضل اور شفیق استا دسر آرنلڈ سے بہت محبت تھی ۔ قیام انگلستان کے دوران آپ نے ارادہ کر لیا تھا کہ شعر نہیں کہیں گے مگر آرنلڈ کے کہنے پر آپ نے اس ارادہ کو ترک کر دیا اور پھر سے شعر کہنے لگے۔ جب آپ کو آرنلڈ کے انتقال کی خبر ملی تو بے اختیار آپ کی زبان سے نکالا ۔ آہ آج اقبال اپنے عظیم دوست اور مشفق استاد سے محروم ہو گیا ۔ علامہ صاحب انجمن حمایت اسلام لاہور کے صدر بھی منتخب ہوئے اور انجمن کے اداروں کو نہایت خوبی سے چلاتے رہے ۔ بعد میں پنجاب لیجسلیٹو کونسل کے ممبر چنے گئے ۔ پھر آپ کو پنجاب مسلم لیگ کا صدر منتخب کر لیا گیا۔ شاعری کی وجہ سے آپ کی شہرت ہندوستان کی سرحدوں کو عبور کر کے تمام دینا میں پھیل گئی۔ قوم نے آپ کو تر جمان حقیقت ، شاعر مشرق اور حکیم الامت کے خطابات سے نوازا۔ حکومت برطانیہ نے آپ کو سر کا خطاب دیا ۔ ریاست بھوپال کی طرف سے آپ کے لئے پانچ سو روپیہ ماہوار وظیفہ مقرر ہوا۔
علامہ اقبال کی ساری کی ساسری شاعری میں قوم کے لئے تڑپ موجود ہے۔ ہر شعر ملت کے لئے اصلاح کا پیغام دیتا ہے۔ کبھی وہ اسلاف کے کارنامے یاد دلا کر مسلمانوں کا لہوگر ماتے ہیں ۔ کبھی افلاک پر کمند ڈالنے کو کہ کرنو جوانان اسلام کو دعوت عمل دیتے ہیں۔ عقاب و شاہین کی تمثیل سے نو جوانوں کو بلند خیالی اور بلند پروازی کا درس دیتے ہیں۔ اویس قرنی کا قصہ چھیٹر کر حب رسولؐ کی ترغیب دیتے ہیں ۔ آپ سچے عاشقان رسولؐ میں سے تھے۔ حضورؐ کے عشق میں ان کی آنکھیں ہمیشہ پر نم رہتی تھیں ۔
علامہ صاحب نے خودی پر بہت زور دیا ہے ۔ خودی سے ان کی مراد تکبر یا خود نمائی نہیں ہے بلکہ وہ قوم کو خود شناسی سکھانا چاہتے تھے اور اسے احساس دلانا مقصود تھا کہ تمہارے اندر قدرت نے جو جو ہر پنہاں رکھے ہیں، ان کو کام میں لا کر اپنے آپ کو اس قابل بناؤ کہ خدا تعالی کے منتخب بندوں میں شامل ہو جاؤ اور عملی اور ذہنی طور پر اللہ کے اس قدر مقرب بن جاؤ کہ اس کی رحمتیں تم پر رسنے کے لئے مجبور ہو جائیں۔ آپ فرماتے ہیں۔
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
علامہ کا تمام کلام اسلامی نظریات کے عین مطابق ہے۔ آپ کا سارا کلام احکام الہی اور اسوۂ حسنہ کی عکاسی کرتا ہے۔ اگر ان کے صرف ایک ہی شعر پر انسان عمل پیرا ہو جائے تو کامیاب مسلمان بن جاتا ہے اور دین و دنیا کی دولت
اس کے قدموں تلے آ جاتی ہے۔ ایک شعر ملاحظہ ہو ۔
یقیں محکم عمل پیہم محبت فاتح عالم
جہاد زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں
اگر اس شعر کے متعلق یہ کہا جائے کہ آپ نے دریا کو کوزے میں بند کر دیا ہے تو بالکل بجا ہوگا۔ کیونکہ اس میں علامہ نے کتاب وسنت کے بہت سے تقاضے پورے کر دیئے ہیں۔
آپ نے ۲۱ اپریل ۱۹۳۸ء کو لاہور میں رحلت فرمائی اور شاہی مسجد کے سامنے حضوری باغ میں دفن ہوئے ۔ عام دنوں میں بھی لوگ ان کے مزار پر فاتحہ خوانی کے لئے جاتے ہیں مگر خاص مواقع مثلاً یوم اقبال پر بہت زیادہ لوگ حاضری کے لئے جاتے ہیں۔ یوم اقبال کے موقع پر ملک کے سربراہان کی طرف سے بھی ان کے مزار پر پھول چڑھائے جاتے ہیں اور بے شمار علمی اور ادبی اداروں اور انجمنوں کی طرف سے بھی چادریں چڑھائی جاتی ہیں اور فاتحہ خوانی کی جاتی ہے۔
مآخذ: بہترین اردو مضامین، علامہ اقبال آفاقی کُتب خانہ
اگر آپ چاہیں تو یہ بھی پڑھ سکتے ہیں
-
اطاعت والدین
-
طلبہ اور سیاست
-
مطالعہ کا طریقہ
-
تعلیم نسواں
-
علم بڑی دولت ہے
-
خدمت خلق
-
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
-
ہمت کرے انسان تو کیا ہو نہیں سکتا ؟
-
علامہ اقبال
-
سرسید احمد خان
-
رسول اکرمؐ بحیثیت معلم اخلاق
-
حضور رسول کریم خاتم النبیینؐ کی حیات طیبہ
-
خاتم النبیین حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم
-
سب سے بڑا ہے میرا خدا