ملک کے داخلی و خارجی معاملات و مسائل کو سمجھنے، ان کا حل تلاش کرنے ، ملک کا نظم و ضبط  سنبھالنے اور اس کے لئے قوانین بنانے کو سیاست کہتے ہیں۔ جو لوگ ان امور کے ماہر ہیں سیاستدان کہلاتے ہیں ۔ دوسروں علموں کی طرح سیاسیات بھی ایک مکمل علم ہے جس کا شعور رکھنا ہر شہری کے لئے ضروری ہے۔

ہمارے ہاں یہ مسئلہ موضوع بحث بنا ہوا ہے کہ طلبہ کو سیاست میں حصہ لینا چاہیے یا نہیں ۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ طلبہ کو سیاست میں حصہ لینا چاہیے اور کچھ یہ رائے رکھتے ہیں کہ ان کو سیاست میں حصہ نہیں لینا چاہیے ۔ دونوں گروہوں کے لوگ حسب ذیل دلائل دیتے ہیں۔

جو لوگ طلبہ کے سیاست میں حصہ لینے کے حق میں ہیں کہتے ہیں کہ آج کے طلبہ کل کے سیاستدان ہیں۔ اگر آج انہیں سیاست سے الگ رکھا جائے گا تو ان میں وہ شعور ہی پیدا نہیں ہو گا جو ایک سیاستدان کے لئے ضروری ہے۔ سیاست کا ابتدائی تجر بہ انہیں زمانہ طالب علمی میں کرنا چاہیے۔ جو طالب علم زمانہ طالب علمی میں سیاست میں حصہ لیتے ہیں ان میں سیاسی شعور پیدا ہوتا ہے اور جب وہ عملی زندگی میں پہنچتے ہیں تو ایک کامیاب سیاستدان بن سکتے ہیں۔زمانہ طالب علمی کی ابتدائی منازل انہیں ایک دن سیاست کے نقطہ عروج پر پہنچا دیتی ہیں۔ جتنے سیاست دان تاریخ نے پیدا کئے ہیں اگر ان کے زمانہ طالب علمی کے حالات پڑھے جائیں تو معلوم ہو گا کہ زمانہ طالب علمی ہی میں انہوں نے سیاست سے دلچسپی لینا شروع کر دی تھی ۔ قائداعظم جب علی تعلیم کے لئے انگلستان گئے تو انہوں نے وہیں سیاست میں دلچسپی لینا شروع کر دی تھی اور سیاسیات کا مطالعہ شروع کر دیا تھا۔ ایک طالب علم جو ایک ڈاکٹر منبنا چاہتا ہے، انجینئر بنا چاہتا ہے، سائنس دان مبنا چاہتا ہے۔ وہ اپنے شعبہ کی مہارت زمانہ طالب علمی میں ہی حاصل کرتا ہے۔ قائد اعظم نے بھی تو طلبہ کو مسلم لیگ میں حصہ لینے کے لئے کہا تھا۔ چنانچہ اور حصول پاکستان میں طلبہ کا بہت حصہ تھا۔ رہی یہ بات کہ جوانی کی عمر میں ذنی پختگی کے بجائے جوش و بیجان زیادہ ہوتا ہے یہ صیح ہے لیکن قیادت اگر پختہ کار اور تجربہ کار ہواور طلبہ سے محض تائیدی کام لیا جائے تو غلطی کا احتمال نہیں ہوتا اور ساتھ ہی ساتھ ہوش و حواس کی حدود سے باہر نہ ہونے دیا جائے ۔ ان کے لئے لائحہ عمل متعین کر دیا جائے تو تحریکیں نا کام نہیں ہوتیں ۔

جن لوگوں کی رائے یہ ہے کہ طلبہ کو سیاست میں حصہ نہیں لینا چاہیے وہ اپنے دلائل دیتے ہیں کہ سیاست میں عملی طور پر حصہ لینا کوئی آسان کام نہیں ہے ۔ اس میں ذہن و شعور کی پختگی اور تجربہ کاری نہایت ضروری ہے ۔ طلبہ اپنی زندگی کے ایسے دور سے گزر رہے ہوتے ہیں جس میں عقل کی بجائے جوش زیادہ ہوتا ہے۔ سیاست میں حصہ لینے کے لئے متوازن دل و دماغ کی ضرورت ہوتی ہے مگر نوجوان طبقے میں اس چیز کا فقدان ہوتا ہے۔ پختگی نا پید ہوتی ہے اور نا تجربہ کاری قوم کے لئے نقصان عظیم کا باعث بن سکتی ہے۔ نوجوانی میں جذبات کی شدت ہوتی ہے اور ہوش کی کمی کے سبب اکثر تحریکیں نا کام ہو جاتی ہیں۔ جو عمل ہوش کے تابع نہ ہوا کثر اور بیشتر تباہی کا موجب بنتا ہے ۔

ان کی رائے میں طالب علمی کا زمانہ دنی صلاحیتوں کو نکھارنے کا زمانہ ہوتا ہے اور طالب علم کا کام صرف اور صرف حصول تعلیم ہوتا ہے۔ اس سے ہٹ کر اگر اس کا ذہن دوسری طرف لگ جائے تو نہ تو وہ تعلیم ہی صیح طور پر حاصل کر سکتے ہیں اور نہ ہی سیاستدان بن سکتے ہیں۔ اس طرح وہ اپنا ذاتی نقصان بھی کرتے ہیں اور قوم کے لئے بھی رسوائی کا سامان پیدا کرتے ہیں ۔ جوطلبہ اپنے زمانہ طالب علمی میں، جو کہ ان کی چینی نا پختگی کا زمانہ ہوتا ہے، سیاست میں حصہ لینا شروع کر دیتے ہیں وہ اپنے مقصد تعلیم میں ہمیشہ کے لئے نا کام ہو جاتے ہیں تحریک آزادی کے دور میں جب انگریزوں سے عدم تعاون کی تحریک زوروں پر تھی کانگریس نے کالجوں کا اسی لئے بائیکاٹ کر دیا تھا کہ کوئی طاب علم تحریک میں حصہ نہ لے۔ مگر پھر بھی ہزاروں طلبہ نے تعلیم کو خیر باد کہہ کر تحریک میں حصہ لینا شروع کر دیا یہ تحریک بھی کامیاب نہ ہوئی اور ان کا مستقبل بھی بری طرح سے تباہ ہو گیا ۔ ۲۴ مارچ ۱۹۴۸ء کو قائد اعظم نے ڈھاکہ یونیورسٹی کے اجلاس میں طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا۔” جن طالب علموں نے اپنی تعلیم ابھی مکمل نہیں کی انہیں خارزار سیاست سے دور رہنا چاہیے اور سستی شہرت کے بھو کے ہاتھوں میں کٹھ پتلی نہیں بنا چاہیے۔ آپ ملک کا سرمایہ ہیں ۔ پڑھ لکھ کر اپنے ملک کی دولت میں اضافہ کریں۔ صرف تعلیم کی تکمیل سے ہی آپ اپنے ملک کے اقتصادی، معاشی اور سماجی مسائل حل کرنے میں مد و معاون ہوسکیں گے ۔ کھوکھلی نعرہ بازی کے ماحول سے دور رہ کر تعلیم حاصل کیجئے ۔” اس طبقے کا خیال یہی ہے کہ طلبہ کو سیاست میں حصہ نہیں لینا چاہیے۔

مآخذ: بہترین اردو مضامین، علامہ اقبال آفاقی کُتب خانہ

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top