صنائع بدائع

اصطلاح میں علمِ صنائع بدائع اُس علم کو کہتے ہیں جس سے تحسین و تزئین کلام کے طریقے معلوم ہوتے ہیں۔ صنائع بدائع کی بہت سی قسمیں ہیں جن میں سے چند کا ذکر ذیل کی سطور میں کیا جاتا ہے:

 تلمیح 

کسی بات کو اچھی طرح سمجھانے کی ایک تدبیر یہ بھی ہے کہ اسے کہانی یا گذشتہ سنےاور دیکھے ہوئے واقعے کے حوالے سے واضح کیا جائے ۔ یہ وضاحت دو طرح سے ہوتی ہے۔ پہلے یہ سننے والے کو پورا قصہ سنایا جائے پھر اس سے موجودہ صورت حال کی مطابقت سمجھائی جائے۔ اس کے بعد نتیجے کی یکسانیت پر روشنی ڈالی جائے یا دوسرے یہ کہ اس قصے کی جانب محض اشارہ کر دیا جائے اور نتیجے کی یکسانیت واضح کی جائے ۔ مثالیں:

1۔  حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام اللہ کے بڑے بلند مرتبہ رسول تھے لوگوں کو اللہ کی طرف بلاتے اور سچی راہ دکھاتے تھے۔ ایک مرتبہ نمرود نے آپ کو ختم کرنے کا منصوبہ بنایا۔ لکڑیوں سے میدان بھر کر آگ لگوائی ۔ جب لکڑی جل چکی اور انگارے دہکنے لگے تو بادشاہ کے حکم سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ایک خاص اہتمام سے آگ میں پھینک دیا گیا۔ لیکن اللہ تعالی کے حکم سے آگ ٹھنڈی ہو گئی۔ اور اس میدان میں آگ کے بجائے چمن لہلہانے لگا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کسی تکلیف کے بغیر وہاں سے نکل آئے۔

 اس واقعے سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ انسان کا عقیدہ پکا اور خدا پر بھروسا ہو یا دوسرے لفظوں میں یہ کہ انسان کو اپنے مقصد سے عشق اور خلوص ہو تو دنیا کی مصیبتوں کا کیا ذکر ہے آگ بھی گلزار بن سکتی ہے۔ ہاں عشق صادق اور ارادہ پختہ نہ ہو تو آدمی ہمیشہ بحث مباحثہ اور دعوے دلیل ہی میں الجھا رہتا ہے کوئی کام نہیں کر سکتا۔

اس طویل عبارت اور لمبی چوڑی تقریر کو علامہ اقبال نے دو مصرعوں میں لکھا اور مذکورہ بالا واقعہ بیان کیے بغیر واضح کر دیا:

 بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق

 عقل ہے محو تماشائے لپ بام

 ابھی آتشِ نمرود میں کودنا حضرت ابراہیم علیہ السلام کے کمال ایمان اور عشق الہی میں پختگی کے مشہور امتحان کی طرف اشارہ ہے۔ واقعہ آپ نے پڑھا ہے اور سب کو معلوم ہے۔

2۔  حضرت یوسف علیہ السلام اپنے والد کے بہت پیارے بیٹے تھے یہ محبت بھائیوں کو نا پسند تھی۔ ایک مرتبہ سب بھائیوں نے حضرت یوسف” کے خلاف سازش کی اور انھیں سیر و تفریح کے بہانے گھر سے لے جا کر ایک کنویں میں ڈال دیا ۔ واپس آئے تو حضرت یعقوب علیہ السلام سے جھوٹ موٹ کہ دیا: "یوسف کو بھیڑیا کھا گیا۔ حضرت یعقوب یہ خبر سن کر نڈھال ہو گئے ، مدتوں روتے رہے گھر اجڑ گیا۔ ادھر حضرت یوسف علیہ السلام بے حد مصیبتوں میں مبتلا ہوئے۔ غلام بنائے گئے بازار میں بیچے گئے قید و بند میں رہے۔

 اسی طرح کی مصیبتیں حامد پر گزررہی ہیں۔ عزیزوں اور بھائیوں نے جینا دوبھر کر دیا ہے ۔ اسی بات کو یوں بھی کہا جاسکتا ہے: حامد بھرے پڑے خاندان کا آدمی ہے مگر وہ سب برادران یوسف ہیں۔ اس محسن بیان اور خوب صورتی کا نام تلمیح ہے۔ 

تلمیح  نظم و نثر میں ایک لفظ یا چند مختصر الفاظ کے ذریعے سے کسی مشہور آیت روایت واقعے یا تاریخی سانحے کی طرف اشارہ کرنا۔

 کیا فرض ہے کہ سب کو ملے ایک سا جواب

 آؤ نہ ہم بھی سیر کریں کوہ طور کی

کوہ طور

 وہ پہاڑ جہاں حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ سے کلام کرتے تھے۔ ایک دن آپ نے امت کے کہنے سے اللہ کے حضور درخواست کی کہ مجھے اپنا دیدار عطا فرمائیے ۔ جواب ملا "لن ترانی ولكن انظر الى الجبل فان استقر مکانہ فسوف ترانی “ ( تم مجھے ہرگز نہیں دیکھ سکتے، لیکن پہاڑ کی طرف دیکھو اگر یہ اپنی جگہ برقرار رہ گیا تو پھر دیکھ سکو گے ) اس کے بعد ایک چمک ہوئی، پہاڑ سرمہ ہو گیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام بے ہوش ہو گئے۔ قرآن مجید میں یہ واقعہ بیان کیا گیا ہے۔ اردو میں بہت سی تلمیحوں کے حوالے سے: ارنی ۔لن ترانی۔ کوہ طور۔تجلی۔ تجلّی کی تاب نہ لا نا۔ طور سینا۔ مناجاتِ موسیٰ علیہ السلام۔ آرزوئے دیدار ۔ برقِ طُور وغیرہ تلمیحات اسی طرف اشارہ کرتی ہیں۔

ابنِ مریمؑ ہوا کرے کوئی 

میرے دکھ کی دوا کرے کوئی

(غالب) 

عیسیٰ علیہ السلام بیماروں کو چھو لیتے تو مرض جاتا رہتا تھا، مردے کو” قم باذن الله “ اللہ کے حکم سے اٹھ بیٹھ) فرمایا تو مردہ زندہ ہو گیا۔ اس بات کے لیے بہت سی تلمیحیں استعمال ہوتی ہیں ۔ عیسیٰ نفس ۔ دم عیسیٰ ۔ اعجازِ مسیحا۔

اک کھیل ہے اور نگ سلیمان  میرے نزدیک

 اک بات ہے  اعجازِ مسیحا میرے آگے

اور نگ سلیمان :

 حضرت سلیمان علیہ السلام اللہ کے محبوب نبی تھے ۔ آب و ہوا جن و بشر خشک وتر کی بادشاہت ملی ہوئی تھی، پرندوں کی بات سمجھتے اور جنات پر حکومت کرتے تھے۔ آپ کا تخت ( اور نگ ) ہوالے کر چلتی تھی۔ آپ کے پاس ایک انگوٹھی تھی اور انگوٹھی میں ایک نقش تھا جس کے اثر سے جن و پری آپ کے فرماں بردار تھے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام سے متعلق یہ تلمیحات ہیں۔نقش سلیمان – تخت سلیمان۔ ہدیہ مورِ سلیمان ۔ چیونٹی اور سلیمان۔ بلقیس وسلیمان ۔ ہُد ہُد اور سلیمان۔

آب حیات، آب حیوان،  چشمہ حیوان ، آب بقا

 کہتے ہیں کہ طویل اور تاریک راستے کے بعد ایک چشمہ ہے جس کا پانی پینے والا کبھی نہیں مرتا۔ ایک مرتبہ حضرت خضر ؑ سے سکندر نے وہاں جانے کی خواہش کی۔ آپ نے فرمایا میں تجھے وہاں لیے تو چلتا ہوں لیکن کچھ شرطیں ہیں۔ سکندر نے شرطیں مان لیں، لیکن جب ظلمات میں داخل ہوا تو ہمت ہار گیا اور راستے ہی سے واپس آ گیا۔ حضرت خضر نے چشمے پر پہنچ کر پانی پیا۔ اس لیے خضر و سکندر کا ذکرِ راہنمائی ، سکندر کا چشمہ آب حیات سے پیاسا پلٹنا وغیرہ کو تلمیحات کی حیثیت حاصل ہے۔ صبر ایوب۔ ناله یعقوب۔ نغمہ داؤد۔ ملک سلیمان جیسی بے شمار تلمیحیں گذشتہ پیغمبروں اور پرانی امتوں کے واقعات سے متعلق رائج ہیں۔ 

خیبر شکن :

 حضرت علیؑ نے خیبر کی جنگ میں یہودیوں کے قلعہ قموص کو فتح کیا اور قلعے کا بہت بھاری درواز و توڑا اور اپنے ہاتھ سے اٹھا کر پھینک دیا۔ اس جنگ میں مرحب وعنتر نامی بہادروں کو تلوار سے قتل کیا۔ علامہ اقبال کے ذیل کے شعر میں مرجبی، عنتری ، حیدری جیسی تلمیحات سے مذکورہ حقائق مراد ہیں۔

 نه ستیزہ گاہ جہاں نئی نہ حریف پنجہ فگن نئے

 وہی فطرت اسدا للّٰہی ، وہی مرجبی وہی عنتری

 کر بلا ذبح عظیم :

 امام حسینؑ دس محرم ۶۱ ھ کو کر بلا نامی میدان میں یزید کے حکم سے شہید کر دیے گئے۔ اس واقعے سے تعلق رکھنے والی بہت سی تلمیحات اردو میں استعمال ہوئی ہیں۔ مثلاً شاہ شہیداں ، شام غریباں، صبح عاشور وغیرہ۔

گنج بخش 

جناب سید علی ہجویری کی کرامت اور گنج شکر بابا فرید الدین کی کرامت و عطا کی تلمیح ہے۔

مذہبی تلمیحات کے علاوہ کیلئے مجنوں ۔ شیریں فرہاد ۔ سسّی پنوں ۔ ہیر رانجھا۔ محمود و ایاز ۔ مانی و بہزاد ۔ لنکا ڈھانا۔ ہفت خواں رستم ۔ جام جمشید ۔ تیشہ و فرہاد۔ آئینہ سکندری۔ ناچ نہ جانے آنگن ٹیڑھا۔ ٹیڑھی کھیر ۔ جون پور کا قاضی بھی تلمیحات کے طور پر استعمال کی جاتی ہیں۔

♦♦♦

صنعت تضاد

دھوپ اور چھاؤں ،چاندنی اور اندھیرا، سیاہ اور سفید کو یکجا دیکھیے کیا لطف نظر آتا ہے! اسی طرح لفظوں اور معنوں کو ربط دیا جائے تو عبارت رنگین اور شعر خوب صورت ہو جاتا ہے۔ محمد حسین آزاد شہاب الدین غوری کی فوجی گشت کے سواروں کے گرفتار کر دہ چند گھسیاروں کے بارے میں لکھتے ہیں :

"سب کے سب جنگلی گنوار تھے مگر دو بڈھے ہوشیار اور تجربے کار نکلے۔ چھوٹے سے جملے میں ” جنگلی گنوار اور ہوشیار تجر بے کار "

کے لطف پر غور کرنا چاہیے۔ یہ لطف متضاد الفاظ و معانی کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔ اللہ نے دن کام اور رات آرام صبح جاگنے اور شام سونے کے لیے بنائی ہے۔“

دن رات۔ صبح ۔ شام – کام – آرام ۔ سونا ۔ جاگنا۔ ایک دوسرے کی ضد ہیں۔

سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں

 ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں

(اقبال)

 اس شعر میں سکون اور تغییر دو متضا ولفظ آئے ہیں اس لیے اس میں صنعت تضاد ہے۔

ایک سب آگ ، ایک سب پانی

دیده و دل عذاب ہیں دونوں (میر تقی میر)

♦♦♦

حُسنِ تَعلیل

دنیا میں ہر بات کسی وجہ سے ہوتی اور ہر واقعے کا کوئی سبب ہوتا ہے۔ کسی کو سبب معلوم ہوتا ہے لیکن بعض اوقات کوئی اصل سبب سے نا واقف ہوتا ہے اور از خود کسی چیز کو علّت ( وجہ ) قرار دے دیتا ہے۔ مثلاً شمع بجھ جائے تو دھواں اٹھنے کا اصل سبب نا مکمل طور پر جانا ہے مگر مرزا غالب کے خیال میں اصل علت اور بنیادی سبب کچھ اور ہے :

شمع بجھتی ہے تو اس میں سے دھواں اُٹھتا ہے

 شعله عشق سیہ پوش ہوا میرے بعد

 میرے مرنے کے بعد "شعلہ عشق“ جو سرخ اور رنگین لباس پہنتا تھا، کالے کپڑے پہنے لگا آپ یہ سمجھتے ہوں گے کہ یہ معمولی بات ہے کہ شمع بجھ گئی لہذا دھواں چھا گیا۔ نہیں یہ اتنی سرسری بات نہیں ہے:

پیاسی جو تھی سپاہ خدا تین رات کی

 ساحل سے سر چٹکتی تھیں موجیں قرات کی 

(میرانیس)

ساحل سے موجوں کا ٹکرانا دیکھ کر انہیں نے ایک علّت یا وجہ بیان کی کہ سپاہ خدا یعنی امام حسین رضی اللہ عنہ کے جاں نثار مجاہد تین دن سے پیاسے تھے۔ ان کے غم اور ان تک نہ پہنچنے کی شرم سے فرات کی موجیں ساحل سے سر ٹکرا رہی تھیں۔ وہ شدتِ غم اور انتہائی مایوسی کے عالم میں تھیں ۔ اس حسین انداز بیان اور اظہار خیال کو "حسنِ تعلیل“ کہتے ہیں۔

حسن تعلیل کی تعریف یوں کی جاسکتی ہے:

کسی بات کی ایسی خوش نما اور شاعرانہ وجہ بیان کرنا جو حقیقت میں اصلی وجہ نہ ہو۔“

 زیر زمیں سے آتا ہے جو گل سو زر بکف

 قاروں نے راستے میں لٹایا خرانہ کیا!

غالبؔ

 سائنس میں پھول کے زیرے کی زردی کا کوئی بھی سبب ہو شاعر کے خیال میں اس کی وجہ کچھ اور ہے۔ قارون اپنے سونے کے خزانے سمیت زمین میں دھنس گیا تھا۔ وہ سمجھتا تھا کہ دولت محفوظ رہی مگر ایسانہ ہوا جو گلی زمیں سے ہو کر شاخ پر آتی ہے اس کی مٹھی میں سونا ہوتا ہے اور پھول وہ سونا ہتھیلی پر رکھ کر سب کو دکھاتا ہے۔

 سب کہاں ؟ کچھ لالہ وگل میں نمایاں ہو گئیں 

خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں

 (غالب)

یعنی آپ جانتے ہیں کہ لالہ وگل اور رنگا رنگ پھولوں میں یہ حسن کہاں سے آیا ؟ بات یہ ہے کہ سیکڑوں حسین چہرے قبر کے اندر اور زمیں کی تہ میں جاچکے ہیں، ان چہروں میں سے تھوڑے سے چہروں کے جلوے ہیں جو لالہ وگل کی صورتوں میں آگئے ہیں۔ پھولوں کے حسن کو دفن شدہ حسین صورتوں کا پر تو بتا نا حسنِ تعلیل ہے۔

♦♦♦

مراعاةُالنّظير 

 نسیمِ سَحر کلیوں کو چھیڑتی’  چڑیوں کو گدگداتی ٹہنیوں کو ہلاتی’ پتیوں کی تالیاں بجاتی چلی’کلیاں کھلیں، پھول مہکے، چڑیاں اڑیں، بلبل چہکی ، فضا خوشبو اور طائروں کے نغموں سے بھر گئی ۔“

یہ بلال’ آپ ہے تیغِ خم دار کی

یہ ستارہ’  چمک بختِ بیدار کی

تعریف:

ایک ہی مضمون سے تعلق رکھنے والے مناسب الفاظ کو سلیقے سے استعمال کیا جائے تو پڑھنے اور سننے میں عبارت اچھی لگتی ہے

اسے مراعاۃ النظیر کا نام دیا جاتا ہے ۔‘ مثالیں ملاحظہ ہوں ۔

باغ کے تذکرے میں رَوَش ‘تختہ’ سرو و چمن’ گل و بلبل، خار و خس ‘پھول اور کلی، سبزہ اور درخت آئیں تو اس صفت کو مراعاۃ النظیر کہیں گے۔

رات چھٹکاتی ہے تارے، صبح برساتی ہے نور

 موسمِ باراں بچھا دیتا ہے سبزہ دُور دُور

 اس شعر میں رات تارے ‘نور باراں’ برساتی۔ ایک ہی مضمون سے تعلق رکھنے والے الفاظ ہیں۔ اس میں صنعت مراعاۃ النظیر مستعمل ہے۔

 مراعاة النظیر کی تعریف یوں بھی کر سکتے ہیں:

کلام میں ایسے الفاظ کو جمع کرنا جن میں باہمی مماثلت اور مناسبت ہو تضاد نہ ہو جیسے :

رَو میں ہے رخشِ عمر کہاں دیکھیے تھمے نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں

شعر کے تمام کلمات گھوڑے کے مناسبات سے تعلق رکھتے ہیں۔ رو۔ تھمنا۔ ہاتھ۔ باگ ۔پا۔ر کاب۔

♦♦♦

صنعتِ تضمین

کسی دوسرے شاعر کا کلام اپنے اشعار میں شامل کرنا تضمین کہلاتا ہے۔ مثلاً

غالب اپنا یہ عقیدہ ہے بقول ناسخؔ

"آپ بے بہرہ ہے جو معتقد میرؔ نہیں”

اس شعر کا دوسرا مصرع امام بخش ناسخؔ کا ہے جسے غالبؔ نے تضمین کیا ہے۔

عمر رواں نے ساتھ دیا توآنکھوں سے یہ پوچھیں گے

"کتنے چہرے ہم نے تراشے ہاتھ قلم ہو جانے تک”

♦♦♦

صنعتِ ایہام

ایہام کے معنی ہیں وہم میں ڈالنا۔ اصطلاح میں کسی عبارت یا شعر میں ایسا لفظ یا الفاظ استعمال کرنا جس کے دو معنی ہوں، ایک قریب کے اور دوسرے بعید کے لیکن لکھنے والا دور کے معنی مراد نے "ایہام” کہلاتا ہے۔ معنی قریب سے مراد وہ معنی ہیں جو کوئی لفظ پڑھتے ساتھ ہی ذہن میں آجائیں اور معنی بعید وہ ہیں جو قدرے سوچنے کے بعد ذہن میں آئیں۔ 

شب جو مسجد میں جا پھنسے مومنؔ

رات کاٹی خدا خدا کرکے

اس شعر کے دوسرے مصرعے "رات کاٹی خدا خدا کرکے” میں ایہام ہے۔ اس مصرعے کے جو فی الفور معنی ذہن میں آتے ہیں  وہ یہ ہیں کہ ہم مسجد میں تمام رات اللہ ہو، اللہ ہو، کا ورد کرتے رہے مگر شاعر یہ معنی مراد نہیں لے رہا۔ خدا خدا کر کے رات کاٹنا سے اس کی مراد ” بڑی مشکل سے” اور یہی معنی بعید ہے۔ 

گلدستہ معنی کو نئے ڈھنگ سے باندھوں

اک پھول کا مضموں ہو تو سو رنگ سے باندھوں

♦♦♦

صنعتِ لف و نشر

"لف” کے معنی لپیٹنا اور "نشر” کے معنی پھیلانا ہیں۔  اصطلاع میں اس صنعت سے یہ مراد ہے کہ کلام میں پہلے دو یا دو سے زاید چیزوں کا ذکر کیا جائے اور پھر ان سے مناسبت اور تعلق رکھنے والی اتنی ہی چیزوں کا مزید ذکر کیا جائے۔ 

تیرے آزاد بندوں کی نہ یہ دنیا نہ وہ دنیا

یہاں مرنے کی پابندی وہاں جینے کی پابندی

اقبالؔ

علامہ اقبالؔ نے اس شعر میں "یہ دنیا” کی مناسبت سے "مرنے کی پابندی” اور  "وہ دنیا” کے تعلق سے ” جینے کی پابندی” کا ذکر کیا گیا ہے۔، دوسرے مصرعے میں بالترتیب مرنے ، اور جینے کا بھی ذکر کر دیا گیا ہے۔ اور یہی لف و نشر ہے۔

کتنا صبیح چہرہ، کتنی سیاہ زلفیں

پھیلا ہوا اُجالا، سمٹی ہوئی گھٹائیں

ماہرؔ

اگر آپ چاہیں تو یہ بھی پڑھ سکتے ہیں

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top