سرسید احمد خان کا شماران در د دل رکھنے والی قابل احترام ہستیوں میں ہوتا ہے جو قوم کے معمار کہلاتی ہیں۔ سرسید احمد خان بڑے دور اندیش انسان تھے اور مسلمانوں کی ترقی کے دل و جان سے خواہاں تھے ۔ وہ دیکھ رہے تھے کہ اگر مسلمان 

جاہل اور بے علم رہ گئے تو ہمیشہ کے لئے ذلت کے گڑھے میں جاگریں گے جہاں سے ان کا نکلنا بہت مشکل ہو جائے گا۔ وہ دیکھ رہے تھے کہ مسلمانوں کو تو احساس نہیں مگر ہندو ہر میدان میں آگے نکلتے جا رہے ہیں اور ہر جگہ قبضہ جمائے بیٹھے ہیں اور ان کی کوشش یہی ہے کہ مسلمان نا خواندہ ہی رہیں تا کہ کسی محکمہ میں کوئی جگہ حاصل نہ کر سکیں ۔ عدلیہ اور انتظامیہ میں بھی ہر جگہ ہندوؤں کی چلتی تھی ۔ چونکہ انگریز نے مسلمانوں سے حکومت چھینی تھی اس لئے اسے مسلمانوں سے ہر وقت کھٹکا لگا رہتا تھا۔ وہ خود بھی یہی چاہتا تھا کہ مسلمان جاہل ہی رہیں۔ انہیں ہوش ہی نہ آئے کہ ہم سے کسی چیز کا مطالبہ کر سکیں ۔

 مسلمانوں کی حالت خراب سے خراب تر رکھنے میں ہی انگریز اپنا مفاد سمجھتا تھا۔ مگر سرسید احمد خان یہ سمجھتے تھے کہ اگر ہندوؤں کی یہ چال کامیاب ہو گئی تو مسلمان اقتصادی اور علمی میدان میں پیچھے رہ جائیں گے۔ لہذا انہوں نے مسلمانوں کی تعلیم کو بہت ضروری سمجھا۔ وہ خوب سمجھتے تھے کہ غداروں کی غداری کے باعث مسلمان سن ستاون کی جنگ آزادی ہار چکا ہے ۔ اب اسے تلوار کی نہیں قلم کی جنگ لڑنے کی تیاری کرنا چاہیے جس کے لئے علم کا ہونا نہایت ضروری ہے ۔ وہ اس نتیجے پر پہنچ چکے تھے کہ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ ہم مقابلہ کر کے انگریز کو نکال نہیں سکتے ۔ اس لئے ساری توجہ علم حاصل کرنے کی طرف لگالیں ۔

سرسید احمد خان ۱۷ اکتوبر ۱۸۱۷ ء میں دہلی میں پیدا ہوئے ۔ آپ کا خاندان ہرات کا رہنے والا تھا مگر بسلسلہ معاش دہلی چلا آیا تھا۔ آپ کے والد بزرگوار کا حلقہ شاگر دی بہت وسیع تھا اور بڑے بڑے امیر زادے آپ کے شاگرد تھے۔ آپ کی والدہ ماجدہ نیک دل ، خدا ترس اور بھی خاتون تھیں حاجت مندوں، غرباء اور مساکین کی حاجت روائی کھلے دل سے فرمایا کرتی تھیں ۔

آپ کے دادا سید ہادی فارسی کے بہت بڑے شاعر تھے ۔ ان کی والدہ کو بھی اپنے بچوں کو تعلیم دلوانے کا بہت شوق تھا۔ لہذا سرسید احمد خان نے اٹھارہ برس کی عمر میں ہی عربی کے علاوہ علم طب اور ریاضی پر عبور حاصل کر لیا۔ آپ کے ایک بڑے بھائی بھی تھے جن سے آپ کو بہت محبت تھی۔ ان کی وفات پر آپ کو بہت دکھ پہنچا۔ ابھی آپ نے اکیسویں سال میں قدم رکھا ہی تھا کہ والد بزرگوار بھی داغ مفارقت دے گئے اور سارے خاندان کا بوجھ آپ کے کندھوں پر آن پڑا۔ ۱۸۳۹ء میں انہیں کمشنر آگرہ کے دفتر میں ملازمت مل گئی ۔ تیسرے سال ان کا تبادلہ فتح پور سیکری ہو گیا اور بہادر شاہ والی دہلی نے آپ کو ”جوا والدولہ سید احمد خاں عارف جنگ” کے خطاب سے نوازا۔

  1857ء  آپ بجنور میں جج مقرر ہوئے۔ آپ نے چونکہ ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی میں بہت سے انگریزوں کی جانیں بچائی تھیں اس لئے صلے میں انگریزوں نے سرسید احمد خان کی دوصد روپیہ ماہوار پیشن مقرر کر دی ، او را یک شمشیر اور خلعت سے بھی نوازا ۔۱۸۷۰ء میں آپ پھر بنارس کے جج مقرر ہوئے ۔

آپ کے قلم میں بہت زور تھا۔ آپ عربی فارسی کے بہت بڑے عالم تھے۔ دوسری طرف بہت سی کتابوں کے علاوہ آپ تین مذہبی کتابوں کے مصنف بھی ہیں ۔ آپ نے ایک اخبار سید الاخبار بھی جاری کیا تھا اور اس اخبار کی ترقی کے لئے کوشاں بھی رہے تھے آثار قدیمہ کے حوالے سے بھی آپ نے بہت خدمت انجام دی اور دہلی کی پرانی عمارات کے حالات آثار الصناوید کی صورت میں لکھے ۔ علاوہ ازیں آپ نے بہت سی کتابیں لکھ کر ہندوستان کے عوام میں مقبولیت حاصل کی ۔

متحدہ ہندوستان کے مسلمان سرسید احمد خاں کے رہتی دنیا تک ممنون احسان رہیں گے کیونکہ انہوں نے رات دن محنت کر کے مسلمانوں کے لئے علی گڑھ کالج کا سنگ بنیا درکھا جو بعد میں علی گڑھ یونیورسٹی بن گئی جہاں پر ہندوستان کے ہر حصے سے مسلمانوں کے بچے دولت علم سے فیض یاب ہو کر ملک وقوم کی خدمت میں نمایاں حصہ لیتے رہے ہیں۔ اس کارخیر میں کچھ لوگ جو دور اندیش نہیں تھے آپ کو برابھلا کہا کرتے تھے۔ مگر آپ نے کسی کی پروا کئے بغیر اپنا مشن جاری رکھا اور ادارے کی تعمیر کے لئے آپ کو قوم کے آگے ہاتھ بھی پھیلا نے پڑے تو اس میں بھی عار نہ سمجھی۔ وہ کہتے تھے میری قوم کے مستقبل کا سوال ہے مجھے جو کچھ بھی کرنا پڑا کروں گا مگر قوم کو زیور علم سے آراستہ کر کے چھوڑوں گا۔ انہوں نے صحیح معنوں میں ایسا کر کے بھی دکھا دیا جس کے نتیجے میں جو لوگ آپ کے شدید دشمن تھے آہستہ آہستہ نہ صرف آپ سے اتفاق کرنے لگے بلکہ آپ کے مداح بن گئے۔

علی گڑھ کے فارغ التحصیل ہندو پاک میں علمی اعتبار سے ہر جگہ عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر سرسید احمد خان تعلیم کے میدان میں اس قدر نمایاں خدمت انجام نہ دیتے تو مسلمان قوم تعلیم میں بہت پیچھے رہ جاتی اور اگر مسلمان قوم نا خواندہ رہ جاتی تو ان میں محمد علی جناح پیدا نہ ہوتے نہ اقبال نہ لیاقت علی خاں نہ دوسرے زعما جو علم کی شمع ہاتھ میں لے کر قوم کی راہنمائی کر گئے۔

قوم کا درد رکھنے والا یہ عظیم انسان 1898 ء میں ہم سے جدا ہو گیا۔

مآخذ: بہترین اردو مضامین، علامہ اقبال آفاقی کُتب خانہ

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top