صفات انت سے باہر پہ ذات میں تنہا

ازل سے تا به ابد تیری شان ہے یکتا

 (حفیظ صدیقی)

دنیا میں طاقت ور بھی ہیں اور زور آور بھی ہیں، حاکم بھی ہیں اور بادشاہ اور شہنشاہ بھی لیکن یہ کسی نہ کسی مقام پر مجبور ومحکوم میں اور کسی بڑی طاقت کی احتیاج ان کی ضرورت ہے۔ یہ بڑی طاقت خداوند تعالیٰ کی ہے جس نے ان سب کو پیدا کیا ہے، جو ان سب کی ضرورتیں پوری کرتا ہے ، جو ان سب کو رزق دیتا ہے اور ان سب پر قدرت کاملہ رکھتا ہے ۔ خد اتعالیٰ اتنا بڑا ہے کہ ہم اسے احاطہ تحریر میں لاہی نہیں سکتے ۔ وہ لامحدود ہے اور اتنی عظمت والا ہے کہ اس کی عظمت کلی بیان کرنا ہمارے بس کی بات ہی نہیں ۔ وہ حاکموں کا حاکم ہے، قادر مطلق ہے ، زندہ کو مردہ کر سکتا ہے، مردہ کو زندہ کومردہ کر سکتا ہے، بیمار کو صحت دے سکتا ہے اور صحت مند کو بیمار کر سکتا ہے ۔ وہ رات کو دن اور دن کو رات بنا سکتا ہے۔ اگر وہ چاہے تو سورج مشرق کی بجائے مغرب سے طلوع ہو سکتا ہے ۔ وہ دریاؤں کے رخ موڑ سکتا ہے۔ گویا کائنات کے ہر ذرے پر اس کی حاکمیت ہے اور اس کی مرضی کے بغیر کچھ بھی نہیں ہوسکتا۔
خدائے ذوالجلال ایک ہے۔ اس کی ذات وحدہ لا شریک ہے ۔ نہ ا سے کسی نے جنا ہے، نہ وہ کسی سے جنا گیا ہے، کسی نے اسے نہیں بنایا ۔ اس کی وسیع ترین سلطنت میں اس کے اختیارات میں کوئی مداخلت نہیں کر سکتا۔ اس کے کاموں میں کسی کی شراکت نہیں۔ کائنات میں جو کچھ بھی ہے اسی ایک خدا کا ہے اور اسی کے ماتحت ہے اور ہر عمل اسی کے حکم سے ہوتا ہے۔ اس کے آگے تمام طاقتیں پیچ ہیں ۔ بادشاہ و گدا سب اسی کے آگے جھکتے اور اسی کے در سے مانگتے ہیں۔

 اسلام کا پہلا رکن کلمہ طیبہ ہے۔ کلمہ پڑھ کر ہم یہ اعتراف کرتے ہیں کہ خدا ایک ہے اور محمد اس کے رسول ہیں۔ اس میں ہم محض خدا کی واحدانیت کا اعتراف ہی نہیں کرتے بلکہ یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ وہی ساری کائنات کا حاکم اور مالک ہے۔ کائنات کو پیدا کرنے والا بھی وہی اور رزق دینے والا بھی وہی ہے۔ اس کی صفات معبودیت میں کوئی اس کا شریک نہیں ۔ یہ ساری کائنات بلا شرکت غیرے اسی کی ہے ۔ نہ تو اس کا کوئی ثانی ہے اور نہ ہی ایسا ہونا ممکن ہے ۔ وہ نہ صرف ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا بلکہ ہمیشہ ایک ہے اور ہمیشہ ایک ہی رہے گا۔ نہ اس کا کوئی شریک ہوا ہے اور نہ کبھی ہو گا۔

 جو شخص خدا تعالی کو نہیں مانتا وہ ملحد کہلاتا ہے لیکن حقیقت میں وہ بھی خدا کی طاقت سے انکار نہیں کر سکتا۔ آپ کسی معمولی طاقت ور آدمی کی مثال دے کر اس سے سوال کریں کہ کیا اس طاقت ور آدمی سے بھی کوئی اور طاقت ور ہو سکتا ہے تو اس کا جواب ہو گا ”ہاں“۔ اسی طرح سے پوچھتے جائیے کہ اس سے زیادہ طاقت والا کون ہے اور پھر اس سے زیادہ طاقت ور کون ہے ۔آخر کا راسے ایک سب سے طاقت ور ہستی کا قائل ہونا ہی پڑے گا۔ بس یہی خدا تعالیٰ ہے جس سے زیادہ طاقت ور کوئی ہو ہی نہیں سکتا ۔ اسی طرح بڑائی اور عظمت کو لے لیں آج تک یہ ثابت نہیں ہو سکا کہ کوئی سیارہ کائنات میں سب سے بڑا ہے اور اس کا نظام بغیر کسی اعلی طاقت کے از خود چل رہا ہے یا کائنات میں کوئی ایسی شے موجود ہے جو سب سے بڑی بھی ہے اور وہ اپنے سے بڑی کسی طاقت کی محتاج نہیں۔ 

ایک زمانہ تھا کہ انسان نے سمجھا کہ سورج کائنات میں سب سے بڑا ہے اور انہوں نے اسے خدا بھی مانا لیکن یہ حقیقت نہیں تھی اور وقت نے ثابت کر دیا کہ یہ خیال بالکل غلط اور حقیقت کے خلاف ہے اور سورج تو خود ایک بہت بڑے نظام کا ایک جزو ہے جسے کوئی بہت بڑی ہستی چلاتی ہے ۔ تب اس نے سمجھ لیا کہ جب سورج خود کسی کا محتاج ہے اور نہ تو از خود پیدا ہوا اور نہ ہی اپنے بل پر قائم ہے تو وہ خدا کیسے ہو سکتا ہے؟ خدا تو وہ ہے جو طاقت میں بھی سب سے بڑا ہو، عظمت میں بھی سب سے بڑا ہو اور ہر چیز پر قدرت بھی رکھتا ہو۔ وہ ہر چیز کو پیدا کرنے والا ہو اور ہر ایک تو اس کامحتاج ہومگر وہ کسی کا محتاج نہ ہو۔

 یہ سبزہ زار اور یہ ثمر دار پودے اور درخت یہ سمندر، یہ پہاڑ ، یہ جن و بشر، یہ چرند ، یہ پرند، یہ زمین و آسمان اور یہ سب نعمتیں آخر کس نے پیدا کی ہیں؟ یہ سب کچھ از خود تو پیدا نہیں ہو سکتا۔ اگر کوئی یہ کہے کہ جس طرح خود کار مشین کام کرتی ہے یہ بھی اسی طرح پیدا ہوتے رہتے ہیں اور ختم ہوتے رہتے ہیں تو دیکھنا یہ ہے کہ مال اس مشین کا نہیں جو خود کار ہے بلکہ اس کا کمال ہے جس نے اس مشین میں خودکاری کی صفت پیدا کی ہے۔ اگر کوئی نظام ایک اصول اور قاعدے کے مطابق چل رہا ہے مثال کے طور پر سورج مشرق سے نکلتا ہے اور مغرب میں غروب ہو جاتا ہے اور ایسا کبھی نہیں ہوتا کہ سورج مغرب سے نکلنے لگے اور مشرق میں ڈوبنے لگے تو صاف ظاہر ہے کوئی ایسی بستی بھی ہے جو اس نظام کو چلا رہی ہے اور اس کی مرضی کے بغیر کوئی بھی نظام اپنی مرضی سے نہیں چل سکتا ۔

 وہ ہستی خدا تعالیٰ ہے ۔سارا نظام اس کی مرضی سے چل رہا ہے ۔ سب کچھ اسی کے حکم کے تحت ہو رہا ہے۔ یہ ہستی یعنی خدا تعالیٰ جو ہر چیز کا پیدا کرنے والا بھی ہے اور اس کا مالک بھی ہے ہم سب اس کے بندے ہیں اور اسی کو عبادت کے لائق سمجھتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ خدا ہے۔ ایک ہے اور سب سے بڑا ہے۔ وہ سب کا پیدا کرنے والا ہے۔ ہمیں زیب نہیں دیتا کہ ہم اس کی نعمتیں بھی کھائیں اور ناشکری بھی کریں ۔ کہ ہمارا خدا قادر مطلق ہے اور ہمیں اس کے آگے ایک دن جواب دہ بھی ہوتا ہے۔ ہمیں اس سے ڈرنا چاہیے اور جن کاموں سے اس نے ہمیں منع کیا ہے انہیں ترک کر دینا چاہیے اور جو کچھ کرنے کا حکم دیا ہے وہ کرنا چاہیے۔ اسی میں ہماری فلاح ہے اور یہی عبدبیت کا تقاضا ہے۔

مآخذ: بہترین اردو مضامین، علامہ اقبال آفاقی کُتب خانہ

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top