رموز اوقاف

رموزِ اوقاف (Punctuation)

اوقاف ، یا وقفے اُن علامتوں کو کہتے ہیں، جو ایک جملے کو دوسرے جملے سے،یا کسی جملے کے ایک حصّے کو دوسرے حصّوں سے علاحدہ کریں۔ ان اوقاف کا بڑا فائدہ یہ ہے کہ اوّل تو ان کی وجہ سے نظر کو سکون ملتا ہے، اور وہ تھکنے نہیں پاتی؛ دوسری بڑی بات یہ ہے کہ ذہن ہر جملے، یا جزو جملہ کی اصلی اہمیت کو جان لیتا ہے؛ اور مطلب سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے۔ 

 

رموز اوقاف کا استعمال 

سکتہ

سکتہ(،)

 

 سب سے چھوٹا وقفہ ہوتا ہے ۔ یہ حسب ذیل موقعوں پر استعمال ہوتا ہے:

سکتہ کا استعمال:

(1) ۔ ایسے اسما(اسم کی جمع) یا ضمائر (اسم ضمیر کی جمع)کے بیچ میں جو ایک دوسرے کے بدل کا کام دیتے ہوں جیسے:

جہانگیر ، ابن اکبر، شاہنشاہ ہندوستان نے جب ۔۔

(2)۔ ایک ہی قسم کے کلمہ کے ان تین، یا تین سے زیادہ لفظوں کے بیچ میں جو ساتھ ساتھ استعمال کیے گئے ہوں، (اس حالت میں جب کہ یا تو صرف آخری دولفظوں کے درمیان حرف عطف لینی و یا اور یا حرف تر دید یعنی یا آۓ۔)

(الف) حیدر آباد، میسور اور ٹرونکور جنوبی ہند کی ریاستیں ہیں ۔ اس میں تینوں الفاظ اسم ہیں۔

(ب) چوری کرنا مذہباً، اخلاقاً اور رسما ً برا سمجھا جاتا ہے۔ اس کا طرزعمل عامیانہ، جاہلانہ اورسوقیانہ ہے۔ (ان میں تینوں الفاظ متعلقات فعل ہیں ۔)

(ج)اکبر بہت عقلمند ، وسیع النظر ، ہمدرداور مد بر بادشاہ تھا۔ (یہاں الفاظ صفات ہیں۔)

 (3)۔ ندائی لفظوں کے بعد جیسے:  

 (الف) جناب صدر ، خواتین و حضرات، (یہاں تینوں اسم منادیٰ ہیں)

(ب)اے ماؤ، بہنو، بیٹیو،  ۔۔۔ 

(ج) جناب من تسلیم۔

(د) میرے محب صادق ، وعلیکم السلام ۔

  (ہ) عزیز من، بہت بہت دعا۔

  (4) ۔ جب ایک ہی درجے یا رتبے کے لفظ جوڑوں میں استعمال ہوں، تو ایک جوڑے اور دوسرے جوڑے کے درمیان سکتہ دیتے ہیں: دن ہو کہ رات، سفر ہو کہ حضر، خلوت ہو یا جلوت، انسان کو چاہیے کہ خدا کو نہ بھولے۔

  (5) ۔ایسے اجزاۓ جملہ کے درمیان جو تشریحی ہوں، سکتہ آ تا ہے: یہ چبوترا ۳۰ فٹ لمبا، ۲۰ فٹ چوڑا، ۵ فٹ اونچا ہے۔

  (6)۔ دو یا زیادہ ایک ہی درجے کے ایسے چھوٹے جملوں کے بیچ میں جو ایک بڑے جملے کے جز ہوں :

(الف) میں گھر سے بازار گیا، بازار سے مدرسے آیا، اب مدرسے سے گھر واپس جاتا ہوں۔

(ب) کھیلنے کے وقت کھیلو، پڑھنے کے وقت پڑھو۔

(ج) وہ کھیل کے آیا، نہایا، کپڑے بدلے، چاۓ پی اور سیر کو چلا گیا۔

  (د) زباں بگڑی تو بگڑی تھی ،خبر لیجے دہن بگڑا۔

(ہ) نہ نومن تیل ہوگا ، نہ رادھا ناچے گی۔

 (7)۔ (شرط اور جزا یا صلے اور موصول کو بیان کرنے والے )سادہ جملوں کے بیچ میں:

(الف) اگر ہم جانتے داغ جدائی ، نہ کرتے اتنی الفت تم سے بھائی۔

(ب) اس کے منہ جو کوئی لگا ، ذلیل ہی ہوا۔

(ج) جب مطلع صاف ہو گیا اور سورج نکل آیا، تو میں اپنے گھر سے نکلا ۔

  (د) جس شخص نے مجھ سے، آپ سے کل باتیں کیں ، وہ زید تھا۔

  (8)۔ ایسے سادہ جملوں کے بیچ میں جو مستشنیٰ اور مستشنیٰ منہ کا بیان کر یں:

(الف) وہ شخص ایمان دار ہے ،لیکن سُست ۔

(ب) سارا زمانہ آیا، پرزید نہ آیا۔

  (9) جب ایک سادہ جملہ دوسرے کی توجیہ کرے تو دونوں کے بیچ میں سکتہ آ تا ہے:

(الف) میں نہیں گیا، اس لیے کہ وہ خود ہی میرے ہاں آ پہنچا۔

(ب)  اُسے گھر بیٹھے نوکری مل گئی، پھر باہر کیوں جاتا؟

(ج) خوب دوڑا کرو، جس میں بھوک اچھی طرح لگا کرے۔

  (10)۔ جب کسی فعل کے بعد ’’کر‘‘یا ’’ کے‘‘ مقدر ہوتو سکتہ لگانا ضروری ہے

(الف) وہ چھوڑی ہاتھ میں لے ، نکل کھڑا ہوا۔

(ب) وہ یہ جا، وہ جا، چمپت ہو گئی۔

  (11)۔ جب مبتدا اور خبر کے بیچ میں کوئی حجاب نہ ہو، تو سکتہ ضرور ڈال دیتے ہیں

(الف) یہی مجموعہ یا انتخاب مضامین ،مطبوعہ رسالے کا نہایت عمدہ اشتہار بھی بن گیا۔

(ب) حالی ، مسدس حالی کے مصنف ہیں۔

(ج) مسدس، حالی کی سب سے ممتاز تصنیف ہے۔

(د) نذیر احمد کی سب سے عام پسند کتاب ’’مراۃ العروس‘‘ ہے۔

 (12)۔ عبارت اور خصوصا شعر کی تعقید کو دور کرنے کے لیے بھی سکتہ لگاتے ہیں:

(الف) اس زمانے میں دین کی بات میں لوگ کتنی راہیں چلتے ہیں، کتنے پہلوں کی رسموں کو پکڑتے ہیں، کتنے ، قصے بزرگوں کے دیکھتے ہیں اور کتنے مولویوں کی باتوں کو جو انھوں نے اپنے ذہن کی تیزی سے نکالی ہیں، سند پکڑتے ہیں اور کتنے ، اپنی عقل کو دخل دیتے ہیں۔

(ب)

سب، رقیبوں سے ہوں ناخوش، پر زنان مصر سے

ہے زلیخا خوش: کہ محو ماہ کنعاں ہوگئیں

(ج) تار ریشم کا نہیں، ہے یہ رگِ  ابر ِبہار۔

(د) کروں بیداد ذوق پرفشانی ،عرض، کیا قدرت؟

  (ہ) دیوار، بارمنت مزدور سے، ہے تم ۔

(و)ولے مشکل ہے، حکمت، دل میں سوز غم چھپانے کی۔

(ز) نہیں بہار کوفرصت؛ نہ ہو، بہارتو ہے

"طراوت چمن و خوبی ہوا کہیے”

  (13)۔ اور ، یا وغیرہ سے پہلے جب ہی سکتہ لگاتے ہیں کہ لفظوں پر خاص طور پر زور دینا منظور ہو۔

 

وقفہ

وقفہ (؛)

 

جب سکتے سے زیادہ ٹھیراؤ کی ضرورت پڑے، تو وقفہ استعمال کرتے ہیں ۔ اس کا استعمال حسب ذیل موقعوں پر ہوتا ہے :

وقفہ کا استعمال:

  (1) ۔ جملوں کے لمبے لمبے اجزا کو ایک دوسرے سے علاحدہ کرنے کے لیے ( یہاں سکتوں کے علاوہ وقفوں کا استعمال اس وجہ سے ضروری ہے کہ خلط مبحث نہ ہو جاۓ) جیسے:

حق یہ ہے کہ اس زمانے میں، جب کہ قومی تپش نما کا پارا ہر گھڑی گھٹتا بڑھتا رہتا ہے؛ جب کہ باوجود تعلیمی کاموں کی کثرت کے، قومی تعلیم کا کوئی صحیح خا کہ ہمارے سامنے نہیں ہے؛ جب کہ سیاسی تار و پودسارے ملک میں پھیلا ہوا ہے مگر کوئی طریقہ قومی فلاح کا ایسا نہیں ہے، جس پر تمام جماعتیں متفق ہوگئیں؛ جب کہ مصلحت اور اصول، چال اور صداقت، گون اور استقامت میں اکثر مغالطہ ہو جا تا ہے؛ جب کہ باوجود سادگی کے ادعا کے، عیش پرستی کے بہت سے چور دروازے کھلے ہوۓ ہیں؟ جب کہ باوجود ایثار اور قربانی کے دعووں کے، حقیقی ایثار نفس اور ضبط نفس بہت کم نظر آ تا ہے ،نواب وقار الملک کی سیرت ایک بڑی نعمت ہے ۔

  (2) جہاں جملوں کے مختلف اجزا پر زیادہ تاکید دینا مد نظر ہوتا ہے، وہاں بھی رابطے استعمال ہوتے ہیں 

(الف) جو کرے گا ،سو پاۓ گا؛ جو بوۓ گا ،سو کاٹے گا۔

(ب)

آتا، تو خفا آنا جانا، تو رلا جاتا

آتا ہے، تو کیا آنا؛ جانا ہے، تو کیا جاتا

(ج) تم روۓ اور ہمارا دل بے چین ہوا؛ تمھاری انگلی دکھی ، تو ہمارے دل پر چوٹ گی مصیبتیں ہم نے بھر میں تکلیفیں ہم نے اٹھائیں؛ راتوں کو اٹھ اٹھ کر ہم بیٹھے؛ کندھے سے لگایا ، چپکارا، لوریاں سنائیں ، غرض کہ جان ، مال ، آرام سب کچھ تمھارے لیے تیج دیا۔ کیا اس کا یہی صلہ ہے؟

  (3) ۔ جن جملوں کے بڑے بڑے اجزا کے درمیان ورنہ، اس لیے، لہذا، اگر چہ ، چہ جائیکہ، درآں حالیکہ ،لیکن اور اسی قسم کے ربط دینے والے الفاظ آئیں؛ وہاں ذہن کو سمجھنے کا موقع دینے کے لیے ان لفظوں سے پہلے وقفے کی علامت لگاتے ہیں:

واضح رہے کہ جب مذکورہ بالا الفاظ چھوٹے چھوٹے جملوں کو ملاتے ہوں تو یہ علامت  نہ لگائی جائے گی بلکہ سکتہ ہی کافی ہوگا:  

(الف) اگر چہ آج کل نقادان فن اس بات کو مذموم سمجھتے ہیں کہ کسی خاص غرض کو پیش نظر رکھ کر ، یا کسی خیال یا راۓ کی اشاعت کے لیے کوئی ڈراما لکھا جاۓ ، لیکن ہندوستان جیسے ملک میں، جہاں زندگی کا ہر پہلو قابل اصلاح ہے اور معاشرت کے ہر شعبے میں تذبذب اور انتشار بپا ہے،فن کی بعض نازک اور خیالی خوبیوں کو قربان کر سکتے ہیں ؛ بشرطیکہ وہ سلیقے سے لکھا جاۓ ۔

(ب) چوں کہ نکاح سے قبل ہی نسبت توڑ دی گئی اور لڑکی چچا سے علاحدہ کر لی گئی؛

اس لیے ایسی شادی سے جو مذموم اور دردناک نتائج پیدا ہوتے ہیں ، ان کا موقع ہی نہیں آیا۔

  (4) ۔ جن صورتوں میں سکتہ لاتے ہیں ان میں صرف ایسی حالت میں لائیں گے جب جملے  کے بعض ایسے حصوں کو ایک دوسرے سے الگ کرنا پڑے جن میں اندرونی طور پر سکتہ موجود ہے:  

(الف) حیدر آباد،میسور ، اور ٹراونکور ، جنوبی ہند کی ؛ بھوپال ، گوالیار اور اندور، وسط ہند کی بڑی ریاستیں ہیں ۔

(ب) حالی کی مسدس، یادگار غالب، حیات جاوید؛ نذیر احمد کی مراۃ العروس ، توبة النصوح ، محصنات، ایامی ؛ شبلی کی الفاروق ، موازنہ، سیرت النبی؛ پڑھنے اور بار بار پڑھنے کے قابل ہیں۔

 

رابطہ

رابطہ(:)

 

اس کا ٹھیراؤ وقفے کے ٹھیراؤ سے زیادہ ہوتا ہے۔

رابطہ کا استعمال:

(الف) عام طور پر اس کا استعمال وہاں کیا جاتا ہے، جب جملے کے کسی سابقہ خیال یا بات کی تشریح یا تصدیق کی جاتی ہے:  

(ب) سفر ہو یا حضر ، دن ہو یا رات، کام ہو یا تفریح، ہمیشہ اور ہر جگہ اپنی صحت کا خیال رکھو اگر کوئی نعمت ہے تو یہی ہے۔

(ج) کیا خوب سودا نقد ہے: اس ہاتھ دے، اس ہاتھ لے۔

(د) یہ خاموشی کہاں تک؟ لذت فریاد پیدا کر ، زمیں پر تو ہو، اور تیری صدا ہو، آ سانوں میں  یہی آئین قدرت ہے، یہی اسلوب فطرت ہے۔

(ہ)

کاو کاو سخت جانیہاۓ تنہائی نہ پوچھ:

صبح کرنا شام کا، لانا ہے جوے شیر کا

  (و)کسی کُلّیے  کے رسالے کے لیے یہی کافی نہیں ہے کہ وہ متفرق اور مختلف معلومات کی ایک کھتونی ہو۔ اس کا بڑا لوازمہ تحر یکی قوت ہے۔ ذوق جستجو کو اشتعال دینا، جودت طبع کو اکسانا: یہی اس کا مہا کاج ہے؛ اس کی کامیابی کی جانچ اسی کسوٹی پر ہوتی ہے۔

(ر) انسان کو بعضے کاموں کی قدرت ہے، بعضوں کی نہیں: وہ چل سکتا ہے؛ دوڑ سکتا ہے؛ مگر اڑ نہیں سکتا۔

  (2) ۔ جب کسی مختصر مقولے یا کہاوت وغیرہ کو بیان کرنا ہو، تو تمہیدی جملے اور اصل جملے کے بیچ میں نیم وقفہ یا رابطہ لاتے ہیں:۔

(الف) کسی حکیم کا قول ہے: آپ کاج مہا کاج۔

(ب) بقول شاعر : عیب بھی کرنے کو ہنر چاہیے۔

(ج) سچ ہے: گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں ۔ 

  (3)۔ ایسے دو جملوں کے بیچ میں رابطہ لاتے ہیں جو آپس میں متقابل یا ایک دوسرے کی ضد ہوں؛ اور دونوں مل کر ایک پورے خیال کو ظاہر کر یں ۔من چلتا ہے: ٹٹو  نہیں چلتا۔

  (4)۔ جب دو جملوں میں سے ایک دوسرے کی توجیہ کرے مگر کوئی حرف توجیہ ان کے بیچ میں نہ ہو، تو ان کے درمیان میں رابطہ لاتے ہیں؛ جیسے۔ بچوں کو تنہائی میں نصیحت کرنا چاہیے : سب کے سامنے نصیحت کرنے کا اثر الٹا ہوتا ہے۔

تفصیلیہ

 

تفصیلیہ (:-)

 

یہ علامت عام طور پر "حسب ذیل‘‘ کی ہوا کرتی ہے۔اس کے استعمال کے موقع یہ ہیں:

تفصیلیہ کا استعمال:

  (1)۔ کسی طویل اقتباس کو یا کسی فہرست کو پیش کرتے وقت  

(الف) مرزا غالب فرماتے ہیں:۔

(ب) ہندوستان کے بڑے شہر یہ ہیں: (۱) بمبئی، (۲) کلکته (۳) حیدر آباد ) (۴) مدراس،  ۔۔۔

  (2)۔ کسی جملے کے ساتھ اجزا کا اعادہ کرتے وقت، یہ علامت’’ حاصل کلام یہ ہے‘‘ یا مختصر یہ ہے‘ یا ’’غرض کہ‘‘ کا کام دیتی ہے:۔

سورج بادلوں سے نکل آیا تھا گھاس پر شبنم کے قطرے ایسے معلوم ہوتے تھے، گویا کہ سبز عمل کے فرش میں ستارے جڑے ہوئے ہوں؛ دھوپ گھری ہوئی تھی۔ پہاڑوں کا رنگ بھی دھل کر نیلے امبر کا سا ہو گیا تھا  انھیں مناظر کا لطف اٹھاتے ہوۓ ہم اپنی گاڑی میں سوار چلے جارہے تھے :-

 (3) ۔ جب ایک ہی جملے میں کئی کئی باتیں مسلسل پیش کرنا ہوں ، تو اس علامت کا استعمال کرتے ہیں:

کچھ میری روزانہ زندگی کا حال سنو: -علی الصباح اٹھا، ضروریات سے فارغ ہوکر ،نہا دھو کر ناشتا کیا؛ ڈاک دیکھی ؛ اگر موسم خوشگوار ہو گیا، تو مچھٹی لے کر ملنے چلا گیا، اور نہ گھر ہی میں رہا۔

ناریل کے فوائد بے شمار ہیں :- اس کا تیل جلاتے ہیں؛ کھانے میں ڈالتے ہیں؛ خول سے ڈونگے بنتے ہیں؛ ریشہ رسیوں کے بٹنے میں کام آ تا ہے؛ کچا ہو تو اس کا پانی پیتے ہیں ۔

  (4)۔ کسی اصول یا قاعدے کی مثال پیش کرتے وقت، جب کہ ایسے موقع پر ’’مثلا یا” جیسے”  کا لفظ ترک کر دیا گیا ہو۔

(الف)اسم وہ ہے جو نام ہو کسی شخص یا چیز کا: – زید، کری ،عمر ، بکر ۔

(ب) صرف دولت کا ہونا خوشی کی دلیل نہیں ہے: – قارون ہی کو دیکھیے ۔

 

ختمہ

ختمہ (-)

یہ علامت مکمل جملے کے خاتمے پر لگائی جاتی ہے جہاں ٹھیراؤ بھر پور ہوتا ہے:

ختمہ کا استعمال:

 دنیا دارالعمل ہے۔ جب طبیعت خراب ہو تو کوئی کام نہیں ہوسکتا۔

مخففات کے بعد بھی یہ علامت لگا دیتے ہیں: کے۔ی۔آئی۔ای، بی ۔اے۔

صرف انگریزی کے مخففات کے بعد ۔عربی کے مخففات کے بعد ا کثر نہیں لگاتے : ص ، صلعم، ؑ ، رض ، یوں ہی لکھے جاتے ہیں ۔ (جب ایک سے زیادہ مخففات ایک ہی سلسلے میں لکھے جائیں تو ہر مخفف کے بعد سکتے کی علامت دینا چاہیے۔)

ڈاکٹر محمد اقبال۔ ایم ۔اے، پی۔ ایچ۔ ڈی، بیرسٹر ایٹ لا۔ ہزاگز اللہ ہائی نس میر عثمان علی خاں بہادر ، جی ۔سی۔ایس۔آئی ، جی ۔ی۔بی۔ای۔

(ایرانی تحریروں میں پورا وقفہ (Full Stop) انگریزی کی طرح نقطے سے ظاہر کرتے ہیں ؛ لیکن جن زبانوں میں حروف منقوطہ کی کثرت ہو، وہاں یہ علامت التباس پیدا کرتی ہے۔ اس کے لیے چھوٹا خط ( ۔ ) اردو میں بہت عرصے سے استعمال کیا جا رہا ہے۔ انگریزی(Dash) کو ہم نے "خط” کہا ہے اور (Full Stop) کو "ختمہ”)

 

واوین

"واوین "

جب کوئی اقتباس دیا جاتا ہے، یا کسی کا قول اس کے الفاظ میں نقل کیا جا تا ہے، تو اُس کے اوّل آخر یہ علامت لگائی جاتی ہے:

واوین کا استعمال:

اُس نے جواب دیا، "میں کل دس بجے یہاں پہنچوں گا‘‘ مولا نا حالی ، میر صاحب کے اس شعر کے متعلق لکھتے ہیں:

اب کے جنوں میں فاصلہ شاید ہی کچھ رہے

دامن کے چاک اور گر یہاں کے چاک میں

 "میر نے باوجود غایت درجے کی سادگی کے، ایسے مبتنذل اور پامال مضمون کو اچھوتے ، نرالے اور دلکش اسلوب میں بیان کیا ہے ۔”

 

ندائیہ، فجائیہ

 

ندائیہ /فجائیہ(!)

یہ اُن الفاظ یا جملوں کے بعد لگائی جاتی ہے، جن سے کوئی جذ بہ ظاہر ہوتا ہے: جیسے غصہ ، حقارت ، استعجاب، خوف وغیرہ۔ جذبے کی شدت کی مناسبت سے ایک سے زیادہ علامتیں بھی لگا دیتے ہیں۔

ندائیہ/فجائیہ کا استعمال:

اُفوہ! سخت تکلیف ہے۔ معاذ اللہ ! بس صاحب! بس!!۔ وہ اور رحم! اس کی امید فضول ہے،

میں ، اور بزم سے سے یوں تشنہ کام آؤں!

 

سوالیہ

سوالیہ (؟)

سوالیہ جملے کے آخر میں علامت لگائی جاتی ہے:

سوالیہ کا استعمال:

 کیا ہے؟ کس کی باری ہے؟ کیا ممکن ہے، کہ آپ مجھ سے کل صبح باغ عامہ میں ملاقات کر یں؟

خط

 

خط (-)

  یہ علامت جملہ معترضہ کے پہلے اور آخر میں لگائی جاتی ہے:

خط کا استعمال:

میری راۓ – اگر چہ میں کیا اور میری راۓ کیا- تو یہ ہے کہ آپ اس سے دست بردار ہوجائیں۔

(۱) جب کئی لفظ کسی سابقہ لفظ کی تشریح اور تبادلے میں لکھے جائیں، تو بھی یہ علامت لگاتے ہیں:

سارا مکان – اینٹ، چونا، سامان بلکڑیاں – سب جل کر خاک سیاہ ہو گیا۔

زید -نہ صرف زید بلکہ اس کا سارا خاندان -انہی بزرگ کا معتقد ہے۔

قوسین

قوسین  (   )

یہ علامتیں خط ( – ) کی طرح جملہ معترضہ کے پہلے اور آخر میں لگائی جاتی ہیں۔

میرا گھر (یعنی مکان کا وہ حصہ جس میں سکونت ہے ) بوسیدہ ہو گیا ہے۔ ( یہ لکھنے والے کی مرضی ہے کہ خواہ قوسین استعمال کرے، یا خط ۔ )

ہدایات: قوسین کے استعمال کرنے میں اس بات کا بہت خیال رکھنا چاہیے کہ ان کے بے جالانے سے عبارت بے ربط نہ ہو جاۓ ۔ بہت سے لکھنے والے اس کی پروا نہیں کرتے ؟ اور آج کل ایسے اکھڑے ہوۓ جملے بہت دیکھنے میں آتے ہیں:

قوسین کا استعمال:

( الف ) محمود علی صاحب (جن کے بڑے بھائی الہ آباد میں تحصیل دار ہیں ) کو میں نے کل موٹر پر جاتے دیکھا۔

( ب ) حکیم احمد حسین خاں صاحب (جو اردو محلے میں رہتے ہیں اور بڑے حاذق طبیب ہیں) سے میں نے رجوع کیا۔

( ج ) مبارک علی میاں ( جوکل آپ سے ملنے آۓ تھے ) کے پاس ایک اعلی درجے کی بندوق ہے۔

ان جملوں میں قوسین کا استعمال اس طرح ہونا چاہیے تھا:

(الف) محمود علی صاحب کو (جن کے … ہیں) میں نے …

(ب) حکیم احمد حسین خاں صاحب سے (جو اردو محلے … طبیب ہیں) میں نے رجوع کیا۔

(ج) مبارک علی میاں کے پاس ( جو کل آپ سے ملنے آۓ تھے ) ایک بڑی اعلیٰ درجے کی بندوق ہے۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top