ہر کہ خدمت کرد او مخدوم شد

 یہی ہے عبادت، یہی دین و ایماں

کا کام آئے دنیا میں انساں کے انساں

 خدمت خلق ہی ایک ایسا فعل ہے جس سے انسان کی عظمت کا صحیح طور پر پتا چلتاہے۔ کسی انسان کی عظمت کا اندازہ کرنے کے لئے نہ صرف یہ دیکھنا ہو گا کہ اس کے اندر کس قدر جو ہر پوشیدہ ہیں اور وہ کن اعلیٰ اوصاف کا مالک ہے بلکہ اس اعتبار سے بھی اسے پرکھنا ہو گا کہ اس کے دل میں خلق خدا کے لئے کس قدر درد موجود ہے۔ خلاق عالم نے انسان کے ذمے دوفرائض لگائے ایک اس مالک کل کی اطاعت دوسرے اس کے بندوں سے پیار ۔

 یعنی ایک حقوق اللہ اور دوسرا حقوق العباد!  حقوق اللہ میں اگر کوئی کوتا ہی ہو جائے تو اللہ تعالیٰ غفور الرحیم ہے وہ معاف کر سکتا ہے لیکن اگر حقوق العباد کا جرم سرزد ہو جائے تو اسے وہ معاف نہیں کرے گا۔ حالانکہ وہ قادر مطلق ہے مگر اس مقام پر اس نے معاف کرنے کا حق صرف اور صرف اسی کو دیا ہے جس کا حق مارا گیا ہو یا جس کا حق ادا نہ کیا گیا ہو۔

خلق خدا کی خدمت، ان سے ہمدردی اور پیار حقوق العباد میں سر فہرست ہیں ۔

 خدمت خلق کی عظمت کو ایک مثال سے واضح کیا جا سکتا ہے۔ فرض کریں آپ کسی شخص سے محبت کرتے ہیں۔ اس کی عزت و احترام کرتے ہیں، اس کے ہر حکم کی تعمیل بعجلت کرتے ہیں۔ ہر مجلس میں اس کی تعریف بھی کرتے ہیں ۔ مگر اس کی اولاد سے جو اس کو بہت ہی عزیز ہے آپ کو کوئی لگاؤ نہیں ۔ کوئی پیار نہیں ، کوئی ہمدردی نہیں ۔ ان کے لئے آپ کوئی ایثار بھی نہیں کرتے تو سوچ کر بتائیے کہ کیا وہ شخص جس سے آپ پیار کرتے ہیں آپ کو اچھا سمجھے گا۔ جواب یقیناً نہیں میں ہو گا۔ اسی طرح سے خداوند عالم کو اپنی مخلوق بہت پیاری ہے ۔ "الـخـلـق عيال الله”  تمام مخلوق خدا کا کنبہ ہے۔ 

اگر ہم محض خدا سے ہی پیار کرتے ہیں اور اس کے بندوں سے پیار ہمدردی نہیں کرتے ۔ ان کے لئے جذ بہ ایثار نہیں رکھتے تو خدا کبھی خوش نہیں ہو سکتا ۔

ایک بزرگ کے پاس ایک شخص آیا۔ انہوں نے اس کا حال و احوال پوچھا تو کہنے لگا کہ بس ٹھیک ہے۔ کما لیتے ہیں اور کھا لیتے ہیں۔ کہنے لگے پھر تو تم کچھ بھی نہیں کماتے ۔ دوسرا شخص آیا اس سے بھی پوچھا تو کہنے لگا کہ اللہ کا کرم ہے کما لیتے ہیں خود کھا لیتے ہیں اور جو بچتا ہے ۔ دوسروں کو دے دیتے ہیں ۔ فرمایا تھوڑی کمائی کرتے ہو۔ تیسرا شخص آیا اس کی خیریت دریافت کی۔ اس نے جواب دیا۔ حضرت سارا دن محنت و مشقت کر کے کماتے ہیں اس میں سے لوگوں کو کھلاتے ہیں اور جو کچھ بچتا ہے ہم کھا لیتے ہیں۔ فرمایا شاباش خوب کمائی کرتے ہو۔ تو اصل نیکی تو یہی ہے کہ انسان دوسروں کے لئے جئے ۔ خدا کے بندوں کے لئے جذبہ ایثارو قربانی رکھے۔ ورنہ حیوان میں اور انسان میں فرق ہی کیا ہے۔ اپنے لئے تو حیوان بھی سب کچھ کرتا ہے۔

اسی طرح سے ابراہیم بن ادھم کا ایک واقعہ ہے۔ ایک رات ایک فرشتہ سونے کی کتاب ہاتھ میں لئے ان کے کمرے میں داخل ہوا ۔ ادھم نے پوچھا اس کتاب میں کیا لکھ رہے ہو ۔ فرشتے نے جواب دیا اس کتاب میں ان لوگوں کے نام لکھ رہا ہوں جو خدا سے محبت کرتے ہیں۔ ابراہیم بن ادھم نے دریافت کیا اس کتاب میں میرا نام بھی شامل ہے۔ فرشتے نے جواب دیا نہیں ۔ ادھم نے کہا اچھا تم میر انام ان لوگوں میں لکھ لو جنہیں خدا کے بندوں سے پیار ہے۔ اس کے بعد فرشتہ چلا گیا۔ دوسرے روز فرشتہ پھر آیا پہلے کی طرح کمرہ روشن ہو گیا وہی سونے کی کتاب اس کے ہاتھ میں تھی ۔ ادھم نے پھر پوچھا کہ اس کتاب میں کیا لکھا ہے ۔ تو فرشتے نے جواب دیا کہ اس کتاب میں ان لوگوں کے نام ہیں جن کو خد ا خود پیار کرتا ہے۔ ادھم نے دریافت کیا کہ کیا اس میں میرا نام بھی شامل ہے۔ فرشتے نے جواب دیا آپ کا نام سر فہرست ہے۔ گویا عظمت انسان اس وقت عیاں ہوتی ہے جب اس میں خلق خدا سے محبت و ایثار پیدا ہو جائے ۔ اسی لئے تو علامہ اقبال نے فرمایا۔

 خدا کے عاشق تو ہیں ہزاروں بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے

میں اس کا بندہ بنوں گا جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہو گا 

تاریخ شاہد ہے کہ کوئی شخص اس وقت تک نہ ہر دل عزیز بنانہ عظیم بنا نہ مخدوم بنا جب تک اس نے خدمت خلق کو اپنا شعار نہ بنایا ۔ جس نے ملک وقوم کے لئے قربانی نہ دی، جس نے خدا کے بندوں سے پیار نہیں کیا چاہے وہ کتنا دولت مند ہو کتنا طاقت ور ہو نہ قرب الٰہی حاصل کر سکا اور نہ دنیا میں ہی عزت حاصل کر سکا۔ سرسید احمد خاں کی طرف دیکھئے۔ ان کے دل میں قوم کا کس قدر درد تھا۔ قوم کے لئے محنت کی۔ علامہ اقبال کی مثال لیجئے وہ ساری عمر قوم کے لئے تڑپتے رہے ۔

قوم کے لئے بالخصوص اور ساری دنیا کے لئے بالعموم مشعلِ راہ بنے رہے ۔ بابائے قوم محمد علی جناح نے یونہی قائد اعظم نہیں کہلوالیا انہوں نے قوم کے لئے تن من دھن کی قربانی دی۔ ایسے لوگ مر کر بھی زندہ جاوید رہتے ہیں ۔ لوگ جب بھی ان کا نام لیتے ہیں بڑے ادب و احترام سے لیتے ہیں اور ان کی مغفرت کے لئے دعائیں کرتے ہیں۔ تاریخ میں ہمیشہ ایسے لوگوں کے نام سنہری حروف میں لکھے جاتے ہیں۔

حقیقت میں انسان کو دنیا میں اس لئے بھیجا گیا ہے کہ وہ خدا کے بندوں کی خدمت کرے۔ ان کے دکھ درد میں شریک ہو ۔ ان کی غم گساری کرے ۔ اگر ان کو راحت پہنچانے کے لئے ایثار بھی کرنا پڑے تو اس سے دریغ نہ کرے ۔ اگر تخلیق انسان کا مقصد صرف خدا کی عبادت ہی ہوتا تو اس کے لئے تو فرشتے ہی کافی ہیں

جورات دن اس کی تسبیح کرتے ہیں۔

دردِ دل کے واسطے پیدا کی انسان کو

ورنہ طاعت کے لئے کچھ کم نہ تھے کر و بیاں

مآخذ: بہترین اردو مضامین، علامہ اقبال آفاقی کُتب خانہ

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top