حروف ربط

وہ کلمہ جو نہ فعل ہو نہ اسم اور نہ کسی مصدر سے مشتق ہو بلکہ  دو لفظوں کو آپس میں ملاتا ہو ،گویا الفاظ میں ربط اور تعلق پیدا کرتا ہو۔ جس سے مطلب سمجھنا آسان ہو جاتا ہے۔ جیسے: میں، سے، تک، پر، آگے، ساتھ، کا، کی، کو،کے، نے، وغیرہ

 یہاں بعض حروف ربط کا صرف استعمال بتایا جاۓ گا۔

حروف ربط (جار)  مفصلہ ذیل اسما کے بعد آتے ہیں:

اسم کے بعد جیسے احمد سے کہو۔

صفت کے بعد (جب بطور اسم مستعمل ہو ) جیسے بد سے بچو، نیک سے ملو۔

ضمیر کے بعد ۔اس سے کہو۔

فعل کے بعد ۔اس کے سننے میں فرق ہے۔

تمیز کے بعد ۔ آہستہ سے نکل جاؤ۔

 

’’میں‘‘

ظرف مکان کے ساتھ۔جیسے:

عالم میں تجھ سے لاکھ سہی  تو مگر کہاں۔

وہ مجھے گلی میں ملا۔

جو دل میں ہے وہ زباں پر نہیں۔

ح خالی جیم کے پیٹ میں ایک نقطہ۔

منہ میں دانت نہ پیٹ میں آنت

مرد ہوتو میدان میں آؤ۔

سر پر ٹوپی نہ پاؤں میں جوتا۔

شیشے میں پری اتر آئی۔

 

ظرف زمان کے ساتھ۔ جیسے:

آٹھ میں پانچ منٹ باتی ہیں ۔

دیر میں آنے سے نہ آنا اچھا۔

سیر کا مزا چاندنی رات میں ہے۔

سال میں ایک بار ہفتے میں چار بار۔

آن میں کچھ ہے آن میں کچھ ہے۔

گھڑی میں تولہ گھڑی میں ماشہ۔

 

حالت یا کیفیت ،طور یا طریقے کے لیے جیسے:

وہ غصے میں ہے۔

 رینج میں یا خوشی میں ہے۔

 وہ مارے خوشی کے آپے میں نہیں سماتا۔

ہوش میں آؤ۔

 اللہ کے نام میں برکت ہے۔

 حرکت میں برکت۔

 بتیس دانتوں میں ایک زبان ۔

 نام میں کیا دھرا ہے۔

 بات میں بات پیدا کرتا ہے۔ 

دم میں آ گیا۔

 اس کی زبان میں اثر ہے۔

 ہاتھ میں شفا ہے ۔

 دل میں کھوٹ ہے۔

 

اظہارنسبت کے لیے ۔ جیسے:

عمر میں بڑا۔

 اپنی گلی میں ملتا بھی شیر ہے۔

 

مقابلے کے لیے۔ جیسے:

 مجھ میں اس میں زمین آسمان کا فرق ہے۔

 لاکھ میں ایک ہے۔

 آدمی آ دمی میں کیا فرق ہے۔

 

وزن کے لیے۔ جیسے:

 تول میں کم ہے۔

سیر میں چار چڑھتے ہیں۔

 

تعداد کے ساتھ ۔ جیسے:

 دس آدمیوں میں تقسیم کرو۔

سو میں کہہ دوں ، لاکھ میں کہہ دوں ۔

بیس  میں کیسے گزر ہوگا۔

تین میں نہ تیرہ میں ۔

ہم بھی میں پانچ میں سواروں میں ۔

 

تمیز کے لیے (کسی دوسرے اسم سے مل کر ) ۔ جیسے: 

حقیقت میں ،

آخر میں ۔ باتوں باتوں میں۔

ہنسی میں،۔خوشی میں وغیرہ۔

 

"سے”

کسی شے کی ابتدا یا ماخذ کو ظاہر کرتا ہے۔ 

کبھی ابتدا به لحاظ مکان ۔ جیسے: 

سر سے پاؤں تک۔

بہا چوٹی سے ایڑی تک پسینا۔

اِس سرے سے اُس سرے تک ۔

 زمین سے آسان تک ۔

 کہاں سے کہاں تک۔

 

به لحاظ زمان ۔ جیسے:

 چھے بجے سے بیٹھا ہوں ۔

 صبح سے انتظار کر رہا ہوں ۔

کل سے یہی عالم ہے۔

 برسوں سے اس مخمصے میں گرفتار ہوں۔

مدت سے، قدیم سے وغیرہ۔

 

به لحاظ تعداد کے:

 چھے سے سات تک ۔

 

ماخذ یا اصل ۔ جیسے: 

وہ عالی خاندان سے ہے۔

 یہ کہاں سے آیا ہے۔

 زمین سے نکلا ہے ۔

عین  کی آواز حلق سے نکلتی ہے۔

 

نسبت یا علاقہ ۔ جیسے:

 مجھے کام سے کام ہے۔

اس سے مجھے کیا تعلق ۔

 اسے پڑھنے سے نفرت ہے۔

 آنکھوں سے اندھا۔

کانوں سے بہرا۔

 دل سے دل کو راہ ہوتی ہے۔

 

مقابلہ جیسے :

 وہ اس سے کہیں بہتر ہے ۔

یخنی سے شوم بھلا۔

 

استعانت ۔ جیسے:

 تلوار سے فتح کیا۔

 قلم سے لکھا۔

 ڈنڈے سے خبر لی۔

شاہ صاحب کی دعا سے اچھا ہو گیا۔

 

انحراف ۔ جیسے:

 قول سے۔

 بات سے۔

وعدے سے پھر گیا۔

راستے سے لوٹ گیا۔

 

علاحدگی یا جدائی ۔جیسے:

 وہ نوکری سے الگ ہو گیا۔

 کام سے گھبراتا ہے۔

شہر سے نکل گیا۔

 کام سے جی چراتا  ہے۔

 دل سے اتر گیا۔

 

تمیز ( کسی دوسرے اہم سے مل کر )جیسے:

 خبر سے ۔

شوق سے۔

دل سے وغیرہ۔

 

(ف ) بعض جملوں میں ‘سے ‘اور  ‘کے’ کے استعمال سے بین فرق پیدا ہو جاتا ہے، لہذا اس موقع پر اس کا فرق بتا دینا مناسب معلوم ہوتا ہے ۔ ‘ کمرے کے باہر اور کمرے سے باہر میں فرق ہے۔ کمرے کے باہر کےمعنی ہیں کمرے کے باہر کی طرف؟ اور کمرے سے باہر یعنی کمرے کے اندر نہ ہونا۔ جیسے کمرے کے باہر بیٹھو۔ کمرے سے باہر جاؤ۔

اسی طرح : ‘کس لیے’ اور ‘کس کے لیے’ میں فرق ہے۔’ کس لیے’ کے معنی ہیں کیوں یا کس غرض سے، اور ‘کس کے لیے ‘یعنی کسی شخص وغیرہ کے واسطے۔

 

"تک”

انتہا کے لیے۔ بہ لحاظ مکان ، جیسے:

شہر تک ۔

سر سے پاؤں تک ۔

 

بہ لحاظ زمان۔ جیسے:

 شام تک ۔

مہینا بھر یا سال بھر تک ۔

 چھے بجے تک۔

 

عام اشیا اور خیالات کے لحاظ سے۔ جیسے:

 مجھ تک ۔

اس کا نام تک نہ لیا۔

خبر تک نہ ہوئی۔

سلام تک نہ لیا۔

اب یہاں تک نوبت پہنچ گئی ہے۔

 خیال تک نہ آیا۔

گمان تک نہ تھا۔

ہم نے مانا کہ تغافل نہ کروگے لیکن

خاک ہو جائیں گے ہم تم کو خبر ہوتے تک

 

"پر”

اصل اس کی اوپر ہے ۔’’پر ‘‘ کا مخفف’پہ’ بھی (اہل لکھو ز یر سے اور اہل دہلی زیر سے بولتے ہیں انھیں معنوں میں آ تا ہے۔

‘پر’  کسی شے   کی اوپر کی سطح سے تعلق ظاہر کرتا ہے، خواہ متصل ہو یامفصل۔ اس کے بعد قربت اور درمیان کے معنوں میں بھی آتا ہے۔

بہ لحاظ مکان ۔ جیسے:

 خدا کا دیا سر پر ۔

 چھت پر ۔

 بنارس گنگا پر واقع ہے ۔

دروازے پر کھڑا ہے۔

 

بہ لحاظ زمان ۔ جیسے :

وقت پر کام آیا۔

 

انحصار ۔ جیسے:

 میری زندگی اسی پر ہے۔

ایک مجھی  پر کیا ہے، سب کا یہی حال ہے ۔

 

خاطر کے معنوں میں جیسے:

 وہ نام پر مرتا ہے۔

 روپے پر جان دیتا ہے۔

 

واسطے کے معنوں میں ۔ جیسے: 

کام پر گیا ہے ۔

مہم پر گیا ہے ۔

 

طرف کے لیے ۔ جیسے:

 اس کی باتوں پر نہ جانا۔

اس پر کسی کا خیال نہ گیا۔

تر دامنی پر شیخ ہماری نہ جائیو

دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں

 

"آگے”

مکان کے لیے آتا ہے۔ جیسے:

گو ہاتھ میں جنبش نہیں آنکھوں میں تو دم ہے

 رہنے دو ابھی ساغر و مینا مرے آگے

یعنی میرے سامنے یا مقابلے میں ۔

 

زمان کے لیے۔(گزشتہ زمانہ۔) جیسے:

آگے آتی تھی حال دل پہ ہنسی

 اب کسی بات پر نہیں آتی

 

آئندہ زمانے کے لیے۔ جیسے:

آگے کو کان ہوۓ ۔

آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا۔

 

"ساتھ” 

ایک تو معیت کے عام معنوں میں ہے، دوسرے جب ضمیر کے ساتھ آتا ہے تو باو جود اور باوصف کے معنی دیتا ہے ۔ جیسے:

 اگر چہ اس وقت اس نے صاف جواب دے دیا، لیکن اس کے ساتھ آئندہ کا وعدہ بھی کیا۔

 

"نے”

فاعل کے ساتھ استعمال ہوتا ہے۔ جیسے:

علی نے پانی پیا۔

اکبر نے کتاب پڑھی۔

میں نے کام سیکھا۔

میں نے پانی بھرا۔

میں نے سانپ مارا۔

(نے کا ستعمال صرف فعل ماضی میں ہوتا ہے)

 

"کو”

مفعول کے ساتھ استعمال ہوتا ہے۔ جیسے:

نوکر کو بلاؤ۔

احمد کو کتاب دو۔ 

 

"کا، کی، کے”

دو اسموں کے تعلق کو ظاہر کرتے ہیں۔ جیسے:

سلمان کی گاڑی۔

آپ کا کمرہ۔

درخت کی جڑ۔

ماں نے بچے کے کاجل لگایا۔

ماخذ (Reference): قواعدِ اُردو، مرتب: ڈاکٹر مولوی عبد الحق، پبلشرز، انجمن ترقّی اُردو پاکستان، کراچی

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top