تحریر: حمیرا جمیل، سیالکوٹ 

 یہ سمجھنے میں شاید صدیاں بیت جائیں…. اور سمجھانے والا سمجھا سمجھا کر تھک جائے کہ تنقید ہمیشہ اصلاح پر مبنی ہوتی ہے. تنقید کا ہرگز مطلب نکتہ چینی نہیں ہے. تنقید میں خوبیاں اور حامیاں دونوں کا ذکر ہوتا ہے.جبکہ نکتہ چینی کا مقصد ہی نقص نکالنا ہے. اکثریت تنقید کوبھی نکتہ چینی سمجھ بیٹھتی ہے. حتی کہ تنقید ادب کی مضبوط کڑی ہے. تنقید کو ہمیشہ ہنس کر برداشت کرنے اور سیکھنے کی ذہنیت کے ساتھ قبول کرنا چاہیے. کیوں کہ سیکھنے کا عمل ہمیشہ جاری رہتا ہے. کوئی انسان عقل کل نہیں ہوتا….. ہر عظیم انسان خواہ کسی بھی شعبہ زندگی سے تعلق رکھتا ہو. وہ تمام عمر سیکھنے کے مرحلے سے گزرتا ہے….. وہ تنقید کو کبھی سر پر سوار نہیں کرتا. وہ اپنی دُھن میں مگن ترقی کی راہ پر گامزن رہتا ہے.
یہ رجحان عام ہوتا چلا جارہا ہے کہ تنقید کرنے والے کو ہمیشہ مشکوک نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے. جیسا کہ اُس نے کسی کا حق چھین لیا ہے یا پھر کوئی سرعام جرم…… یہ بات تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں ہونی چاہیے کہ اصلاح کرنے والا کوئی خلائی مخلوق نہیں بلکہ اس دنیا کا رہائشی ہے. ذہن میں وسعت اور دل بڑے ہوں تو بہت سارے معاملات افہام و تفہیم سے حل ہوجاتے ہیں.
اگر کچھ دیر کے لیے یہ فرض کرلیا جائے کہ تنقید نکتہ چینی کے زمرے میں آتی ہے یا پھر تنقید کی آڑ میں حوصلہ شکنی کی جارہی ہے.جو کہ ہرگز ممکن نہیں….. کسی قسم کی بدگمانی ذہن میں پیدا ہو جائے تو جلدبازی کے بجائے ٹھہر جانا بہتر ہے…..کوشش ہونی چاہیے کہ عقل سے راہنمائی لی جائے . عقل لاجواب کردے تب آخری حربہ صبر ہے. عہد حاضر میں لفظ "صبر” کا ذکر کرنا بھی بے جا لگتا ہے.
اپنی شخصیت کے متعلق اوروں سے رائے لینا. حالانکہ ہر انسان بہترین منصف ہے….رائے میں کمی بیشی ہوجائے، کچھ ناپسندیدہ سننے کو مل جائے. علم رکھنے والا اچھائیوں کے ساتھ برائیاں بھی گنوا دے…. نتیجہ تم کون ہوتے ہو؟ یہ کہنے والے تمہاری کیا اوقات ہے؟ خوشامد سننے والے، تنقید اور وہ بھی جو تعمیری ہو…. کب برداشت کرسکتے ہیں؟ میں سب سے اعلیٰ درجے کا ہوں. یہ انا ہی زمین بوس کرنے کے لیے بہت ہے.کسی غیر سے دشمنی فضول ہے……درحقیقت انسان خود اپنا دشمن ہے.
حال ہی میں میری محترم ساتھی نے مجھ کو "ماہر انسداد کیڑا مکوڑا جات” کا لقب عطا کیا ہے. کیونکہ اُن کے نزدیک مجھے تنقید سے گریز کرنا چاہیے. ہمارے کان صرف تعریف چاہتے ہیں. درست کو غلط کہنے کی دیر ہے.درست میں سے غلطی کی نشاندہی….. پھر وضاحتیں ہی وضاحتیں، تھوڑا بہت شعور رکھنے والا دلیلیں دے دے کر تھک جائے گا. لیکن میں نہ مانوں والی ضد…. جو ازل سے رائج ہے. جبکہ میں حتی الامکان کوشش کرتی ہوں کہ تنقید کرتے ہوئے توازن برقرار رہے…. مختصر قابل غور بات یہی ہے کہ جو تنقید برداشت کرتا ہے وہی سیکھتا ہے. آسمان سے سبق سیکھ کر کوئی بھی زمین پر نہیں اُترتا. درسی کتابوں کے ساتھ لوگوں کے رویے، خیالات اور سوچ…… یہ سب مل کر ایک عام انسان کو کامیاب انسان بناتے ہیں.

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top