ہر مر دو زن کا علم کی دولت سے بہرہ ور ہونا بہت ضروری ہے۔ علم کے بغیر دنیا اندھیر ہے۔ کورنظری سے کچھ سجھائی نہیں دیتا۔ وہی قوم ترقی کرتی ہے جس کے افراد زیورِ علم سے آراستہ ہوتے ہیں۔ ترقی یافتہ ملکوں کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ کسی ملک میں جس قدر علم زیادہ ہو گا اسی قدروہ ملک ترقی یافتہ ہو گا۔ جو ملک پسماندہ ہیں ان میں علم کا فقدان ہوتا ہے۔ وہاں کے لوگ جاہل ، اندھے اور غیر مہذب ہوتے ہیں۔ اور سچ تو یہ ہے کہ بغیر علم کے انسان خدا کو بھی نہیں پہچان سکتا اور نہ ہی دنیا کا کوئی کام صحیح اندازے سے انجام دیا جا سکتا ہے۔

اسلامی نقطہ نگاہ سے بھی حصول علم لازمی ہے۔ مرد کے لئے بھی اور عورت کے لئے بھی علم حاصل کے لئے تاکید ہے چاہے اس کے دور دراز بھی جانا پڑے۔ زیور علم سے آراستہ ہونا اشد ضروری ہے۔ علم اندھیرے میں اجالا کرتا ہے۔ زندگی کی اقدار میں نکھار اور وقار علم سے ہی آسکتا ہے۔

مرداور عورت زندگی کی گاڑی کے دو پیسے ہیں ۔ گاڑی کبھی ایک پیسے سے نہیں چل سکتی ۔ اس کے لئے دونوں پہیوں کا ہونا اور صحیح حالت میں ہونالازمی ہے ۔ اگر کس وجہ سے ایک پہیہ ٹوٹ جائے یا خراب ہو یا سرے سے ہو ہی نہ تو گاڑی کھڑی کی کھڑی رہ جاتی ہے۔ اس کا چلنا ممکن نہیں ہے یا یوں کہہ لیجئے کہ پرندے کے دو بازوؤں میں سے ایک ٹوٹ جائے تو پرندہ اڑنے کے قابل نہیں رہتا۔ یہی حال ہمارے معاشرے کا ہے۔ اس میں مرد اور عورت دونوں کی اہمیت یکساں

ہے ۔ جب تک دونوں علم سے بہرہ ور نہیں ہوں گے ہم کسی صورت ترقی نہیں کر سکتے ترقی کا زینہ ہمیشہ سے علم ہی رہا ہے ۔ اسی کے ذریعے کامیابی اور کامرانی کی منزل تک پہنچا جا سکتا ہے۔

قدرت نے جو فرائض عورت کو سونے ہیں ان میں سب سے اہم فریضہ بچے کی پرورش کا ہے۔ ماں کی گود ہی بچے کی اولین درسگاہ ہوتی ہے وہاں سے جو درس بچے کو ملے گا وہی سیکھے گا ۔ اگر ماں تعلیم یا فتہ اور سلیقہ شعار ہے تو اولا دبھی صاحب علم اور مہذب ہوگی کیونکہ بچے کا زیادہ وقت ماں کے پاس ہی گزرتا ہے ۔ بچے پر ماں کی طبیعت کا پر تو زیادہ ہوتا ہے۔ بچہ ماں کے طور طریقوں اور عادات و اطوار سے زیادہ متاثر ہوتا ہے۔ جاہل و نا خواند ہ ماں  بچے کے اخلاق و عادات نہیں سنوار سکتی لیکن پڑھی لکھی اور سمجھدار ماں اپنے بچے کی تربیت میں بہت مددگار ثابت ہوتی ہے۔ اور اس کی نگہداشت صحیح طور پر کرسکتی ہے اور اس کے خیالات و کردار کو نکھار سکتی ہے۔ وہ اس کے دل و دماغ کی اقدار کو منتقل کرتی ہے اور اس میں اخلاق، ہمدردی اور ایثار پیدا کر کے جذبہ حب وطن بیدار کر دیتی ہے۔

 اس میں کوئی شک نہیں کہ باپ کا بھی بچے کی پرورش میں بہت حصہ ہوتا ہے مگر اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ابتدائی تعلیم ماں کی گود میں ہی ہوتی ہے باپ کو تو گھر کی فکر معاش ہی چین نہیں لینے دیتی ۔

 بڑی بڑی شخصیتوں نے ماں سے ہی تربیت پائی ۔ اسی چھوٹے مدرسے سے بچے کی تعلیم کا آغاز ہوتا ہے۔ سب سے پہلے ماں ہی بچے کے منہ میں الفاظ ڈالتی ہے ۔ اسے ابتدائی تہذیب وہیں سے ملاتی ہے اور یہی تعلیم بڑے ہو کر اس کی فطرت میں راسخ ہو جاتی ہے۔

فطری صلاحیتوں کے اعتبار سے عورت مرد سے کسی طرح بھی کم نہیں ۔ عورتیں مردوں سے کم ذہین نہیں ہو تیں۔ تاریخ شاہد ہے کہ ملکہ نور جہاں ، وکٹوریہ، چاند بی بی، رضیہ سلطانہ اور دور حاضر کی وزیر اعظم تھیچر اور اندرا گاندھی نے مردوں کے ہم پلہ کا رہائے نمایاں سرانجام دیتے ہیں اور دے رہی ہیں۔ بلکہ دور جہانگیری میں جب آفتاب خاندان مغلیہ پورے عروج پر تھا تو ملکہ نور جہاں کا ہی ذہن کام کرتا تھا انہوں نے ایسے ایسے کارنامے انجام دیتے ہیں جنہیں مرد حکمران پا یہ تکمیل کو نہ  پہنچا سکے۔ جو لوگ عورتوں کو تعلیم دلوانے کے حق میں نہیں ہیں ۔ وہ ان کی تعلیم کو صرف ناظرہ قرآن مجید تک محدود رکھتے ہیں۔ انہیں دیگر علوم نہیں پڑھاتے ۔ ان کا یہ خیال ہے کہ تعلیم یافتہ عورتیں فیشن پرست ہوتی ہیں۔ فضول خرچ ہوتی ہیں اور گھر کے کام کاج نہیں کرتیں۔ گھر کے فرائض صحیح طور پر سرانجام نہیں دیتیں ۔ وہ گھر کی زینت بننے کی بجائے نمائش محفل بن جاتی ہیں ۔ ہمہ وقت سیر و تفریح کے لئے تیار رہتی ہیں۔ خاوند کے لئے سامان دلجوئی نہیں پیدا کرتیں بلکہ تکلیف و تنازعہ کا سبب بن جاتی ہیں۔ تو اس میں قصور لڑکیوں کا نہیں ہے جن کو ہم تعلیم دیتے ہیں ۔ اول تو تعلیم روشن خیال بناتی ہے اور ذمہ داری سکھاتی ہے۔ اس کے برعکس کچھ نہیں سکھاتی ۔ جولوگ بگڑے ہوئے ہیں وہ تعلیم حاصل کئے بغیر ہی بگڑے ہوئے ہیں چاہے وہ مرد ہوں یا عورت ۔

 دوسرے اس تعلیم کا بھی کچھ قصور ہو سکتا ہے جو ہم دیتے ہیں ۔ جو تعلیم ہم ان کو دیں گے وہ وہی سیکھیں گی ۔ یہ قصور اس غلط تر بیت او غیر موزوں نصاب و ماحول کا ہے۔ شروع سے ہی اگر ایسے انتظامات ہوں کہ لڑکیوں کی تربیت صحیح خطوط پر ہو اور انہیں پاکیزہ اور برائیوں سے پاک ماحول ملے تو کوئی وجہ نہیں کہ تعلیم نسواں معاشرے میں کسی بگاڑ کا باعث بنے ۔ اچھی تعلیم کے نتائج حوصلہ افزا بر آمد ہوں گے ۔لہذا  جو  صلاحیتیں قدرت نے عورت کو دی ہیں ان کو بروئے کارلانے کے لئے ضروری ہے کہ ان کی صلاحیتوں کو اجاگر کیا جائے ، اور ان میں مطلوبہ صفات تبھی پیدا ہو سکتی ہیں جب انہیں زیور تعلیم سے آراستہ کیا جائے ۔

یہاں کی عورتوں کو علم کی پروا نہیں بے شک

مگر یہ شوہروں سے اپنے بے پروا نہیں ہوتیں

اکبر الہٰ آبادی

مآخذ: بہترین اردو مضامین، علامہ اقبال آفاقی کُتب خانہ

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top