اسم کی ساخت کے اعتبار سے قسمیں

(1) اسمِ جامد (2) اسمِ مصدر (3) اسمِ مشتق

1۔ اسمِ جامد

اسم جامد وہ اسم ہے جو نہ تو خود کسی اسم سے بنا ہو اور نہ اس سے کوئی دوسرا اسم بنے جیسے : اینٹ ، پتھر ، درخت، چٹان ، پہاڑ ، وادی، چٹائی، میز، کرسی ، دیوار ، چھت وغیرہ۔

2۔ اسمِ مصدر

اسم مصدر: وہ اسم ہے جو خود تو کسی لفظ سے نہ بنے لیکن اس سے بہت سے اسم اور فعل بنیں جیسے : اچھلنا کودنا ، آنا ، جانا ،لکھنا، پڑھنا وغیرہ ۔ اُردو زبان میں ” نا ” مصدر کی علامت ہے لیکن کچھ الفاظ ایسے بھی ہیں جن کے آخر میں نا آتا ہے لیکن وہ مصدر نہیں ہوتے ۔ جیسے : گنا، کانا، نانا، پرانا،   ، چونا، تانا بانا سونا ) سُونا (  گھرانا، یہ مصدر نہیں ہیں ۔

اسمِ مصدر کی قسمیں:

(1) مصدر مفرد (2)  مصدر مرکب (3) مصدر لازم (4) مصدر متعدی

1۔ مصدر مفرد

 وہ اسم جو شروع ہی سے مصدر کے معنی میں استعمال ہوتا ہے جیسے : آنا جانا لکھنا، پڑھنا، کہنا سننا وغیرہ

2۔ مصدر مرکب

 وہ اسم ہے جو کسی مصدر کے شروع میں کوئی لفظ لگا کر دوسرا مصدر بنا لیتے ہیں اسے مصدر مرکب کہتے ہیں جیسے بہک جانا بھٹک جانا، کلمہ پڑھنا، قصیدہ لکھنا،سچ کہنا، جھوٹ بولنا وغیرہ۔

3۔ مصدر لازم

 وہ فعل جوصرف فاعل کو چاہے فعل لازم کہلاتا ہے۔ چناں چہ جس مصدر سے فعل لازم بنے گا، وہ مصدر بھی لازم ہوگا جیسے آنا ، جانا، چلنا، دوڑنا، ہنسنا، رونا، بھاگنا، سونا، جاگنا،اچھلنا کودنا وغیرہ سب مصدر لا زم ہیں۔

4۔ مصدر متعدی

 مصدر متعدی وہ مصدر ہے جس سے متعدی افعال بنتے ہیں اور متعدی فعل وہ ہے جو فاعل کے علاوہ مفعول کو بھی چاہے۔  جن مصادر سے یہ متعدی افعال بنیں گے وہ مصدر متعدی ہوں گے جیسے لکھنا، پڑھنا، کھانا، پینا، بیٹھنا، دوڑانا ، لانا، بھگانا   اچھالنا،

نوٹ:

دیکھنا وغیرہ سب متعدی مصادر ہیں۔

یہ یادر ہے کہ مصدر لازم کو مصدر متعدی بنا لیتے ہیں جس کے مندرجہ ذیل طریقے ہیں:

  •   مصدر لازم کی ”نا“ سے پہلے ”الف“ لگا دینے سے مصدر متعدی بن جاتا ہے جیسے : چلنا مصدر لازم سے چلانا مصدر متعدی اور ہنسنا مصدر لازم سے ہنسانا‘ مصدر متعدی بن جائے گا۔
  • مصدر لازم کے دوسرے حرف کے بعد ”الف“ لگا دینے سے مصدر متعدی بن جاتا ہے جیسے: اچھلنا سے اچھالنا مصدر متعدی بن جائے گا۔
  •  مصدر لازم کے دوسرے حرف کے بعد "ی”لگا دینے سے مصدر متعدی بن جاتا ہے جیسے: سمٹنا سے سمیٹنا سکڑنا سے سکیڑنا“

3۔ اسمِ مشتق

اسم مشتق وہ اسم ہے جو خود تو مصدر سے بنے لیکن اس سے پھر کوئی لفظ نہ بنے جیسے : لکھنا سے لکھنے والا ، لکھنے والی لکھا ہوا لکھتا ہوا ا الفاظ بنتے ہیں لیکن آگے ان سے کوئی لفظ نہیں بنتا۔

اسمِ مشتق کی قسمیں:

(1) اسمِ فاعل (2) اسمِ مفعول (3) اسمِ حالیہ (4) اسم حاصل مصدر

اسمِ فاعل 

اسم فاعل وہ اسم مشتق ہے جو کسی فاعل کو ظاہر کرے جیسے : وسیم لکھنے والا ۔ مقیم پڑھنے والا ۔ ان میں وسیم کو لکھنے والا اور مقیم کو پڑھنے والا کہ کر دونوں کا فاعل ہونا ظاہر کیا گیا ہے، اس لیے لکھنے والا اور پڑھنے والا اسم فاعل کہلاتے ہیں۔

اسم فاعل کی قسمیں

  اسمِ فاعل قیاسی ۔ اسم فاعل سماعی

اسم فاعل قیاسی : 

وہ اسم ہے جو قاعدے کے مطابق مصدر سے بنایا جائے جیسے: لکھنے والا ، پڑھنے والا

اسم فاعل قیاسی بنانے کا طریقہ: مصدر کے آخر سے ”الف“ ہٹا کر مذکر کے لیے ”ے والااور مؤنث کے لیے ”ے والی لگا دینے سے اسم فاعل بن جاتا ہے جیسے : پڑھنا سے پڑھنے والا اور پڑھنے والی  لکھنا سے لکھنے والا اور لکھنے والی۔

اسم فاعل سماعی :  

وہ اسم فاعل ہے جو کسی خاص قاعدے سے نہ بنا ہو بلکہ اہلِ زبان سے سننے میں آیا ہو مثلاً : لکڑ ہارا ، ترکھان ، بڑھئی، سنار،       لوہار ،طبیب، تیراک ، پجاری، کھلاڑی، گویا ، حلوائی ، موچی، جلاہا، بھکاری، بھٹیارا ، سپیرا ، گھسیارا ، کسان ، جیب کترا ،             ڈا کیا ،لٹیرا ، ڈاکو ، چور اچکا، جواری وغیرہ۔

اسم فاعل سماعی بنانے کا طریقہ: اس اسم فاعل کے بنانے کا کوئی خاص طریقہ نہیں بلکہ اہل زبان سے مختلف علامتوں کے لگانے سے اسم فاعل بنایا جانا منقول ہے۔ جیسے بھٹھیرا، لکڑ ہارا، رکھوالا ، حلوائی، دھوبی ، موچی، جوہری، سنار، پجاری، بھکاری ، بھٹیا را بسپیرا، گھسیارا ، ڈاکو، جیب کترا، چور، ڈاکیا، کھلاڑی، گویّا۔

فارسی کے بعض اسم ِفاعل بھی اردو میں مستعمل ہیں مثلاً : راہ بر، راہ نما سرمایہ دار، کتب فروش، خیر خواه، باغ بان ، تو پچی طلب گار باشنده، دانش ور جادوگر، جفت ساز، خدمت گار، پر ہیز گار وغیرہ۔ اس کے علاوہ عربی کے بعض اسم فاعل بھی اُردو میں بکثرت استعمال کیے جاتے ہیں جیسے: خادِم، حاکِم ، شاعِر ، کاتِب ، عادِل، عابِد ، ساجِد ، رازِق، خالِق ، قائِل ، معالِج ، مقابِل، مفاخِر، مفاسِد، ملازِم، محاِفظ، مجاِہد، مسافر، مونِس ،محسن ، موجِد، مُشفِق مُنصِف، منِکر، منّجِم، مصوِر، محقِّق، مبلِّغ ، ،مرتِّب، مصنِّف معلِّم متکبر متکلِم متحمِل متفکِر متوکِٗل  وغیرہ۔

اسمِ فاعل اور فاعل میں فرق
  • اسمِ فاعل بنایا جاتا ہے لیکن فاعل بنایا نہیں جاتا بلکہ اس سے تو صرف فعل واقع ہوتا ہے۔ 
  • – اسمِ فاعل وہ ہے جو فاعل کو ظاہر کرے جب کہ فائل کام کرنے والے کو کہتے ہیں۔
  •  اسم فاعل کو فاعل کی جگہ استعمال کر سکتے ہیں لیکن فاعل کبھی اسمِ فاعل کی جگہ استعمال نہیں ہوسکتا جیسے : لکھنے والے نے خط لکھا۔یہاں لکھنے والا اگر یہ اسم فاعل ہے لیکن فاعل بنا ہوا ہے۔

اسم مفعول 

وہ اسم مشتق ہے جو کسی کا مفعول ہونا ظاہر کرے جیسے لکھا ہوا خط ، پڑھی ہوئی کتاب، ان جملوں میں لکھا ہوا اور پڑھی ہوئی اسمِ مفعول ہیں کیوں کہ یہ دونوں خط اور کتاب کا مفعول ہونا ظاہر کر رہے ہیں۔

اسم مفعول کی قسمیں :

1۔ اسم مفعول قیاسی

 2۔ اسم مفعول سماعی

اسم مفعول قیاسی

  وہ اسم مشتق ہے جو قاعدے کے مطابق مصدر سے بنایا جائے۔ اسمِمفعول قیاسی بنانے کا طریقہ: جس مصدر سے اسم مفعول بنانا ہو اس کی ماضی مطلق کے آخر میں ہوا لگا دینے سے اسمِ مفعول بن جاتا ہے جیسے : لکھنا سے لکھا ہوا اور لکھی ہوئی۔ پڑھنا سے پڑھا ہوا اور پڑھی ہوئی اسم مفعول بن گئے۔

  اسم مفعول سماعی 

 وہ اسم ہے جو کسی قاعدے سے بنایا تو نہیں جاتا لیکن معنی اسم مفعول کے دیتا ہے۔ مثلاً )نک کٹا(ناک کٹا ہوا) کن چھدا ( کان میں سوراخ کیا ہوا ) بیا ہتا  ( شادی کی ہوئی) دکھی (ستایا ہوا   وغیرہ

فارسی کے اسم مفعول اردو میں بھی استعمال ہوتے ہیں جیسے )اندوختہ (جمع کیا ہوا) آموختہ ( پڑھا ہوا) آزمودہ ( آزمایا ہوا) شنیده (سناہوا   و غیره

عربی کے اسم مفعول اردو میں بھی کثرت سے استعمال کیے جاتے ہیں جیسے : مظلوم مخلوق، معبود، معلوم ،مقتول ، مقتدر، منتشر منتخب منتظر وغیرہ۔ 

اسم مفعول اور مفعول میں فرق:

1۔ اسم مفعول وہ ہے جو مفعول کو ظاہر کرے اور مفعول اسے کہتے ہیں جس پر کوئی فعل واقع ہوا ہو۔

2۔اسم مفعول مصدر سے بنایا جاتا ہے لیکن مفعول بنایا نہیں جاتا۔  

3۔ اسم مفعول کو مفعول کی جگہ استعمال کر سکتے ہیں لیکن مفعول کبھی اسم مفعول کی جگہ استعمال نہیں ہوسکتا جیسے : میں نے لکھا ہوا پڑھا، بچہ

پڑھا ہوا بھول گیا۔ ان جملوں میں لکھا ہوا، پڑھا ہوا دونوں اسم مفعول ہیں جو مفعول کی جگہ استعمال ہوئے ہیں۔

اسم حالیہ

 وہ اسم مشتق ہے جو کسی فاعل یا مفعول کی حالت بیان کرے جیسے نعیم ہنستا ہوا آیا۔ وسیم نے کامران کو پڑھتے ہوئے دیکھا۔ پہلے جملے میں ہنستا ہوا ” فاعل نعیم کی حالت بیان کر رہا ہے۔ دوسرے جملے میں پڑھتے ہوئے کامران جو کہ مفعول ہے، کی حالت بیان کر رہا ہے لہذا ”ہنستا ہوا اور پڑھتے ہوئے دونوں اسم حالیہ ہیں۔

 اسم حالیہ بنانے کا طریقہ  :

 مصدر کے آخر سے’نا ‘ہٹا کر  ‘تاہوا’  لگا دینے سے اسم حالیہ بن جاتا ہے جیسے لکھنا سے لکھتا ہوا لکھتی ہوئی، پڑھنا سے پڑھتا ہوا، پڑھتی ہوئی اسم حالیہ ہیں۔

اسم ِحاصل مصدر

  وہ اسم مشتق ہے جو مصدر تو نہ ہو لیکن معنی اور اثر مصدر کا ظاہر کرے، مثلاً آہٹ (آنا) ، لڑائی ( لڑائی لڑنا)  ، دباؤ  (دبانا) ۔ چناں چہ   آہٹ، لڑائی اور دباؤ اسمِ حاصل مصدر ہیں۔ 

حاصل مصدر بنانے کے طریقے :

  •   بعض مصدروں کے آخر سے الف ہٹا کر جو باقی رہے وہ حاصل مصدر بن جاتا ہے جیسے : جلنا سے جلن، چلنا سے چلن ، دکھنا سے دکھن ،لگنا سے لگن، چھنا سے چھن ۔
  •  بعض مصدروں کے آخر سے نا ہٹا کر باقی جور ہے وہ حاصل مصدر بن جاتا ہے جیسے : دوڑنا سے دوڑ ، چاہنا سے چاہ ، بھا گنا سے بھاگ ، دیکھنا سے دیکھ حاصل مصدر ہیں ۔
  •   بعض مصدروں کے آخر سے نا ہٹا کر ”و“لگا دینے سے حاصل مصدر بن جاتا ہے جیسے دبانا سے دباؤ ، جھکانا سے جھکاؤ۔ بہانا سے بہاؤ۔ لگانا سے لگاؤ۔
  •    بعض مصدروں کے آخر سے ”نا“ ہٹا کروٹ لگا دینے سے حاصل مصدر بن جاتا ہے جیسے : ملانا سے ملاوٹ، گرانا سے گراوٹ، بنانا سے بناوٹ ،سجانا سے سجاوٹ ۔
  •  بعض مصدروں کے آخر سے ”نا“ہٹا کر ہٹ لگا دینے سے حاصل مصدر بن جاتا ہے جیسے گھبرانا سے گھبراہٹ مسکرانا ہےمسکراہٹ، آنا سے آہٹ۔
  •   بعض مصدروں کے آخر سے نا ہٹا کر آئی لگا دینے سے حاصل مصدر بن جاتا ہے جیسے : لڑنا سے لڑائی ، رنگنا سے رنگائی، پڑھنا سے پڑھائی ، لکھنا سے لکھائی ، پٹنا سے پٹائی۔
  • لڑکپن، بچپن، اپنائیت، چاہت، چال یہ سب بھی حاصل مصدر ہیں ۔
  • – فارسی کے حاصل مصدر اردو میں بھی حاصل مصدر ہی شمار ہوں گے جیسے : گفت گو جستجو، آمد و رفت ، آزمائش، پیمائش و غیره – 
  • عربی کے حاصل مصدر اردو میں بھی حاصل مصدر کے طور پر ہی استعمال ہوں گے جیسے : شرافت، جہالت، جماعت علم عمل وغیرہ

اسمِ معاوضه:

وہ اسم مشتق ہے جو کسی کام یا کسی خدمت کی اجرت اور بدلے کے معنی دے مثلاً پسوائی۔ دھلائی۔

 اسم معاوضہ بنانے کا طریقہ 

: مصدر کے آخر سے نا ہٹا کر ائی لگا دینے سے اسم معاوضہ بن جاتا ہے جیسے : رنگوانا سے رنگوائی لگوانا سے لگوائی، دھلانا سے دھلائی، اٹھوانا سے اٹھوائی، پسوانا سے پسوائی وغیرہ

اسم صِفَت :

وہ اسم ہے جس سے کسی کی اچھی یا بری حالت ظاہر کی جائے مثلاً نیک لڑکا، اونچی دیوار، ان میں نیک اور اونچی اسم صفت ہیں جس کی اچھی یا بری حالت ظاہر کی اسے اسم موصوف کہتے ہیں جیسے : اوپر کی مثالوں میں لڑکا اور دیوار اسم موصوف ہیں۔

اسم صِفَت کی قسمیں 

1۔ صفتِ اصلی، 2۔ صفتِ نسبتی

صفت اصلی 

 وہ اسم ہے جو زبان میں شروع سے کسی کی اچھائی یا برائی بیان کرنے کے لیے استعمال کیا جائے جیسے: اچھا۔ برا۔

نیک۔ بد۔ تیز شست ۔

صِفت اصلی کے تین درجے

1۔ صفتِ نفسی، 2۔ صفتِ بعض، 3۔ صفتِ کُل

 صفت نفسی 

 وہ اسم صفت ہے جس سے کسی کی حالت کسی دوسرے اسم سے بغیر مقابلہ کے ظاہر کی جائے جیسے: اچھا، برا، اونچا، نیچا، نیک، بد، خوب صورت و غیره

صِفَتِ بعض 

 وہ اسم صفت جس سے کسی ایک کو دوسرے سے بڑھایا جائے مثلاً :  ، نیک تر۔اس سے اونچا

 صفت گل 

 وہ اسم صفت ہے جس سے ایک کو دوسرے سب سے بڑھایا جائے جیسے  سب سے اونچا، بلند ترین ، نیک ترین۔  

 مفت نسبتی

  وہ اسم صفت ہے جو صفت تو نہ ہو لیکن محض تعلق کی وجہ سے صفت کے معنی ظاہر کرے جیسے لاہوری نمک، عربی آدمی۔  ان دونوں میں لاہوری کا لفظ لاہور سے اور عربی کا لفظ عرب سے تعلق ظاہر کرنے کی وجہ سے صفت نسبتی کہلاتے ہیں۔

صفت نسبیتی بنانے کا طریقہ 

  •    بعض اسموں کے آخر میں ہی لگا دینے سے صفت نسبتی بن جاتی ہے جیسے: لاہور سے لاہوری، ملتان سے ملتانی قصور سے قصوری۔
  •  اگر کسی اسم کے آخر میں ا، لف،ہہوں تو الف ، اور ‘ہ کو ‘و’سے تبدیل کر کے ‘ی’ نسبتی لگائی جائے گی جیسے : بھیرہ سے بھیروی، ڈسکہ سے ڈسکوی ، گولٹرہ سے گولڑوی صفت نسبتی بنائی جائے گی۔
  •   بعض اسموں کے آخر میں ‘انہ’ لگا دینے سے صفت نسبتی بن جاتی ہے جیسے : شاگرد سے شاگردانہ، استاد سے استادانہ، عالم سے عالمانہ مرد سے مردانہ، ماہ سے ماہنامہ، دوست سے دوستانہ، جاہل سے جاہلانہ وغیرہ
  •    بعض اسموں کے آخر میں ”انی لگا دینے سے صفت نسبتی بن جاتی ہے جیسے: نور سے نورانی ، روح سے روحانی۔

 یہ ہندی ، وہ خراسانی ، یہ افغانی ، وہ تورانی

تو اے شرمندہ ساحل! اُچھل کر بے کراں ہو جا

علامہ اقبال کے اس شعر میں اسی قاعدے سے بنائے ہوئے الفاظ خراسانی ، افغانی اور تو رانی ایسے اسم صفت ہیں جن کی نسبتخراسان، افغان اور تو ران سے ظاہر کی گئی ہے۔

  • بعض اسموں کے آخر میں ‘ین’لگا دینے سے صحت نسبتی بن جاتی ہے جیسے : رنگ سے رنگین ، سنگ    سے سنگین ، نمک سے نمکین ، زر سے زریں وغیرہ
  • مکہ اور مدینہ کی صفت نسبتی خلاف قیاس مکہ سے مکی اور مدینہ سے مدنی استعمال کی جاتی ہے۔
  •  یہ الفاظ بھی صفت نسبتی ہیں : مٹیالا ، جیالا ، شرمیلا، رنگیلا، زہریلا، سنہری ہٹیالا ، جیالا، گنوار، پچیرا، ممیراوغیرہ
اگر آپ چاہیں تو یہ بھی پڑھ سکتے ہیں

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top