شعر: آمد، آورد
اکثر لوگوں کی یہ رائے ہے کہ جو شعر زبان یا قلم سے بے ساختہ ٹپک پڑتا ہے وہ اُس شعر سے زیادہ لطیف ہے جو غور وفکر کے بعد آراستہ کیا گیا ہو۔ پہلی صورت کا نام اُنہوں نے آمد رکھا ہے اور دوسری کا آورد۔ اس موقع پر وہ یہ مثال دیتے ہیں کہ شیرہ انگور سے پک جانے کے بعد خود بخود ٹپکتا ہے وہ یقیناً اُس شیرے کی نسبت بہت بہتر ہے جو دیر میں تیار ہوتا ہے اور کچے یا ادھ کچے انگور سے نچوڑ کر نکالا جاتا ہے۔ مستثنٰے حالتوں کے سوا ہمیشہ وہی شعر زیادہ مقبول، زیادہ لطیف، زیادہ سنجیدہ اور زیادہ موثر ہوتا ہے جو کمال غور وفکر کے بعدمرتب کیا گیا ہو ۔
الطاف حسین حالیؔ (مقدمہ شعر و شاعری)
♥♥♥
سخن گو اور سخن فہم
اگر ایک شخص اچھا شاعر ہے تو ہم اسے سخن گو کہتے ہیں۔ لیکن دوسرا، جو شاعر نہیں ہے مگر ذوق شعری رکھتا ہے، اس سُخنفہم کہا جاتا ہے، پھر جس طرح ہر سخن فہم کا سُخن گو ہونا ضروری نہیں اُسی طرح ہر سخن گو کا سخن فہم ہونا بھی لازم نہیں ہوتا۔
اس کی نمایاں ترین مثال میں ہم میرؔ کو پیش کرتے ہیں کہ یوں تو میرؔ سخن گوئی کے لحاظ سے یقیناً خدائے تغزل ہے لیکن جس وقت وہ خود اپنے اشعار کا انتخاب کرتا ہے تو ہم کو حیرت ہوتی ہے کہ دنیا جن اشعار کو میرؔ کے نشتر سمجھتی ہے وہ خود میرؔ کے نزدیک دل میں پھانس چبھونے کی بھی اہلیت نہیں رکھتے ۔ میں نے قوت انتخاب کا یہ نقص اکثر اچھے شعرا میں پایا ہے۔ اشعار کا حق ادا کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ گریبان میرا ہو اور ہاتھ آپ کا ۔۔۔میں خود اپنے ہاتھوں اپنے گریبان کی وسعت اور تنگی کی داد نہیں دے سکتا۔
نیازؔ فتحپوری(ادبیات اور اصول نقد )
♥♥♥
زبان
جس اُصول پر بیج سے کونپل پھوٹتی ہے، پتے نکلتے ہیں، شاخیں پھیلتی اور پھل پھول لگتے ہیں اور پھر ایک دن ایسا آتا ہے جب وہی ننھا پودا ایک تناور درخت ہو جاتا ہے اُسی اُصول کے مطابق زبان پیدا ہوتی ہے، بڑھتی ہے اور پھیلتی پھولتی رہتی ہے۔ تحریری لفظ بے حس اور جامد ہوتے ہیں، کیونکہ تحریر میں لفظ ایک ہی صورت اور ایک ہی حالت میں رہتا ہے، لیکن بول چال میں لہجے اور موقعے کے لحاظ سے ایک لفظ کی مختلف صورتیں پیدا ہو جاتی ہیں۔
مولوی عبدالحق (قواعد أردو)
♥♥♥
شاعر
شاعر کو قطرے میں دجلہ دیکھنا ہی نہیں دکھانا بھی ہوتا ہے۔ شاعر کا کام محض مشاہدہ نہیں ، مجاہدہ بھی ہے۔ زندگی کے دجلے کا مشاہدہ اُس کی بینائی پر ہے، اُسے دوسروں کو دکھانا اُس کی فنی دسترس پر ، اُس کے بہاؤ میں دخل انداز ہونا اُس کے شوق کی صلابت اور لہو کی حرارت پر ۔۔۔اور یہ تینوں کام مسلسل جد و جہد چاہتے ہیں۔ شاعر کے مجاہدے کا کوئی نروان نہیں ۔۔۔. یہ مجاہدہ ایک دائمی کوشش ہے۔ لیکن کوشش کیسی بھی حقیر کیوں نہ ہو زندگی یافن سے فرار اور شرمساری پر فائق ہے۔
فیض احمد فیض (دست صبا)
♥♥♥
اُسلوب
اُسلوب کو افکار اور جذبات کی نوعیت سے نہیں بلکہ شخصیت کے رشتے سے پہچانا جاتا ہے۔ اُسلوب اُس نقش کا نام ہے جو شخصیت تحریر میں چھوڑتی ہے۔ یہ اُس کے اندازِ فكر ، اُفتاد طبع اور اپنے سلیقے سے زندگی کونبھانے سے پیدا ہوتی ہے۔ بہترین اُسلوب اُس وقت پیدا ہوتا ہے جب کہ لکھنے والا اپنے اُسلوب سے بےخبر اور اپنی شخصیت سے باخبر ہوتا ہے۔
ممتاز حسین ادب اور شعور
♥♥♥
لکھنے کا مقصد
لکھنے کا واحد مقصد پڑھنے والے کو زندگی سے زیادہ قریب ہونے یا زندگی کو بہتر طریقے پر برداشت کرنے کے لائق بنایا جائے۔۔۔ جب جنسی خواہش کے مقابلے میں احساسِ جمال بہت زیادہ بڑھ جائے اور بہت گہرا ہو جائے تب جنسیت، عشق کا مرتبہ حاصل کر لیتی ہے۔
فراقؔ گورکھپوری (من آنم)
♥♥♥
شعر فہمی
شعر فہمی بھی ایک خاص طرح کی مناسبت طبع کا مطالبہ کرتی ہے۔ شعر گوئی کی طرح شعر فہمی بھی الہامی قوت چاہتی ہے۔ دونوں” سعادتوں” میں سے کوئی بھی سعادت زور بازو سے حاصل نہیں کی جاسکتی۔ کسی نظم کا سمجھتا غزل کے مختلف اور متنوع اشعار کے سمجھنے سے زیادہ مشکل ہے کیونکہ نظم کی ساخت خیالوں کے دروبست اور اُتار چڑھاؤ کی وجہ سے ایک پیچیدہ عمل بن جاتی ہے جس میں مرکزی خیال کا ڈھونڈ نکالنا بعض اوقات آسان نہیں ہوتا۔ لیکن غزل میں یہ دشواری نہیں ہوتی۔ شعر کو شاعر سے الگ کر کے سمجھنے سے وہی دشواریاں ہوں گی جو حالیؔ کے اس شعر کو سمجھنے میں پیش آرہی ہیں:
حالیؔ اب آؤ پیرویِ مغربی کریں
بس اِقتدائے مصحفیؔ و میرؔ کر چکے
بہت سے لوگ اس شعر کو پڑھتے ہوے حالی کو بھول جاتے ہیں، صرف لفظوں کو دیکھتے ہیں اور یہیں شعر کو کسمجھنے کا خون ہو جاتا ہے اور شعر فہمی ایک اندھے کی لاٹھی بن جاتی ہے۔ شعر فہمی ترتیب ذوق کے لیے وسیع مطالعہ چاہتی ہے اور ذہنی وسعت بھی۔
سید احتشام حسین (تنقید اور عملی تنقید)
♥♥♥
نام نہاد ادب
سیّد الشرفا — جس چت کَبرے معاشرے میں نیم ادبی حیثیت تعلقات عامہ کے آکسیجن تلے دم پکڑ رہی ہو، جہاں روزگاری منصب کی رعایت سے ادب کے درجہ اول کی بالانشینی کا زیرلب مطالبہ ہورہا ہو، جہاں اپنے دیر پا قیام کے لیے عالمانہ سے زیادہ کالمانہ سرگرمی کا غلغلہ ہو وہاں پہلے تو آپ تخلیقی انہماک کی پر ہیز گاریوں پر لعنت کی خاک ڈالیے پھر حفظ مراتب کے تقاضوں پر ” آخ تھو” کیجیے۔
سیّدی ! ذرا اس طر فگی پر بھی نظر رکھیے کہ بیشتر نام نہا د یے بھی صحبتوں کے درمیان ادب میں سنجیدہ روی کی ضرورتوں پر بالاشتیاق نمکین بیانی میں ملوث رہتے ہیں۔ اپنی خفیف نظم اور نحیف نثرچے کے ذریعے بالقصد اعلیٰ خیالی کی نمایش بر پا کرنے کے مرتکب بھی ہوتے ہیں۔ پھر اُس پر یہ تماشا که ساری شعبده گری، تشہیری احتیاط کی دانستہ پردگی کے باوجود ” نچلے طبقے والی ذہنیت (Low Class Mentality) کی آڑ میں جھٹ پٹ برہنہ بھی ہو جاتی ہے۔ مجھے یہ ” ولد الافلاس رویہ” اور سفلہ پن بڑے کچوکے لگاتا ہے۔
مصطفی زیدی
مکتوب بنام سید سبط حسن ، 27 نومبر، 1969ء
♥♥♥
اردو زبان لاہور میں
اُردو کے تین مرکز ہیں: یوپی، حیدر آباد، لاہور ۔ لیکن اہلِ بینش یہ بات گا ہے گاہے بھول جاتے ہیں کہ یوپی میں یہ زبان خود رو ہے۔ حیدر آباد میں یہ زبان ایک والی سلطنت کے سایہ عاطفت میں پَل رہی ہے اور صرف لاہورہی ایک ایسا علاقہ ہے، جہاں اُس کی نشو ونما محض خونِ عشاق کی مرہونِ منت ہے۔ جس جگہ یہ زبان خود رو ہے وہاں خود بین بھی ہے جہاں اتالیقِ شاہی سے تعلیم پا رہی ہے وہاں عوام سے کچھ کھِچ کے رہتی ہے لیکن لاہور میں اس زبان کی حالت ایک ہونہار اور تنومند نو خیز کی سی ہے جس کا خون گرم ہے اور جو چھلانگیں مارتا جارہا ہے اور اس بات کی پروا بھی نہیں کرتا کہ اس کا ہر قدم پگڈنڈی پر پڑتا ہے یا نہیں۔
پطرسؔ بخاری
(یکے از نیاز مندانِ لاہور )
♥♥♥
ابہام
بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ میں صرف مگھُم بات کہنے کا عادی ہوں لیکن ذرا سا تفکر انہیں سمجھا سکتا ہے کہ اور باتوں کی طرح ابہام بھی ایک اضافی تصور ہے۔ ابہام دراصل ہمارے سمجھنے میں ہوتا ہے، یعنی ہماری ذات میں لیکن ہم بے خبری میں اسے شاعر کے سر مَنڈھ دیتے ہیں۔
میراؔ جی
( میراجی کی نظمیں )
♥♥♥
اچھا ادب
اچھا ادب پڑھتے ہوے یوں لگتا ہے کہ لکھنے والے کے پاس کہنے کے لیے کچھ ہے۔ لکھنے والا اپنی بات ایسے لفظوں میں حسنِ ترتیب، فنّی شعور، تخلیقی سلیقے اور طرزِ ادا کے ساتھ پیش کرتا ہے کہ اُس کی تحریر اپنے پڑھنے والے سے کلام کرنے لگتی ہے۔ کلام کرتے ہوئے اُس کا لہجہ ایسا ہوتا ہے کہ پڑھنے والا جلد محسوس کر لیتا ہے کہ یہ بات اس انداز سے پہلے نہیں کہی گئی ہے۔ کاریگر اور تخلیق کار میں یہی فرق ہے کہ کاریگر یکساں مہارت کے ساتھ ایک سی چیزیں بناتا رہتا ہے لیکن تخلیق کار ہر بار نئی چیز اس طور پر ڈھالتا ہے کہ وہ پہلی تخلیق سے یکسر مختلف اور پہلے سے زیادہ دلکش ہوتی ہے۔ اسی لیے یکسانیت اور تکرار ادب پارے کا وہ عیب ہے جو اسے اچھے ادب کے دائرے سے خارج کر دیتا ہے۔
ڈاکٹر جمیل جالبی
(ماہنامہ "کوئسٹ ، کوٹری ، جنوری ۲۰۰۶ء)
♥♥♥
شاعری پورا آدمی مانگتی ہے
عورت کی طرح شاعری بھی پورا آدمی مانگتی ہے۔ آپ عورت کو خوب صورت الفاظ سے خوش نہیں کر سکتے ہیں۔ صرف زیور، کپڑے اور نان نفقے سے بھی نہیں۔ یہاں تک کہ اُس کام سے بھی نہیں جسے محبت کہتے ہیں اور جس کی حمد و تقدیس شاعری کا ازلی و ابدی موضوع ہے۔ عورت وہ سب چیزیں چاہتی ہے مگر الگ الگ نہیں۔ انہیں ایک وحدت ہونا چاہیے، ناقابل تقسیم وحدت۔ عورت کی طرح شاعری بھی اسی ناقابل تقسیم وحدت کی تلاش کرتی ہے۔
سلیم احمد
(نئی نظم اور پورا آدمی )
♥♥♥
شعر حاکم ہے
شعر حاکم ہے اور نثر محکوم ۔ حاکم کو قانون وضع کرنے اور انہیں تو ڑ کر نئے قانون وضع کرنے یعنی الفاظ کے نئے استعمالات کو مروج بنانے کا اختیار ہے۔ یہ اختیار وہ استعارے کے ذریعے استعمال کرتا ہے جو مانوس شےکو نامانوس کرتا ہے اور ہر پرانے لفظ میں نئے معنیٰ پیدا کرتا ہے۔
شمس الرحمٰن فاروقی
(شعر کا ابلاغ ۔ ۱۹۶۹ء)
♥♥♥
شاعری جنسی جذبے کی شکل
ہر شاعری، خواہ وہ متصوفانہ ہو یا عارفانہ ہی کیوں نہ ہو، جنسی جذبے کی ارتفاع پائی ہوئی شکل ہوتی ہے۔ لیکن بغیر ارتفاع کے بھی جنسی اُلجھن اچھی سے اچھی شاعری کا موضوع بنتی رہی ہے۔ شاعری اندرونی تصادم اور کشمکش سے پیدا ہوتی ہے اور یہ کشمکش جتنی تیز اور تند ہوگی اتنا ہی شعریت کا رنگ نکھرے گا۔ ہمارے شاعروں میں احساس اور اعتقاد کا تصادم ہو رہا ہے، خواہشات اور روایات کا، نئے علم اور پرانی قدروں کا، جنسیات اور اقتصادیات کا۔
محمد حسن عسکری
(جدید شاعری)
♥♥♥
شاعر کااصل کام
شاعر کا پہلا کام شاعری ہے۔ وعظ کرنا یا اشتراکیت اور انقلاب سمجھانا نہیں، یہ سمجھنے کے لیے کتابیں موجود ہیں۔ اس کے لیے ہمیں نظمیں نہیں درکار۔ شاعر کا تعلق جذبات کی دنیا سے ہے۔ اگر وہ اپنے تمام رنگ و بو اور تمام ترنم و موسیقی کو پوری طرح کام میں نہیں لائے گا، اگر فن کے اعتبار سے اس میں بھونڈا پن ہوگا، اگر وہ ہمارے احساسات کو لطافت کے ساتھ بیدار کرنے سے قاصر رہے گا تو اچھے سے اچھے خیال کا وہی حشر ہوگا جو دانے کا بنجر زمین میں ہوتا ہے۔
سجادؔ ظہیر
"انگارے” سے” پچھلا نیلم تک "۔ مظہر جمیل
♥♥♥
فارسی ادب سے تعلق
فارسی ادب سے بے خبر رہ کر محض انگریزی لٹریچر پر اکتفا کر کے ، فنِؔ غزل گوئی پر تبصرہ کرنا "سنسنی خیز ” تو ہوسکتا ہے مگر پایۂ اعتبار کو نہیں پہنچتا۔
مائی ڈیر فراقؔ۔۔۔ میں وہ شخص ہوں کہ شعر وسخن کے معاملے میں اختلاف رائے کا موقع آئے تو نہ دوست کا لحاظ کرتا ہوں نہ دشمن کی پروا۔۔۔ یہاں دوست دشمن ایک گھاٹ اتر جاتے ہیں۔۔۔ تلوار کی آنچ گیلا سُوکھا نہیں دیکھتی۔۔۔
یاس یگانہؔ
مکتوب بنام فراق گورکھپوری ، ۳۱ مئی ۱۹۳۸ء
♥♥♥
الفاظ اور شاعر
صرف ادبیوں اور شاعروں کے دو ایسے طبقے ہیں جن سے الفاظ کی رسم وراہ ہے۔ ادیبوں سے ہر چند اُن کی ملاقات دوستانہ ہوتی ہے اور دونوں ایک دوسرے کے گھر آیا جایا کرتے ہیں لیکن بعض نازک مزاج، اسرار پسند اور نغمہ پرور اونچے گھرانوں کے الفاظ ان سے کُھل کھیلنا پسند نہیں کرتے ۔ وہ اگر ادیبوں کے سامنے آتے بھی وہ ہیں تو اُن شوخ لڑکیوں کی طرح جو دُور سے تو لگاوٹ دکھاتی ہیں لیکن جب اُن کا دامن پکڑنے لپکو تو قہقہے مارتی ہوئی اُلٹے پاؤں بھاگ جاتی ہیں۔
البتہ شاعروں کے ساتھ اُن کا برتاؤ دوستوں ہی کا سا نہیں، قرابت داروں کا سا ہوتا ہے۔ وہ شاعروں سے اس طرح ملتے جلتے ہیں جیسے ایک ہی گھر کے مختلف افراد یا ساتھ کے کھیلے ہوئے لنگوٹیا یار۔ شاعروں کو یہاں تک اختیار دے رکھا ہے کہ وہ جب چاہیں اُن کے لباس تبدیل کر دیں۔ اُن کی لَے اور رنگ بدل دیں، اُن کا رُخ موڑ دیں۔ اُن کے معنوں میں تنگی یا وسعت پیدا کر دیں۔ اُن کے خط و خال میں کمی بیشی فرمادیں۔ شاعر کا مکان الفاظ کی عبادت گاہ ہے۔ جہاں اَدنا واَعلا ہر قسم کے الفاظ ایک ہی صف میں کھڑے نظر آتے ہیں اور صفوں میں ایسی شایستگی ہوتی ہے جیسی راگنی کے بولوں میں ہم آہنگی۔
؎ ایک ہم ہیں کہ ہوے ایسے پشیمان کہ بس
ایک وہ ہیں کہ جنھیں چاہ کے ارماں ہوں گے
مومن خاں مومنؔ
لفظ ” بس“ میں شاعر نے اس قدر شدت پیدا کر دی کہ لغت حیران ہو کر رہ گئی ہے۔
؎ سخت کافر تھا جس نے پہلے میرؔ
مذہبِ عشق اختیار کیا
ایک شرعی لفظ کو لغت سے اس طرح ہٹا کر استعمال کیا ہے کہ لغت کا سر چکرا کر رہ گیا اور اُس کے منہ سے جھاگ نکل رہا ہے۔
جوشؔ ملیح آبادی
♥♥♥