تحقیق و تحریر: علی احمد

Urdu Novels

پہلا دور:

ناول نگاری کا آغاز ڈپٹی نذیر احمد سے ہوتا ہے۔ان کے مشہور ناولوں میں ” ابن الوقت”، "بنات النعش”، فسانہ مبتلا”، :ایامی” ، "توبتہ النصوح” مراۃ العروس” شامل ہیں۔ نذیر احمد کے ناول کا موضوع خالصتاً اصلاح معاشرہ تھا۔ اور ان کے ناولوں کی کہانیاں روز مرہ کے معاملات  اور گھریلو مسائل کے گرد گھومتی ہیں۔ لیکن یہ دور تقسیم ہند سے پہلے کا دور ہے  اور بلا شبہ اسے ہم ناول نگاری کا پہلا دور کہہ سکتے ہیں لیکن اس دور میں چند ناموں، سرشار، پریم چند، عزیز احمد منٹو اور عصمت چغتائی کے علاوہ کوئی قابلِ ذکر نام نہیں ملتا ۔

دوسرا دور:

ناول کے دوسرے دور کا  آغاز تقسیم ہند کے بعد ہو تا ہے اور اس کے موضوعات میں تنوع اور پلاٹ کی گہرائی ملتی ہے۔ یہ انتشار کا وہ دور ہے جب ہر طرف کہانیاں ہی  کہانیاں بکھری پڑی تھیں۔ یہی وہ زمانہ ہے جس میں ناول کو بہت پذیرائی ملی، اس کی وجہ یہ تھی کہ افسانہ قاری کی تشنگی کی تشفی نہیں کر سکا اور ناول نہیں قاری کی پیاس کو سیراب کیا۔ 1950 کے بعد ناول نگاری میں ان گنت نام ہیں جن کا چیدہ چیدہ تذکرہ ذیل میں کیا جائے گا۔

   احسن فاروقی کا ناول ” شامِ اودھ”، قراۃ العین حیدر کا ناول ” میرے بھی صنم خانے” اور عزیز احمد  کا ” ایسی بلندی ایسی پستی”  یہ تینوں ناول ایک نئے دور کاآغاز ثابت ہوئے۔ جن میں قراۃ العین حیدر  نے اردو ناول کو پوری دنیا میں مقبول کرایا۔

تیسرا دور:

تقسیم ہند کے بعد یہ وہ دور ہے جب ہر طرف افرا تفری ، تذبذب، اور بے یقینی کی کیفیت ہے۔ فساد برپا ہیں، مہاجرین در بدر ہیں۔ اسی لیے بہت سے ایسے ناول منظر عام پہ آئے جن کا واحد موضوع "فساد  اور اس کے اثرات” تھا۔ ان ناولوں میں، ” انسان مر گیا” راما نند ساگر کا، "رقصِ ابلیس” ایم اسلم کا، نسیم حجازی کا ” خاک اور خون” سر فہرست ہیں۔ یہ سب ناول 1947 کی آشوب ِ شب کی روداد ہیں۔  یہ ناول مشاہدات اور تجربات کا ملا جلا مرقع ہیں۔ جن میں انسانیت کے دل سوز، اور کرب ناک مناظر کی لفظی تصویر کشی کی گئی ہے۔  آزادی کے فوراً بعد کے ناولوں میں دربدری اور بسی کا نوحہ ہے ناول نگار ابھی اس تقسیم کے حوادث کو برداشت نہیں کر سکا۔

اس کے بعد بہت سے ایسے ناول  سامنے آئے جن کا موضوع قیام پاکستان کے بعد کے حالات کے مثبت ڈگر پر گامزن کرنے کی سعی تھا۔ لوگوں کو ایسی راہ دکھانے کا ارداہ کیا گیا جس میں امید اور خوشحالی کی پگڈنڈیاں ہوں، اور سکون کی ٖفصل کی جدوجہد کی گئی۔  ان ناول نگاروں میں، نسیم حجازی، ایم اسلم، احمد جعفری شامل ہیں۔  کچھ ناول ایسے بھی لکھے گئے جو اس وقت کے  پاکستان کی معاشی اور معاشرتی بدحالی کی تصویر کشی کر رہے تھے۔ ایم اسلم کے ناول، "فرنگن”، "انجام” اور "سیدھی لکیر ” شامل ہیں۔

راجندر سنگھ بیدی ناول نگاری کا ایک درخشاں ستارہ ہے۔ بیدی نے ایک ناول ” ایک چادر میلی سی”  1962 میں لکھا جس کا موضوع ذرا ہٹ کے تھا، اس میں پنجاب کی ایک ایسی رسم کی کہانی بیان کی گئی ہے جس میں شوہر کے مر جانے کے بعد دیور کی بھابی سے شادی کر دی جاتی ہے اور وہ ساری عمر اس میلی چادر کو اوڑھے زندگی گزار دیتی ہے۔  

قراۃ العین حیدر جدید اردو ناول کی سپہ سالار ہے۔ ان کا پہلا ناول ” میرے بھی صنم خانے” تقسیم ہند کے موضوع پہ لکھا گیا۔ اور ان کے دوسرے ناول ” سفینہ غم دل ” کا موضوع بھی بٹوارا ہی تھا۔ جیسا کہ اوپر ذکر کیا جا چکا ہے کہ یہ وہ دور تھا  جب غالب فکر تقسیم اور اس سے جڑے موضوعات تھے۔  

ڈاکٹر محمد احسن فاروقی ان کے ناولوں کے بارے میں لکھتے ہیں :

” 1959 میں ان کا ناول ” آگ کا دریا ” چھپا۔ اس کو وہ اپنی تمام تصانیف پر ترجیح دیتی ہیں اور ان کے نقادبھی اسے ان کا شاہکار ناول مانتے ہیں۔ یہ ورجینیا ولف کے ناول ” اور لینڈو” سے صاف طور پر متاثر ہے۔ اس مین بھی ایسے کردار لئے گئے ہیں جو کردار سے زیادہ اشارہ اور علامات ہیں اور ان کی زندگی گوتم کے زمانے سے آج تک جاری ہے۔ قراۃالعین حیدر  ورجینیا ولف سے تین باتوں میں آگے نکل جاتی ہیں۔ ایک یہ کہ ان کا ناول بڑا وسیع زمانہ گھیرتا ہے۔ دوسرے یہ کہ اس میں تنوع بہت زیادہ ہے اور تیسرے یہ کہ تعمیر میں انہو ں نے یہ کمال دکھایا ہے کہ ان کو جینیس کہنا پڑتا ہے۔”

قاضی عبدالستار بھی اپنے ناولوں کی وجہ سے بہت مشہور ہوئے۔ انہوں نے اودھ کے قدیم جاگیردانہ ماحول کی خوبصورت تصویر کشی کی ہے۔ وہ جس زمانے کی بات کرتے ہیں  زبان بھی اسے زمانے کی ہوتی ہے۔ ” شب گزیدہ” ، داراشکوہ”، ” صلاح الدین ایوبی”  اور ” حضرت جان” ان کے اہم ناول ہیں۔

قیام پاکستان کے بعد، فضل کریمی کا ناول” خون جگر ہونے تک” غیر منقسم ہندوستان کی تہذیبی، معاشرتی اور معاشی صورتحال کا احوال پہ مبنی ہے۔ اس ناول کا پس منظر بنگال کا قحط ہے۔ جس میں لاکھوں لوگ لقمہ اجل بن گئے۔  اس ناول کا ایک اقتباس ملاحظہ کیجیے:

” یکایک اس کی نظر ایک عورت کی لاش پر پڑی۔ بڑھیا با لکل ننگی تھی جسم پر ایک دھاگا بھی نہ تھا۔ ججیر باپ نے منہ پھیر لیا اور جلدی سے آگے بڑھ گیا۔ یکایک اسے خیال آیا کہ وہ بڑھیا ننگی کیوں تھی؟ ضرور کسی نے اس کے مرنے کے بعد اس کا کپڑا اتار لیا ہو گا ‘ بیچ کھانے کے لیے۔”

اوپندر ناتھ اشک کا ناول ” گرتی دیواریں” میں روزمرہ کی زندگی کو موضوع بنایا گیا ہے۔

سہیل عظیم آبادی، ناول کا ایک اہم نام ہے۔ وہ ترقی پسند تحریک سے متاثر تھے جس کااثر ان کے ناولوں میں بھی نطر آتا ہے۔ ” بے جڑ کے پودے” سہیل عظیم نے اس ناول میں زندگی کی ان سچائیوں سے پردہ اٹھایا ہے جس پر وقت کی دھول جم جاتی ہے۔ اس میں کھوکھلے قوانین، فرسودہ رسم و رواج اور زندگی کے نشیب و فراز  کو قاری کے لیے متاثر کن انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ المختصر اس ناول کا موضوع معاشرے کی کھلی منافقت اور دو غلا پن ہے۔

شین مظفر پوری کے بھی ناولوں میں ، اخلاقی گراوٹ ، گھریلو زندگی کی ناہمواریاں ، سماجی الجھنیں، معاشی نا آسودگی، ہندو مسلم فسادات، اور جنسی مسائل جیسے موضوعات اور نفسیاتی عناصر بکثرت ملتے ہیں۔ان کے ناول  1949 سے 1961 کے درمیان لکھے گئے یعنی یہ وہ دور ہے جب فسادات کے ساتھ ساتھ اب معاشرے کے دیگر معاملات کو بھی ناول کا موضوع بنایا  جانے لگا تھا۔

عبداللہ  حسین  کا نام ناول نگاری میں کسی تعارف کا محتاج نہیں۔  ” اداس نسلیں” ان کا ایک اہم ناول ہے اس میں انہوں نے انسانی نفسیات کا گہرائی سے مطالعہ کیا ہے۔  ڈاکٹر احمد صغیر لکھتے ہیں:

” عبداللہ حسین، انسانی دکھ سے پوری طرح  واقف ہی نہیں  بلکہ وہ اپنے ناول کے کرداروں کے غم میں برابر کے شریک نظر آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا قاری متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ اس ناول میں خاس طور پر متوسط  طبقے کی زندگی کی الجھنوں اور کشمکشوں کو تاریخی شعور کی روشنی میں پیش کیا گیا ہے۔”

کچھ ناقدین نے ” اداس نسلیں” کو قراۃ العین کے ناول ” آگ کا دریا” سے مشابہ قرار دیا ہے فرق صرف اتنا ہے کہ اس کا موضوع ماضی ہے اور "آ گ کا دریا” کا حال و مستقبل۔۔۔ عبداللہ حسین نے اپنے ناول میں تقسیم ہند سے پہلے 1914 سے 1947 کے واقعات کو پیش کیا ہے۔

 شوکت صدیقی نے اردو ادب کو ایک بڑا ناول دیا ہے ۔ ان کا ناول ” خدا کی بستی” 1959 میں شائع ہو۔ جس میں متوسط طبقے اور نچلے طبقے کے کرداروں  کو بنیا د بنا کر معاشرے کی تلخ  حقیقتوں کے چہرے سے نقاب  اٹھایا ہے۔ انہوں نے تقسیم ہند کے بعد پاکستانی معاشرت کو موضوع بنایا ہے ۔ ” خدا کی بستی” میں معاشرتی زندگی کی سچائیاں جس  طرح منعکس ہوئی ہیں اور تجربات کا جو پھیلاؤ نظر آتا ہے اس سے پریم چند کے ” گئودان” کی یاد تازہ ہوتی ہے۔ ان کا موضوع عام آدمی ہے۔ شوکت صدیقی نے تقسیم ِ ہند کو بھی اپنا موضوع بنایا ہے  لیکن انہوں نے حالات کو منفی کی بجائے مثبت انداز میں پیش کیا ہے۔

ممتاز مفتی کا ناول ” علی پور کا ایلی” ایک ضخیم ناول ہے  ۔ اس میں کرداروں کی نفسیات سے برتا گیا ہے۔ یہ ایک نفسیاتی ناول ہے۔ جس میں جنسی معاملات کی نفسیات کی گرہیں کھولی گئی ہیں۔  دراصل یہ  ناول ممتاز مفتی کی آپ بیتی کا افسانوی رنگ ہے۔

ایک اقتباس ملاحظہ ہو:

” ایلی میرے پیشاب  کے ایک قطرے سے بنا ہے۔ یہ سن کر ایلی کو غصے کے باوجود اپنے آپ میں پیشاب کی بو آنے لگتی ہے۔ ان حالات مین بھلا وہ زندگی کے مسائل کے متعلق خود سوچنے کی جرات کیسے کر سکتا ہے۔ اسے کیسے یقین آتا کہ کوئی عورت اس سے صحبت کر سکتی ہے۔ عورت پیشاب کے قطرے سے محبت نہیں کر سکتی۔ اس صورت میں ا سکے نزدیک شہرزاد کی قربت کی آرزو کرنا بھی جائز نہ تھا۔ اس کے خیال پر وہ چونک جائے کیونکہ اسے یقین تھا کہ اگر شہرزاد کو چھوا تو وہ میلی ہو جائے گی’ نا پاک ہو جائے گی۔ اسی وجہ سے ایلی کی خواہش تھی کہ وہ شہر زاد کو دور سے پیار کرتا رہے۔ "

اس کے بعد ناول ” الکھ نگری” ان کی اپنی زندگی کے سفر کی داستان ہے جس میں مذہب ، روحانیات کو موضوع بنایا گیا ہے۔  

رضیہ فصیح کا ناول ” آبلہ پا” ایک اہم ناول ہے۔ اس میں بھی آزادی کے بعد کے حالات کو پیش کیا گیا ہے۔ بالخصوص مغربی پاکستانی معاشرتی حالات اور کہیں کہیں غیر منقسم ہندوستان اور بٹوارے کے بعد پاکستان کی تہذیبی اور معاشرتی زندگی کے طور طریقوں کے امتیازات کو نہایت فنکارانہ انداز میں پیش کیا ہے۔

"آنگن”  1962 خدیجہ مستور کا بے حد دلچسپ ناول ہے۔ تقسیمِ ہند کا موضوع ہے۔ اس ناول میں پروفیسر احتشام نے لکھا ہے۔:

” اس میں تمام خوبیاں موجود ہیں جن میں جستجو ایک ذہن قاری یا نقاد کسی ناول میں کر سکتا ہے۔ کہانی کا ارتقاء بالکل فطری اور منطقی انداز میں ہو اہے۔ یعنی ناول کے ابواب مختصر افسانوں سے نہیں۔ ارتقاء کی مختلف کڑیوں اور منزلوں سے مرتب پاتے ہوئے منزل کی طرف بڑھتے ہیں۔ اسی میں  ناول نگاری کی تعمیری صلاحیت اور فنی قدر کا پتا چلتا ہے۔ خدیجہ مستور نے بڑی خوبصورتی سے اس پیچیدہ عمل کو فطری اور سُبک بنا دیا ہے۔”

حیات اللہ انصاری کا ناول ” لہو کے پھول ” 1969 میں شائع ہوا۔ اس کا موضوع بھی تقسیم ہند کا المیہ ہے اور اس کے بعد پیش آنے والے سماجی، سیاسی اور تہذیبی حالات و واقعات کو پیش کیا ہے۔

خواجہ احمد عباس کا ناول ” انقلاب ” میں انسان دوستی کا جذبہ نمایاں ہے۔ ان کے دوسرے ناول ” تین پہیے” میں طبقاتی نظام پہ تنقید کی گئی ہے۔

"بستی” 1980 انتظار حسین کا اہم ناول ہے جس میں جلا وطنی کا درد ہے، مہاجرین کے المناک مسائل کو پیش کیا ہے۔ انتظار حسین کا موضوع  ہجرت اور اس سے پیدا شدہ مسائل ہیں۔ ابنِ صفی اور ظفر عالم نے نے جاسوسی ناول لکھ کر ناول  کے قارئین کا ایک بڑا حلقہ پیدا کیا۔

علیم مسرور نے اپنی زندگی میں صرف ایک ناول ” بہت دیر کردی” لکھا یہ ناول 1972 میں شائع ہوا جس کا موضوع طوائف کی زندگی اور ایک شریفانہ زندگی میں بسر کرنے کی خواہش ہے۔ جیلانی بانو کا ناول ” ایوان غزل ” 1976 میں شائع ہوا۔ یہ ناول آزادی سے قبل اور آزادی کے بعد تک کے چند برسوں کی حیدر آباد کی تہذیب و ثقافت کی حقیقی عکاسی کرتا ہے۔ اس ناول میں ریاست حیدر آباد کے زوال پذیر جاگیردانہ معاشرے میں پیدا شدہ حالات و مسائل کو موضوع بنایا گیا ہے۔ اس طرح ناول کا کینوس حیدر آباد کے ٹوٹتے بکھرتے جاگیردانہ نظام اور تہذیبی اقدار کی داستان پر محیط ہے۔

بانو قدسیہ کا ناول ” راجہ گدھ” 1981 میں شائع ہوا۔ اس ناول کا موضوع حرام اور حلال کے فلسفے پہ مبنی ہے۔اور اس ناول کا دوسرا  پہلو عشق لا حاصل کی تلاش ہے۔ اور بلاشبہ یہ ان کا لازوال ناول ہے اور یہ ایک علامتی ناول ہے۔ جس میں اسطوری انداز بیان اپنایا گیا ہے۔

الیاس احمد گدی نے اپنی زندگی میں صرف ایک ناول لکھا ” فائر ایریا” جو 1994 میں شائع ہوا ۔ اس ناول میں چھوٹا ناگپور میں کوئلے کی کانوں میں کام کرنے والے ان مزدوروں ‘ کان مالکوں’ سرکاری افسروں اور دلالوں کی حقیقی کہانی کو پیش کیا گیا ہے۔

جو عام لوگوں کی نظروں سے اوجھل رہتی ہے۔پس ماندہ طبقے کا استحصال، مزدور لیدر کی خرید و فروخت، حق تلفی، سیاست، مزدور کی دکھ بھری زندگی سب کچھ اس میں موجود ہے جسےالیاس احمد گدی نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے اور اسے مشاہدے کی بھٹی میں تپا کر ناولوں کی شکل میں پیش کیا ہے۔ ” فائز ایریا” کا موضوع ایک مسلسل نا انصافی اور استحصالی کا وہ آئینہ ہے جسے الیاس احمد گدی دکھانا چاہتے ہیں۔  

عبدالصمد  کاناول ” دو گز زمین”  1988 میں شائع ہوا۔ اس ناول میں شیخ الطاف حسین کے گھرانے کو حوالے سے ہندوستان، پاکستان، اور بنگلہ دیش تینوں ملکوں کے سیاسی بحران کو پیش کیا گیا ہے۔ اقبال مجید کے اب تک دو ناول ” کسی دن” اور "نمک” میں منظر عام پر آ چکے ہیں۔ "کسی دن” ایک سیاسی، سماجی ناول ہے جس میں انسان پیچیدگیوں کو بیسویں صدی کے نصف آکر کی سیاسی فضا میں پیش کیا گیا ہے۔ جبکہ ” نمک” بیسیویں صدی کی پہلی اور دوسری دہائی میں لکھنو کی تہذیب و معاشرت سے شروع ہو کر بیسویں صدی کے آخری عشرے کی مادی تہذیب پر ختم ہوتا ہے۔ اور نئی نسل کی نے نمک لامرکزیت کی تصویر بھی دکھائی ہے۔

ساجد زیدی کے ناول ” مٹی کے حرم” میں زندگی کی کشمکش، آرزوں ، محبتوں، تنہائیوں، اور محرومیوں کو پیش کیا گیا ہے۔ بدلتے رشتے’ اقدار کی پامالی اور انسان کے روحانی کرب کا یہ ناول ایک المیہ ہے۔ متوسط طبقے کے مسائل و سماجی طبقاتی نا ہمواری کے خلاف احساس کی تپش اور روح کی تڑپ ہے لیکن یہ ناول مقبول  نہ ہو سکا۔

المختصر، قراۃ العین حیدر سے لے کر عمیرہ احمد تک اور  بانو قدسیہ سے لے کر مرزا اطہر بیگ تک ، ناول کے موضوعات میں تین طرح کے رجحانات ملتے ہیں۔

۔وسطی ہند اسلامی تہذیبی و تاریخی اثرات

۔اندس تہذیب و تاریخ کے اثرات

۔قیام پاکستان کے بعد کی عمومی پاکستانی صورتحال

وسطی ہند اسلامی تہذیبی و تاریخی اثرات

وسطی ہند کے رجحان کے زیرِ اثر لکھنے والوں میں قراۃالعین حیدر، احسن فاروقی، انتظار حسین اور شوکت صدیقی شامل ہیں۔ اردو ناول میں وسطی ہند کی تہذیبی  بازیافت بالخصوص ان ناول نگاروں میں زیادہ ہے جو ان علاقوں سے ہجرت کر کے پاکستان آئے تھے۔ کیونکہ یہ تہذیب ان کے لاشعور میں رچ بس گئی تھی۔

اندس تہذیب و تاریخ کے اثرات

ناول کے جس دوسرے رجحان کی بات کی گئی ، جس کا تعلق موجودہ پاکستان کے ان علاقوں سے ہے جنہیں ہم اندس وادی کے نام سے جانتے ہیں۔ اس رجحان کے زیرِ سایہ لکھنے والوں میں وہ ناول نگار شامل ہیں جن کا ان علاقوں سے تعلق رہا ہے۔ جن میں نمائندہ نام مستنصر حسین تارڈ اور مرزا اطہر بیگ کے ہیں۔ تارڈ کے دونوں ناول ” بہاؤ” اور  ” راکھ” اسی رجحان کی نمائندگی کرتے ہیں۔

سندھ ساگر اسلامی تہذیبی امتزاجی رجحان کا ایک اور اہم نام مرزا اطہر بیگ ہے ان  کا ناول ” غلام باغ” ہے۔ یہ اکیسویں صدی کا سب سے اہم ناول ہے۔ ناول کا موضوع فرد اور تہذیب کے مابین کشمکش ہے۔ مصنف کا نقطہ نظر یہ ہے کہ نئی مادی ضرورتوں نے قدیم بر تر تہذیبوں کو اس طرح بے شکل کیاہے کہ اب ان کی جگہ تہذیبی تناظر میں کہیں بھی موجود دکھائی نہیں دیتی۔  مرزا اطہر بیگ کے ہاں  ما بعد جدید فکر صاف نظر آتی ہے۔

قیام پاکستان کے بعد کی عمومی پاکستانی صورتحال

ناول کا تیسرا رجحان پاکستانی سماج کو درپیش مسائل اور ان کا بیان ہے۔ اس رجحان کو پاکستانیت کا شعور بھی کہا جاسکتا ہے۔ اردو کے تمام لکھنے والے اس کا حصہ ہیں۔ انتظار حسین سے لے کر محمد الیاس تک ۔۔۔قیامِ پاکستان کے بعد اکثر لکھنے والوں نے خالصتاً پاکستانی مسائل کو ناول کا موضوع بنایا ہے۔ اور ان کے حل کی راہیں متعین کرنے کی سعی کی ہے۔ قیامِ پاکستان کے بعد فساد کے نتیجے میں پیدا ہونے ولاے حالات و واقعات بھی اس وقت لکھنے والوں کی تحریروں کا لازمی جزو رہے ہیں۔

جبر کے دور میں جو ناول لکھے گئے ان میں استحصال ، بے حسی اور غیر جمہوری روایات کو موضوع بنایا گیا لیکن اس کا اظہار علامتی طور پر کیا گیا۔ "انور سجاد کا ” خوشیوں کا باغ” اور فہیم اعظمی کا ” جنم کنڈلی” اہم ناول ہیں۔

اکیسویں صدی میں اب تک چند اہم ناول لکھے جا چکے ہیں۔ لیکن ان ناولوں میں کوئی مجموعی رجحان کی نشاندہی کرنا مشکل ہے۔ ان ناولوں کے عمومی موضوعات میں، آزادی اظہار کے مسائل، سرمایہ دارنی نظام، تیسری دنیا کے ممالک کی صورتحال، خوف، انتہا پسندی، دہشت گردی، طبقاتی تقسیم ، بے معنویت وغیرہ ہیں۔

الغرض ، اردو ناول کا دامن بہت وسیع اور کشادہ ہے۔  اور نئے آنے والے بھی اس  میں اپنا حصہ بقدر ڈال رہے ہیں۔

شاعری پڑھیں:

کتابیات

۔ احمد صغیر، ڈاکٹر . اردو ناول کا تنقیدی جائزہ 1980 کے بعد, ایجوکیشنل پبلیشنگ ہاوس. دہلی   2015

۔ وقار عظیم, داستان سے افسانے تک،

  ۔ ، احسن فاروقی،ڈاکٹر , اردو ناول  کی تنقیدی تاریخ

۔ ، نورالحسن نقوی, تاریخ اردو ادب

۔ اردو ناول کی تخلیق، تنقید اور حلقہ ارباب ذوق، کامران کاظمی، ایک روزن، 28-6-2016

۔ انیس ناگی, پاکستانی اردو ادب کی تاریخ, جمالیات پبلیشر , لاہور 2004

Related link:اردو کا افسانوی ادب

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top