تحقیق و تنقید: علی احمد

meera ji

تعارف:

میرا جی آریائی نسل کشمیری پنڈت تھے۔میرا جی کا خاندان زراعت اور کاروبار کے باعث خاصا متمول تھا اور اس خاندان میں تعلیم حاصل کرنے کا بھی رواج تھا۔ میرا جی کے آباؤ اجداد کشمیر سے ہجرت کر کے گجرانوالہ کے ایک گاؤں اٹارہ میں آباد ہو گئے تھے۔ میرا جی کے والد نام منشی مہتاب الدین تھا جو محکمہ ریلوے  لاہورمیں ٹھیکے دار تھے۔ ایک بار انہیں کافی نقصان اٹھانا پڑا اور ان کا یہ کام ختم ہو گیا۔ شاہد احمد دہلوی کے مطابق بعد میں وہ  ریلوے میں ‘ برج انسپکٹر’ ہو گئے۔

وہ نوکری کے سلسلے میں گجرات میں بھی تعینات رہے۔  میرا جی کے والد شعرو ادب سے بھی شغف رکھتے تھے اور کبھی کبھار شعر بھی کہہ لیتے تھے۔ وہ ایک مذہبی انسان تھے لیکن اپنے بچوں پہ کبھی اس کے لیے دباؤ نہیں ڈالا اسی لیے گھر کے ماحول میں مذہب کا عمل دخل کم کم نظر آتا ہے۔ وہ مزاج کے غصیلے انسان تھے جس کا اثر ان کے بچوں کی شخصیت پہ پڑا۔

میرا جی کی والدہ کا نام زینب سردار تھا۔ جو ان کے والد کی زوجہ ثانی تھیں۔  ان کے والد اور والدہ کی عمر میں کافی فرق تھا۔  وہ ایک حسین مگر تند مزاج خاتون تھیں۔  شاید یہی وجہ تھی کہ ان کے درمیان کبھی خوشگوار تعلق نہ بن سکا۔ میرا جی کو اپنی والدہ سے بڑی محبت تھی اور وہ اپنی والدہ کو مظلوم تصور کرتے تھے۔  اور والد سے ان کے اچھے تعلقات نہیں رہے۔ وہ ماں  سےانسیت کے باوجود ااپنی والدہ سے گریزاں رہتے تھے۔

اصل نام اور ابتدائی تعلیم:

میرا جی کا اصل نام محمدثنا اللہ  ثانی ڈار تھا اور ان کی پیدائش 25 مئی 1912 کو لاہور میں ہوئی۔  آپ کے والد کی نوکری گجرات میں تھی اس لیے آپ کا بچپن بھی گجرات کے قدرتی مناظر میں گزرا۔محمد ثنا اللہ دار جو ابھی میرا جی نہیں ہوئے تھے ۔ اپنی ابتدائی تعلیم کا آغاز گجرات کے ایک قصبے کے پرائمری سکول سے کیا جہاں سے آپ نے پانچویں تک تعلیم حاصل کی۔

کچھ عرصہ بعد ان کے والد کا تبادلہ سکھر ہو گیا تو وہ لاہور آگئے اور یہیں سے آٹھویں جماعت کا امتحان پاس کیا۔  اوائل عمری سے ہی میرا جی کو مطالعہ سے بہت شغف تھا۔ وہ نفسیات، تاریخ، سوانح۔ ادب، مابعدالطبعیات اور فلسفہ کے موضوعات میں کافی دلچسپی رکھتے تھے۔ ان کا زیادہ تر جیب خرچ کتب کی خریداری میں صرف ہوتا۔ میرا جی کے پڑھائی کے شوق کے ضمن میں مولانا صلاح الدین نے لاہور کی لائبریری کے ایک پنڈت کا قول نقل کیا ہے:

"میں نے اپنی پچاس سالہ ملازمت کے دوران کتابوں کے بڑے بڑے کیڑے دیکھے لیکن مطالعہ کا جو ذوق و شوق اس لمبے بالوں والے لڑکے میں دیکھا اس کی مثال میرے حافظے میں موجود نہیں۔”

ہر چند کے کتاب میرا جی کی ساتھی تو ضرور رہی لیکن درسی کتب سے کچھ اللہ واسطے کا بیر رہا۔ نویں کا امتحان مزنگ ہائی سکول لاہور سے پاس کیا۔ لیکن جب وہ میٹرک میں آئے تو ان کی نظر ایک بنگالی دوشیزہ ‘میراسین’ پڑی۔نا جانے ثنا اللہ نے اسے کس عالم میں دیکھا کہ میرا جی بن گئے۔  بس پھر کیا تھا میٹرک کے امتحان  میں تو بیٹھے لیکن بس رولنمبر لکھ کر چلے آتے اب اس صورت میں پاس ہونے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ فیل ہونے پہ والد بہت ناراض ہوئے اور پڑھائی منقطع ہو گئی۔  پھر انہیں ہومیو پیتھک کی تعلیم دلانے کی کوشش کی ۔ میرا جی نے اس سے واقفیت تو حاصل کر لی لیکن  اسے اپنا ذریعہ معاش نہیں بنایا۔

میرا جی داستانِ عشق:

میرا جی کی داستانِ عشق، اردو ادب کی ایسی کہانی ہے جس کا اصل سرا ہاتھ نہیں آتا۔ جتنے راوی ہیں اتنی کہانیاں۔۔۔ اس لیے یہاں اس کا ذکر کروں گا جو زیادہ مستند مانی جاتی ہے۔ ادب کا قاری جب میرا جی کو پڑھنے کا آغاز کرتا ہے تو سب سے پہلے اس کی توجہ میرا جی کے ‘عشق’ اور وضع قطع پہ جاتی ہے۔ میرا سین جو ایک بنگالی دوشیزہ تھی۔ کچھ کہتے ہیں وہ ان کے پڑوس میں رہتی تھیں ۔اور ‘میرا سین’ ایف سی کالج میں پرھتی تھیں۔ میرا جی کا عشق یک طرفہ تھا ان کی کبھی آپس میں بات نہیں۔ لیکن نا جانے کب میرا جی نے میرا سین کو کس عالم میں دیکھا ہو گا کہ اس قدر وارفتہ ہوئے کہ اسی نام  سےجانے گئے۔  حسن عسکری کہتے ہیں کہ:

"ایک دن کوئی بنگالی لڑکی ان کے سامنے سے گزری۔ دوستوں نے یونہی مذاق میں کہہ دیا کہ یہ ہے ان کی محبوبہ۔دو چار دن لڑکوں نے میرا کا نام لے کر انہیں چھیڑا اور وہ ایسے ہی بنے رہے جیسےواقعی  چڑ رہے ہوں، پھر جب انہوں نے دیکھا کہ دوست انہیں ایک افسانہ بنا دینا چاہتے ہیں۔ تو بے تامل بن گئے۔ اس کے بعد ان کے ساری زندگی اسی افسانے کو نبھاتے ہوئے گزری۔”

ایک بار میرا جی نے میرا سین  سے بات کرنے کی کوشش کی لیکن  ناکام رہے اور اس کی غضبناک نظروں کو برداشت نہ کر سکے۔ اور ایسی دیوانگی کی کیفیت پیدا ہوئی کہ اس کوچے کے چکر لگانے لگے۔ میرا جی خود کہتے ہیں کہ اس واقعے کے بعد  مجھ پہ جنون طاری ہو گیا۔  میرا سین کے علاوہ کوئی تصور اس کے ذہن میں نہ آتا تھا ۔ یہی وجہ بنی کہ ثنا اللہ نے اپنا نام میرا جی رکھ لیا ۔ پھر وہ خود کہتے ہیں کہ یہ نام رکھنے کے بعد مجھے سکون نصیب ہوا اور میں کتب بینی کی جانب دوبارہ راغب ہوا۔  بعد میں ن ۔م راشد نے ان کو ادبی گاندھی کا لقب بی  دیا۔

میرا جی ایک عرصے تک تو میرا سین کے عشق میں گرفتار رہے لیکن  دہلی اور ممبئی آنے کے بعد ان کے اور بھی بہت سے عورتوں سے تعلق رہے۔لیکن کسی سے بھی معاملہ آگے نا بڑھ سکا۔ جنسی تسکین کی غرض سے وہ خود لذتی میں بھی پڑے رہے۔ شراب کی عادت نے ان کی صحت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا۔  ان کی شخصیت میں ایک تضاد واضح ہے وہ  جسمانی لذت کی انتہائی گھٹیا سطح پہ بھی رہتے ہیں اور روحانی لطف کے جستجو بھی کرتے ہیں۔

ملازمت:

میرا جی نے گھر کے نا مساعد حالات کو دیکھتے  ہوئے مولانا صلاح الدین کے  جریدے ادبی دنیا میں ملازمت کر لی۔ وہ وہاں نائب مدیر ہوئے اور  30 روپے تنخواہ مقرر ہوئی۔  حالانکہ میٹرک بھی نا کر پائے تھے لیکن کتب بینی کے شوق میں وہ اردو انگریزی ہر طرح کا ادب پڑھ کے اس قابل ہو گئے تھے کہ باقاعدہ تعلیم  کی کمی ان کے آڑے نا آ سکی۔  میرا جی 1938 سے 1941 تک ‘ادبی دنیا’ سے منسلک رہے۔ اس کے بعد میرا جی مالی تنگدستی سے بہت پریشان تھے کہ محمود نظامی کے توسط سے ریڈیو اسٹیشن لاہور پہ کام مل گیا۔ اس کا فائدہ یہ بھی ہوا کہ لباس ڈھنگ کا پہننے لگے اور کچھ طور اطوار میں بہتری کی گنجائش پیدا ہوئی۔

   اس کے بعد میرا جی محمود نظامی کے ساتھ دہلی آئے اور آل انڈیا ریڈیو دہلی سے 1042 سے 1945 تک وابستہ رہے۔ 1945 میں محمود نظامی کے ساتھ ممبئی چلے گئے جہاں فلمی دنیا میں کام کی تلاش میں سرگرداں رہے کچھ کام ملا بھی لیکن زیادہ کامیابی نہ ہو سکی۔ اسی دوران اخترالایمان نے 1948 مین ادبی جریدہ ‘خیال’ نکالا اور میرا جی کو ماہوار سو روپے پر مدید مقرر کیا۔ یہ جریدہ 1949 تک چلتا رہا۔

میرا جی کا حلیہ میرا سین سے عشق کے بعد نا گفتا بہ ہو گیا۔ وہ کئی کئی دن کپڑے نہ بدلتے۔ ہمیشہ گندے مندے رہتے۔ لیکن رشید امجد کا خیال ہے کہ یہ سب میرا سین کے عشق کا نتیجہ نہیں تھا بلکہ ان کی خاندانی الجھنوں نے بھی اس حساس انسان کو گزند پہنچائی تھی۔  میرا جی کی شخصیت میں ڈرامہ کا عنصر بہت زیادہ تھا۔ انداز ایسا  ہوتا کہ سب متوجہ ہو جاتے۔  میرا جی پیسوں کے معاملے میں مروجہ سود وزیاں سے یکسر ماورا تھے۔

شراب نوشی کی بہتات کی وجہ سے میرا جی کو اسہال ہو گئے۔ اور ڈاکٹروں سے جگر کے مرض کو بھی سنگین قرار دیا لیکن  میرا جی نہ تو دوا وقت پر کھاتے اور نہ ہی پرہیز کرتے۔  اس لیے ان کے علاج کے لیے سائیکوتھریپی شروع کی گئی لیکن یہ طریقہ علاج انہیں پسند نہیں آیا ۔ اور اخترالایمان سے کہا :

"اختر، دیکھو یہ لوگ مجھ سے میرے ‘کمپلیکس’ نکالنا چاہتے ہیں مگر میں ایسا نہیں چاہتا۔ میں ایسا نہیں ہونے دوں گا۔ یہ نکل گئے تو کیسے لکھوں گا، کیا لکھوں گا، یہ’کمپلیکس’ ہی تو میری تحریریں ہیں۔ "

آخر 3 نومبر 1949 کو عمر بھی بے قرری کا قرار آگیا۔ اور ان کو میرن لائن قبرستان ، ممبئی میں دفن کر دیا گیا۔اخترالایمان نے قیوم نظر کے نام خط میں لکھا ہے:

” 3 نومبر کی رات میں بیٹھا کھانا کھا رہا تھا کہ اسپتال والوں کا تار ملا۔ میں کھانا چھوڑ کر نجم نقوی اور اپنے ہم زلف کو ساتھ لے کر ہسپتال پہنچا۔ ان کی لاش کو دیکھا۔ ان کی صورت پر وہی عظمت وہی محبت، وہی معصومیت، وہی اطمینان و سکون تھا اور نگاہوں کو کسی بھی طرح یقین نہیں آرہا تھا کہ میرا جی ہم سے رخصت ہو گئے ہیں۔”

تصانیف: شاعری

میرا جی کے گیت، مکتبہ اردو لاہور ، 1943

میرا جی کی نظمیں ، ساقی بک ڈپو دہلی، 1944

گیت ہی گیت، ساقی بک ڈپو دہلی، 1944

پابند نظمیں، کتاب نما، راولپنڈی، 1968

تین رنگ، کتاب نما، راولپنڈی، 1968

کلیاتِ میرا جی، مرتبہ ڈاکٹر جمیل جالبی، اردو مرکز لندن، 1988

تنقید

مشرق و مغرب کے نغمے: تنقید و تراجمِ شاعری، اکادمی پنجاب ٹرسٹ، لاہور 1958

اس نظم میں: ساقی بک ڈپو دہلی، 1944

تراجم

نگارخانہ، مکتبہ جدید لاہور،  1950

خیمے کے آس پاس(عمر خیام کی رباعیات کا ترجمہ)، مکتبہ جدید، لاہور، 1964

یہ شاعری بھی پڑھیں:

میرا جی کی نظم

میرا جی کی شخصیت کو سمجھنے کیلیے صرف ان کے جنسی  عوامل کا سہارا لیا گیا ہے ان کی ذات تک اترنے کی سعی نہیں کی گئی ہر شاعر، تخلیق کار اپنے ذات کے جبر سے  گزر رہا ہوتا ہے۔ لیکن میرا جی کے حوالے سے ان کی شاعری پہ جتنے بھی تبصرے کیے گئے ان میں جنسی رنگ ڈھونڈنے کی کاوش ملتی ہے حالانکہ یہ آدھا سچ ہے۔ دراصل انہوں نے خود ہی اپنی شخصیت کا اس قدر کھل کے اظہار کیا ہے کہ ذات کہیں دب سی گئی ہےان کی رائے ہے:

” موجودہ صدی کی بین الاقوامی کشمکش نے جو انتشار نوجوانوں میں پیدا کر دیا ہے وہ بالخصوص میرا مرکز نظر رہا  اور آگے چل کر جدید نفسیات نے اس تمام پریشاں خیالی کو جنسی رنگ دے دیا ہے۔  مطالعے کے لحاظ سے اس زمانے میں نہ صرف مغربی ادبیات نے میری رہنمائی کی بلکہ مغربی تفکرات اور صدیوں کے اثاثے سے بیگانگی رہی۔ ویشنو خیالات نے نہ صرف مذہبی لحاظ سے اپنا نقش چھوڑا بلکہ اس کی ادبی روایات بھی کچھ اس انداز سے بروئے کار آئیں کہ دل و دماغ ایک جیتا جاگتا ‘برندا بن’ بن کے رہ گیا۔”

میرا جی کے نزدیک صرف دو زمانوں کا تصور ہے ماضی اور حال، یہی وجہ ہے کہ ان کی نظموں میں دیو مالائی عناصر کی خوب عکاسی ملتی ہے۔  میرا جی تمام عمر اپنے ذات کے خول سے باہر نہ آ سکے۔ ان کی نظموں میں اس لیے اجتماعی احساس کا فقدان ہے لیکن ایک بات تسلیم شدہ ہے کہ وہ ذہین اور دوررس تھے اور دوسری اہم شے کہ ان کی شاعری میں جنسی میلان و محرکات کی پیش کش ہے۔  ان کی نظم ‘ نامحرم ‘ سے ایک ٹکڑا:

” ایک مکان کی اونچی بام کے نظارے میں

اک دوشیزہ پہنے ہے پیرہن نفاست کا

چست انگیا اور ساری جسم کو چھپاتی ہے

اور دھیرے دھیرے سے اک شراب خانے میں

تنہا اور کھوئی سے مے کشوں کے جھڑمت میں

دود شمع محفل میں نکہتوں کے جھمگٹ میں”

میرا جی کے ہاں جو عورت کا یک تصور ہے وہ ایک زرخیز زمین کا سا ہے۔ یہ عورت دوسری عورت بھی ہو سکتی ہے غیر منکوحہ عورت سے مرد کا ناجائز رشتہ میرا جی کے نزدیک باعثِ ندامت نہیں۔ یعنی میرا جی نزدیک ناجائز طریقے سے پیدا ہونے والی اولاد بھی کسی نعمت سے کم نہیں۔  میرا جی اس رجحان کے حوالے سے ڈاکٹر وزیر آغا لکھتے ہیں:

"عورت اور مرد کی محبت میں جنسی پہلو کی نمو، ناجائز جنسی تعلقات اور ان کے سراہنے کی روش میرا جی کی نظموں میں عام ہے۔ مثلاً میرا جی نے ناجائز محبت کے ضمن میں عام سماجی رد عمل کو قطعاً نظر انداز کر دیا ہے۔”

نظم "حرامی” کا یک ٹکرا دیکھیے:

قدرت کے پرانے بھیدوں میں جو بھید چھپائے چھپ نہ سکے

اس بھید کی تو رکھوالی ہے

یہ سکھ ہے، دکھ کا گیت نہیں کوئی ہار نہیں کوئی جیت نہیں

جب گود بھری تو مانگ بھری، جیوان کی کھیتی ہو گی ہری

جو چاہے ریت کی بات کہے، ہم پیت ہی کے متوالے ہیں”

 کوثر مظہری کے خیال میں:

” میرا جی کے نزدیک جنسی عمل مذہب سے الگ کوئی چیز نہیں، یہی نظریہ ویشنو مت کا بھی ہے۔ لہذا یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ میرا جی کا تہذیبی تناظر جنسی رجحان کے بغیر نا مکمل ہے۔ "

اس پہ میرا جی کہنا ہے :

” جنسی فعل اور اس کے متعلقات کو میں قدرت کی بڑی نعمت اور زندگی کی سب سے بڑی راحت اور برکت سمجھتا ہون اور جنس کے گرد جو آلودگی تہذیب و تمدن نے جمع کر رکھی ہے وہ مجھے ناگوار گزرتی ہے اس لیے ردعمل کے طور پر دنیا کی ہر بات کو جنس کے تصور کے آئینے میں دیکھتا ہوں جو فطرت کے عین مطابق ہے اور۔۔۔ جو میرا آدرش ہے۔”

میرا جی کی نظم موضوع اور اسلوب ہر دو سطح پر مروجہ نظم سے  انحراف کرتی ہے۔ وہ اس فطرت کے اظہار کے قائل نہیں جو ورڈزورٹھ کے ہاں ملتی ہے بلکہ وہ فطرت انسانی پہ زیادہ توجہ دیتے ہیں۔

میرا جی شاعری کو عام طور پر علامتی اور استعاراتی سمجھا جا تا ہے لیکن ان کی شاعری کی اساس حرکی منظر ناموں پر ہے۔

اس نوع کی چند مثالیں پیش ہیں:

میں دھندلی نیند میں لیٹا تھا سو پردوں سے جاگ اٹھی

ہلکے ہلکے بستی آتی اور چھائی میٹھی خوشبو سی

باریک دوپٹہ سر پر لیے اور آنچل کو قابو میں کیے

چنچل نینوں کو اوٹ دیے شرمیلا گھونگھٹ تھامے تھی

(اجنبی انجان عورت رات کی)

چاند خاموش ہے فضا خاموش

راہ خاموش ہے ہوا خاموش

سارے عالم پہ چھائی ہوئی خاموشی

نیند کی پر سکون بے ہو شی

(اغوا)

اس شہر کا سونا رستہ مجھ کو دھارا ہے ندی کا

ہر راہ سے یاد تڑپ کے ابلتی ہے پہلی سکھ بیتی

شوبھا ہے اونچے محلوں کی ہر راہ کے دو کناروں پر

اک منظر نغمہ بنتا ہے میرے ساز دل کے تاروں پر

منظر ہے محل کا رستے کا، رستے پہ پریمی جاتا ہے

چھت پر پیرہن لٹکا ہے، لہراتا ہے، بل کھاتا ہے

اور سورج اپنے نور کے پیراہن کو سایہ بناتا ہے

دل گیت بھون کے ساگر کی سندرتا میں کھو جاتا ہے

(محبوبہ کا سایہ)

میرا جی نے ایک ایسی شعری فضا تخلیق کی ہے  جس میں تخاطب کا انداز ہے۔ میرا جی یوں بھی شاعری کو عمل گردانتے تھے۔ اکثر نظمیں منظوم مکالمہ کی صورت میں سامنے آتی ہیں:

"گجرات کے ہو؟ کیا تم سے کہوں ، پردیسی کو دھتکارتے ہیں اس دیس میں جس کے تم ہو اور میں

انگشت سے خاتم دور ہوئی، کیا تم سے کہوں اب پہلی چمک باقی ہی نہیں اب ٹوٹ چکا وہ

نقش حسیں اوجھل ہے نگاہوں سے وہ نگیں۔”

(ریل میں)

مجھ کو تسلیم ہے اے ہمدم افسانہ طراز

چاک آنکھوں کے سل سکتے ہیں

نیند آسکتی ہے اب بار تصور سے مجھے

جیب و دامان میں مگر دوری ہے

تو سمجھ سکتا نہیں ہے یہ بات؟

جیب تو میری ہے، دامن اس کا

(ہندی جواں)

آج تو بدلہ لیا ہم نے نگاہوں سے چھپے رہنے کا

آج تو آنکھ ، اس پھول کر دیکھا ہم نے

جیسے پتوں کا نقاب

اپنے ہاتھوں میں لیے رہتا تھا

(برقعے)

میرا جی کی نظموں میں بصری پیکر فنکارانہ شعور کے ساتھ استعمال ہوئے ہیں۔

چند مثالیں ملاحظہ کیجیے:

لو ناچ یہ دیکھو، ناچ ، پوتر ناچ کی اک دیو داسی کا

دھیرے دھیرے ہوا ہے سایہ میرے دل سے دل کی ادسی کا

تول تول کر پاؤں رکھتی ہے ہلکے ہلکے، ایسے میرا من چاہے

بن کر چند اکا اجیالا اس دھرتی پہ بجھ جائے

میں پتھریلے کھمبے کے پیجھے چھپ کر اس کو دیکھو

(دیوداسی اور پجاری)

میرا جی آزاد نظم  کے بنیاد گزاروں میں سے ہیں۔ انھوں نے راشد اور تصدق حسین خالد، قیوم نظر وغیرہ کے ساتھ اردو میں ایسی نظمیں لکھنا شروع کیں جو قافیہ اور ردیف کی روایتی جکڑ بندیوں سے آزاد ہیں۔ راشد نے اپنے ایک مضمون میں اپنے اور میرا جی کے بارے میں لکھا ہے:

” جدید شاعروں میں جنھوں نے آزاد نظم کی ترویج کی ہے۔ تصدق حسین خالد اور میرا جی کے نام خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ یہ دونوں نہ صعف مصرعوں کے ارکان کی مقررہ تعداد اور قافیہ کی پرواہ نہیں کرتے بلکہ مصرعوں کو ایک دوسرے سے ملاتے چلے جاتے ہیں۔ تاکہ ایک مصرعہ کی معنوی تصویر دوسرے کی معنوی تصویروں سے مل کر گھلتی چلی جائیں  اور آخر تک پہنچتے پہنچتے ایک ہم آہنگی سی محسوس ہونے لگے۔”

میرا جی  کی نظموں میں ایک مصرع کا خیال دوسرے مصرعے میں مکمل ہوتا ہے۔

جس شخص کے ملبوس کی قسمت میں لکھی ہے

کرنون کی تمازت

رشک آتا ہے مجھ کو

اس پر

(دھوبی گھاٹ)

انھوں نے اپنی بعض نظموں میں رادھا اور کرشن کے حوالے سے تخلیق کائنات کو پیش کیا ہے۔ میرا جی کے نزدیک تاریکی دراصل تخلیق اور نمو کی ضامن ہے۔ میرا جی کی ایک بدنام نظم ” دکھ دل کا دارو” ملاحظہ کریں۔

سفید بازو

گداز اتنے

زبان تصور میں حظ اٹھئے

اور انگلیاں بڑھ کے چھونا ہیں، مگر انھین برق ایسی لہریں

سمٹی مٹھی کی شکل دے دیں

سفید  بازو گداز اتنے کہ ان کو چھونے سے یک جھجک روکتی چلی جائے ، روک ہی دے

اور ایسے اھساس اپنی خاصیتیں بدل کر

تمام ذہنی رگوں کے تاروں کو چھیڑ جائیں

اور ایک سے ایک مل کے سب تار جھنجھنائیں

اور ایک جھنجھلا کے کروٹین لیتی گونج کو نیند سے جگائیں

اور ایسے بیدار ہوں اچھوتے عجب جذبے

میں ان کو سہلاؤن اتنی شدت سے چٹکیاں لوں کہ سیمکوں سطح عکس بن جائے نیلگوں بحر کراں کا

اور اس طرح دل کی گہری خلوت میں ایسی آشنائیں کروٹیں لیں

کہ ایک خنجر

اتاردوں میں چبھا چبھا کر

سفید، مر مرے مخملیں جسم کی رگوں میں

اور ایک بے بس، حسیں پیکر

مچل مچل کر تڑپ رہا ہو

مری نگاہون کے دائرے میں

رگوں سے خون کی ابلتی دھاریں

نکل نکل کر پھسل رہی ہوں، پھسلتی جائیں

سفید مر مرے سے جسم کی چاند رنگ ڈھلوان سے ہر یک بوند گرتی جائے

لپٹی جائے ادھورے، بکھرے ہوئے ریشاں لباس کی کشک و تر تہوں میں،

اور ایک بے بس، حسیں عورت کے آنسوؤں میں

میری تمنائیں اپنی شدت سے تھک تھکا کر

رجیب تسکین اور ہلکی سی نیند کے یک سیاہ پردے میں چھبتی جائیں

سیاہ پردہ وہ رات کا ہوا۔”

(دکھ دل کا دارو)

میرا جی کے ہاں موضوعاتی تنوع کے فقدان کا بعض ناقدین نے ذکر کیا ہے اور یہ بھی نتیجہ نکالا ہے کہ میرا جی کی نظموں میں کسی گیرے سماجی شعور کا سراغ نہیں ملتا۔ یہ رائے بڑی حد تک یک رخی ہے۔ میرا جی کے ہاں سماجی شعور اور موضوعاتی تنوع سطح پر نظر نہیں آتا مگر ان کی نظموں کا گہرا ڈھانچہ ان کی گہری سماجی بصیرت کا خاطر نشاں کرتا ہے۔

میرا جی نظموں میں مصنوعی رقت انگیزی ، افسردہ رومانیت اور جذباتی خود ترحمی کا احساس نہیں ہوتا۔ میرا جی کا احساس تھا کہ سارا شر پیدائش کی وجہ سے ظہور میں آتا ہے۔ اس لیے وہ ماضی میں اتنے دور تک چلے جاتے ہیں کہ  "آدم و حوا ” تک پہنچ جاتے ہیں۔ برقع سے اقتباس:

” پہلے پھیلی ہوئی دھرتی پر کوئی چیز نہ تھی

صرف دو پیڑ کھڑے تھے چپ چاپ

ان کی شاکوں پہ کوئی پتے نہ تھے

ان کو معلوم نہ تھا کیا ہے خزاں کیا ہے بہار

پیڑ نے پیڑ کو جب دیکھا تو پتے پھوٹے

وہی پتے وہی بڑھتے ہوئے ہاتھوں کے نشاں

شرم سے بڑھتے ہوئے گوہر تاباں کو چھپائے ہوئے، سہلائے ہوئے”

میرا جی کی چند نمائندہ نظمیں پیش خدمت ہیں:

عدم  کاخلا

ہوا کے جھونکے ادھر جو آئیں تو ان سے کہنا

یہاں کوئی ایسی شے نہیں جسے وہ لے جائیں ساتھ اپنے

یہاں کوئی ایسی شے نہیں جسے کوئی دیکھ کر یہ سوچے

کہ یہ ہمارے بھی پاس ہوتی

یہاں کوئی راہ رو نہیں ہے نہ کوئی منزل

یہاں اندھیرا نہیں اجالا نہیں کوئی شے نہیں ہے

گزرتے لمحوں کے آتشیں پاؤں اس جگہ پے بہ پے رواں ہیں

ہر ایک شے کو سجھاتے جاتے ہر ایک شے کو جلاتے جاتے مٹاتے جاتے

ہر ایک شے کو سجھاتے جاتے کہ کچھ نہیں ہست سے بھی حاصل

ہوا کے جھونکے ادھر جو آئیں تو ان سے کہنا

یہ سب معابد یہ شہر گاؤں

فسانۂ زیست کے نشاں ہیں

مگر ہر اک در پہ جا کے دیکھا ہر ایک دیوار روند ڈالی ہر ایک روزن کو دل سمجھ کر

یہ بھید جانا

گزرتے لمحوں کے آتشیں پاؤں ہر جگہ پے بہ پے رواں ہیں

کہیں مٹاتے کہیں مٹانے کے واسطے نقش نو بناتے

حیات رفتہ حیات آئندہ سے ملے گی یہ کون جانے

ہوا کے جھونکے ادھر جو آئیں تو ان سے کہنا

ہر جگہ دام دوریوں کا بچھا ہوا ہے

ہر اک جگہ وقت ایک عفریت کی طرح یوں کھڑا ہوا ہے

کہ جیسے وہ کائنات کا عکس بے کراں ہو

کبھی فریب خیال بن کر کبھی کبھی بھول کر شعور جمال بن کر

شکار کی ناتواں نظر کو سجھا رہا ہے

ہر ایک شے سے مرا نشان عدم عیاں ہے

عدم بھی دریوزہ گر ہے میرا مرے ہی بل پر رواں دواں ہے

ہوا کے جھونکے ادھر جو آئیں تو ان سے کہنا

فسانۂ زیست کا جھلستا ہوا اجالا بھی مٹ چکا ہے

مگر ہو مٹ کر کوئی اندھیرا نہیں بنا ہے

کہ اس جگہ تو کوئی اندھیرا نہیں اجالا نہیں یہاں کوئی شے نہیں ہے

چل چلاؤ

بس دیکھا اور پھر بھول گئے

جب حسن نگاہوں میں آیا

من ساگر میں طوفان اٹھا

طوفان کو چنچل دیکھ ڈری آکاش کی گنگا دودھ بھری

اور چاند چھپا تارے سوئے طوفان مٹا ہر بات گئی

دل بھول گیا پہلی پوجا من مندر کی مورت ٹوٹی

دن لایا باتیں انجانی پھر دن بھی نیا اور رات نئی

پیتم بھی نئی پریمی بھی نیا سکھ سیج نئی ہر بات نئی

اک پل کو آئی نگاہوں میں جھلمل کرتی پہلی

سندرتا اور پھر بھول گئے

مت جانو ہمیں تم ہرجائی

ہرجائی کیوں کیسے کیسے

کیا داد جو اک لمحے کی ہو وہ داد نہیں کہلائے گی

جو بات ہو دل کی آنکھوں کی

تم اس کو ہوس کیوں کہتے ہو

جتنی بھی جہاں ہو جلوہ گری اس سے دل کو گرمانے دو

جب تک ہے زمیں

جب تک ہے زماں

یہ حسن و نمائش جاری ہے

اس ایک جھلک کو چھچھلتی نظر سے دیکھ کے جی بھر لینے دو

ہم اس دنیا کے مسافر ہیں

اور قافلہ ہے ہر آن رواں

ہر بستی ہر جنگل صحرا اور روپ منوہر پربت کا

اک لمحہ من کو لبھائے گا اک لمحہ نظر میں آئے گا

ہر منظر ہر انساں کی دیا اور میٹھا جادو عورت کا

اک پل کو ہمارے بس میں ہے پل بیتا سب مٹ جائے گا

اس ایک جھلک کو چھچھلتی نظر سے دیکھ کے جی بھر لینے دو

تم اس کو ہوس کیوں کہتے ہو

کیا داد جو اک لمحے کی ہو وہ داد نہیں کہلائے گی

ہے چاند فلک پر اک لمحہ

اور اک لمحہ یہ ستارے ہیں

اور عمر کا عرصہ بھی سوچو اک لمحہ ہے

ایک تھی عورت

یہ جی چاہتا ہے کہ تم ایک ننھی سی لڑکی ہو اور ہم تمہیں گود میں لے کے اپنی بٹھا لیں

یوں ہی چیخو چلاؤ ہنس دو یوں ہی ہاتھ اٹھاؤ ہوا میں ہلاؤ ہلا کر گرا دو

کبھی ایسے جیسے کوئی بات کہنے لگی ہو

کبھی ایسے جیسے نہ بولیں گے تم سے

کبھی مسکراتے ہوئے شور کرتے ہوئے پھر گلے سے لپٹ کر کرو ایسی باتیں

ہمیں سرسراتی ہوا یاد آئے

جو گنجان پیڑوں کی شاخوں سے ٹکرائے دل کو انوکھی پہیلی بجھائے مگر وہ پہیلی سمجھ میں نہ آئے

کوئی سرد چشمہ ابلتا ہوا اور مچلتا ہوا یاد آئے

جو ہو دیکھنے میں ٹپکتی ہوئی چند بوندیں

مگر اپنی حد سے بڑھے تو بنے ایک ندی بنے ایک دریا بنے ایک ساگر

یہ جی چاہتا ہے کہ ہم ایسے ساگر کی لہروں پہ ایسی ہوا سے بہائیں وہ کشتی جو بہتی نہیں ہے

مسافر کو لیکن بہاتی چلی جاتی ہے اور پلٹ کر نہیں آتی ہے ایک گہرے سکوں سے ملاتی چلی جاتی ہے

یہ جی چاہتا ہے کہ ہم بھی یوں ہی چیخیں چلائیں ہنس دیں یوں ہی ہاتھ اٹھائیں

ہوا میں ہلائیں ہلا کر گرا دیں

کبھی ایسے جیسے کوئی بات کہنے لگے ہیں

مگر تم ہمیں گود میں لے کے اپنی بٹھا لو

مچلنے لگیں تو سنبھالو

کبھی مسکراتے ہوئے شور کرتے ہوئے پھر گلے سے لپٹ کر کریں ایسی باتیں

تمہیں سرسراتی ہوا یاد آئے

وہی سرسراتی ہوا جس کے میٹھے فسوں سے دوپٹہ پھسل جاتا ہے

وہی سرسراتی ہوا جو ہر انجان عورت کے بکھرے ہوئے گیسوؤں کو

کسی سوئے جنگل پہ گنگھور کالی گھٹا کا نیا بھیس دے کر

جگا دیتی ہے

تمہیں سرسراتی ہوا یاد آئے

ہمیں سرسراتی ہوا یاد آئے

یہ جی چاہتا ہے

مگر اپنی حد سے بڑھے تو ہر اک شے بنے ایک ندی بنے ایک دریا بنے ایک ساگر

وہ ساگر جو بہتے مسافر کو آگے بہاتا نہیں ہے جھکولے دئیے جاتا ہے بس

جھکولے دئیے جاتا ہے

اور پھر جی ہی جی میں مسافر یہ کہتا ہے اپنی کہانی نئی تو نہیں ہے

پرانی کہانی میں کیا لطف آئے

ہمیں آج کس نے کہا تھا پرانی کہانی سناؤ

جسم کے اس پار

اندھیرے کمرے میں بیٹھا ہوں

کہ بھولی بھٹکی کوئی کرن آ کے دیکھ پائے

مگر سدا سے اندھیرے کمرے کی رسم ہے کوئی بھی کرن آ کے دیکھ پائے

بھلا یہ کیوں ہو

کوئی کرن اس کو دیکھ پائے تو اس گھڑی سے

اندھیرا کمرہ اندھیرا نہیں رہے گا

وہ ٹوٹ کر تیرگی کا اک سیل بے کراں بن کے بہہ اٹھے گا

اور اس گھڑی سے اس اجالے کا کوئی مخزن بھی روک پائے بھلا یہ کیوں ہو

ہزار سالوں کے فاصلے سے یہ کہہ رہا ہوں

ہزاروں سالوں کے فاصلے سے مگر کوئی اس کو سن رہا ہے یہ کون جانے

سیاہ بالوں کی تیرگی میں تمہارا ماتھا چمک رہا ہے

تمہاری آنکھوں میں اک کرن ناچ ناچ کر مجھ سے کہہ رہی ہے

کہ میرے ہونٹوں میں ہے وہ امرت

ہزاروں سالوں کے فاصلے سے جو رس رہا ہے

مگر یہ سب سال نور کے سال تو نہیں تیرگی کے بھی سال یہ نہیں ہیں

یہ سال تو فاصلے کی پیچیدہ سلوٹیں ہیں

اندھیرا کمرہ اندھیرا کیوں ہے

تمہارے بالوں کی تیرگی میں نگاہ گم ہے

یہ بند جوڑا جو کھل کے بکھرے تو پھر کرن بھی سنور کے نکھرے

تمہارا ملبوس اک سپیدی پہ دھاریوں سے سجھا رہا ہے

اندھیرے کمرے میں جب کرن آئی تیرگی دھاریاں بنے گی

اور اس کرن سے اندھیرا پل بھر اجالا بن کر پکار اٹھے گا

کہ بھولی بھٹکی یہاں کبھی تیرگی بھی آئے

ہزاروں سالوں کا فاصلہ تیرگی بنا ہے

تمہارے ہونٹوں پہ گیت کے پھول مسکرائے کہ تم نے اپنے لباس کو یوں اتار پھینکا

کہ جیسے راگی نے تان لی ہو

تمہاری ہر تان تیرگی کی سیاہ دھارا بنی ہوئی ہے

کوئی کرن اس سے پھوٹ پائے بھلا یہ کیوں ہو

سیاہ کمرہ تمہاری تانوں سے گونجتا ہے

ہزاروں سالوں سے گونجتا ہے

سیاہ کمرہ تمہارے بالوں کی تیرگی سے چمک رہا ہے

سیاہ کمرہ لباس کی ہر اچھوتی کروٹ سے کہہ رہا ہے

یہاں تم آؤ یہاں کوئی تم کو دیکھ پائے نہیں یہ ممکن

یہاں کرن آئی تو وہ فوراً اندھیرے کمرے میں جا چھپے گی

اور اس پہ دھارا لباس کی یوں بہے گی جیسے

اندھیرا کمرہ اندھیرا کمرہ کبھی نہیں تھا

وہ اک کرن تھی

کتابیات

1۔جمیل جالبی، ڈاکٹر،مرتب ‘ کلیاتِ میرا جی’، اردو مرکز لندن،  1988

2۔جمیل جالبی، میرا جی :ایک مطالعہ، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی، 1991

3۔رشید امجد، میرا جی شخصیت اور فن،  اکادمی ادبیات، پاکستان، 1990

4۔شافع قدوائی، ہندوستانی ادب کے معمار "میرا جی”، ساہتیہ اکادمی،دہلی، 2001

5۔کوثر مظہری، جدید نظم حالی سے میرا تک، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی، 2008

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top