تحریر: عبید ساحل (سوات)
"کوئی شوق سے اپنا گھر نہیں چھوڑتا بلکہ حالات انسان کو مجبور کر دیتے ہیں۔ "
بہت سے غم کی داستانوں کو بیان کرنے والا یہ جملہ میرے بہت ہی عزیز بھائی رضوان علی گھمن کا ہے۔ جو انہوں نے اپنی زندگی پر لکھے ناول کے ابتدائی صفحات میں لکھا ہے۔ رضوان بھائی کا آبائی تعلق بہاولپور سے تھا اور نوجوانی میں ہی معاش کے سلسلے میں غیرقانونی طور پر یورپ چلے گئے۔ یورپ کا یہ غیرقانونی سفر انہوں نے کس طرح طے کیا یہ آپ ان کے ناول سیریز "راضی سیریز” پڑھنے کے بعد ہی جان سکیں گے۔
میرا دعویٰ ہے کہ آپ اس ناول کو پڑھتے ہوئے اپنے آنسو نہ روک سکیں گے۔ آپ نے بہت ہی کم عمر میں پاکستان چھوڑا اور ایران اور ترکی کے ذریعے پہلے یونان اور پھر وہاں سے آگے اٹلی اور جرمنی بغیر کسی ویزہ کے چلے گئے۔ راستے میں جن مشکلات اور مصائب کا سامنا کیا وہ انتہائی دردناک ہے۔ آ پ کی تحریروں میں غیر قانونی تاریکنِ وطن کی غم کی داستانیں بہت ملتی ہے۔ آج کل آپ اٹلی کے شہر میلان میں رہتے ہیں۔
آپ مختلف موضوعات پر کئی سارے ناولز لکھ چکے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی یورپ کے کئی بڑے رسائل و جرائد کیلیے کالم نگاری بھی کرتے رہے ہیں۔ "دوسرا خدا” بھی آپکا ایک مشہور ناول ہے جو راضی سیریز کا دوسرا حصہ ہے۔ یہ ناول غم و درد کی ایک الگ ہی داستان بیان کرتا ہے۔ اس ناول میں آپ اپنی ایران اور ترکی کے غیرقانونی سفر کی آب بیتی بیان کرتے ہیں۔ یہ ناول اتنا مشہور ہے کہ اس کا انگلش ترجمہ بھی ہوچکا ہے۔
آپ کا ایک دوسرا مشہور ناول "جنت ریپبلک” مجھے بے حد پسند ہے۔ اس ناول میں رضوان بھائی نے پاکستان کے بڑے مسائل پر روشنی ڈالی ہے اور ان مسائل کے حل بھی اپنی سوچ کے مطابق بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔ آپ جنت ریپبلک ایک بار پڑھ لیں تو آپ کو اندازہ ہوجائے گا کہ پاکستان کے بنیادی مسائل کا حل کس طرح ممکن ہے۔ ناول میں کئی تجاویز بھی دی گئی ہے جو ملکی حالات کو ٹھیک کرنے میں مددگار ثابت ہوں گی۔
اگر آپ 2022 کے رپورٹس دیکھیں تو آپ کو پتہ چلے گا کہ دنیا میں تقریبا 281 ملین لوگ اپنے ملکوں کے بجائے دوسرے ممالک میں مہاجرین کے طور پر رہ رہے ہیں۔ اور جیسا کے رضوان بھائی نے لکھا ہے کہ اپنا گھر کوئی شوق سے نہیں چھوڑتا بلکہ حالات انسان کو مجبور کر دیتے ہیں۔ اور پھر جب غریب گھرانوں کے لوگ بیرون ممالک جانا چاہیں تو ویزہ اور فلائٹ کے پیسے بھی ارینج کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ تو مجبورا ً لوگوں کو غیرقانونی راستے اختیار کرنے پڑتے ہیں۔ اور ان غیرقانونی راستوں پر سفر کرنا موت کو دعوت دینے کے مترادف ہوتا ہے۔
آپ کو ان راستوں میں سینکڑوں انسانی باقیات ملیں گی۔ جو بڑے خواب سجائے بہتر مستقبل کیلیے ان موت کے راستوں پر نکلے تھے۔ اور پیچھے گھروالوں کو اکثر لاش تک نہیں ملتی۔ اور مائیں بہنیں ،سالوں تک نوجوان بھائیوں اور بیٹوں کی راہ تک رہے ہوتے ہیں۔ ہم سنتے رہتے ہیں کہ آج یورپ کے فلاں دریا میں اتنے تارکین وطن ڈوب گئے اور اتنے تارکین وطن بارڈر پر مارے گئے لیکن کیا ہم نے کبھی سوچا ہے کہ ان کی لاشیں بھی گھر والوں کو ملتی ہیں یا نہیں؟۔ غیرقانونی تارکین وطن اتنا بڑا مسئلہ ہے کہ صرف امریکہ میں 10 سے 12 ملین لوگ بغیر قانونی دستاویزات کے رہتے ہیں۔ اور یہ تعداد عالمی سطح پر کئی گنا بڑی ہے۔
یہ مہاجرین جن ملکوں سے ہجرت کرتے ہیں وہ ممالک غریب اور پسماندہ ہوتے ہیں۔ غربت اور بے روزگاری لوگوں کو مجبور کردیتی ہے کہ وہ اپنے اس ملک کو چھوڑ دیں جو ماں کی طرح تھا۔ اور ایک ملک کے اندر ہی غیرقانونی سرگرمیاں اور منشیات اس وجہ سے جنم لیتی ہے کہ نوجوان بے روزگاری اور غربت کے ہاتھوں مجبور ہوتے ہیں۔
اور مجبورا ان کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کو غریب ممالک میں غیر قانونی سرگرمیاں زیادہ دیکھنے کو ملیں گی۔ انجان اور دشوار گزار راستوں پر سفر کرنا، تاریکیوں میں بارڈر کراسنگ کرنا، بند گاڑیوں میں چھپ کر سفر کرنا جن میں آکسیجن کی کمی کی وجہ سے لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ بحری کشتیوں میں زیادہ افراد بٹھانے پر کشتیوں کا ڈوب جانا، ان تمام چیزوں کا حال ایک مہاجر کے علاوہ کون بتا سکتا ہے۔ اور اگر حالات آج کل کے جیسے ہوں تو پھر وہ الگ بات ہے۔
دوسری جانب ماہرین کی جانب سے یہ کہا جاتا ہے کہ موجودہ سال پچھلے سال کی نسبت زیادہ مشکل ہوگا۔ مہنگائی بھی عروج پر ہوگی۔ اور ماحولیاتی و موسمیاتی تبدیلیوں کا اثر بھی بہت خطرناک ہوگا۔ جس سے بالخصوص پورا جنوبی ایشیائی خطہ خطرناک حد تک متاثر ہوگا۔ اس لیے ماہرین تجویز دیتے ہیں کہ اس سال مالی معاملات میں ذرا ہاتھ کھینچ لیجیے۔ زیادہ دولت خرچ کرنے کی بجائے تھوڑا جمع پونجی کو ترجیح دیجیے۔ گھر یا گاڑی خریدنے کو اس سال ترجیح نہ دیں۔
اور اس سال کئی سارے دوسرے ممالک کو بھی دیوالیہ ہونے کا خطرہ لاحق ہوجائے گا۔ اجناس اور ایندھن کی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ دیکھنے کو ملے گا۔ اپر کلاس کا طبقہ مڈل کلاس بن جائے گا اور مَڈل کلاس کا طبقہ لوئر کلاس۔ ایسے میں سب سے زیادہ نقصان غریب طبقے کا ہوگا۔ جو مہنگائی اور بے روزگاری سے مزید بدحال ہوجائے گا۔ ایک طرف موجودہ حکومت مشکل فیصلے لینے سے گھبرا رہی ہے تو دوسری جانب ملک ڈیفالٹ کر نے کی باتیں ہورہی ہے۔ ایسے میں مہنگائی سے پریشان بے روزگار نوجوان طبقے کا کیا بنے گا کوئی نہیں جانتا۔ کیونکہ حکومت تو اپنے دامن بچانے کی فکر میں ہے۔
لکھاری کا تعارف:
عبید ساحل سوات سے تعلق رکھنے والے ایک طالبعم اور لکھاری ہے. وہ مختلف موضوعات پر قومی اخباروں اور کئی سارے بلاگز کیلیے کالم نگاری کرتے ہیں۔