بابا سلطان کوزہ گر ۔ اک عام کہانی
تحریر: علی احمد-2023
یہ بابا سلطان کوزہ گر ہے۔ یہ کوزے اس کی دستِ چابک کے پُتلے۔۔۔ یہی اس کی زیست کا سامانِ بے سود تھے۔ وہ امیروں کی بستی میں بس اپنے ہونے کو بُھگت رہا تھا۔ مرنا سہل نہیں ۔۔۔جینا کٹھن ہے۔ اک گو مگوں کی حالت میں بس آسمان کو تکتا کہ یا خدا کیا یوں ہی میں اس ہیچ دُنیا سے گزار دیا جاؤں گا۔۔۔!!!
آج وہ گزر گیا ۔۔۔
سارا ہی شہر اس کے جنازے میں تھا شریک
تنہائیوں کے خوف سے جو شخص مر گیا
نا جانے خدا نے اسے کس گلِ سنبل و عود سے بنایا تھا کہ جوں جوں اس کے اپنے اور معاشرہ اسے مسلتا جاتا توں توں وہ انسانیت کی خوشبو بکھیرتا چلا گیا۔
یہی وہ شہر مدفون ہے کہ جہاں۔۔۔کوئی آوازِ دوست نہیں۔۔۔
مٹی دا باوا! بابا سلطان کی عمر لگ بھگ 90 سال ہو گی۔ ہمارے اسکول اور گھر کے درمیان ایک چار دیواری تھی۔ اس احاطے کے اندر چکنی مٹی سے کوزے بناتے اکثر انہیں دیکھتا۔ یہ احاطہ کافی کُھلا تھا۔ اس کے ایک جانب خستہ حال کمرے تھے یہاں کبھی کوئی مرغی خانہ رہا ہو گا۔ اور دوسری جانب "آوی” کے لیے جگہ مختص تھی۔
یہ جگہ کوڑا کرکٹ اور اُپلوں کا مُرکب تھی، جہاں کچے برتنوں کو آوی میں دبا دیا جاتا تاکہ یہ پک کر تیار ہو جائیں۔ مرکزی گیٹ کے بائیں جانب ایک چھپری نما جگہ تھی جہاں مٹی اور پانی سے ان کوزوں کو سینچا ، بنایا جاتا۔۔۔
بابا سلطان! میں نے کبھی اُنھیں کسی سے الجھتے یا تلخ کلامی کرتے نہیں دیکھا۔ چھوٹے بڑے تمام ہی اُس سے تعظیم سے ملتے اور وہ بھی سراپا ادب تھا۔ وہ اپنے کام میں اس قدر منہمک رہتا کہ ” بے فضول” کی الجھنیں اس نے کبھی پالی ہی نہیں تھیں۔ بر زمین رزق اس کے کاروبارِ زیست کی "آوی” دُکھتی تھی۔
یہ آوی اور چھپری اُس کی کل متاع تھی جس سے اُس کے بچوں کا رزق جُڑا تھا۔ یہاں اُس کو یہ بھی سہولت میسر تھی کہ کسی بھلے مانس انسان نےیہ جگہ بغیر کرایے کے دے رکھی تھی۔
وقت کے اُفق پہ سورج نے نارنجی رنگ بکھیرنا شروع کیا، سائے گہرے ہوئے، زمانے نے چال پلٹی۔۔۔اکیسویں صدی کی شور انگیزی نے ہر خاص و عام کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ بابا سلطان کے مٹی کے برتنوں کی جگہ پلاسٹک نے لے لی۔
آوی ٹھنڈی پڑ گئی اور گڑھا مٹی سے بھر دیا گیا۔ یہ جگہ کسی پرائیویٹ اسکول کو کرایے پہ دے دی گئی۔ بابا سلطان نے بچی کھچی متاع اُٹھائی اور احاطے سے ملحقہ ایک خالی دکان میں بسیرا کیا۔
اپنے ہی سائے جب لمبے ہوئے تو لاتعلقی کا آسیب اوربے گھری کا عفریت بھی ساتھ لایا۔ بیوی جو اُس کے لیے روٹی، اچار اور لسی لے کر آیا کرتی تھی ، اب وہ افق کے اُس پار جا چکی تھی۔ جبکہ اِس پار اُس کے اپنے ہی بچوں نے دیس نکالا دے دیا۔
کیوں کر ہوا غالبؔ دشمن آسماں اپنا
بابا سلطان کا ٹھکانہ ابھی یہی دُکان تھی، اک چارپائی، بستر، ضرورت کے چند برتن اور ٹوٹا ہوا موڑھا، یہ تھا اُس کا حاصلِ زیست!
اکثر وہ دکان کے باہر موڑھے پہ بیٹھا دکھائی دیتا۔ آتے جاتے لوگوں کو خالی الذہن بڑی محبت سے تکتا رہتا۔ نہ کسی سے کوئی گلہ نہ ہی ماتھے پہ کوئی شکن۔۔۔
ایسا صابر شاکر کہ ” تیری رضا میری تسلیم” کی مجسم تصویر تھا۔ جو کوئی اسے سلام کرتا وہ جواباً دونوں ہاتھوں کو ماتھے تک لاتا اور شہادت کی انگلیاں آسمان کی طرف کر کے دُعا دیتا کہ جیسے شہادت دے رہا ہو کہ یاپروردگار اس بندے نے میری خستہ حالی کے باوجود میری جانب تعظیم کا قدم بڑھایا، تُو بھی اس کی جانب بڑھ کر اسے دائمی عزتوں سے نواز!
مجھے بہت دیر بعد احساس ہوا کہ یہ کوئی اللہ کا ولی ہے جسے دنیا و مافیہا سے کوئی سروکار نہیں۔ میں نے ہمیشہ اس کی آنکھوں میں پُر خلوص احسان مندی اور دُعا کے جذبے کی آبشار گرتے دیکھی۔ کبھی کھانےپینے کی کوئی شے یا پیسے پیش کرتا تو ایسی ممنونیت سے دیکھتے کہ میں شرمندہ ہو جاتا۔
بابا سلطان کو کبھی کسی سے مانگتے دیکھا نہ سُنا۔ شاید کوئی اُن کی ضروریات کا خیال رکھتا ہو گا ۔ انہیں ہمیشہ اک میلا سا کُرتا اور تہمد پہنے دیکھا لیکن یہ میل دراصل اس تعفن زدہ معاشرے کے ڈھیر سے ٹپک رہی تھی۔
خمیدہ کمر کا بوجھ لیے یہ شخص جیے جا رہا تھا لیکن تکالیف تھیں کہ تھمنے کو نہیں ، میں نے بابا سلطان کے چہرے کو دیکھا ، دائیں جانب اُبھار اس بات کی غمازی کر رہا تھا یہ کوئی گلٹی یا سرطان ہے، درد تو ہوتا ہو گا، درد کیسے نہیں ہوتا ہوگا لیکن یہ تکلیف اس کے اندر جا کر تحلیل ہو جاتی ہوگی۔
اسی لیے نہ کوئی شکوہ نہ شکایت، نہ کوئی آہ و پکار نہ ہی فریاد و منادی۔ چند دنوں پہلے دُکان پر قفل پڑا دیکھا، گمان کیا کہ اس حالت میں بیٹے، بوڑھے باپ کا جنازہ گھر سے اُٹھوانا چاہتے ہوں گے تاکہ معاشرے کو کچھ تو منہ دکھا سکیں اور باپ کی نیک نامی کا خراج لے سکیں۔
فلاں۔۔۔فلاں۔۔ کا باپ، بابا سلطان رحمانی رضائے الہیٰ سے وفات پا چکے ہیں نمازہ جنازہ کا اعلان بعد میں کیا جائے گا۔ مٹی کا باوا، مٹی کا رزق ہوا۔
اس بوڑھے کمہار کے جنازے میں گردو نواح کے ہر خاص و عام نے شرکت کی ، قحط الرجال کے اس پُر فریب آسیب زدہ دور میں ابنِ آدم کا استعارہ تھا بابا سلطان ۔۔۔!!! شاید ایسے ہی انسانوں کے طفیل برکتیں نازل ہوتی ہیں اور یہی وہ لوگ ہیں جوزمانے کے دُکھ چُن لیتے ہیں۔
خدا حافظ سلطان کوزہ گر! ابدی سکون مبارک ہو!