علامہ محمد اقبال
یہ دنیا مختلف اور متنوع پہلوؤں کا مجموعہ ہے۔ اس جہان رنگ و بو میں ایسی شخصیات بھی آئیں جو آسمانِ شہرت پر آفتاب و ماہتاب بن کر چمکیں اور شہرت دوام پا کر رخصت ہوئیں۔ انھی شخصیات میں سے ایک کو ہم علامہ اقبال کے نام سے جانتے ہیں۔
حکیم الامت علامہ اقبال نے اپنی شاعری اور ایمان افروز پیغامات سے مسلمانان ہند کو بالخصوص اور مسلمانان عالم کو بالعموم ، اکثر لوگوں کا ماننا ہے کہ آپ نے مسلمانانِ ہند کو خواب غفلت سے جگا کر تصور پاکستان پیش کیا ۔(لیکن چند تاریخ دانوں کا ماننا ہے کہ وہ متحدہ ہندوستان کے حامی تھے لیکن اپنی الگ شناخت کے ساتھ)
علامہ اقبال 9 نومبر ۱۸۷۷ء کوشہر سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد بزرگوار شیخ نورمحمد نہایت متقی اور پرہیز گار انسان تھے۔ آپ کی والدہ امام بی بی بھی بہت پر ہیز گار تھیں ۔ آپ کی ابتدائی تربیت ایک دینی مدرسے سے ہوئی۔ جس کے بعد آپ سیالکوٹ کے مشن ہائی سکول میں داخل ہو گئے ، جہاں آپ کو سید میر حسن جیسے فاضل اور مشفق استاد ملے۔ انھوں نے آپ کی دینی تربیت کی اور آپ میں مذہبی ذوق پیدا کیا۔
آپ نے میٹرک کا امتحان مشن ہائی سکول سے پاس کیا اور پھر مرے کالج سیالکوٹ میں داخل ہو گئے ، جہاں آپ نے ایف۔ اے کا امتحان پاس کیا اور بی۔ اے آپ نے گورنمنٹ کالج لاہور سے کیا اور پنجاب بھر میں اول آئے ۔
گورنمنٹ کالج لاہور میں آپ کو پروفیسر آرنلڈ جیسے استاد سے استفادہ کرنے کا موقع ملا۔ ایم۔ اے کرنے کے بعد آپ کچھ عرصہ اور ینٹل کالج اور پھر گورنمنٹ کالج لاہور میں پرو فیسر ر ہے۔ اس کے بعد اعلی تعلیم کے حصول کے لیے 1905ء میں انگلستان روانہ ہو گئے ۔ وہاں پر کیمبرج یونی ورسٹی سے بار ایٹ لا کی ڈگری حاصل کی اور پھر جرمنی کی میونخ یونی ورسٹی سے پی۔ ایچ۔ ڈی کی ڈگری حاصل کر کے آپ 1908ء میں وطن واپس آگئے۔
علامہ اقبال کو اپنے استاد پروفیسر آرنلڈ سے بے پناہ محبت تھی ۔ قیام انگلستان کے دوران ،آپ نے پختہ ارادہ کر لیا تھاکہ شعر نہیں کہیں گے مگر پروفیسر آرنلڈ کے کہنے پر آپ نے شعر کہنا جاری رکھا۔ جب آپ کو پروفیسر آرنلڈ کے انتقال کی خبر ملی تو بے ساختہ آپ کی زبان سے یہ الفاظ نکلے :
آہ ، آج اقبال اپنے ایک عظیم دوست اور مشفق استاد سے محروم ہو گیا
علامہ اقبال ابتدا ہی سے بہت سی انفرادی خوبیوں کے مالک تھے۔ ایک مرتبہ مدرسے میں دیر سے پہنچے ۔ استاد صاحب نے دیر سے آنے کی وجہ پوچھی تو جواب دیا:
اقبال ہمیشہ دیر سے آتا ہے”
شاگرد کی اس حاضر جوابی پر استاد نے نہ صرف دیر سے آنے کی سزا معاف کر دی بلکہ انعام بھی دیا۔
اسی طرح ایک اور موقع پر سید میر حسن کے فرزند جس کا نام احسان تھا کو اپنے کندھوں پر اٹھائے استاد صاحب کے ساتھ کہیں جارہے تھے۔ بوجھ کی وجہ سے تھک گئے اور کچھ دیر سستانے کو رک گئے ۔ کچھ دیر بعد استاد انھیں نہ پا کر واپس مڑے۔ انھیں کھڑا دیکھ کر استاد نے کہا: احسان کو اٹھانے میں دشواری ہے
اقبال نے بے ساختہ جواب دیا:
تیرا احسان بہت بھاری ہے”
استاد صاحب نے یہ سن کر اپنے بیٹے کو پیدل چلنے کا حکم دے دیا ۔ علامہ اقبال انجمن حمایت اسلام کے صدر رہے اور بڑی خوبی سے اس کے اداروں کو چلاتے رہے۔ علاوہ ازیں آپ پنجاب لیجسلیٹو ایسوسی ایشن کے رکن اور پنجاب مسلم لیگ کے صدر بھی رہے۔
شاعری کی وجہ سے آپ کی شہرت ہندوستان کی سرحدوں کو عبور کر کے سمندر پار تک پہنچ گئی۔ قوم نے آپ کو شاعر مشرق اور ترجمانِ حقیقت” کے خطابات سے نوازا۔ انگریز حکومت نے آپ کو سر کا خطاب دیا اور ریاست بھوپال سے آپ کے لیے 500 روپے ماہوار وظیفہ مقرر ہوا۔
آپ کا ایک بڑا کارنامہ نظریہ پاکستان پیش کرنا ہے۔ مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس منعقدہ 1930ء میں آپ نے فرمایا:
ہندوستان ایک ملک نہیں بر صغیر ہے۔ یہاں مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے اور مختلف زبانیں بولنے والے رہتے ہیں۔ مسلمان اپنا ایک الگ تشخص چاہتے ہیں“
علامہ اقبال نے مسلمانوں کواپنا تشخص برقرار رکھنے کے لیے پاکستان بنانے کی تجویز دی۔ ہندوؤں نے اسے” مجذوب کی بڑ” قرار دیا۔ مگر قائد اعظم نے اس خواب کو حقیقت کا روپ دیا۔
علامہ اقبال نے طالب علمی کے زمانے سے ہی شعر کہنا شروع کر دیے تھے اور لاہور کی ادبی محفلوں میں شامل ہو کر داد تحسین وصول کرنے لگے۔ ان کی ابتدائی غزل کا یہ شعر بہت چونکا دینے والا تھا۔
موتی سمجھ کے شان کریمی نے چن لیے
قطرے جو تھے مرے عرق انفعال کے
علامہ اقبال نے اس دور کے عظیم غزل گو مرزا داغ کی شاگردی اختیار کی اور داغ کے رنگ میں بہت سی غزلیں کہیں ۔ بعد میں جب انھیں انجمن حمایت اسلام کی جانب سے قومی اور ملی موضوعات پر نظم کہنے کا موقع ملا تو نظم گوئی کی طرف مائل ہو گئے ۔ علامہ اقبال کی شاعری میں بلا کا سوز و گداز اور رنج و الم موجود ہے۔ لیکن اس کے باوجود وہ مایوسی اور قنوطیت کی بجائے رجائیت کے علم بردار ہیں۔
ان کے کلام میں کشاکش حیات سے نبرد آزما ہونے اور مشکلات پر قابو پانے اور غلبہ پا جانے کی تلقین ہے اور قاری خود کو ان کی شاعری کے اثر میں جکڑا ہوا محسوس کرتا ہے۔
خدائے لم یزل کا دستِ قدرت تو زباں تو ہے
یقیں پیدا کر اے غافل کہ مغلوب گماں تو ہے
غلامی میں نہ کام آتی ہیں شمشیریں نہ تدبیریں
جو ہو ذوق یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں
علامہ اقبال نے اپنے منفرد انداز سے غزل جیسیاہم صنف سخن کو آسمان کی بلندیوں پر پہنچادیا۔ انھوں نے غزل کی یاس آمیزی کو حیات پرور اور حیات آفرین بنایا اور اس کو نرمی و نزاکت کے دائرے سے نکال کر جوش، ولولہ اور توانائی عطا کی ۔
ان کے ہاں غزل میں مختلف موضوعات ہیں ۔ عشق و عقل کی معرکہ آرائیاں بھی ہیں اور جنون و خرد کی پنجہ آزمائیاں بھی۔ فلسفہ خودی بھی ہے اور مرد مومن کا تصور بھی۔ وہ مسلمان کو نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر ایک ہو جانے کا تصور پیش کرتے ہیں اور کہتے ہیں:
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کرتا بخاک کاشغر
اقبال نے اپنے کلام میں مسلمانوں کے لیے فلسفہ خودی پیش کیا ہے، جس سے غایت یہ ہے کہ مسلمان اطاعت الہی ضبط نفس اور نیابت انہی کے مدارج طے کرتا ہو امردِ مومن کے مقام پر پہنچ جاتا ہے اور اسی مقام پر مرد مومن کا ہاتھ اللہ کا ہاتھ اور اس کی زبان اللہ کی زبان بن جاتی ہے۔
ہاتھ ہے اللہ کا بندہ مومن کا ہاتھ
غالب و کار آفرین کارکشا کارساز
اقبال نے عشق کو عقل پر فوقیت دی ہے۔ انسان کے عشق اور عقل کی پنجہ آزمائی جاری رہتی ہے۔ عقل اسے خطرات سے ڈراتی اور ذلتوں سے سمجھوتہکرنے پر آمادہ کرتی ہے جب کہ عشق انسان کو قربانی دینے اور خطرات سے ٹکرانے پر آمادہ کرتا ہے۔
بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی
اقبال نے اپنے پیغام کو موثر بنانے کے لیے جن علامات کا استعمال کیا ہے، ان میں شاہین سرفہرست ہے۔ شاہین پرندوں کی دنیا کا درویش ہے اور اس میں وہ ساری خصوصیات ہیں جو اقبال اپنے مرد مومن میں دیکھنا چاہتے تھے۔ مثلاً شاہین آشیانہ نہیں بنا تا، غور وفکر کا عادی ہے، تیز نظر اور بلند پرواز ہے اور غیرت مند ہے کسی کا چھوڑ ا ہوا شکار نہیں کھاتا۔
کیا میں نے اس خاکداں سے کنارا
جہاں رزق کا نام ہے آب و دانہ
جھپٹنا، پلٹنا، پلٹ کر جھپٹنا
لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ
پرندوں کی دنیا کا درویش ہوں میں
کہ شاہیں بناتا نہیں آشیانہ
علامہ اقبال کی شاعری میں قوم کے لیے تڑپ موجود ہے۔ ہر ایک شعر قوم کی اصلاح کا پیغام دیتا ہے۔ کبھی وہ اسلاف کے کارنامے یاد دلا کر مسلمانوں کا لہو گرماتے ہیں، تو کبھی آسمان پر کمندیں ڈالنے کا کہہ کر ان کو دعوت عمل دیتے ہیں ۔ کبھی عقاب اور شاہین کی تمثیل سے انھیں بلند خیالی اور بلند پروازی کا درس دیتے ہیں تو کبھیحضرت اویس قرنی کا قصہ چھیڑ کر حبِ رسولؐ کا درس دیتے ہیں۔ آپ ایکسچے عاشق رسولؐ تھے۔ حضور اکرم خاتم النبیین محمد رسول اللہ کے عشق میں اقبال کی آنکھیں ہمیشہ پر نم رہتی تھیں ۔ جیسا کہ فرمایا:
قوت عشق سے ہر پست کو بالا کر دے
دہر میں اسم محمدؐ سے اجالا کر دے
علامہ اقبال نے اپنی شاعری میں خودی پر بہت زور دیا ہے۔ خودی سے ان کی مراد خود پرستی یا خود نمائی نہیں بلکہ وہ قوم کو خود شناسی سکھانا چاہتے ہیں اور اسے یہ احساس دلانا مقصود ہے کہ قدرت نے تمھارے اندر جو جوہر پنہاں رکھے ہیں، انھیں بروئے کار لا کر خدا کے منتخب بندوں میں سے ہو جاؤ تا کہ خدا کی رحمتیں تم پر برسنے کے لیے مجبور ہو جائیں۔
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
علامہ اقبالؒ نے انگریز کے دور میں آنکھ کھولی، اس کا مقرر کردہ نصاب پڑھا، اس کے علاوہ یورپ میں کافی عرصہ قیام کیا۔ اس کے باوجود وہ یورپی تہذیب سے متاثر ہونے کی بجائے اس سے متنفر ہو گئے اور اس کا اظہار انھوں نے جابجا اپنی شاعری میں کیا۔
اٹھا کر پھینک دو باہر گلی میں
نئی تہذیب کے انڈے ہیں گندے
علامہ اقبال نے اپنی شاعری میں قومکو دعوت عمل دی ہے اوران کا ہر ایک شعر اپنے اندر قارئین کے لیے نیا جذ بہ لیے ہوئے ہے۔
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خا کی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے
علامہ اقبال نے قوم کو اپنے زور بازو پر بھروسا کرنے کی تلقین کی ہے۔
اقبال نے اپنی شاعری میں مسلمانوں کو اخوت ، مساوات، اتحاد ویگانگت، بھائی چارے کی تلقین کی ہے۔ ان کے نزدیک مسلمان اگر خودی کی تلوار لے کر نکلیں تو دنیا کی کوئی طاقت ان کے سامنے نہیں ٹھہر سکتی۔ اقبال چاہتے تھے کہ ہر فر د ملت میں گم ہو کر تسخیرِ فطرت کرے۔ملت تب ہی زندہ رہ سکتی ہے ، جب افراد متحد ہوں ۔
فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں
اقبال کے ہاں فن اور مقصد اپنی انتہائی بلندیوں کو چھوتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ بظاہر فلسفے اور شاعری کا کوئی جوڑ نہیں۔ لیکن اقبال نے ان دونوں کو ملا کر ایک ایسا نغمہ ترتیب دیا ، جس نے مسلمانوں کی مردہ رگوں میں جان ڈال دی اور انھیں ان کے اعلیٰ وارفع مقصد سے آگاہ کر دیا۔
پرے ہے چرخ نیلی فام سے منزل مسلماں کی
ستارے جس کی گرد راہ ہوں وہ کارواں تو ہے
اقبال نے بہت سی کتابیں لکھیں جن میں ‘بانگ درا ، پیام مشرق ، زبور عجم، جاوید نامہ ، ضرب کلیم وغیرہ مشہور ہیں ۔ علامہ اقبال 21 اپریل 1938ء کو خالق حقیقی سے جاملے اور بادشاہی مسجد کے دائیں جانبحضوری باغ میں دفن ہوئے ۔ بہت سے لوگ وہاں فاتحہ خوانی کے لیے جاتے ہیں اور یوم اقبال کے موقع پر وہاں پھول چڑ ھائے جاتے ہیں۔
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزہ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے
مآخذ: شرح سرمایہ اردو،جماعت دہم
-
علامہ اقبال مضمون
-
آب زم زم
-
تفہیم عبارت نمبر 13: غالب کے القاب و آداب
-
تفہیم عبارت نمبر 12: علامہ اقبال کی انفرادیت یہ ہے کہ وہ ایک باعمل شاعر تھے
-
تفہیم عبارت نمبر 11: قائد اعظم ہمیشہ سے ایمان دار، باہمت، نڈر اور مستقل مزاج انسان تھے
-
تفہیم عبارت نمبر 10: دنیا کے ادب میں ڈراما ایک نہایت قدیم صنف ہے
-
تفہیم عبارت نمبر 9: دو قومی نظریہ
-
تفہیم عبارت نمبر 8: انتخاب کتب ایک اہم مسئلہ ہے۔۔۔
-
تفہیم عبارت نمبر 7: سکون کے وقت سمندر کا دیدار...
-
تفہیم عبارت نمبر 6: اسلام نے لفظ قوم کے معنی بدل دیے ہیں
-
تفہیم عبارت نمبر 5: ہم عصروں اور ہم چشموں کی رقابت پرانی چیز ہے
-
تفہیم عبارت نمبر 4: مختلف انسان مختلف زبانیں بولتے ہیں۔۔۔
-
تفہیم عبارت نمبر 3: مادر ملت فاطمہ جناح مرحومہ، پاکستان کی بانی نہیں
-
تفہیم عبارت نمبر 2: سراج الدولہ اور ٹیپو سلطان نے انگریزوں کے ۔۔۔
-
تفہیم عبارت نمبر 1: پنجاب کی حدود غزنی تک۔۔۔
-
urdu qawaid o insha 9 10 pdf online free download
-
10th class urdu grammar mcqs quiz 2
-
10th class urdu grammar mcqs online quiz 1
-
اردو قواعد جماعت دہم(10)
-
اردو انشا پردازی برائے جماعت نہم(9) اور دہم(10)
-
urdu grammar | اُردو گرامر نہم(9) اور دہم(10)حروف، ضرب الامثال
-
Urdu Grammar | اُردو گرامر نہم(9) اور دہم (10) لفظ کلمہ مہمل
-
غزل کی تشریح | ghazal tashreeh class 10