album-art
00:00

10th class urdu essay aab e zam zam

آب زم زم

آب زم زم دنیا کا بہترین پانی ہے جو بھوک اور پیاس میں یکساں مفید ہے اور ہمیشہ محترم ومقدس سمجھا جاتا ہے۔ دنیا بھر کے مسلمانوں کو آب زم زم سے ایک گہری محبت و عقیدت ہے۔ آب زم زم محض عام پانیوں جیسا پانی نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے خاص طور پر عطا کردہ آب شفا ہے، جو در حقیقت مسلمانوں پر اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی عنایت ورحمت ہے ۔ آب زم زم کی فضیلت کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہوگا کہ خود آقائے دو جہاں فجر رسل، حضور اکرم خاتم النبیین محمد رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے بڑے شوق سے نوش فرمایا اور مسلمانوں کو آب زم زم پینے کی ترغیب دی ۔
آب زم زم میں اللہ تعالیٰ نے روحانی، جسمانی بیماریوں سے نجات کے لیے شفا رکھی ہے اور اسے پینا ثواب بھی ہے اور سنت بھی۔ اسی وجہ سے حجاج کرام ہر سال حج کے موقع پر آپ زم زم اپنے گھروں کو لے جاتے ہیں، جو بھی ملنے آتا ہے اسے یہ متبرک پانی پلاتے ہیں۔ آب زم زم اپنے اندر ایک خاص تاثیر رکھتا ہے۔ اگر اسے عام پانی میں ملا دیا جائے تو آپ زم زم کے اثرات غالب آجاتے ہیں اور عام پانی بھی عام نہیں رہتا بلکہ وہ بھی خاص ہو جاتا ہے۔ آب زم زم سے زیادہ پاکیزہ ، صاف ، شفاف اور صحت بخش پانی کم از کم دنیا میں موجود نہیں ہے۔ آج جدید دور میں تحقیق سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ آب زم زم پینے سے سرطان، ذیا بیطیس، بلڈ پریشر ، تیزابیت، بدہضمی اور دیگر کئی قسم کے امراض سے چھٹکارا نصیب ہوتا ہے۔
جو مسلمان حج و عمرہ کرنے جاتے ہیں واپسی پر اپنے عزیز واقارب کے لیے حجاز مقدس کا یہ انمول تحفہ ضرور لاتے ہیں اور یوں کروڑوں مسلمان بالواسطہ یا بلا واسطہ آب زم زم سے مستفید ہوتے ہیں ۔
آب زم زم کا تاریخی پس منظر کچھ یوں ہے کہ آج سے ہزاروں سال قبل حضرت ابراہیم علیہ السلام جو اللہ تعالی کے خاص برگزیدہ پیغمبر ہیں۔ ان پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے کئی آزمائشیں آئیں۔ جن میں آگ کا امتحان ، حضرت اسماعیل علیہ السلام کی بچپن میں قربانی کا امتحان اور بیوی بچوں کو جنگل میں بے یار و مددگار اکیلا چھوڑنے کا امتحان شامل ہیں۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام پر جو آزمائشیں آئیں وہ کسی عام آدمی کے بس کی بات نہیں لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام جو کہ اللہ تعالیٰ کے اولوالعزم پیغمبر تھے، نے ہر امتحان میں سو فیصد کامیابی حاصل کی، جس کی وجہ سے آپ علیہ السلام کو خلیل اللہ یعنی اللہ تعالیٰ کا دوست کا لقب ملا۔

آج بھی ہو جو براہیم کا ایماں پیدا
آگ کر سکتی ہے انداز گلستاں پیدا

سید نا ابراہیم خلیل اللہ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم ملا کہ اپنے بیوی بچوں کو صحرا و بیاباں میں چھوڑ آئیں ۔ آپ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر اپنی بیوی اور معصوم کمسن بچے کو ساتھ لیا اور چل پڑے، چلتے چلتے ایک بیاباں ، ویران جگہ پر پہنچے ۔

پیمبر اپنا بیٹا اور بیوی ہم عناں لے کر
چلا سوئے عرب پیری میں بخت جواں لے کر
خدا کا قافلہ جو مشتمل تھا تین جانوں پر
معزز جس کو ہونا تھا زمینوں آسمانوں پر

اپنی بیوی اور بچے کو وہاں اکیلا صرف اللہ تعالیٰ کی ذات کے سہارے چھوڑا اور واپس چل پڑے ۔ انبیا علیہم السلام کا ہر عمل اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کے حکم کے مطابق ہوتا ہے۔ چناں چہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بیوی نے جب پوچھا کہ ہمیں یہاں اکیلا چھوڑ کر کیوں جا رہے ہیں ، تو آپ علیہ السلام نے انگلی سے آسمان کی طرف اشارہ کیا کہ اللہ تعالی کا حکم ہے۔ حضرت ابراہیم کو کامل یقین تھا کہ رب کائنات اس ویرانے میں ان کے بیوی بچوں کی حفاظت کرے گا اور کوئی راستہ نکالے گا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بیوی حضرت ہاجرہ اپنے ننھے معصوم بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو لے کر ایک جگہ بیٹھ گئیں ۔ جب سورج بلند ہوا اور گرمی بڑھی تو پیاس نے ستانا شروع کر دیا۔ پانی کا نام ونشان بھی نہیں تھا۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام کو بہت شدت سے پیاس محسوس ہونے لگی لیکن دور دور تک کوئی آبادی یا کوئی چشمہ وغیرہ نہیں تھا۔ پیاس سے نڈھال بچے کو دیکھ کر اماں ہاجرہ تڑپ اٹھیں اور بے چین و بے قرار ہو کر دعائیں مانگنے لگیں ۔ جب بچے کی حالت زیادہ نازک ہوگئی تو اماں ہاجرہ مضطرب ہو کر انھیں اور بچے کو زمین پر لٹایا اور ایک پہاڑی پر چڑھیں ۔ اس پہاڑی کا نام “مروہ” تھا۔ وہاں پر پانی نہ ملا تو بے اختیار دوسری پہاڑی جس کا نام “صفا “تھا، اس پر گئیں اسی بے قراری کے عالم میں کبھی صفا تو کبھی مروہ پہاڑی پر چکر لگارہی تھیں لیکن اس دوران میں یہ خدشہ بھی تھا کہ کوئی درندہ، جنگلی جانور وغیرہ آ کر بچے کو نقصان نہ پہنچادے۔
اس وجہ سے بھاگ کر بچے کی طرف آتیں، پھر پہاڑ پر پانی کی تلاش میں چلی جاتیں ۔ آخر کار جب چھ چکرمکمل ہو گے تو اللہ تعالیٰ کی رحمتکو جوش آیا اور حضرت ہاجرہ ساتواں چکر مکمل کر کے واپس آئیں تو ایک خوش گوار حیران کن منظر دیکھا کہ بچے نے پیاس کی شدت میں جہاں ایڑیاں رگڑی تھیں، وہاں سے پانی ابل رہا ہے۔ رحمت الہی کا یہ عجیب و غریب منظر دیکھ کر حضرت ہاجرہ نے اللہ تعالیٰ کا شکرادا کیا اور پانی کو روکنے کے لیے چشمے کے گرد منڈیر بنانے لگیں ۔
پانی مسلسل ابل رہا تھا۔ حضرت ہاجرہ نے کہا ” زم زم ، یعنی رک جا، تو پانی رک گیا۔

زمیں پر ایڑیاں بچے نے رگڑی تھیں بہ نا چاری
ہوا تھا چشمہ آب سر د و شیریں کا وہاں جاری

حضرت ہاجرہ نے بچے کو پانی پلایا اور خود بھی سیر ہوکر پیا ۔ زم زم کا معنی ہے رُک جا۔ حضرت ہاجرہ نے جب یہ کہا کہ “زم زم تو پانی خود بخود درک گیا۔

یہ پہلا معجزہ تھا پائے اسماعیل” کم سن سے
کہ چشمہ جس کا زم زم نام ہے، جاری ہے اس دن سے

حضرت ہاجرہ نے اس چشمے کے قریب رہائش اختیار کر لی۔ اس زمانے میں لوگوں کو جہاں پانی کی سہولت میسر ہوتی وہاں پر رہائش اختیار کرتے تھے۔ لہذا ایک قافلے کا جب وہاں سے گزر ہوا اور انھوں نے وہاں پر پانی دیکھا تو حضرت ہاجرہ سے اجازت لے کر خود بھی پانی پیا اور اپنے جانوروں کو بھی پانی پلایا۔ اس کے بعد و ہیں خیمے لگا کر رہائش اختیار کر لی۔

یہوہ عورت ہے قرباں عورتیں جس کی شرافت پر
یہ ایسی ماں ہے مائیں رشک کھائیں جس کی قسمت پر
یہ ام المسلمیں ہےا ور شہزادی ہے صحرا کی
اسی کے نازنین قدموں سے آبادی ہے صحرا کی

جن قافلوں کا بھی اس طرف سے گزر ہوتا پانی کی سہولت کے باعث وہ وہیں پر خیمے لگا کر اور مٹی ، پتھروں سے مکان بنا کر رہائش اختیار کر لیتے ۔ اس طرح کچھ ہی عرصہ میں اس بیابان جگہ پر ایک شہر آباد ہو گیا جو مکتہ المکرمہ کے نام سے پوری دنیا میں جانا اور پہچانا جاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کو اپنے پیارے بندے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور پیاری بندی حضرت ہاجرہ کا یہ عمل اس قدر پسند آیا کہ زم زم کا فیض تا قیامت جاری کردیا اور حضرت ہاجرہ کا صفا مروہ پہاڑی پر دوڑ نا اتنا اچھا لگا کہ اسے ارکان حج میں شامل کر دیا۔ آج حجاج کرام جب تک صفا و مردہ پر سات چکر نہ لگالیں ان کا حج مکمل نہیں ہوتا۔
یہی وجہ ہے کہ جب مسلمان حج کرنے جاتے ہیں تو صفا ومروہ پہاڑیوں پر چکر لگاتے ہیں اور خوب سیر ہو کر آب زم زم بھی پیتے ہیں ۔ آب زم زم دنیا کے ہر مسلمان تک کسی نہ کسی طریقے سے پہنچتا ہے چاہے وہ خود حج یا عمرہ کرنے نہ جاسکے۔
آج کل آب زم زم کو نکالنے کے لیے طاقت ور موٹریں لگی ہوئی ہیں، جو چند لمحوں میں بہت سا پانی نکال لیتی ہیں لیکن مجال ہے جو ذراسی کمی بھی واقع ہوئی ہو۔ پانی ختم ہونا یا چشم کا خشک ہو جانا تو دور کی بات ہے پانی کم بھی نہیں ہوتا۔ چند سالوں سے کیے جانے والے انتظامات کے تحت آب زم زم کو حاصل کرنے کے لیے کسی قسم کی دشواری محسوس نہیں ہوتی۔ مسجد الحرام کے اندر کولروں میں آب زم زم کا تازہ پانی بھی موجود ہے۔ ٹھنڈے پانی کی ضرورت کے مطابق آب زم زم کی فراہمی کا انتظام بہت ہی معقول و مناسب ہے۔ اس کے علاوہ پلاسٹک کے کولروں میں آبِ زم زم کا تازہ پانی بھی موجود ہوتا ہے۔
آب زم زم عبد ابراہیمی میں جاری ہوا اور ایک محتاط اندازے کے مطابق ہمارے موجودہ عہد 1440ھ تک تقریباً ۴۵۵۸ سال کا عرصہ گزر چکا ہے یعنی آب زم زم آج سے چار ہزار پانچ سو اٹھاون سال قبل وجود میں آیا تھا۔
آب زم زم کا دور بلاشبہ صدیوں پر محیط ہے۔ اس دوران میں گردشِ ایام اور تغیرات زمانہ کی وجہ سے آب زم زم کا چشمہ گہرا ہو کر خشک ہو گیا تھا۔ لوگ بھول گئے تھے کہ آب زم زم کہاں واقع تھا۔ حتی کہ آپؐ کے دادا حضرت عبدالمطلب نے خواب دیکھا اور خواب میں آب زم زم والی جگہ کھود نے اور پانی نکلنے کا منظر دیکھا۔
حضرت عبدالمطلب نے جب مسلسل چار دن ایک ہی خواب دیکھا تو قبیلہ کے کچھ لوگوں سے اس کا ذکر کیا تا کہ وہ اس کام میں ان کا ہاتھ بٹائیں لیکن کوئی بھی ان کا ساتھ دینے کو تیار نہ ہوا۔ آخر کا ر حضرت عبدالمطلب نے تنہا اس کام کو کرنے کا فیصلہ کیا اور کھدائی شروع کر دی ۔
غیبی اشارات سچ ثابت ہوئے اور پانی نکل آیا۔ صاف و شفاف تازہ اور میٹھا پانی جب بہت زیادہ مقدار میں نکلنا شروع ہوا تو ہر طرف ہلچل مچ گئی ۔ حضرت عبدالمطلب کے لیے یہ ایک بہت بڑا اعزاز تھا کہ زم زم کا قدیم تاریخی کنواں ان کے ہاتھوں سے پھر جاری ہو گیا اور زم زم کے کنواں کی تاریخ ایک بار پھر زندہ ہوگئی۔
اس بابرکت کنویں کی وجہ سے قریش حضرت عبدالمطلب سے صلح پر مجبور ہو گئے اور پانی سے استفادہ کرنے لگے۔ زم زم اپنی شکل وصورت کے اعتبار سے عام کنوؤں کی طرح تھا۔ اس وقت زم زم کا پانی کنویں سے رسی اور ڈول کی مدد سے نکالا جاتا تھا۔ بعد ازاں پتھر کی منڈیر بنادی گئی ۔ کنویں کے برابر میں دو حوض پختہ بنائے گئے ۔ ایک حوض زائرین و حجاج کے پانی پینے کے لیے اور دوسرا ان کے وضو کے لیے۔
وقت کے ساتھ ساتھ جوں جوں پانی کی ضرورت محسوس ہوئی تو پانی نکالنے کے لیے پھر کی قائم کی گئی۔ کنویں کی منڈیر کے ساتھ چبوترہ قائم کیا گیا اور چبوترے کے ایک جانب اس کی بغل میں سقایا کے لیے ایک بیٹھک تعمیر کی گئی۔ یہ تمام تعمیرات حضور اکرم خاتم النبین محمدرسول الله کے دور میں موجود تھیں ۔ اس وقت آپؐ کے چچا حضرت عباس بن عبدالمطلب سقایا کے منصب پر فائز تھے۔
مختلف ادوار میں آب زم زم کے کنویں کی تعمیر ہوتی رہی اور اصلاحات کا عمل جاری رہا۔ ذرائع آمد ورفت کی آسانی سے حجاج و زائرین کی تعداد میں اضافہ ہوا تو آپ زم زم کے حصول کو آسان بنانے کے لیے کئی مناسب اقدامات کیے۔ طاقت ور قسم کی موٹریں لگا دی گئیں۔ اس کے علاوہ ہر خاص و عام تک پانی پہنچانے کے لیے پلاسٹک کے کولر تمام گزرگاہوں میں رکھے گئے ہیں ، جن میں ہر وقت ٹھنڈا پانی موجود رہتا ہے۔
آب زم زم کی فضیلت اور برکت کے بارے میں بہت سی روایات و احادیث مذکور ہیں۔ در حقیقت آب زم زم امراض سے شفاء جسموں کے لیے غذا اور پیاس سے مستغنی کر دینے والا ہے۔
(۱) حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا کہ زم زم جنت کی نہروں میں سے ایک نہر ہے۔
(۲) ابن عباس روایت کرتے ہیں کہ حضور اکرم خاتم النبین محمد رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا روئے زمین پر سب سے بہترین پانی زم زم ہے، اس میں غذائیت بھی ہے اور مرض سے شفا بھی (طبرانی)۔
آب زم زم پیتے وقت یہ دعا پڑھیں ۔
اللهم إني أسألك علماً نافعاً، ورزقاً واسعاً، وشفاءً من كل داء،
ترجمہ : اے اللہ میں تجھ سے مانگتا ہوں نفع دینے والا علم ، رزق کشادہ اور تمام بیماریوں سے شفا “۔
آب زم زم پیتے وقت شروع میں بسم اللہ پڑھنا اور آخر میں الحمد للہ کہنا بھی سنت ہے۔ آب زم زم کھڑے ہو کر قبلہ رو ہو کر پینا سنت ہے ۔ آب زم زم کو پیٹ بھر کر پینا چاہیے کیوں کہ یہ مومن کی علامت ہے اور نفاق کا علاج ہے۔ زم زم کا پانی چہرے پر ملنا اور سر پر ڈالنا بھی سنت ہے ۔ زم زم کا پانی ہر اس مقصد کے لیے ہے جس کے لیے پیا جائے لہذا آب زم زم پیتے وقت نیت بھی کر لینی چاہیے۔ اللہ تعالی ہم سب کو آب زم زم پینے اور اس کا ادب و احترام کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ (آمین)

اگر آپ پسند کریں تو یہ بھی پڑھ سکتے ہیں

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top