قاضی ، ڈونٹ اور لعنت
چیف جسٹس جناب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ، اسلامی جمہوریہ پاکستان کے قاضی القضاۃ ہیں۔
امام ابویوسف تاریخ اسلام میں پہلے شخص ہیں جنہیں قاضی القضاۃ (چیف جسٹس) بنایا گیا۔آپ امام ابو حنیفہ کے شاگرد تھے۔ آپ کے بارے میں مشہور تھا کہ حکومت وقت کو آڑے ہاتھوں لیتے اور انصاف و قانون کی عملداری یقینی بناتے۔( واللہ عالم بالصواب)
1300 سو سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا اورستم ظریفی دیکھیے آج ہمیں جو قاضی نصیب ہوا ہے اس کے تعارف میں زیادہ کچھ کہنے کی ضرورت نہیں بس ایک عدد ”ڈونٹ “ہی کافی ہے۔آپ کی پروفائل میں ایک اور کارنامے کا اضافہ ہوا۔ لفظ” لعنت “کو آپ نے شہرت کی بلندیوں تک پہنچا دیا ہے۔ اب تو لغت میں نئی معنی سیاق و سباق کے ساتھ درج کرنے کی ضرورت محسوس ہونے لگی ہے۔
ریختہ ڈکشنری کے مطابق :اس لفظ کے متعدد معنی ہیں جیسے:
لعن، پھٹکار، نفریں
برا بھلا، سخت و سست
عذاب، مصیبت نیز ذلت
اب یہ فیصلہ میں قارئین پہ چھوڑتا ہوں کہ کونسا معنی جناب کی فطرت پہ پورا اترتا ہے۔
کچھ لوگوں کا ماننا ہے شیطان لعیم کے بعد زمانہ موجود میں آپ ہی ایک ایسی شخصیت ہیں جنھیں شدو مد کے ساتھ اس لقب سے نوازا گیا۔بے شک عزت اور ذلت تو خدا ہی کی طرف سے ہے۔
کچھ صاحبانِ فکرو دانش کی طبیعت پہ یہ لفظ گراں گزرتا ہے کہ ملک کے سب سے بڑے قاضی کو بھرے بازار میں یوں رسوا کرنا بد تمیزی اور بد تہذیبی کے زمرے میں آتا ہے۔ اس لیے اس نوجوان کو ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا اور اسے قرار واقعی سزا سنائی جائے۔
جنابِ من! اس ملک کا ہر غریب شخص پہلے ہی قرار واقعی سزا بھگت رہا ہے۔سنانی ہے تو سُنا بھی دیجیے۔ ڈھائی کروڑ بچے سکول سے باہر ہیں،اور جو کچھ پڑھ گئے ان کے لیے نوکریاں ناپید ہیں۔ مہنگائی ایسی کہ الحفیظ الاماں۔۔۔سر ڈھانپیں تو پاؤں ننگے اور پاؤں پہ کپڑا ڈالیں تو سر ننگا۔۔۔پوری قوم اک اضطراب میں مبتلا ہے اور مستقبل قریب میں بہتری کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔
نوجوان نسل کو بد تمیزی کا سرٹیفیکیٹ باٹنے والے ذرا اپنی کرتوں پہ بھی غور فرمائیں، پچھلی نسلوں نے انھیں دیا کیا ہے جس کا بدل وہ مانگ رہے ہیں۔ یہ بحث لمبی ہے اسے کسی اور وقت پہ اٹھا رکھتے ہیں۔
قاضیِ وقت،وقت کی جابر حکومت کے ساتھ مل کر لوگوں کی زندگیاں اجیرن بنا دے، اپنی ذاتی مفادات کو بچانے کے لیے بچے کھچے آئین کو روندڈالے اور ہر وہ عمل کرے جس سے ظالم نظام کو تقویت ملے تو کسی کے نازک مزاجوں پہ ضرب نہیں پڑتی لیکن اگر کوئی حالات سے عاجز شخص ، لعنت بھیج دے تو تہذیب کاجنازہ نکل جاتا ہے۔اور کیسی تہذیب ، ہم تو حقیتاً تہذیب کے کوڑے دان میں پڑی قوم ہیں۔
اکبر الہٰ آبادی کہہ گئے
ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بد نام
وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا
ہماری آہ انھیں ناگوار گزر رہی ہے اور جناب کے جرم عظیم بھی ‘قاضی’ کے عہدے کے پیچھے چھپنے کی کوشش میں ہیں۔
بہت کچھ کہا لکھا جاسکتا ہے لیکن پھر احساس ہوتا ہے کہ ملک خداداد میں جہاں قاضی ہی طاقتوروں کی باندی بنا ہو وہاں کس سے منصفی چاہیں گے۔ کسی ناکردہ جرم کی پاداش میں دھر لیے گئے تو کس سے انصاف طلب ہوں گے۔ چپ ہی بھلی میاں۔۔۔
فیض صاحب کی نظم کی بازگشت آج بھی اتنی ہی توانا ہے جتنی کئی دہائیوں پہلے تھی
نثار میں تری گلیوں کے اے وطن کہ جہاں
چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے
جو کوئی چاہنے والا طواف کو نکلے
نظر چرا کے چلے جسم و جاں بچا کے چلے
ہے اہل دل کے لیے اب یہ نظم بست و کشاد
کہ سنگ و خشت مقید ہیں اور سگ آزاد
بنے ہیں اہل ہوس مدعی بھی منصف بھی
کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں
بلاشبہ سگ(کتے) آزاد ہیں اور ہوس کے مارے ہیں۔ والسلام