حسن کوزہ گر - ایک مطالعہ
تحریر و تنقید: علی احمد
ن م راشد ایک ایسا نام جنھوں نے آزاد نظم کو فکری اور تکنیکی آزادی کے عروج پہ لاکھڑا کردیا ہے۔ڈاکٹرآفتاب احمد ”ن ۔ م ۔ راشدشاعر او ر شخص“ میں فرماتے ہیں کہ:
” راشد شاعر نہیں ، لفظوں کے مجسمہ ساز ہیں ۔ و ہ نظمیں نہیں کہتے ، سانچے میں ڈھلے ہوئے مجسّمے تیار کرتے ہیں۔“
ن م راشد کی علامتیں:
ن-م راشد کی شاعری میں علامتوں کا ایک تسلسل ہے۔ جہاں تک علامت اور علامت نگاری کا تعلق ہے ۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ زبان بذاتِ خودعلامتوں کا ایک سلسلہ ہے ۔ زبان ایک نامیاتی نظام ہے جس کے اجزائے ترکیبی اور مرکبات علامتیں ہی ہو تی ہیں۔ علامت کا کام تشبیہ یا اشارہ کی طرح اشیا کی نمائندگی کرنا نہیں بلکہ اشیا کے تصورات کا اظہار ہے۔ یہ گہرے داخلی شعور کے نتیجے میں نمودار ہوتی ہے جس میں اجتماعی لا شعور کا بہت بڑا حصہ ہے۔ کیونکہ راشد کے موضوعات تحت الشعور اور شعور کی گنجلکوں کا بیان ہیں۔ اس لئے انہوں نے اظہار کے لئے علامت نگاری کو اختیارکیا۔
راشد کے موضوعات:
راشد کے پسندیدہ موضوعات میں سے ایک اظہار کی نارسائی ہے۔ اپنی ایک اعلیٰ ترین نظم حسن کوزہ گر‘میں وہ ایک تخلیقی فن کار کا المیہ بیان کرتے ہیں جو کوزہ گری کی صلاحیت سے عاری ہو گیا ہے اور اپنے محبوب سے ایک نگاہِ التفات کا متمنی ہے جس سے اس کے خاکستر میں نئی چنگاریاں پھوٹ پڑیں۔ لیکن راشد کی بیشتر نظموں کی طرح حسن کوزہ گر بھی کئی سطحوں پر بیک وقت خطاب کرتی ہے
ان کا شہرہ آفاق کردار حسن کوزہ گرہے۔یہ کردار ان داخل کی ان گہرائیوں سے معرضِ وجود میں آیا ہے جہاں خالق اور مخلوق میں دوئی مٹ جاتی ہے۔ قاری کے لئے یہ پہچاننا بہت مشکل ہو جاتا ہے کہ راشد ،حسن کوزہ گرہے یا حسن کوزہ گر، راشد ہے۔ اس کردار میں راشد نے خود اپنا ہمزاد پیدا کیا
حسن کوزہ گر ایک طویل نظم:
حسن کوزہ گر راشد کی وہ طویل نظم جس میں راشد جھونپڑی میں رہنے والے کوزہ گر کی سوچ کے آ فاق کھولتا ہے و ہ پڑھنے والا خود کو بغداد کی گلیوں میں بوڑھے عطار یوسف کی گلیوں کے گرد گھومتا ہوا محسوس کرتا ہے کہیں بغداد کی گلیوں کا پراسرار حسن تو کہیں غریب کوزہ گر جس کے کوزے تک بول اٹھتے ہیں”حسن کوزہ گر اب کہاں ہے””
راشد کا یہ کردار ان کی چار نظموں کا ہیرو ہے پہلی نظم لا-انسان میں شایع ہوئی۔باقی تین نظمیں اُن کے آخری مجموعے "گمان کا ممکن” میں شامل ہیں۔کہنے کو تو یہ الگ الگ نظمیں ہیں اور مختلف اوقعات میں لکھی گئی ہیں لیکن ان میں ایک تسلسل ہے۔ اول تو ان کا مرکزی کردار ایک ہے ۔دوسرے یہ ایک زندگی کے سفر کی داستان ہے ۔ یہ ایک جیتے جاگتے ، معاشرتی اور جذباتی کرب سے گزرتے حساس فنکار کی داخلی سوانح حیات ہے جس کی ابتدا صنفِ مقابل سے عشق سے ہوتی ہے۔ ہجر کے الاؤ میں اس کا داخل فنا سے ہمکنار ہو تا ہے اور نتیجتاً اس کی خارجی زندگی کے خس و خاشاک بھی جل جاتے ہیں ۔ وہ در بدری کی ٹھو کریں کھاتا ہوا ،معاشرے اور تاریخ کے پیچ و خم سے گزرتا ہوا زندگی کی سب سے بڑی دو حقیقتوں کو پہچانتا ہے اول عشق اور آخر فنا جو دونوں اصل میں ایک ہی ہیں ۔
راشد نے اپنی شاعری میں واحدمتکلم کو خوب برتا ہے۔ مکالمے اور تخاطب نے ان کی شاعری کو ڈرامائی انداز اور زندگی کا تحرک دیا ہے۔
نظم کا آغاز ہی راوی کے اپنے محبوب سے غائبانہ مکالمے سے ہوتا ہے جو خود اس نظم کا مرکزی کردار بھی ہے، وہ اپنی سوختہ سری کا بے باک اعتراف کرتا ہے اور ہجر کے الم ناک، نا رسا دور کی روداد بیان کرتا ہے۔
حسن کوزہ گر (1)
از ن م راشد
جہاں زاد، نیچے گلی میں ترے در کے آگے
یہ میں سوختہ سر حسن کوزہ گر ہوں!
تجھے صبح بازار میں بوڑھے عطّار یوسف
کی دکّان پر میں نے دیکھا
تو تیری نگاہوں میں وہ تابناکی
تھی میں جس کی حسرت میں نو سال دیوانہ پھرتا رہا ہوں
اب وہ اپنی ذات کے نہاں خانوں میں نگر نگر در بدر حسرت و بے سامانی کے عالم میں سر گرداں ہے۔ باہر کی دنیا سے یکسر بے خبر۔۔۔ ایسا بے خبر کہ اُس کے اپنے تخلیق کردہ فن پارے شکایت کناں ہیں۔۔۔اے حسن ہم سے یہ بے نیازی کیسی!!! گویا خداؤں کا شیوہ تمہارا طریق بن گیا۔۔۔ جیسے خدا سے شکوہ کیا جاتا ہے کہ وہ اپنے بندوں سے بعض اوقات نے نیازی برتتا ہے۔۔۔اے حسن تم میں یہ صفت در آئی ہے۔
جہاں زاد، نو سال دیوانہ پھرتا رہا ہوں!
یہ وہ دور تھا جس میں میں نے
کبھی اپنے رنجور کوزوں کی جانب
پلٹ کر نہ دیکھا ۔۔۔۔
وہ کوزے مرے دستِ چابک کے پتلے
گِل و رنگ و روغن کی مخلوقِ بے جاں
وہ سر گوشیوں میں یہ کہتے
"حسن کوزہ گر اب کہاں ہے
وہ ہم سے خود اپنے عمل سے
خداوند بن کر خداؤں کے مانند ہے روئے گرداں
نو سال کا استعارہ:
نو سال کا استعارہ قابلِ غور ہے ۔ ہو سکتا ہے یہ اُن کے ایران میں قیام کا دورانیہ ہو، کیونکہ یہ نظم ایران میں لکھی گئی۔
حسن کوزہ گر خود کسی شہرِ مدفون کا خاموش ساکن اور نا رسا حسرت کا بُت بنا محوِ انتظار ہے۔ ۔۔اُس کے روزگارِ ہائے زندگی ک تمام استعارے سنگ بستہ پڑے ہیں گویا کوئی امید ، ہر صورت ناپید ہے۔۔۔ ہر شے میں بگاڑ اور شکستگی ہے۔
جہاں زاد نو سال کا دور یوں مجھ پہ گزرا
کہ جیسے کسی شہرِ مدفون پر وقت گزرے
تغاروں میں مٹی
کبھی جس کی خوشبو سے وارفتہ ہوتا تھا میں
سنگ بستہ پڑی تھی
صراحی و مینا و جام و سبو اور فانوس و گلداں
مری ہیچ مایہ معیشت کے، اظہارِ فن کے سہارے
شکستہ پڑے تھے
اب وہ باہر کی دُنیا سے اندر کی کائناتِ بے کراں میں جھانکتا ہے۔ اور اپنا حالِ شریدہ کہتا ہے۔ واہموں کی مٹی سے وہ خوابوں کے کوزے بنناے کا ہنر سیکھ چکا ہے، اُسے خود بھی علم ہے کہ یہ عبث ، بے ثمر مشقت کے سوا کچھ بھی نہیں ۔ وہ پھر اپنی نازکِ جاں سے مخاطب ہے کہ تجھے معلوم تھا کہ تیری طلسم ہوش رُبا نگاہوں نے میری دنیا ہی بدل دی۔
حسن کو وہ سوختہ بخت ہوش دلانے کی ناکام سعی کرتی ہےاسے احساس دلاتی ہے کہ ذرا گھر پہ نظر کر، فاقوں کی خبر لے۔۔۔
حالانکہ یہ کردار شعوری طور پہ اس درد بھری فریاد کا ادراک رکھتا ہے اور یہ بھی جانتا ہے کہ وہ خود اس شہر کا باسی ہے جو اوہام کی زد میں ہے جہاں ہر کس و ناکس پہ جمود طاری ہے اور کوئی زندگی کی جنبش باقی نہیں۔ لیکن اک امید ابھی بھی سر اٹھا رہی ہے، گو کہ رات اندھیری ہے لیکن اسے یقین ہے کہ وہ تابناک نگائیں اُس کی زندگی کا دیا روشن کریں گی۔ بالآخر وہ نگائیں اسے پھر جھانکنے لگیں۔
حسن نظم میں میں اپنی کہنا نہیں بھولتا کہ زمانہ کے اثر سے کون بچ سکا ہے ، انسان تو جیسے مٹی کے بنے برتنوں کی مانند ہے، جس پہ سالہا سال کی قحط سالی نے یہ اثر چھوڑا ہے کہ اب ذرا بھی نم باقی نہیں رہا۔۔۔
تمنا کی وسعت کی کس کو خبر ہے۔۔۔ تمنائیں تو بے تاب ہوتی ہیں لیکن آخر میں حسن تمام مدعا اس قاف کی سی آنکھوں والی کے سامنے رکھتے ہوئے اس کی مرضی کا طالب ہے کہ اگر وہ کہے تو و واپس اپنے کوزوں کی جانب لوٹ جائے لیکن اب کی بار وہ اُن سوکھے مٹی کے تودوں سے وہ شرارے نکالے کہ جن سے دلوں کے خرابے روشن ہوں۔
راشد کا یہ کردار حسن کوزہ گر، مٹی کی اس مخلوق ، یعنی انسان کے دلوں کے خرابے روشن کرنے کا خواہشمند ہے مگر وہ یہ خبر بھی رکھتا ہے کہ عشق کی کرن کے بغیر یہ ممکن نہیں۔
نظم کا باقی حصہ دیکھیے۔
میں خود، میں حسن کوزہ گر پا بہ گِل خاک بر سر برہنہ
سرِ چاک ژولیدہ مو، سر بزانو
کسی غمزدہ دیوتا کی طرح واہمہ کے
گِل و لا سے خوابوں کے سیّال کوزے بناتا رہا تھا
جہاں زاد، نو سال پہلے
تو ناداں تھی لیکن تجھے یہ خبر تھی
کہ میں نے، حسن کوزہ گر نے
تری قاف کی سی افق تاب آنکھوں
میں دیکھی ہے وہ تابناکی
کہ جس سے مرے جسم و جاں، ابرو مہتاب کا
رہگزر بن گئے تھے
جہاں زاد بغداد کی خواب گوں رات
وہ رودِ دجلہ کا ساحل
وہ کشتی وہ ملّاح کی بند آنکھیں
کسی خستہ جاں رنج بر کوزہ گر کے لیے
ایک ہی رات وہ کہربا تھی
کہ جس سے ابھی تک ہے پیوست اسکا وجود
اس کی جاں اس کا پیکر
مگر ایک ہی رات کا ذوق دریا کی وہ لہر نکلا
حسن کوزہ گر جس میں ڈوبا تو ابھرا نہیں ہے!
جہاں زاد اس دور میں روز، ہر روز
وہ سوختہ بخت آکر
مجھے دیکھتی چاک پر پا بہ گِل سر بزانو
تو شانوں سے مجھ کو ہلاتی ۔۔۔
(وہی چاک جو سالہا سال جینے کا تنہا سہارا رہا تھا!)
وہ شانوں سے مجھ کو ہلاتی
"حسن کوزہ گر ہوش میں آ
حسن اپنے ویران گھر پر نظر کر
یہ بچّوں کے تنّور کیونکر بھریں گے
حسن، اے محبّت کے مارے
محبّت امیروں کی بازی،
حسن، اپنے دیوار و در پر نظر کر”
مرے کان میں یہ نوائے حزیں یوں تھی جیسے
کسی ڈوبتے شخص کو زیرِگرداب کوئی پکارے!
وہ اشکوں کے انبار پھولوں کے انبار تھے ہاں
مگر میں حسن کوزہ گر شہرِ اوہام کے ان
خرابوں کا مجذوب تھا جن
میں کوئی صدا کوئی جنبش
کسی مرغِ پرّاں کا سایہ
کسی زندگی کا نشاں تک نہیں تھا!
جہاں زاد، میں آج تیری گلی میں
یہاں رات کی سرد گوں تیرگی میں
ترے در کے آگے کھڑا ہوں
سرد مو پریشاں
دریچے سے وہ قاف کی سی طلسمی نگاہیں
مجھے آج پھر جھانکتی ہیں
زمانہ، جہاں زاد وہ چاک ہے جس پہ مینا و جام و سبو
اور فانوس و گلداں
کے مانند بنتے بگڑتے ہیں انساں
میں انساں ہوں لیکن
یہ نو سال جو غم کے قالب میں گزرے!
حسن کوزہ گر آج اک تودۂ خاک ہے جس
میں نم کا اثر تک نہیں ہے
جہاں زاد بازار میں صبح عطّار یوسف
کی دکّان پر تیری آنکھیں
پھر اک بار کچھ کہہ گئی ہیں
ان آنکھوں کی تابندہ شوخی
سے اٹھی ہے پھر تودۂ خاک میں نم کی ہلکی سی لرزش
یہی شاید اس خاک کو گِل بنا دے!
تمنّا کی وسعت کی کس کو خبر ہے جہاں زاد لیکن
تو چاھے تو بن جاؤں میں پھر
وہی کوزہ گر جس کے کوزے
تھے ہر کاخ و کو اور ہر شہر و قریہ کی نازش
تھے جن سے امیر و گدا کے مساکن درخشاں
تمنّا کی وسعت کی کس کو خبر ہے جہاں زاد لیکن
تو چاہے تو میں پھر پلٹ جاؤں ان اپنے مہجور کوزوں کی جانب
گل و لا کے سوکھے تغاروں کی جانب
معیشت کے اظہارِ فن کے سہاروں کی جانب
کہ میں اس گِل و لا سے ، اس رنگ و روغن
سے پھر وہ شرارے نکالوں کہ جن سے
دلوں کے خرابے ہوں روشن!