تفہیم عبارت نمبر 10: دنیا کے ادب میں ڈراما ایک نہایت قدیم صنف ہے

دنیا کے ادب میں ڈراما ایک نہایت قدیم صنف ہے۔ اردو میں ڈرامے کی ابتدا ۱۸۵۳ء میں امانت کی”اندر سبھا “سے ہوتی ہے۔ لیکن جدید ڈرامے کا تصور بعد میں انگریزوں کی وساطت سے آیا۔ اردو ڈرامے کے پیش رو کی حیثیت سے” رہس “کا ذکر ضروری ہے۔ اس دور میں ڈرامے پر شاعری ، رقص وسرود اور موسیقی کا غلبہ تھا۔ انیسویں صدی کے آخر تک یہی سلسلہ رہا۔ بعد میں آغا حشر نے کچھ انگریزی ڈراموں کے ترجموں اور کچھ طبع زاد ڈراموں سے اس میں زندگی کا حقیقی خون دوڑانے کی کوشش کی۔ بیسویں صدی کے پہلے ربع میں مقفّٰے مکالموں کا زور رہا۔ بلکہ عبد الحلیم شرر نے انگریزی کے متبع میں نظم معرّا کی صورت میں چند ڈرامائی نمونے بھی پیش کیے۔ دوسرے ربع کے ڈراما نگاروں کے ہاتھوں ڈراما زندگی اور عوام سے قریب تر ہوتا گیا۔ اس زمانے میں امتیاز علی تاج نے اپنا معروف ڈراما ” انار کلی” لکھا۔ ان کے ہم عصر ڈراما نگاروں میں عابد علی عابد اور میرزا ادیب بالخصوص قابل ذکر ہیں ۔“

سوالات

سوال 1: اس عبارت کا عنوان تجویز کیجیے۔

اس عبارت کا عنوان: ڈرامے کی ابتدا اور ارتقاء

سوال 2: اردو ڈرامے کا ذکر کرتے وقت رہس کا ذکر کیوں ضروری ہے؟

اردو ڈرامے کا ذکر کرتے وقت رہس کا ذکر کرنا اس لیے ضروری ہے کہ اسے اُردو ڈرامے کو پیش رو کی حیثیت سے تسلیم کیا جاتا ہے۔

سوال 3: وہ کون سا دور تھا جس میں اردو ڈرامے پر شاعری اور رقص و سرود کا غلبہ تھا؟

جب اردو ادب میں انگریزوں کے واسطے سے جدید اردو ڈرامے کا تصور سامنے آیا تو اس دور میں ڈرامے پر شاعری اور رقص کا غلبہ ہوا۔

سوال 4: مقفّٰے مکالمے سے کیا مراد ہے؟

مقفّٰے مکالمے ایسے مکالمے کو کہتے ہیں جس میں قافیہ کا خاص اہتمام کیا گیا ہو یعنی قافیہ (ہم آواز الفاظ)والے مکالمے بولے جائیں۔

سوال 5: طبع زاد ڈراما کیا ہوتا ہے؟

طبع زاد ڈراما وہ ڈراما ہوتا ہے جو مصنف کی اپنی تخلیقی صلاحیتوں سے معرضِ وجود میں آتا ہے۔

اگر آپ چاہیں تو جماعت دہم کے نوٹس دیکھ سکتے ہیں

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!
Scroll to Top