تفہیمِ عبارات

ابلاغ میں زبان بنیادی اہمیت کی حامل ہے۔ اس سلسلے میں طلبہ کی زبان دانی کی صلاحیت کا جائزہ لینے کے لیے نصاب کے علاوہ کسی بھی تحریر، مضمون یا نظم کا کوئی اقتباس دے دیا جاتا ہے، جس کے حوالے سے عبارت کے آخر میں چند سوالات ترتیب دے کر طلبہ سے ان کے جوابات لکھنے کو کہا جاتا ہے، جس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ طلبہ غیر نصابی عبارت کے مفہوم کو کس حد تک سمجھتے ہیں۔ اس ضمن میں طلبہ پر لازم آتا ہے کہ وہ درج ذیل باتوں کو پیش نظر رکھیں :

ضروری باتیں

سب سے پہلے عبارت کو ایک یا دو مرتبہ غور سے پڑھیے اور عبارت کے مفہوم اور نفس مضمون کو سمجھنے کی کوشش کیجیے۔

 پوچھے گئے تمام سوالوں کے جواب بالعموم عبارت کے اندر ہی موجود ہوتے ہیں، جو ذراسی سوچ بچار کے بعد ذہن میں آجاتے ہیں۔

 اگر بفرض محال کسی سوال کا جواب عبارت میں موجود نہیں تو ایسی صورت میں عبارت کے مجموعی تاثر کے پیش نظر جواب دیجیے۔

 تمام جواب عبارت کے مطابق ہوں۔ حقائق کو مسخ مت کیجیے۔

آپ کے جوابات کو سوالات کے عین مطابق ہونا چاہیے یعنی جس قدر سوال پوچھا گیا ہے، اسی قدر اس کا جواب دیں اور جواب کو غیر ضروری طول ہرگز نہ دیں۔جواب دیتے وقت عبارت کا اصل جملہ نقل کرنے کے بجائے اسے ہمیشہ اپنے الفاظ میں لکھنے کی کوشش کریں لیکن جواب کو اپنی لیاقت بگھارنے کی کوشش میں نہ تو مشکل بنانے کی کوشش کیجیے اور نہ ہی عبارت کو مسخ یا بے ربط کیجیے۔

 اگر معروضی طرز کا سوال ہے تو درست ترین جواب کے گرد دائرہ لگائیے۔

اگر عبارت کا عنوان بھی پوچھا گیا ہے تو یادرکھیے کہ سب سے بہتر عنوان وہ ہوتا ہے جو اصل عبارت کے مجموعی تاثر کو ظاہر کرتا ہے اور اصل عبارت پڑھنے کے بعد ذہن سے نکلتا ہے، بصورت دیگر اس ضمن میں اصل عبارت کا پہلا یا آخری جملہ پڑھ لینابھی سودمند ہوتا ہے، عین ممکن ہے کہ عنوان وہاں مستور ہو۔

عنوان کو مختصر ترین ہونا چاہیے اور فقط ایک عنوان دینا چاہیے۔

آیند ہ صفحات میں ہم نے طلبہ کی مزید رہنمائی کے لیے نمونے کی چند ایک غیر نصابی عبارتیں مع سوالات دے دی ہیں اور ان میں سے چھے عبارات کے سوالات اور ان کے جوابات بھی لکھ دیے ہیں۔ تقسیم عبارت کے سوال میں عام طور پر پانچ سوالات پوچھے جاتے ہیں، اس لیے ہم نے بھی ہر عبارت سے متعلقہ پانچ سوال ہی پوچھے ہیں لیکن ممکن ہے کہ پانچ سے زیادہ سوال پوچھ لیے جائیں ۔ بہر کیف طلبہ ان عبارات ، سوالات اور ان کے جوابات کو بغور پڑھیں اور ان کی روشنی میں تقسیم عبارت کے سوال پر عبور حاصل کریں۔

تفہیم عبارت 1

پنجاب کی حدوداُن دنوں میں غزنی کی حد تک پھیلی ہوئی تھیں اور راجا یہاں کا جے پال تھا۔ جب مسلمانوں کے قدم آگے بڑھتے معلوم ہوئے تو اس نے غزنی پر ایک بھاری فوج سے چڑھائی کی۔ چناں چہ دفعہً ملغان پر جا کر ڈیرے ڈال دیے اور پشاور سے کابل تک برابر لشکر پھیلا دیا۔ ادھر سے سبکتگین بھی نکلا۔ چناں چہ دونوں فوجیں آمنے سامنے پڑی تھیں اور ایک دوسرے کی پیش قدمی کی منتظر تھیں کہ دفعہً آسمان سے گولے پڑنے لگے یعنی بے موسم برف گرنی شروع ہو گئی۔ وہ لوگ تو برف کے کیڑے تھے ، انھیں خبر بھی نہ ہوئی ۔ ہندوستانی بے چارے اپنے لحاف اور رضائیاں ڈھونڈنے لگے ، مگر وہاں رضائی کا گزارہ کہاں؟ سیکڑوں اکڑ کر مر گئے، ہزاروں کے ہاتھ پاؤں رہ گئے ، جو بچے اُن کے اوسان جاتے رہے ۔“

سوالات

سوال 1: پنجاب کی حدو د غزنی تک پھیلی ہوئی تھیں کس زمانے میں؟

جواب: جس زمانے میں جے پال پنجاب کا راجا تھا تو پنجاب کی حدود غزنی تک پھیلی ہوئی تھیں۔

سوال 2: جے پال کون تھا اور سبکتگین کے بارے میں آپ کیا جانتے ہیں؟

جواب: جے پال پنجاب کا راجا تھا اورسبکتگین غزنی کا حکمران تھا۔ یہ وہ سبکتگین ہے جس کا بیٹا محمود غزنوی ہے، جس نے ہندوستان پرسترہ حملے کیے تھے۔

سوال 3: وہ لوگ تو برف کے کیڑے تھے ۔ کون لوگ برف میں رہنے کے عادی تھے؟

جواب: غزنی کے لوگ برف کے کیڑےتھے یعنی وہ لوگ برف میں رہنے کے عادی تھے۔

سوال 4:  وہاں رضائی کا گزارہ کیوں نہیں تھا ؟ وہ لوگ جاڑے میں کیا اوڑ ھتے تھے؟

جواب: غزنی کے لوگ جاڑے میں گرم کپڑے اور اونی کمبل اوڑھتے تھے۔ رضائی سے ناواقف تھے۔

سوال 5: جے پال اور سبکتگین میں جنگ کیوں نہ ہوئی ؟

جواب: کیونکہ برف باری نے راجا جے پال کی فوج کے اوسان خطا کر دیے اور فوجی وہاں سے بغیر جنگ کیے پنجاب کی طرف واپس بھاگ گئے ۔

اگر آپ چاہیں تو جماعت دہم کے نوٹس دیکھ سکتے ہیں

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!
Scroll to Top