یہ کہانی (ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے | شیخی دھری رہ گئی) ادریس صدیقی کی تحریر ہے۔

شکاریوں میں ایک عادت ضرور پائی جاتی ہے۔ وہ اپنے شکار کرنے کی کہانی بہت بڑھا چڑھا کر سناتے ہیں۔ کوئی چھوٹی تو کوئی لمبی ہوائی چھوڑتا ہے۔ لیکن ہر ایک لمبی چوڑی سُناتا ہے۔ یہی بات مرزا کے لیے بھی کہی جاسکتی ہے۔ وہ جب اپنے کسی شکار کا قصہ سناتے ہیں تو وہ ہر بار پہلے سے بڑھ چڑھ کر ہوتا ہے۔

جب  بھیکم پور کے جنگل میں ایک شیر آدم خور ہو گیا تو گاؤں والوں نے افسروں سے فریاد کی۔ پہلے جنگل کے سرکاری افسروں نے خود ہی شیر پکڑنے اور مارنے کی کوشش کی لیکن وہ ناکام رہے۔ مرزا اکثر یہ کہانی سناتے ۔ پھر کیا ہوا؟‘ رجو بھیا نے بچوں کی طرح سوال کیا۔

 ” کیا شیر پکڑا گیا ؟ “ اور فوراً ہی اگلا سوال بھی کر دیا وہ کتنے لوگوں کو کھا چکا تھا ؟“

 رجو بھیا جوان آدمی ہیں لیکن شکار کے قصے بچوں کی طرح سنتے ہیں۔ وہ مرزا کے گھر شکار کی کہانیاں سُننے  آتے رہتے ہیں۔ ان کے علاوہ وہاں جمال، ارشد اور راکیش بھی موجودرہتا ہے۔ ان کو بھی شکار کی باتیں سنے کا بہت شوق ہے۔ مرزا نے ماحول بناتے ہوئے کہا۔ وہ شیر کئی لوگوں کو کھا چکا تھا ؟ 

ابھی مرزا اپنی بات کہہ رہے تھے کہ رجو بھیا نے ٹوک دیا۔ وہ کتنے لوگوں کو کھا چکا تھا؟ انھوں نے اپنا پر انا سوال دو ہرایا۔ مرزا کو معلوم ہے کہ جب تک رجو بھیا کے سوال کا جواب نہیں دیتے وہ کہانی آگے بڑھنے نہیں دیں گے۔

ارے بابا ،سُنو تو سہی۔ مرزا نے رجو بھیا کو گھورا ۔ ” آدم خور شیر نے درجن بھر لوگوں کا شکار کیا تھا تبھی تو گاؤں میں ڈر پھیل چکا تھا۔“ 

لیکن مرزا جی اس بار راکیش نے کہا ” اخباروں میں تین لوگوں کے شکار ہونے کی خبر چھپی تھی ۔ جہاں تک مجھے یادہے

ہاں بھائی مرزا جی نے پینترا بدلتے ہوئے کہا۔ اخباروں میں صحیح خبر نہیں دی گئی تھی تا کہ لوگ گاؤں چھوڑ کر بھاگ نہ جائیں۔“

لیکن شیر آدم خور کیوں ہوگیا تھا ؟ ارشد نے وجہ جاننی چاہی۔ مرزا جی کے پاس شکار کے بارے میں ہر سوال کا

جواب ہوتا ہے۔ وہ بولے۔

کوئی بھی شیر آدم خور نہیں ہوتا ہے بلکہ وہ انسانوں سے دُور رہنا پسند کرتا ہے۔ ” رجو بھیا نے پھر ٹو کا ” تو یہ شیر آدم

خور کیسے ہو گیا ؟”

ارے یار تم سُنا بھی کرو ۔ رجو بھیا کو ڈانٹتے ہوئے مرزا نے اپنی بات پوری کی ۔ کوئی بھی شیر خطرہ محسوس کرتا ہے

تبھی آدمی پر حملہ کرتا ہے۔ یہ اس کی مجبوری ہوتی ہے۔“ 

اسے آدمی سے کیا خطرہ ہوتا ہے۔ بھلار جو بھیا کیسے چپ رہتے ۔ الٹے آدمی کو شیر سے خطرہ ہوتا ہے۔ یہ سُن کر مرزا ہنسنے  لگے۔

آدمی سب سے زیادہ خطرناک جانور ہوتا ہے۔ وہ ہنستے ہوئے کہنے لگے ۔ یہ شیر بھی جانتا ہے وہ ایسی حالت میں انسان پر حملہ کر دیتا ہے۔ پھر ایک بارا سے آدمی کا خون اور گوشت منہ لگ جائے تو وہ آدم خور ہو جاتا ہے۔“

بس!  جمال نے حیرانی سے کہا۔ یہی آدم خور ہونے کی وجہ ہوتی ہے؟“

نہیں۔ اور بھی کئی وجہیں ہوتی ہیں۔ تجربہ کار شکاری مرزا بتانے لگے ۔” جنگل صاف ہوتے جارہے ہیں۔ وہاں جانوروں کی بھی کمی ہورہی ہے کہ بہت سے جانور دوسرے ٹھکانوں کے لیے چلے جاتے ہیں۔ پھر جب شیر بھو کا ہوتا ہے تو وہ انسانوں پر ٹوٹ پڑتا ہے۔“

ارشد نے آدم خور شیر کے شکار کی طرف دھیان دلاتے ہوئے کہا ” پھر کیا ہو ا مرزا جی جب سرکاری افسر شیر کو پکڑ نہیں

سکے؟ کیا انھیں شیر مارنا منع تھا ؟“ 

نہیں بھائی، جنگل کے افسروں نے شیر پکڑنے اور مارنے ، دونوں کی بہت کوشش کی لیکن کامیابی نہیں ملی ۔ ” مرزا جی نے کہانی آگے بڑھائی پھر شکاریوں سے مدد مانگی کہ وہ شیر کا شکار کریں ۔ ” کتنے شکاریوں سے مدد مانگی گئی مرزا جی ؟رجو  بھیا نے نیا سوال کیا۔

پہلے تین شکاریوں کو بلایا گیا ۔ ان میں، میں بھی تھا۔“

ہر شکاری کو ایک ہفتہ کا وقت دیا گیا کہ وہ شیر مار ڈالے۔ میں نے دیکھا کہ سبھی بڑے غور سے سُن رہے ہیں۔ پہلا شکاری تیواری تھا  ۔ مرزا نے ایسے کہا جیسے کہ سبھی شکاریوں کو جانتے ہوں۔ ہمیں نہر والی کوٹھی میں ٹھہرایا گیا تھا۔ تیواری نے بہت کوشش کی لیکن شیر کا شکار نہیں کر پایا۔ پھر دوسرے شکاری راجا صاحب تھے۔“

کون راجا صاحب؟‘ رجو بھیانے ٹوکتے ہوئے پوچھا۔ ” وہ کہاں کے راجا تھے؟“ راجا نیم اللہ خاں رضا گنج کے راجا تھے اور اچھے شکاری بھی ۔ انھوں نے کئی شیروں کا شکار کیا تھا لیکن یہ آدم خور شیر

بہت چالاک نکلا۔ پورا ہفتہ گزر گیا لیکن راجا صاحب شیر نہیں مار سکے۔“

پھر آپ کو بلایا گیا ؟ جمال نے کہا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اب مرزا کیا کہنے والے ہیں۔

ہاں ۔ میں نے ایک بکریپڑ سے باندھی اور اس کے سامنے دوسرےپیڑ  کی مچان پر بیٹھ گیا۔ اتفاق سے اُس رات شیر اُدھر سے آنکلا ۔ میں نے کئی گولیاں چلائیں اور شیر ڈھیر کر دیا ۔ پتا نہیں کیوں مرزا نے کہانی چھوٹی کر دی ” پھر شیر کو نا پا گیا وہ دُم سے لے کر سر تک بارہ فٹ لمبا تھا۔ 

یہ سنتے ہی رجو بھیا سے نہیں رہا گیا۔ پچھلی بارلمبائی دس فٹ بتائی تھی۔“ ہاں ۔ مرزا بھی کم ہوشیار نہیں ۔ لیکن دم کے ساتھ بارہ فٹ تھی ۔“

اس کے بعد رجو بھیا  نہیں کہہ پائے کہ شیر کی لمبائی کبھی آٹھ فٹ سے شروع ہوئی تھی اور اب بارہ فٹ تک پہنچ چکی کچھ دنوں بعد محفل پھرجمی ۔ اس بار مرزا کے شکاری دوست اکرم بھی موجود تھے۔ رجو بھیا نے شکار کا قصہ سننے کی فرمائش  کی تو    ا کرم بولے ۔ ” آج میں ایک قصہ سُناؤں گا۔ وہ بھی بہت مزیدار ! اکرم نے مسکراتے ہوئے مرزا کی طرف دیکھا۔

ہاں تم ہی سناؤ اور اپنی بڑی بڑی بانکو! مرزا سمجھ گئے کہ اکرم کوئی شرارت کریں گے لیکن اکرم نے کہانی شروع کر دی کل کی بات ہے۔ میں اور مرزا تیتروں کا شکار کرنے بیدا گاؤں کے آگے گئے ۔“

کیا چڑیوں کا شکار بھی کرتے ہیں؟ راشد نے حیرانی سے پوچھا۔

 تم کہانی سنو ، بہت مزیدار ہے۔ اکرم نے راشد کے سوال کو ٹالتے ہوئے کہا۔ ” گاؤں کے باہر بہت ریتیلی جگہ ہے جہاں گھاس پھوس کے علاوہ جھاڑیاں اورپیڑ ہیں ۔ ہم دونوں ادھر اُدھر جھاڑیوں اور لمبی لمبی گھاس میں تیتروں  کو تلاش کر رہے تھے ۔  

مرزا نے ٹوکتے ہوئے کہا ” اکرم کا مطلب ہے کہ تیتروں کی آواز سننے کے لیے جھاڑیوں اور گھاس میں بھٹک رہے تھے

پھرا کرم نے کہانی جاری رکھی، مرزا ایک طرف اور میں دوسری طرف چلے گئے تا کہ زیادہ جگہوں میں تلاش کرسکیں۔  

یہ کہہ کر ا کرم ہنسنے لگے۔

 بتا دو تمھارے پیٹ میں کوئی بات کیسے رہ سکتی ہے۔ مرزا نے کچھ کھسیاتے ہوئے کہا۔

 مرزا کو وہیں پیڑ پر تو تے/طوطے  کے بچوں کی آواز یں  سنائی دیں۔ اکرم کی ہنسی رکنے کا نام نہیں لے رہی۔ میں دور تھا اس لیے مجھے پتا نہیں چلا۔ مرزا نے سوچا کیوں نہ تو تے کے بچوں کو پکڑ کر گھر لے جاؤں۔اسے تو تے پالنے کا شوق ہوا۔ اکرم نے پھر ہنسنا شروع کر دیا اور مرزابُرا سامنہ بنائے بیٹھے رہے۔ ” ہمارا مرزا بہت پھرتی سے پیڑوں پر چڑھ جاتا ہے۔ مرزا نے وہاں دو چھوٹے چھوٹے بچوں کو بیٹھے دیکھا تو انھیں پکڑ لیا۔

آپ وہاں نہیں تھے ؟‘راشد نے پوچھا۔

   نہیں میں ٹھگنی بندوق لیے دوسری طرف گیا ہوا تھا۔ پھر میں مرزا کو تلاش کرتا ہوا آیا۔ یہ کہتے ہوئے اکرم بنسی سے لوٹ پوٹ ہو گئے ۔

ہمیں بھی بتائیے کہ پھر کیا ہوا؟ رجو بھیا نے بے صبری سے کہا۔ 

ادھر مرزا ہا تھوں میں تو تے پکڑے پیڑ سے نیچے زمین پر اترا۔ اُدھر میں بندوق لیے ہوئے پہنچ گیا۔ مجھے اچانک سامنے بندوق سیدھی کیے  دیکھ نجانے کیوں مرزا گھبرا گیا۔ وہ بھی اتنازیادہ کہ اُس نے اپنے دونوں ہاتھ اوپر اٹھا دیے۔

اکرم کا قہقہہ گونجا ۔

پھر کیا ہوا؟ جمال ، ارشد اوررجو  بھیا کے مُنہ سے ایک ساتھ نکلا۔

پھر کیا ! مرزا کے ہاتھوں کے تو تے اُڑ گئے ؟ اس بارا کرم کے ساتھ مرزا بھی ہنس رہے تھے۔ 

اب سمجھ میں آگیا ہو گا کہ یہ محاورہ ہاتھوں کے تو تے اُڑ گئے کیسے بنا؟ یہ بات اکرم کے بجائے مرزا کے کہنے پر سبھی ہنسنے لگے۔

اگر آپ چاہیں تو یہ بھی پڑھ سکتے ہیں:

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top