” کچھ دستِ صبا کے بارے میں” سید سجاد ظہیر کی تحریر ہے۔ 

یہ تجزیہ  فیض کی کلیات "نسخہ ہائے وفا” مطبوعہ "مکتبہ کارواں ، کچہری روڈ ، لاہور” میں "سر آغاز” کے نام سے "زنداں نامہ” کے دیباچے میں بھی شامل ہے۔جبکہ  یہ تحریر کتاب: "فیض احمد فیض (فیض صدی، منتخب مضامین) مقتدرہ قومی زبان ، پاکستان ۔ سے نقل کی گئی ہے۔ 

سید سجاد ظہیر کا تجزیہ

مقدمہ "سازش” راولپنڈی کے دنوں میں فیض کے ساتھ میں بھی سنٹرل جیل (حیدر آباد، سندھ) میں تھا دسمبر ۱۹۵۲ء تک ہمارے مقدمے کی سماعت ختم ہو چکی تھی۔ ہمیں روز روز اسپیشل ٹربیونل کے اجلاس میں جا کر ملزموں کے کٹہرے میں گھنٹوں بیٹھے رہنے اور اس دوران گواہوں کی شہادتوں وکیلوں کی جرح اور بحث اور معزز ججوں کی فاضلانہ قانونی موشگافیوں سے نجات مل گئی تھی۔ 

ابھی فیصلہ نہیں سنایا گیا تھا اور ہم امید وبیم کے عالم میں تھے "چھٹی” وافر تھی، انہیں دنوں ایک دن یہ اطلاع ملی کہ دست صبا شائع ہو گئی گو ہم اس کی تمام چیزیں فیض کے منہ سے سن چکے تھے اور انہیں بار بار پڑھ چکے تھے لیکن اس خبر سے ہم میں سے تمام ان قیدیوں کو جوادب سے مس رکھتے تھے۔ ایک غیر معمولی مسرت ہوئی جیل کے حکام سے اجازت لے کر ہم نے ایک پارٹی بھی کر ڈالی جس میں ہم تمام قیدیوں نے مل کر فیض کو دست صبا کی اشاعت پر مبارکباددی اس موقع پر منجملہ اور باتوں کے میں نے یہ کہا تھا کہ بہت عرصہ گذر جانے کے بعد ، جب لوگ راولپنڈی سازش کے مقدمے کو بھول جائیں گے اور پاکستان کا مورخ ۱۹۵۲ء کے اہم واقعات پر نظر ڈالے گا تو غالباً اس سال کا سب سے اہم تاریخی واقعہ نظموں کی اس چھوٹی سی کتاب کی اشاعت کو ہی قرار دیا جائے گا۔

 بہت دنوں سے لوگ جن میں بعض نیک اندیش اور بعض بداندیش ہیں اردو ادب اور خاص طور پر اس کی ترقی پسند صنف پر جمود طاری ہونے یا اس کے انحطاط کی باتیں کر رہے ہیں اس نقطہ نظر کو صحیح نہیں سجھتا بلکہ میرا خیال ہے کہ اردو ادب کا جدید دور اس کے روشن ترین ادوار میں سے ہے یہ دور تقریباً ۱۹۳۰ء سے شروع ہوتا ہے اور ابھی تک جاری ہے اور اگر ہم گذشتہ چار پانچ سال کو ہی لے لیں تو میرے خیال میں فیض کی "دست صبا”  اور "زنداں نامہ”  ندیم قاسمی کی” شعلہ گل” سردار جعفری کی ”پتھر کی دیوار” احتشام حسین کی” تنقید اور عملی تنقید” اور مجنوں گورکھپوری کی "نقوش و افکار” ( منجملہ دیگر کتابوں کے ) اس دعوے کی شہادت میں کافی ہیں کہ تخلیق کا سرخ شعلہ جس میں گرمی بھی ہے، حرکت بھی ، توانائی بھی۔

 نا مساعد حالات میں نہ دھیما ہوتا ہے اور نہ بجھتا ہے بلکہ جہل ورجعت کی کالی آندھیاں اسے اور بھی بھڑکاتی ہیں اور اس طرح مجاہدے اور تصادم کے طوفانوں سے گذر کر اور اس پر کار سے قوت و حرارت حاصل کر کے حق و صداقت کا نور پہلے سے بھی زیادہ درخشاں ہو جاتا ہے اور اس کے حسن اور تاثر میں صد ر نگ نئی تابندگیاں جھلملانے لگتی ہیں۔

 "زنداں نامہ” کی بیشتر منظومات فیض نے مانٹ گومری سنٹرل جیل اور لاہور سنٹرل جیل میں قیام کے دوران لکھیں یعنی جولائی ۱۹۵۳ء سے مارچ ۱۹۵۵ء تک کی لکھی ہوئی چیزیں اس میں ہیں۔ اس درمیان میں ہم ایک دوسرے سے بچھڑ گئے تھے کیوں کہ ہم دونوں کو چار چار سال قید با مشقت سزا دینے کے بعد اہل اقتدار نے یہ فیصلہ کیا کہ ہم ایک ساتھ جیل میں نہ رکھے جائیں فیض کو پنجاب میں مانٹ گمری جیل کو بھیجا گیا اور مجھے حیدر آباد سندھ سے بلوچستان کے سنٹرل جیل مچھ کو۔

 ہم ایک دوسرے سے خط و کتابت بھی نہ کر سکتے تھے تا ہم دوسرے دوستوں کے خطوں اور بعض اردور سالوں کے ذریعے مجھے فیض کی چند غزلیں اور نظمیں جو اس زمانے میں لکھی گئیں پڑھنے کا موقع مل جاتا تھا۔

اب کہ حالات زندگی میرے کافی خوشگوار ہیں اور میں آزاد فضاء میں سانس لے سکتا ہوں اس کے باوجود جب میں ان ذہنی جذباتی اور روحانی کیفیات کا خیال کرتا ہوں جو مجھ پر اس وقت طاری ہوتی تھیں جب اپنے اس محبوب ترین دوست اور ہمدم کا کلام پڑھتا تھا۔ تو اس کا اظہار مشکل معلوم ہوتا تھا۔ شاید بے لاگ تنقید کے لئے یہ اچھا بھی نہیں ہے۔

 یہ بھی صحیح ہے کہ چونکہ ہمارے بہت سے تجربے زندگی اور اپنے وطن کو ثمر بار اور حسین بنانے کے متعلق ہمارے خواب، ہمارا درد ، ہماری نفرتیں اور رغبتیں مشترک تھیں اس لئے فیض کے ان اشعار سے میں غیر معمولی طور پر متاثر ہوتا تھا اگر میرا دل کبھی خون کے آنسو روتا تھا کہ قید و بند کے مصائب اور صعوبتیں اس کا حصہ کیوں ہیں جو اپنی حسن کاری سے سب کی زندگی کو اپنی فیاضی سے مرصع کر دیتا ہے اور اپنی نفسگی سے ہم سب کی رگوں میں سرور کی نہریں بہا دیتا ہے تو کبھی میرا ذ ہن اس کی تخیل  کی شاداں اور فرحاں گل کاریوں سے کسب شعور کرتا جہاں جدید علم کی ضیا پاشیاں انسانیت کے شریف ترین جذبات سے اس طرح مل گئی ہیں جیسے شعاع مہر سے تمازت۔

فیض کی ان نظموں کو مجموعی حیثیت سے دیکھیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ جہاں تک ان اقدار کا تعلق ہے جن کو شاعر نے ان میں پیش کیا ہے وہ تو وہی ہیں جو اس زمانے میں تمام ترقی پسند انسانیت کی اقدار ہیں لیکن فیض نے ان کو اتنی خوبی سے اپنایا ہے کہ وہ نہ تو ہماری تہذیب و تمدن کی بہترین روایات سے الگ نظر آتی ہیں اور نہ شاعر کی انفرادیت اس کا نرم شیریں اور مترنم انداز کلام کہیں بھی ان سے جدا ہوا ہے اس کے متحرک اور رواں استعاروں سے ہمارے وطن کے پھولوں کی خوشبو ہے۔

 اس کے خیالات میں ان سچائیوں اور جمہوری مقاصد کی چمک سے ہماری قوم کی عظیم اکثریت کے دل روشن ہیں اگر تہذیبی ارتقا کا مطلب یہ ہے کہ انسان مادی اور روحانی عسرت سے نجات حاصل کر کے اپنے دلوں میں گداز اپنی بصیرت میں حق شناسی اور اپنے کردار میں استقامت و رفعت پیدا کریں اور ہماری زندگی مجموعی اور انفرادی حیثیت سے بیرونی اور اندرونی طور پر مصفا بھی ہو اور معطر بھی تو فیض کا شعر غالباً ان تمام تہذیبی مقاصد کو چھو لینے کی کوشش کرتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ پاکستان اور ہندوستان میں اس کی غیر معمولی مقبولیت کا سبب یہی ہے۔ البتہ فیض کے تمام چاہنے والے نقش فریادی، دست صبا اور زندان نامہ کے شیدا ہونے کے باوجود ان سے یہ توقع اور امید رکھتے ہیں کہ کمیت اور کیفیت دونوں لحاظ سے ان کی وہ تخلیق جو ابھی نہیں ہوئیں، ان کے مقابلے میں جو کہ وہ کر چکے ہیں ، زیادہ گراں قدر ہوں گی۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top