پروفیسر مرزا محمد سعید – خلاصہ اور اہم نکات
تعارف
خاموش زندگی اور خاموش موت
علمی دنیا کا ناقابلِ تلافی نقصان ہوا۔
شہرت سے اجتناب، سادگی پسند شخصیت کے مالک
علمی خدمات
تحریری کام:
55 سال قبل مخزن میں مضامین لکھے۔
ناول یاسمین اور خواب ہستی بغیر معاوضہ شائع کیے۔
کتاب مذہب اور باطنیت اردو ادب کے 100 بہترین کتابوں میں شمار ہوتی ہے
تدریسی سفر:
لاہور گورنمنٹ کالج سے تعلیم حاصل کی۔
علامہ اقبال جیسے اساتذہ سے فیض یاب ہونے پر فخر
ایم اے انگریزی کے بعد 1906-07 میں علی گڑھ میں تدریس کی۔
لاہور گورنمنٹ کالج میں انگریزی کے پروفیسر رہے۔
پطرس بخاری، امتیاز علی تاج جیسے شاگرد تھے۔
مزاج اور نظریہ
ستائش اور شہرت سے بے نیاز تھے
پیسوں کے لیے نہیں بلکہ شوق کے لیے لکھتے تھے۔
علمی جلال اور سخت گیر شخصیت تھی
گھنٹوں مطالعہ کرنے کی عادت تھی۔
سیاسی خدمات
قیام پاکستان سے پہلے مسلم لیگ کے صوبائی صدر رہے
مسلم لیگ کونسل کے رکن رہے
گلڈ ایوارڈ برائے ادب کے پہلے اجلاس کے صدر تھے
ذاتی زندگی
بیگم بھی ادبی ذوق رکھتی تھیں، ناول لکھے۔
چالیس سال کی عمر میں ہاتھوں میں رعشہ آ گیا تھا۔
76 سال کی عمر میں انتقال فرما گئے۔
نتیجہ
ایک عالم کی موت، ایک عالَم کی موت ہوتی ہے
علم و ادب میں ناقابلِ فراموش خدمات ہیں۔
ایسی جامع العلوم ہستی کا بچھڑنا بدقسمتی ہے۔
خلاصہ
صبح کے اخبارات میں خبر پڑھ کر دل افسردہ ہو گیا کہ آج پر و فیسر مرزا محمد سعید کا سوم ہے ۔ خاموش زندگی ! خاموش موت! مرزا صاحب کی علالت مزاج یا مرض الموت کی اطلاع اس سے پہلے بھی نہ لی تھی ۔ حد یہ ہے کہ پرسوں اُن کا انتقال ہو گیا اور اُن کے سیکڑوں چاہنے والوں کو اس سانحہ ارتحال کی خبر تک نہ ہوئی۔ عالِم کی موت عالَم کی موت ہوتی ہے۔ ابھی ہمیں اس بات کا انداز نہیں ہو سکتا کہ مرزا صاحب کے جانے سے ہمارا کتنا بڑا نقصان ہو گیا ہے۔ اب اُن کی عدم موجودگی رہ رہ کر اُن کی یاد دلائے گی اور وقت کے ساتھ ساتھ اُن کی جدائی کا زخم گہرا ہوتا جائے گا۔
در اصل خود مرزا صاحب شہرت سے گھبراتے تھے اور پبلک پلیٹ فارم پر آنا انھیں پسند نہ تھا۔ ستائش کی تمنا اور صلے کی پروا سے بے نیاز ہو کر کام کرتے تھے ۔ انھوں نے 55 سال پہلے سر عبد القادر کے رسالے مخزن میں مضامین لکھے۔
انھوں نے یہ کام شیخ صاحب کی فرمائش پر نہیں بلکہ اپنا دل چاہنے پر کرنا شروع کیا تھا۔ مرزا صاحب کسی کو خوش کرنے کے لیے نہ لکھتے تھے اور نہ ہی پیسے کے لیے لکھتے تھے۔ انھوں نے اپنا پہلا ناول یا سمین اپنے ایک شاگرد کو بلا معاوضہ دے دیا اور دوسرا ناول خواب ہستی بھی بغیر کچھ لیے دیے چھپوا دیا تھا۔
ایک بار ایک پبلشر لا ہور سے دلی صرف اس لیے آئے کہ مرزا صاحب سے ناول لے سکیں۔ اس نے مرزا صاحب کو ایک ناول کے لیے ایک ہزار روپے کی پیش کش کی لیکن مرزا صاحب برہم ہو گئے اور کہنے لگے کہ اگر تم مجھے پانچ یا دس ہزار بھی دو گے تو مجھے یہ منظور نہیں ۔ یہ سن کر پبلشر صاحب خاموشی سے لوٹ گئے۔
مرزا صاحب کا ایک علمی کارنامہ یہ بھی ہے کہ اگر اُردو کی سوعدد کتابوں کا انتخاب کیا جائے تو اُن میں مرزا صاحب کی کتاب مذہب اور باطنیت کو ضرور شامل کرنا ہوگا۔ سرسید سے بھی مرزا صاحب کی عزیز داری تھی اور منشی ذکاء اللہ سے بھی اُن کی قرابت داری تھی ۔ مرزا صاحب نے موجودہ صدی کے آغاز میں لاہور کے گورنمنٹ کالج میں تعلیم حاصل کی ۔ ان کے استادوں میں علامہ اقبال کا نام بھی شامل ہے۔ انگریزی ادبیات میں ایم اے کرنے کے بعد مرزا صاحب نے 07-1906ء میں دو سال کے لیے علی گڑھ میں پڑھایا۔ اس کے بعد گورنمنٹ کالج لاہور میں بھی انگریزی کے پروفیسر رہے۔ پنجاب کے بے شمار اعلیٰ عہدے دار مرزا صاحب کے شاگرد تھے ۔ ان میں پطرس بخاری اور امتیاز علی تاج کا نام نمایاں ہے ۔ پطرس بخاری بعد میں خود بھی انگریزی کےپروفیسر ہو گئے تھے لیکن مرزا صاحب کی علمیت کے آگے اپنے آپ کو ہیچ سمجھتے تھے۔
جب پطرس بخاری آل انڈیا ریڈیو کے ڈائریکٹر جنرل بن گئے تھے ۔ انھوں نے مرزا صاحب کو کسی نہ کسی طرح آمادہ کر لیا کہ وہ ریڈیو سے بھی تقریر نشر کیا کریں۔ کسی بات پر غلط فہمی پر مرزا صاحب نے پطرس بخاری سے فرمایا کہ تمھیں اصلاح دینے کے بعد مجھے یہ منظور نہیں کہ تمھارے شاگرد مجھے اصلاح دیں۔ پطرس نے اس پر بڑی معذرت کی ۔ ایک زمانہ تھا کہ شاعروں اور ا دیبوں کا ایک جلسہ ہر ماہ ہوتا تھا۔ کبھی پطرس کے گھر اور کبھی ڈاکٹر تاثیر کے گھر پر ۔ مرزا صاحب عام طور پر خاموش رہتے تھے ۔ ایک بار مرزا صاحب کی کسی بات کے دوران میں فیض احمد فیض نے اُن کی بات کا ٹنا چاہی اور کہنے لگے کہ یہ تو آپ کو معلوم ہوگا کہ رومی تہذیب یونانی تہذیب کے بعد ابھری۔ اتنا کہنا تھا کہ مرزا صاحب جلال میں آگئے اور کہا جی ہاں ! میں یہ بھی جانتا ہوں۔ میں یہ بھی جانتا ہوں کہ پرانی تہذیبوں کی تاریخ کا ایک دریا ا مڈا چلا آتا تھا۔ پطرس دل ہی دل میں خوش ہورہے تھے کہ دیکھا اسے کہتے ہیں علم کا سمندر ۔ پطرس بخاری نے مرزا صاحب کا جلال ختم کرنے کے لیے چائے کا سامان رکھوانا شروع کر دیا۔ خدا خدا کر کے مرزا صاحب کا جلال رفع ہوا ۔
مرزا صاحب گھنٹوں مطالعہ کیا کرتے تھے ۔ وہ کہا کرتے تھے کہ اگر میں اتنا مطالعہ نہ کروں تو انگریز پروفیسروں کے سامنے کیسے ٹھہر سکتا ہوں۔ ان کی بیگم بھی ادبی ذوق رکھتی تھیں ۔ دو ایک ناول اُن کے بھی شائع ہو چکے تھے ۔ مرزا صاحب قلب مطمئنہ کی دولت سے مالا مال تھے ۔ قیام پاکستان سے پہلے مسلم لیگ کی مقبولیت نے زور پکڑا تو آپ صوبائی مسلم لیگ کے صدر منتخب ہوئے ۔ آپ مسلم لیگ کونسل کے ممبر بھی چنے گئے۔ گلڈ ایوارڈ برائے ادب کے پہلے اجلاس کی صدارت بھی مرزا صاحب ہی نے کی تھی ۔
میں نے 30 سال قبل انھیں پہلی بار دیکھا تو ان کی عمر 44-45 سال تھی ۔ اب 1962 ء میں جب وہ 76 سال کے ہو گئے تھے تب بھی ویسے ہی تھے ۔ چالیس سال کی عمر میں اُن کے ہاتھوں میں رعشہ آ گیا تھا۔ ایسی جامع العلوم ہستی سے محروم ہونے کا ہمیں جتنا بھی غم ہو، کم ہے۔
مرکزی خیال
مرزا صاحب مایہ ناز مصنف ، عظیم ناول نگار اور ڈکشنری جیسے وسیع علم کے حامل فرد تھے یہ اُن کے دو ناول یاسمین اور خواب ہستی کے علاوہ ان کی معرکتہ الآرا کتاب مذہب اور باطنیت قابل ذکر ہیں۔ علامہ اقبال سے کسب فیض کرنا اُن کے لیے باعث اعزاز بات ہے اور سرسید کے ساتھ اُن کی عزیز داری اُن کا خاص شرف ہے۔ ایسا خاموش طبع اور با علم شخص ہمارے درمیان سے اُٹھ جائے اور ہمیں خبر بھی نہ ہو اسے ہماری بدقسمتی نہ کہا جائے تو اور کیا نام دیا جائے۔