خاموشی کا کلیسا اور لاوڈ سپیکر

تحریر: دُکتر عبدالباسط ظفر

chapel of silence

ہیلسنکی دنیا کے جدید ترین شہروں میں سے ایک ہے ۔ فین لینڈ کے دارالحکومت اِس شہر کے دائیں اور بائیں بازو پہ سٹاک ہوم سویڈن اور ایسٹونیا کا شہر ٹالن موجود ہیں ۔ شہر نے موجودہ دور کے مطابق اپنے آپ کو سیاحوں اور زائرین کے لیے دلچسپ بنانے کی بھرپور کوشش کی ہے اور اِس خاطر سے شہر میں فن ، صنعت اور ادب کا ذوق رکھنے والوں کے لیے میوزیم، نگار خانے اور کتب خانے، تاریخی عمارتیں اور جدید طرز کے کاروباری مراکز ، نادر انواع کی حیاتیات ، باغات ، رنگا رنگ جھیلیں اور مختلف کھیلوں کے مشاغل سال بھر مصروف رہتے ہیں۔ یہ شہر بحیرہ بالطیق کی شمالی خلیج جو خلیج ِفین لینڈ بھی کہلاتی ہے ، کے کنارے آباد ہے۔ شہر کی بنیاد سیوڈن کے شاہ گسٹاوّ واسا نے قریب پندرہ سو پچاس میں رکھی تھی ۔ شاہ کی غرض یہاں سے سر زمین روس تک جانے والے تجارتی مالک کی بڑھوتری اور خلیج کے پار موجود راوؔل نامی شہر(موجودہ ٹالن) کے مقابلے میں ایک نیا قصبہ تعمیر کرنا تھی۔
فین لینڈ ، روس اور سوڈین جیسی سلطنتوں کے درمیان اپنا تشخص برقرار رکھنے کا جیسے ابتدا سے ہی عزم کیے تھا، جبھی تو روس سے لڑی جنگوں کے باوجود معادے کیے گیے اور ہیلسنکی قریب دو سو برس سے ملک اور لوگوں کی تہذیب کا مرکز بنا رہا اورگزشتہ ایک صدی سے فین لینڈ کی آزادی کے ساتھ ہی ملک کا دارلحکومت بنا رہا۔ خطِ سرطان سے بالا اور قطب شمالی کے قریب ہونے کی وجہ سے یہاں ایک پاکستانی کو دیکھنے میں دو ہی موسم ملیں گے ایک سردی کا موسم اور دوسرا گلابی جاڑوں کا ، جن میں دن کی روشنی مہینوں تک افق پر برقرار رہتی ہے اور سورج ڈھل بھی جائے تو ڈوبے نہیں پاتا ۔ میرا ہیلسنکی جانا اِنہی دونوں موسموں کے درمیان میں ہوا۔ یعنی قطبی ہواوں کی تلخی دیکھی ، باغ باغیچوں اور لبِ راہ لگی گھاس سے نئی کونپلیں پھوٹتی بھی دیکھی .. اور ویسے بھی میری روداد کوئی سفر نامہ تو تھا نہیں کہ واقعات کی ترتیب کے ساتھ ساتھ بیان کی تمیز ملحوظ خاطر رکھی جاتی، یہ تو آوار نامہ ہے صاحب! جو دیکھا، وہ سمجھا نہیں، جو سمجھا وہ لکھ دیا ہے ۔
یوکرین سے میری فلائٹ یہاں صبح بارہ بجے اتری۔ وطن عزیز کی شناختوں سے رخصت ملی، تویہاں آنے کا مقصد پوچھا گیا۔ نیلی وردیوں میں ملبوس ائیرپورٹ پولیس کی خاتون کو میں نے تفریح اور دیرنہ دوست کی زیارت کا سبب بتایا تو اُس نے چند استقبالیہ جملوں کے بعد داخلے کے دروازے کھول دئے ۔ کوئی آئے بھی تو کیوں کر یہاں ، یہ تو یو ں سمجھیے، جیسے یورپ کے اونٹ کی کوہان ہو، آنے جانے کا کوئی سیدھا سادھا روٹ ، کوئی پرواز نہیں تھی۔ ہوائی راستوں سے کوئی بھی پرواز اِس شہر میں بلاواسطہ نہیں اُترتی ، ڈاریکٹ آنے والی پروازیں زیادہ تر شمالی یورپ کے ممالک سے ہی آتی ہیں ۔ ہیلسنکی جیسے یورپ کی انجمن میں ہونے کے باوجود ایک گوشہ نشین اور خود میں ڈوبا ہوا شہر ہے ۔ گو شہر ایک مستقل اُداسی کی فضا میں رہتا ہے اِسی وجہ سے کوئی معمول کا سیاح اور غیر ملکی شہر میں رنگینی نہیں دیکھ پاتا ۔
شہر کی یاترا ریلوے اسٹیشن سے شروع ہوئی ، ویسے تو میرا ٹھہرنا شہر کے نواحی حصے واؔنتا میں ہوا تھا ۔ واؔنتا سے شہر مرکز آنےپر بس نے مجھے اسٹیشن اُتارا ۔ یہ کیسی جگہ ہے؟ میں نے میزبان سے پوچھا۔ آپ آسان بھاشا میں اِسے یہاں کا بھاٹی داتا دربار کہہ لیں اُس نے اپنے اوور کوٹ کو بند کرتے کہا۔ لیکن نہ تو ٹکاٹک کی آوازیں تھیں نہ کہ کٹاکٹ، بھاگتی ہارن بجاتی گاڑیاں نہ ہی چیختے مسافر کسی مزار یا مقامات مقدسہ کی سی صورت حال بھی نہ تھی، ورنہ صدائیں دیتے بھکاری، آوازیں کستے دیوانے اور آہیں بھرتے مجذوب ہی دکھائی دیتے ۔ تھا تو سامنے کارل لُڈونگؔ اینجل کا تیار کردہ سرخ خشتی اسٹیشن کا چہرہ تھا جس میں لکڑی کے دوہرے دروازے تھے ۔لُڈونگ اینجل نے نہ صرف مرکزی ریلوے اسٹیشن کا ڈئزائن دیا تھا بلکہ شہر کی کئی ایک عظیم عمارتیں جن میں سینٹ اسکوائر اور ہیلسنکی کا کاتھرڈل بھی شامل ہیں اُسی کے نو کلاسیکی فن تعمیر کا نمونہ ہیں ۔ میرے میزبان راہبر لاہوری ہونے کی وجہ سے نہ صرف شہر پر معلومات دینے لگے بلکہ ہر ہر جگہ کا لاہور سے موازنہ بھی برابر کیے جاتے ۔ کسی کو یہاں کا سادھ گرو کہتے کوئی انہیں قلندر محسوس ہوتا ، کسی رستورنت پر کھاتے عظیم جثہ کو بٹ صاحب کہہ دیتے اور یوں میری یاترا میں رنگارنگی بھی آ گئی اور رہی سہی اُداسی اُن کی بنائی نہائی نے دور کر دی ۔

helsinki attractions kamppi chapel architecture 1200x700

پرانا ڈسٹرکٹ شہر کا مصروف ترین حصہ ہے یہاں سیمونکاتو شاہراہ پر کامپی چیپل یعنی خاموشی کا عبادت خانہ موجود ہے۔ کہاں روسی اور فنش تاریخ کی عکاس عظیم و شان عمارتیں اور کہاں یہ کامپن چیپل جسے باہر سے دیکھنے والا کسی خاطر میں نہ لائے ۔ نہ بلند قامت مینارے ہیں نہ ہی گنبد اخضر و احمر۔ نہ صلیبیں سجی ہیں نہ ہی ستارہ داود کی روشنیاں ۔ ہے تو صرف گیارہ میٹر کا نیم کونی سلنڈر۔
چیپل کو فِنی معماروں نے شہر کے حسن ، فطری آہنگ اور جدِت کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے بنایا۔ عمارت نظر غائر میں دیگر کلیساوں اور مساجدوں کی طرح ہر چند احتشام کا نمونہ نہیں ۔ البتہ تین مختلف قسموں کی لکڑی سے بنائی گئی اِس کی بیضوی دیوار اور چھت کو ایسے مادے سے لپیٹا گیا ہے جو نینوٹیکنولوجی کی مدد سے ممکن ہوا۔ یہ جدید لیکن عاجزانہ انداز تعمیر عبادت کے مرکزی حال میں شاہراہ سے آنے والی ہر قسم کی آوازوں کو روکنے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔ لکڑی کی باریک کٹی پٹیوں سے اندورونی اور بیرونی دیوارں ایستادہ ہیں دروازے راکھ سے اور چھت پلاسٹر بوڈ سے بنائی گئی ہے اِس کے باوجود اپنے ڈئزان اور اپنے استعمال کے اعتبار سے بالائے مذہب ہونے کے باوجود روحانی مرکز بنے ہے ۔ اِس کا مقصد شہر کے ہنگاموں میں چند لمحات کی خاموشی کا ملاحظہ ہے۔ یہ عبادت خانہ کسی خاص مذہب ، مسلک اور جماعت سے واسطہ نہیں ہے ۔ یہ معبد نہ صرف جدید انسان کی سادگی بلکہ ماحولیاتی ہم آہنگی اور مذہبی انکساری کا بھی خاموش اظہار ہے۔

chapel of silience 2

عشرت و شوکت کا اظہار ناٹے اذہان کرتے ہیں۔ جیسے ہمارے یہاں کم تعلیم یافتہ ملاں نعرے بازیاں کرتے ہیں ، ایک عمیق عالم صرف دھیری آواز سے مخاطب ہوتا ہے کہ آواز کی لہریں بھی صاحب ارتعاش ہیں۔ میرؔ تو ہمیں سانس بھی آہستہ لینے کا کہتے تھے کیوں کہ وہ آفاق کی نازکی کا احساس رکھتے تھے ۔ دوسری طرف ہم! ہم آفاق تو آفاق انفس کو بھی پختہ کرنے کے لیے آوازوں، شور شرابوں اور نعروں غلغلوں میں اپنے اعصاب کمزور کر چکے ہیں۔ ہم نہیں جانتے کہ مذہب اور خاموشی دونوں قدسی اظہار ہیں ۔ میرے میزبان نے خاموشی کے کلیسا سے نکلتے ہی سرگوشی کی …اور مجھے ایک گہرے مراقبے سے جاگنے کا احساس ہوا ، جواب ایک آہ کی صورت میں دیا کہ ہمارے ہاں تو جب تک با آواز بلند نعرہ نہ لگایا جائے ہمیں دیندار ہونے کی سند نہیں ملتی۔ (آوار نامہ سے اقتباس)

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top