اللہ تعالی قرآن میں فرماتا ہے۔
انک تعلی خلق عظیم
اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپؐ اخلاق میں سب سے اونچے درجے پر ہیں۔
حضرت علیؑ آپؐ کے متعلق فرماتے ہیں کہ آپ خندہ جبیں، مہربان طبع تھے۔ سخت مزاج اور سخت دل نہ تھے۔ بات بات پر شور نہیں کرتے تھے۔ کوئی برا حکم منہ سے نہ نکالتے تھے۔ عیب جو اور تنگ نظر نہ تھے ۔ کوئی ایسی بات جو آپ کو نا پسند ہوتی تو اس سے اغماض فرماتے تھے ۔ آپؐ نے اپنے نفس سے تین چیزیں با لکل دور کر دی تھیں ۔ بحث و مباحثہ ضرورت سے زیادہ بات کرنا او ر بغیر ضرورت کے کسی بات میں دخل دینا۔ کسی کو برا نہیں کہتے تھے۔ کسی کی عیب جوئی نہیں کرتے تھے کسی کے اندرونی حالات معلوم کرنے کی کوشش نہیں فرماتے تھے۔
حضرت خدیجہ رض فرماتی ہیں کہ آپؐ مقروضوں کے قرضے چکاتے ہیں۔ غریبوں کی مدد کرتے ہیں حق کی حمایت کرتے ہیں۔ مہمانوں کی ضیافت کرتے ہیں ۔ مصیبتوں میں لوگوں کے کام آتے ہیں ۔
حضرت عائشہ صدیقہ رض فرماتی ہیں ۔ آپ کو کسی کو برا بھلا کہنے کی عادت نہ تھی۔ برائی کے بدلے میں برائی نہیں کرتے تھے بلکہ اس کا جواب بھائی سے دیتے یا در گزر کرتے تھے اور معاف فرما دیتے تھے۔
رسول اکرمؐ کی حیات مقدسہ ہم سب کے لئے قابل تقلید نمونہ ہے۔ آپ کی سیرت سر اسرقرآن کے سانچے میں ڈھلی ہوئی تھی ۔ گویا قرآن متن ہے اور آپؐ کی سیرت اس کی شرح دل آویز ہے۔ قرآن اگر ہمیں اصول حیات کا علم دیتا ہے تو آپ کی سیرت سے ہمیں اس عمل کا پتہ چلتا ہے جس کی قرآن کریم نے ہمیں تعلیم دی۔ آپؐ کی حیات دلیل کی حیثیت رکھتی ہے۔ خود قرآن نے انبیائے کرام کی زندگیوں کو دلیل کے طور پر پیش کیا ہے ۔
ختمی مرتبت پیغمبرؐ اسلام کی زندگی اپنے اندر اخلاق کی ایک دنیا لئے ہوئے ہے ۔ آپؐ نے دشمنوں سے اپنے آپ کو صادق اور امین کہلوایا اور تبلیغ اسلام اس وقت شروع کی جب لوگوں نے انہیں صادق و امین تسلیم کر لیا تھا۔ آپؐ نے کبھی جھوٹ نہیں بولا اور کبھی امانت میں خیانت نہ فرمائی تھی ۔ آپؐ وعدے کے پکے اور بچے تھے ۔ آپؐ نے ہمیشہ وعدہ پورا کیا۔ رسول مقبول کی سیرت ہمارے لئے ایک نمونہ ہے۔ پس ہمیں چاہیے کہ ہم اس عظیم و جلیل بستی کو زندگی میں اپنے لئے مشعل راہ بنائیں ۔
حضورؐ کی زندگی کے تمام پہلو اور ارشادات محفوظ ہیں ۔ تمام انسان آپؐ کے معاشرتی اخلاق کی تقلید کر کے معاشرے کو درست کر سکتے ہیں ۔ معاشرتی اصلاح کا یہ بہترین طریقہ ہے اور اسی سے دنیا جنت کا نمونہ بن سکتی ہے۔
رسول مقبولؐ کی معاشرتی زندگی پر نگاہ ڈالیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ وہ کس قدر سادہ تھی ۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ آپ لباس میں کرتہ پسند فرماتے تھے آپ کے کرتے کی آستین نہ زیادہ تنگ ہوتی تھی نہ زیادہ کھلی ۔ آپ کرتے کے ساتھ تہہ بند باندھتے تھے ۔ نیا لباس ہمیشہ جمعہ کے دن پہنا کرتے تھے ۔ آپؐ سفید لباس ترجیحاً پسند فرماتے تھے۔ رنگدار لباسوں میں سے سبز رنگ کے لباس کو پسندفرماتے تھے ۔ گہرا سرخ رنگ آپؐ کو نا پسند تھا ۔نیا لباس پہنتے وقت آپؐ اللہ تعالیٰ کا شکر ادافرمایا کرتے تھے۔
سرکار دو عالمؐ کی زندگی حد درجہ سادہ تھی ۔ امت کا غریب سے غریب آدمی بھی آپؐ کے پاس آنے سے ہچکچاتا نہ تھا۔ یہی سیرت تھی جس نے مسلمانوں کو بہت جلد ا تنا پختہ کر دیا تھا کہ وہ خلیفہ ہو کر بھی پیوند لگے ہوئے کپڑے پہنتے تھے اور سوکھی روٹی کھاتے تھے ۔ کیونکہ ان میں احساس ذمہ داری اس قدر زیادہ تھا کہ جس طرح کالباس عام لوگ پہن سکتے تھے اور جس طرح کا کھانا عام لوگ کھا سکتے تھے خلیفہ بھی نہ تو اس سے بہتر لباس پہن سکتا تھا اور نہ ہی اس سے بہتر کھانا کھا سکتا تھا۔ حضوراکرمؐ پوری مستعدی کے ساتھ اپنے پروگراموں کو عملی جامہ پہنایا کرتے تھے ۔ آپ جس کام کا اختیار کرتے تھے اسے پورے استقلال کے ساتھ سرانجام فرماتے تھے آپ پابندی وقت کی شدت سے تلقین فرماتے تھے ۔ جس کی سب سے بڑی مثال خود آپ کی زندگی تھی ۔ خود آپ نے ہمیشہ جس کام کے کرنے کا جو وقت مقرر کیا اس میں کمی بیشی کبھی نہ آنے دی۔
آپؐ راتوں کو اٹھ کر متواتر عبادت کیا کرتے تھے۔ حضرت عائشہ رض فرماتی ہیں کہ آپؐ نے رات کو کبھی عبادت ترک نہیں کی تھی ۔ بیماری کی حالت میں بھی آپؐ بیٹھ کر نوافل پڑھا کرتے تھے ۔ آپ خُلق عظیم کے مالک تھے اور حد درجہ کےمہمان نواز تھے ۔ آپؐ خود تو بھوکے رہنا پسند فرمالیتے تھے لیکن مہمان کی پوری طرح سے تواضع فرمایا کرتے تھے۔ آپ ہمیشہ بچوں ، بوڑھوں، غریبوں اور مسکینوں سے شفقت، ادب، پیار اور محبت سے پیش آتے تھے اور کسی بھی شخص کی دل شکنی پسند نہیں فرماتے تھے ۔ آپؐ دوسروں کی غلطیوں کو درگذر یا معاف فرما دیا کرتے تھے۔
حضورؐ آنے والے یا ملنے والے کو سب سے پہلے خود سلام کیا کرتے تھے۔ لوگوں کو حسرت ہی رہتی کہ بوقت ملاقات حضور تو ہم پہلے سلام کہیں لیکن حضور سلام اور مصافحہ میں سب پر سبقت لے جاتے ۔
اللہ تعالی ہمیں تو فیق عطا فر مائے کہ ہم آپؐ کی سیرت طیبہ کی روشنی میں اپنی زندگیوں کو ڈھال سکیں اور آپؐ کے بتائے ہوئے راستے پر چل سکیں ۔
خداوند! چلوں اس راستے پر
حقیقت میں جو اُسؐ کا راستہ ہے
(حفیظ صدیقی)
مآخذ: بہترین اردو مضامین، علامہ اقبال آفاقی کُتب خانہ
اگر آپ چاہیں تو یہ بھی پڑھ سکتے ہیں
-
قاضی اور ڈونٹ
-
میر تقی میر کی غزل کی تشریح
-
میرزا داغ دہلوی کی غزل کی تشریح
-
صنائع بدائع
-
علم بیان
-
تَلَفُّظ
-
فعل، فاعل، اسم صفت، اسم موصوف،اسم ضمیر اور مرجع
-
'نے' اور 'کو' کا استعمال
-
مرکب، مرکبات کی اقسام
-
ذو معنی الفاظ اور با ہم مماثل و متشابہ الفاظ
-
فعل
-
اسم کی ساخت کے اعتبار سے قسمیں
-
اسم کی معنی کے لحاظ سے قسمیں
-
حروف شمسی و قمری
-
منقوط، غیر منقوط اور بھاری حروف تہجی