ماں باپ سی نعمت کوئی دنیا میں نہیں ہے
حاصل ہو یہ نعمت تو جہاں خلد بریں ہے
والدین دنیا کی سب سے بڑی نعمت بلکہ بے بدل نعمت ہیں ۔ والدین کے اولا د پر اس قدر احسانات ہوتے ہیں کہ انسان شب و روز والدین کی خدمت کے لئے اپنے آپ کو وقف کر دے پھر بھی ان کے گراں قد راحسانات کا حق ادا نہیں کر سکتا۔ والدین خود بھوکے رہ کر بھی کوشش کرتے ہیں کہ اولاد پیٹ بھر کر کھالے ۔وہ اپنے آرام کی پروا نہیں کرتے مگر انہیں تکلیف نہیں ہونے دیتے۔ وہ اولاد کے آرام و راحت کے لئے دن کا چین ، رات کا آرام اورون کا سکون قربان کر دیتے ہیں ۔ اس لئے اولاد کے لئے بھی ضروری ہے کہ وہ والدین کی ہر ممکن خدمت کرے اور ان کا حد درجہ احترام کرے ۔
دنیا کے ہر مذہب میں والدین کی اطاعت اور فرمانبرداری اور ان کی خدمت کا حکم دیا گیا ہے۔ ہم جس مذہب کے ماننے والے ہیں اس کی تعلیم بھی یہی ہے کہ والدین کی خدمت کرو، ان کے قدموں میں جنت کی ہے۔ ہمارامذ ہب اس اولاد کو بد قسمت شقی القلب اور گمراہ کن قرار دیتا ہے جو اپنے والدین کی قدرومنزلت نہیں کرتی۔ اولاد کے لئے تو یہاں تک حکم ہے کہ ان کی آواز ان کے والدین کے بر ابر بھی نہ ہو بلکہ ان کی آواز سے نیچی ہو چہ جائے کہ والدین سے سرکشی اور نافرمانی کی جائے۔ والدین کی دعائیں اولاد کے لئے دین و دنیا میں تو شہ خیر ثابت ہوتی ہیں ۔ خوش قسمت ہیں وہ بچے جو اپنے ماں باپ کی خدمت کرتے ہیں اور ان سے دعائیں لیتے ہیں ۔ یہ دعائیں آخرت تک ان کی راحت کا موجب بنتی ہیں ۔ یہ پتہ اس وقت لگتا ہے جب اولاد خود صاحب اولا د ہوتی ہے کہ بچے کس طرح پلتے ہیں اور کتنی محنت اور محبت سے انہیں پروان چڑھایا جاتا ہے ۔ ساری عمر کی کمائی ان پر لگ جاتی ہے ۔ محنت کر کے والدین کے بال سفید ہو جاتے ہیں۔ کمزور ہو جاتے ہیں۔ اس وقت اولاد کے سہارے کی ضرورت ہوتی ہے۔ جس طرح بچہ چل نہ سکتا تھا تو اسے سہارے کی ضرورت تھی ۔ اسی طرح بڑھاپے میں ماں باپ کو اولاد کے سہارے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ والدین کی دعائیں اللہ کے حضور مستجاب ہوتی ہیں اور ان کی ناراضگی غضب الہی بن جاتی ہے۔ آج کا زمانہ جسے ہم ترقی یافتہ کہتے ہیں اتنا آگے بڑھ گیا ہے کہ وہ پر رانی اخلاقی قدروں کو طاق نسیاں پر رکھتا جا رہا ہے ۔ لوگ اس لئے ان قدروں پر عمل نہیں کرتے کہ وہ ان کے بقول دقیانوسی ہیں۔ حالانکہ ان ہی قدروں میں ان کی دینی اور دنیوی بہتری کے سامان یوشیدہ ہیں اور آج کل کی اولاد کی یہ سوچ بالکل غلط اور عذاب الہی کو دعوت دیتی ہے کہ والدین کی اطاعت ایک پرانی بات ہے۔ وہ ہمارے کام کے نہیں رہے ۔ ان کے اعضاء اور قواء کمزور ہو چکے ہیں۔ ہم کماتے ہیں اور یہ ہمیں بات بات پر ٹوکتے ہیں۔ بہتر ہے انہیں گھر سے نکال باہر کیا جائے ۔ اس زمانے میں ایسے بیٹے بھی دیکھنے میں آئے ہیں کہ اپنے سادہ لوح والد کو والد مانے سے بھی انکار کر دیتے ہیں اور لوگوں کو کہتے ہیں کہ یہ تو ہمارا ہمسایہ یا نوکر تھا۔ خدا غارت کرے ایسے نا ہنجار بیٹوں کو ۔ ایسے لوگوں کو یا درکھنا چاہیے کہ ایک دن آئے گا جب ان کے ساتھ بھی ایسا ہی سلوک ہوگا۔ یہ وہی باپ ہے جس نے اسے پالا پوسا، پڑھایا لکھایا، جو ان کیا ، ملازمت دلوائی اور آج دفتر میں اپنی جھوٹی پوزیشن بنانے کو کہتا ہے کہ یہ میرا باپ نہیں ہے، ہمسایہ یا نوکر ہے۔ تو ایسے لوگ اس ماں کو نوکرانی ہی کہیں گے جس نے محبت سے اپنی گود میں انہیں پالا راتوں کو ان کے لئے جاگتی رہی ۔ اگر خدانخواستہ بچہ بہار ہو جاتا تو اس کی جان پر بن جاتی تھی ۔ وہ اسے حکیموں ڈاکٹروں کے پاس لئے لئے پھرتی تھی ۔ وہ گیلی جگہ پر آپ سوتی تھی اور خشک جگہ پر اسے لٹاتی تھی ۔ ہر وقت پیار سے اسے کھلاتی ، پلاتی ، نہلاتی ، دھلاتی ، سلاتی، جگاتی، گویا کہ ہ اسی کے لئے وقف تھی نہ اسے اپنے آرام کی پروا تھی نہ آسائش کی۔ یہی ماں وہ ماں ہے جس کے پیروں تلے جنت ہے۔
دنیا کا کوئی معاشرہ کوئی دانشور، کوئی فلسفی کوئی سائنسدان والدین کے ادب و احترام سے منکر نہیں۔ خداوند عالم نے بھی قرآن کریم میں ارشاد فر مایا ہے کہ
"اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آؤ اوران کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو اور جب وہ بوڑھے ہو جائیں تو ان کے سامنے اف بھی نہ کرو اور انہیں نہ جھڑ کو”
سورۃ لقمان میں جہاں انسانوں کو خدا تعالیٰ کا شکریہ ادا کرنے کی تاکید ہے وہاں والدین کا شکر گزار رہنے کی تلقین بھی اور ان کے حق میں دعا کرتے رہنے کی ہدایت ہے۔ رسول خدا کی یہ حدیث
” کہ جنت ماں کے قدموں میں ہے ۔ ” نیز یہ کہ رب کی رضا باپ کی رضا میں ہے اور رب کی نا خوشی باپ کی نا خوشی میں ہے۔
جو شخص اپنے والدین کو خوش کرتا ہے خدا بھی اس سے خوش ہوتا ہے اور جو انہیں ناراض کرتا ہے اللہ تعالیٰ بھی اس سے ناراض ہو جاتا ہے۔
"روایت ہے کہ ایک صحابی نے یا رسول خدا سے پوچھا کہ رسول اللہ میں سب سے زیادہ کس کی خدمت کروں، آپ نے فرمایا اپنی ماں کی ۔صحابی نے دوبارہ دریافت کیا پھر کس کی آپ نے فرمایا اپنی ماں کی ، تیسری بار بھی آپ نے یہی جواب دیا ”ماں کی صحابی نے پھر سوال کیا تو آپ نے فرمایا اپنے باپ اور دوسرے رشتہ داروں کی ۔
والدین آگے ہوں تو رہنمائی کرتے ہیں، پیچھے ہوں تو پشت پناہی کرتے ہیں ۔ وہ حیات ہوں یا اس دنیا سے اٹھ گئے ہوں اولاد کے لئے سراپا دعا ہوتے ہیں ۔ حکیم الامت علامہ اقبال نے اپنے بیٹے جاوید اقبال سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ اے بیٹے تجھے دینی بصیرت نصیب ہو جائے اور تو سعادت انسانیت سے بہرہ ور ہو جائے تو میں تیرے لئے قبر میں بھی دعا کروں گا۔
اے مرا تسکین جان نا شکیب
تو اگر از حفظ جاں گیری نصیب
سر دین مصطفےٰؐ گوئم ترا
ہم بہ قبر اندر دعا گوئم ترا
پس ہمارا یہ انسانی ، اخلاقی اور دینی فرض ہے کہ اپنے والدین کی دل و جاں سے خدمت کریں اسی میں ہماری فلاح ہے۔
مآخذ: بہترین اردو مضامین، علامہ اقبال آفاقی کُتب خانہ
اگر آپ چاہیں تو یہ بھی پڑھ سکتے ہیں
-
اطاعت والدین
-
طلبہ اور سیاست
-
مطالعہ کا طریقہ
-
تعلیم نسواں
-
علم بڑی دولت ہے
-
خدمت خلق
-
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
-
ہمت کرے انسان تو کیا ہو نہیں سکتا ؟
-
علامہ اقبال
-
سرسید احمد خان
-
رسول اکرمؐ بحیثیت معلم اخلاق
-
حضور رسول کریم خاتم النبیینؐ کی حیات طیبہ
-
خاتم النبیین حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم
-
سب سے بڑا ہے میرا خدا