یہ کہانی (ہوشیار بگلا) ادریس صدیقی کی تحریر ہے۔
بگلا دن بھر کی دوڑ دھوپ کے بعد بڑی مشکل سے دو چار چھوٹی چھوٹی مچھلیوں کا شکار کر پاتا۔ آس پاس کے ندی، نالوں اور جھیلوں کی مچھلیاں بھی بہت چالاک ہو چکی ہیں۔ وہ بگلا کی چونچ سے بچنے کے لیے پانی کے اندر تیرتی رہتیں ۔ بگلا بھاگتے دوڑتے تھک جاتا۔ اوپر سے مچھلیاں بھی بہت کم شکار کر پاتا۔ اُسے اکثر بھو کے رہنا پڑتا۔
بگلا محنت کرنے سے نہیں گھبراتا۔ وہ جانتا ہے کہ ندی میں پڑے پتھروں پر سے جاتے ہوئے پانی میں بھی مچھلیاں ہوتی ہیں۔ اسی لیے وہ پتھروں کے اوپر کھڑا ہو جاتا اور اس پر سے بہتے ہوئے پانی میں مچھلیوں کا شکار کرنے کی کوشش کرتا۔ کبھی کبھی تو مچھلی بچ کر نکل جاتی لیکن بگلے کی چونچ پتھر سے ضرور ٹکراتی تو وہ درد کے مارے آنسو بہانے لگتا۔ ایک بار پتھروں پر سے بہتے پانی میں مچھلی پکڑنے کے لیے اس نے تیزی سے چونچ ماری۔ مچھلی تو نکل گئی لیکن بگلے کی چونچ زور سے پتھر سے ٹکرائی۔ بگلے کی چونچ کافی زخمی ہوگئی اور وہ کئی دنوں تک شکار نہیں کر سکا۔
اُس نے کئی چڑیوں کو اوپر ہوا میں تیرتے ہوئے اچانک پانی میں غوطہ لگا کر مچھلی پکڑتے دیکھا۔ بگلے نے سوچا ” مجھے بھی اسی طرح شکار کرنا چاہیے۔ بھوک سے بچنےکے لیے یہ ترکیب بھی آزمائی۔ وہ پانی کے اوپر اڑتے ہوئے جیسے ہی کسی مچھلی کو پانی میں دیکھتا تو دھپ سے پانی پر گر کر شکار کرنے کی کوشش کرنے لگتے۔ لیکن چالاک مچھلیاں ادھر اُدھر ہو کر نکل جاتیں یا کبھی پانی کی گہرائی میں جا کر شکار ہونے سےبچ جاتیں۔ اُدھر بگلا پانی میں غوطہ لگانے سے اتنا پانی پی جاتا کہ اس کا پیٹ غبارے کی طرح پھول جاتا۔ اُس کے بعد بگلے کے لیے اُڑنا مشکل ہوتا۔ ایک باربگلے کے پیٹ میں اتنا پانی بھر گیا کہ وہ پانی میں پڑارہ گیا
وہ تو اچھا ہوا کہ بگلا پانی پر پڑے پڑے تیرتا رہا ورنہ ڈوب کر مر جانے کی نوبت آجاتی۔ اس کے بعد بگلے نے اُڑتے ہوئے پانی میں مچھلیوں کا شکار کرنے سے توبہ کر لی۔
میں مچھلیوں کو کھائے بغیر زندہ کیسے رہوں گا۔بگلا سوچنے لگا۔ ادھر ادھر کیڑے مکوڑے کھا کر پیٹ نہیں بھرتا۔ اُسے زندہ رہنے کے لیے مچھلیوں کا شکار کرنا ضروری ہے۔ پھر کیا کروں لیکن بگلے کی سمجھ میں کوئی ترکیب نہیں آئی۔ وہ بہت پریشان رہنے لگا
ایک دن بگلا اُڑتا ہوا سر یو ندی کے پاس پہنچا۔ وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ وہاں کمر تک پانی میں ایک سادھو کھڑا ہے۔ سادھو اپنا ایک پیراٹھا کر دوسرے گھٹنے پر ٹکاتے ہوئے صرف ایک پیر کے سہارے کھڑا ہے۔ اُس نے اپنے دونوں ہاتھ سر کے اوپر لے جاتے ہوئے جوڑ رکھے ہیں۔ سادھو پانی میں ہلے ڈُلے بغیر چپ چاپ ایک پیر پر دھیان لگائے کھڑا ہوا ہے۔ پانی میں کوئی ہل چل نہیں ہونے کی وجہ سے کی مچھلیاں سادھو کے پاس تیر رہی ہیں۔ کتنی ہی چھوٹی مچھلیاں سادھو کی اوپر اٹھی ہوئی ٹانگ کے نیچے تیرتے ہوئے جاتی دکھائی دے رہی ہیں۔ انھیں سادھو سے کوئی ڈر نہیں لگ رہا۔ دوسرے، ان مچھلیوں کو پتا ہی نہیں لگ رہا کہ سادھو نے اپنا ایک پیراٹھا رکھا ہے۔
کتنی حیرانی کی بات ہے ! بگلا سوچنے لگا۔ میں جب پانی میں پیر ڈالے کھڑا ہوتا ہوں تو مچھلیاں کترا کر نکل جاتی ہیں ۔ یا پھر گہرے پانی میں تیرنے لگتی ہیں جہاں میری چونچ نہیں پہنچ سکتی۔“
پھربگلا کے دماغ میں یہ خیال آیا” کیوں نہ میں بھی پانی میں اپنا ایک پیر ڈالے اور دوسرا اٹھائے چُپ چاپ کھڑا رہوں؟ پھر مچھلیاں اس سے کترا کر نہیں نکلیں گی۔ اور انھیں مجھ سے ڈر بھی نہیں لگے گا۔
وہ پھر سے سادھو کو ایک پیر پر کھڑے دیکھتا رہا تا کہ کل وہ بھی اسی طرح پانی میں ایک پیر پر کھڑا ہو سکے۔ لیکن بگلا یہ دیکھ کر حیران رہ گیا ارے، سادھو نے اپنی آنکھیں بھی موند رکھی ہیں۔ اس کے منہ سے نکلا ۔ اگر میں دونوں آنکھیں بند کرتے ہوئے کھڑار ہوں گا تو پانی میں مچھلیاں کیسے دیکھوں گا ؟ اگر مچھلی دکھائی نہیں دے گی تو شکار کیسے کروں گا! ببگلے نے دھیان دیا کہ اگر سادھو اپنی آنکھیں کھولے رکھتا تو کیا مچھلیاں وہاں سے بھاگ جائیں گی ؟ بگلا بہت سمجھدار ہے اس نے دیکھا کہ سادھو کے چپ چاپ کھڑے رہنے سے پانی میں کوئی ہلچل نہیں ہوتی۔ اسی لیے مچھلیوں کو خطرہ محسوس نہیں ہوتا۔ اور وہ مزے سے سادھو کے قریب تیرتی رہتی ہیں۔ کئی ایک تو سادھو کی اوپر اٹھی ہوئی ٹانگ کے نیچے تیر رہی ہیں ! اوہو!
اصل بات یہ ہے کہ ایک پیر پر ہلے ڈلے بغیر چپ چاپ کھڑا ہونا ۔ تب مچھلیاں نڈر ہو کر وہیں تیرتی رہتی ہیں ۔ بگلا یہ راز سمجھ گیا۔
اگلے دن صبح ہوتے ہی بگلا سر یو ندی کے دوسرے کنارے پہنچ گیا۔ وہ سادھو سے کافی دور پانی میں ایک جگہ ایک پیر پر کھڑا ہو گیا اور دوسرا پیر اُٹھائے رکھا۔ بگلا کا اُٹھا ہوا پیر تھوڑا اُمڑا ہوا، ہوا میں لٹک رہا ہے۔ چونکہ بگلا کوئی حرکت نہیں کر رہا اس لیے پانی میں کوئی ہل چل بھی نہیں ہورہی ہے۔ وہ بالکل خاموش کھڑا ہے۔ بغیر ہلے ڈلے! پہلےبگلا نے سادھو کی طرح اپنی دونوں آنکھیں بند کر لیں۔ پھر یہ خیال آنے پر ایک آنکھ کھول دی کہ وہ مچھلیوں کو نہیں دیکھے گا تو شکار کیسے کرے گا ؟ اب بگلا کی ایک آنکھ تھوڑی کھلی ہوئی اور دوسری بند ہے ! بگلا نے اپنی لمبی سی گردن پانی کی طرف موڑ رکھی ہے۔ اس کی کوشش ہے کہ مچھلی کھلی ہوئی آنکھ نہ دیکھ پائیں ۔ اب دور سے دیکھنے پر ایسا لگتا ہے بگلا آنکھیں موندے پانی میں ایک پیر پر چپ چاپ کھڑا دھیان میں ڈوبا ہوا ہے ، سادھو کی طرح!
اب مچھلیوں کو پتا نہیں لگے کہ میں ان کا شکار کرنے کے لیے کھڑا ہوں ۔ یہ سوچ کر بگلے کو بہت خوشی ہوئی۔ اس نے بڑی مشکل سے اپنی ہنسی رو کی ورنہ مچھلیاں وہاں سے بھاگ جاتیں۔بگلا نے اپنی ادھ کھلی آنکھ سے پانی میں دیکھا وہاں کی مچھلیاں نڈر ہو کر تیرتی نظر آئیں۔ وہ سانس رو کے کھڑا رہا۔ جیسے ہی ایک مچھلی اس کے اٹھے ہوئے پیر کے نیچے پہنچی بگلے نے بڑی تیزی سے اپنی چونچ پانی میں ڈالی۔ اس نے حرکت کیے بغیر مچھلی پکڑ لی اور اسے کھانے کے بعد پھر چُپ چاپ کھڑا رہا۔ آج شام تک بنگلے نے کافی مچھلیوں کا شکار کیا اور پیٹ بھرنے پر اڑتا ہوا ایک پیٹر پر پہنچ گیا۔ آج خوب پیٹ بھرنے پر وہ تان کر سویا ۔
کچھ دنوں بعد سادھو اپنی تپسّیا پوری کرنے کے بعد وہاں سے چلا گیا۔ لیکن سریو ندی میں آج بھی تپسیا کے انداز میں بگلا ایک پیر پر کھڑا ملتا ہے۔ وہ بھی اپنی آنکھیں موندے ہوئے ! وہ دیکھنے والوں کو دھیان میں ڈوبا ہوا لگتا ہے۔ وہاں مچھلیوں کا شکار کرنے آئی چڑیاں بھی یہی سمجھتی ہیں کہ بگلا پانی میں ایک پیر پر کھڑاتپسّیا کر رہا ہے، سادھو کی طرح۔ اب وہاں آنے والی سبھی چڑیاں بگلا کو ادب سے بگلا بھگت کہہ کر پکارتی ہیں۔ اس لیےبگلا اپنے نام سے نہیں بلکہ بگلا بھگت کے نام سے جانا جاتا ہے۔