الہام

الہام(Inspiration)
مابعد الطبعی اور روحانی مفہوم کا حامل لفظ ”الہام“ادب و نقد کی معروف اصطلاح بھی ہے۔ الہام کو تخلیقی عمل کا مترادف بھی سمجھا جا سکتا ہے۔ اس لحاظ سے کہ مشرق و مغرب میں الہام اچانک ہی ذہن میں کسی خیال، تصور، امر کے خود بخود وارد ہونے کا نام ہے۔ وجدان، القا ، ادراک، کشف جیسے الفاظ الہام کے مترادفات ہیں۔
الہام کے مابعد الطبعی مفہوم سے قطع نظر ادب و نقد میں یہ اس ذہنی وقوعہ کا مظہر ہے جس کے لیے آمد کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ افلاطون سے لے کر کرو چے تک سب اس کے قائل ہیں کہ

آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں
غالبؔ صریرِ خامه نوائے سروش ہے

سید عابد علی عابد شاعرانہ اسلوب میں الہام کے بارے میں یوں لکھتے ہیں:
”الہام کے لمحے میں فنکار کو کائنات کے بظاہر منتشر اجزا میں ایک ربط دکھائی دیتا ہے جوز نجیر در زنجیر جوہر فرد کی برقیات سے لے کر نفس مطمئنہ کی سطح ذہنی تک کھنچا ہوا ہوتا ہے۔ یہ وارد ہو کر نا گہاں طاری ہوتا ہے اور موقع نہیں دیتا کہ فنکار تیار ہو جائے۔ فنکار اس کا منتظر رہتا ہے۔ اس لمحۂ القاء اس گوشئہ شعور، اس سطح الہام تک رسائی فیض الہی کے ذریعہ ممکن ہے اور اس فیضان کا ورود صرف کسی وقت معین کا تابع نہیں ہوتا بلکہ فنکار کو جو الہام ہوتا ہے، وہ اپنے ماحول، اپنی طبیعت اور اپنی معاشرت کے مطابق ایسا ہوتا ہے جیسا مناسب تھا ۔ “ ( البدیع ص: 51)


مآخذ: تنقیدی اصطلاحات از ڈاکٹر سلیم اختر

اگر آپ چاہیں تو یہ بھی پڑھ سکتے ہیں

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!
Scroll to Top