استقرائی تنقید

منطق کی دو معروف صورتیں ہیں۔

Deductive (استخراجی/ استنباطی منطق) اور Inductive ( استقرائی منطق)۔
استخراجی منطق میں پہلے سے درست تسلیم کردہ مفروضہ سے نتیجہ اخذ کیا جاتا ہے۔
اس کی یہ معروف مثال ہے:
ا۔ انسان فانی ہے۔
ب۔ الف کیونکہ انسان ہے۔
ج ۔ لہذاوہ فانی ہے۔
اس کے برعکس استقرائی منطق میں پہلے سے طے کردہ امر کے برعکس تجربات و مشاہدات سے کام لیتے ہوئے نتیجہ اخذ کیا جاتا ہے۔ استقرائی طرز استدلال یوں ہے:
ا۔ الف ب ج دسب مر گئے ۔
ب ۔ یہ سب انسان تھے۔
ج ۔ لہذا انسان فانی ہے۔
نتیجہ واحد مگر استدلال جدا گانہ ہے۔
استقرائی طرز فکر سائنسی ہے کیونکہ اس میں پہلے سے کچھ طے نہیں ہوتا بلکہ تجربات اور مشاہدات کی امداد سے درست نتیجہ تک پہنچا جاتا ہے جو درست ہونے کے باوجود بھی اس بنا پر قطعی / آخری / دائمی نہیں ہوتا کہ نئے مواد کی روشنی اور مزید شواہد کی بنا پر یہ تبدیل بھی کیا جاسکتا ہے۔
اسی طرز استدلال کو جب تنقید پر منطبق کیا گیا تو استقرائی تنقید نے جنم لیا۔
پروفیسر رچرڈ موٹن

(Richard Moulton)

اس تصور نقد کا بانی سمجھا جاتا ہے۔ اس نےاپنی تالیف

Shakespeare as a Dramatic Artist
میں استقرائی طرز فکر کی صراحت کرتے ہوئے تنقید کے ذریعہ سے تخلیقات کی قدر و قیمت اور معیار طے کرنے کے لیے تخلیقات اور تخلیق کاروں میں تقابل کو مستر د کر دیا۔
پروفیسر رچرڈ مولٹن نے متذکرہ کتاب میں لکھا:
استقرائی تنقید ادب پارہ کی تعریف یا مذمت سے بے نیاز ہے اور نہ ہی اس کا ادب پارہ کے مطلق یا اضافی محاسن سے کوئی تعلق ہے۔ استقرائی تنقید ادب کا سائنسی تحقیقات کی مانند جائزہ لے گی۔ یہاد بی قوانین کو ادب پاروں میں سے تلاش کرتے ہوئے ادب کو بھی مظاہر فطرت کی مانند عمل ارتقاء سے وابستہ قرار دیتی ہے۔“
استقرائی تنقید میں ادیب کی شخصیت، ماحول، معاشرہ کے مطالعہ کی ضرورت نہیں اور نہ ہی ذوق، وجدان ، جمالیاتی حس جیسی اصطلاحات سے کام چلایا جاتا ہے۔ گویا ادب کا لیبارٹری میں مطالعہ کیا جاتا ہے۔


مآخذ: تنقیدی اصطلاحات از ڈاکٹر سلیم اختر

اگر آپ چاہیں تو یہ بھی پڑھ سکتے ہیں

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top