واصف علی واصفؒ

واصف علی واصفؒ 15 جنوری 1929ء کو تحصیل شاہ پور ، ضلع خوشاب میں پیدا ہوئے۔ والد کا نام محمد عارف، جن کا تعلق اعوان قبیلے سے تھا۔ 

ابتدائی تعلیم خوشاب میں حاصل کی ۔ اس کے بعد بی اے  تک تعلیم جھنگ میں جاری رکھی۔ بعد ازاں پنجاب یونیورسٹی سے انگریزی ادب میں ایم اے کیا۔ 

3 جون 1954ء کے پنجاب گزٹ کے مطابق آپ نے سول سروس کا امتحان پاس کیا۔ لیکن طبیعت کی نافرادیت اور درویشی کے میلان کی وجہ سے سروس جوائن نہ کی بلکہ تدریس کے شعبے سے منسلک ہو گئے۔اس کے بعد پرانی انار کلی کے پاس نابھہ روڈ پر "لاہور انگلش کالج” کے نام سے اپنا تدریسی شعبہ قائم کیا، یہ 1962ء کی بات ہے۔ 

آپ کی شادی 24 اکتوبر 1970ء کو ہوئی۔ سب سے پہلے آپ کے ہاں ایک بیٹے کی ولادت ہوئی’ نام کاشف محمود رکھا گیا۔ اس کے بعد تین صاحبزادیاں پیدا ہوئیں۔ 

آپ  بچپن ہی سے فقر کی جانب راغب تھے۔ اس کی وجہ اُن کے والد عارف صاحب کا تصوفانہ معمول تھا۔ 

آپ کی پہلا ، شاعری کا مجموعہ کلام، ” شب چراغ” 1978ء، میں شائع ہوئی۔ آپ نے نوائے وقت میں کالم بھی لکھے، پہلا کالم "محبت” کے عنوان سے شائع ہوا۔ 

1986ء میں آپ کے فرمودات کو جمع کیا گیا اور پہلی نثری تصنیف "کرن کرن سورج ” شائع ہوئی۔ 

مضامین کا  مجموعہ "دل دریا سمندر” کے نام سے 1987ء میں شائع ہوا۔ "قطرہ قطرہ قلزم” 1989ء میں شائع ہوئی۔ اس کے بعد "کرن کرن سورج” کا انگریزی ترجمہ The Beaming Soul کے نام سے شائع ہوا۔ 1994ء میں مضامین کی کتاب ” حرف حرف حقیقت”،  پنجابی کلام "بھرے بھڑولے” اور اردو کلام  "شب راز” ۔ 1995ء میں فرمودات پر مبنی کتاب "بات سے بات” اور 1996ء میں آپ کی محفلوں کے سولات اور جوابات پر مبنی کتب "گفتگو” شائع ہوئیں۔ 

آپ  18 جنوری 1993ء  کو اس دارِ فانی سے کوچ کر گئے۔ 

 واصف علی واصفؒ صاحب کے فرمودات اپنے قارئین کی خدمت میں پیشِ خدمت ہیں۔

ارشادات/فرمودات

یہ فرمودات واصف علی واصف کی کُتب "کرن کرن سورج ” اور "بات سے بات” سے منتخب کیے گئے ہیں۔

  • رزق صرف یہی نہیں کہ جیب میں مال ہو’ بلکہ آنکھوں کی بینائی بھی رزق ہے۔ دماغ میں خیال رزق ہے۔ دل کا احساس رزق ہے۔ رگوں میں خون رزق ہے’ یہ زندگی ایک رزق ہے’ اور سب سے بڑھ کر ایمان بھی رزق ہے۔
٭٭٭
  • جو شخص سب کی بھلائی مانگتا ہے’ اللہ اس کا بھلا کرتا ہے جن لوگوں نے مہمانوں کے لیے لنگر خانے کھول دیے ہیں’ کبھی محتاج نہیں ہوئے۔
٭٭٭
  • توبہ جب منظور ہو جاتی ہے تو یادِ گناہ بھی ختم ہو جاتی ہے۔
٭٭٭
  • جب عزت اور ذلت اللہ کی طرف سے ہے’ رنج و راحت اللہ کی طرف سے ہے’ دولت اور غریبی اللہ کی طرف سے’ زندگی اور موت اللہ کی طرف سے’ تو ہمارے پاس تسلیم کے علاوہ کیا رہ جاتا ہے؟
٭٭٭
  • اپنے حال پر افسوس کرنا، اپنے آپ پر ترس کھانا، اپنے آپ کو لوگوں میں قابلِ رحم ثابت کرنا، اللہ کی ناشکر گزاری ہے۔ اللہ کسی انسان پر اس کی برداشت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا۔ بیمار اور لاغر روحیں ہمیشہ گِلہ کرتی ہیں، صحت مند ارواح شُکر۔۔۔ زندگی پر تنقید، خالق پر تنقید ہے اور یہ تنقید ایمان سے محروم کر دیتی ہے۔ 
  • آپ کا اصل ساتھی اور آپ کا صحیح تشخصّ آپ کے اندر کا انسان ہے۔ اُسی نے عبادت کرنا ہے اور اُسی نے بغاوت ‘ وہی دینا والا بنتا ہے اور وہی آخرت والا۔ اُسی اندر کے انسان نے آپ کو جزا و سزا کا مستحق بنانا ہے۔ فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے۔ آپ کا باطن ہی آپ کا بہترین  دوست ہے اور وہی بد ترین دشمن۔ آپ خود ہی اپنے لیے دشوارئ سفر ہو اور خود ہی شادابئ منزل، باطن محفوظ ہو گیا تو ظاہر بھی محفوظ ہو گا۔

٭٭٭

  • اسلام میں داخل ہونے کے بعد اگر کوئی یہ دعویٰ کرے کہ وہ دوسرے مسلمانوں پر فوقیت رکھتا ہے’ تو اسے غلط سمجھیں۔ اپنی فضیلت کو فضیلت کے طور پر بیان کرنا ہی فضیلت کی نفی ہے’ انسان کی کم ظرفی ہے’ جہالت ہے۔ اصل فضیلت تو دوسروں کو فضیلت دینے میں ہے جیسا کہ علم میں دوسروں کو شامل کرنے کا نام علم ہے ورنہ علم سے دوسروں کو مرعوب کرنا اور احساسِ کمتری میں مبتلا کرنا جہالت ہے۔

٭٭٭

  • کسی انسان کے کم ظرف ہونے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ اپنی زبان سے اپنی تعریف کرنے پر مجبور ہو۔ دوسروں سے اپنی تعریف سننا مستحسن نہیں اور اپنی زبان سے اپنی تعریف عذاب ہے۔  

٭٭٭

  • جس نے لوگوں کو دین کے نام پر دھوکا دیا اُس کی عاقبت مخدوش ہے کیونکہ عاقبت دین سے ہے اور دین میں دھوکا نہیں۔ اگر دھوکا ہے تو دین نہیں۔

٭٭٭

  • جو شخص اس لیے اپنی اصلاح کر رہا ہے کہ دنیا اس کی تعریف و عزت کرے اس کی اصلاح نہیں ہو گی۔ اپنی نیکیوں کا صِلہ دنیا سے مانگنے والا انسان نیک نہیں ہو سکتا۔ ریا کار اُس عابد کو کہتے ہیں جو دنیا کو اپنی عبادت سے مرعوب کرنا چاہے۔
٭٭٭
  •  جب تک مخبرِ صادقؐ کی صداقت پر اعتماد نہ ہو ہم توحید کی تصدیق نہیں کر سکتے۔
٭٭٭
  • انسان کا اصل جوہر صداقت ہے’ صداقت مصلحت اندیش نہیں ہو سکتی۔ جہاں اظہارِ صداقت کا وقت ہو وہاں خاموش رہنا صداقت سے محروم کر دیتا ہے۔ اس انسان کا صادق نہیں کہا جاسکتا جو اظہارِ صداقت میں ابہام کا سہارا لیتا ہو۔
٭٭٭
  • اگر زندگی بچانے کی قیمت پوری زندگی بھی مانگی جائے تو انکار نہ کرنا۔
٭٭٭
  • زندگی اور عقیدے میں فاصلہ رکھنے والا انسان منافق ہوتا ہے ایسا شخص نہ گناہ چھوڑتا ہے نہ عبادت۔ اللہ اُس کی سماجی یا سیاسی ضرورت ہوتا ہے’ دینی نہیں۔ ایسے آدمی کے لیے مایوسی اور کربِ مسلسل کا عذاب ہے۔
٭٭٭
  • غیر یقینی حالات پر تقریریں کرنے والے’ کتنے یقین سے اپنے مکانوں کی تعمیر میں مصروف ہیں!
٭٭٭
  • ہم صرف زبان سے اللہ اللہ کہتے رہتے ہیں۔ اللہ لفظ نہیں۔ اللہ آواز نہیں، اللہ پکار نہیں، اللہ تو ذات ہے، مقدّس و ماورا۔ اس ذات سے دل کا تعلق ہے، زبان کا نہیں، دل اللہ سے متعلق ہو جائے تو ہمارا سارا وجود دین کے سانچے میں ڈھل جانا لازمی ہے۔
٭٭٭
  • میاں بیوی کو باغ و بہار کی طرح رہنا چاہیے۔ وہ باغ ہی کیا جو بہار سے بیگانہ ہو اور وہ بہار ہی کیا جو باغ سے نہ گزرے۔ یہ اس کے دم سے، وہ اس کی وجہ سے!!!
٭٭٭
  • اگر اللہ تعالیٰ نے رحمت کے جوش میں مخلوق کو معاف فرمادے، تو کیا ہو گا؟ موت کا منظر مرنے کے بعد؟ کیا اللہ معاف کرنے پر قادر نہیں؟
٭٭٭
  • پرانے بادشاہ ہاتھی کی سواری سے جلالِ شاہی کا ظہار کرتے تھے۔ آج ہمارے بچے چڑیا گھروں میں ہاتھی کی سواری سے دل بہلاتے ہیں!!!
٭٭٭
  • سچے انسان کے لیے کائنات عین حقیقت ہے اور جھوٹے کے لیے یہی کائنات حجابِ حقیقت ہے۔
٭٭٭
  • ایک انسان نے دوسرے سے پوچھا: ” بھائی! آپ نے زندگی میں پہلا جھوٹ کب بولا؟ ” دوسرے نے جواب دیا: "جس دن مَیں نے یہ اعلان کیا کہ مَیں ہمیشہ سچ بولتا ہوں۔”

٭٭٭

  • اگر نوحؑ کی التجا’ دعا یا خواہش کے باوجود ان کا بیٹا طوفان سے نہیں بچایا گیا تو اس میں نوحؑ کی نبوت پر کوئی شک نہیں ہو سکتا۔ اللہ تعالیٰ کی مرضی ہے چاہے تو ایک معمولی انسان کی دعا قبول کر لے’ چاہے تو نبی کی بات ٹال دے۔ اللہ بے نیاز ہے۔

٭٭٭

  • ہر انسان ہر دوسرے انسان سے متاثر ہوتا رہتا ہے۔ ایک انسان دوسرے کے پاس سے خاموشی سے گزر جائے تو بھی اپنی تاثیر چھوڑ جاتا ہے۔ انسان دوسرے انسان کے لیے محبت، نفرت اور خوف پیدا کرتے ہی رہتے ہیں۔

٭٭٭

  • اس دنیا میں انسان نہ کچھ کھوتا ہے نہ پاتا ہے۔ وہ تو صرف آتا ہے اور جاتا ہے۔

٭٭٭

  • تکلیف آتی ہے:

ہمارے اعمال کی وجہ سے، ہماری وسعت ِ برداشت کے مطابق، اللہ کے حکم سے

ہر تکلیف ایک پہچان ہے اور یہ ایک بڑی تکلیف سے بچانے کے لیے آتی ہے۔

٭٭٭

  • صحت کے لیے خوراک ضروری ہے’ لیکن خوراک صحت نہیں۔

٭٭٭

  • جِس طرح موسم بدلنے کا ایک وقت ہوتا ہے اسی طرح وقت کے بدلنے کا بھی ایک موسم ہوتا ہے۔ حالات بدلتے ہی رہتے ہیں۔ حالات کے ساتھ حالت بھی بدل جاتی ہے۔ رات آجائے تو نیند بھی کہیں سے آ ہی جاتی ہے۔ وہ انسان کامیاب ہوتا ہے جس نے ابتلا کی تاریکیوں میں امید کا چراغ روشن رکھا۔ اُمید اس خوشی کا نام ہے جس کا انتظار میں غم کے ایام کٹ جاتے ہیں۔ امید کسی واقعہ کا نام نہیں’ یہ صرف مزاج کی ایک حالت ہے۔ فطرت کے مہربان پونے پر یقین کا نام امید ہے۔

٭٭٭

  • جو ذات شکمِ مادر میں بچے کی صورت گری کرتی ہے وہی ذات خیال کی صورت گر بھی ہے اور وہی ذات عمل کی صورت بھی پیدا فرماتی ہے۔ ہر چہرہ ایک Range تاثیر رکھتا ہے۔ اسی طرح ہر خیال ایک دائرہ تاثیر رکھتا ہے اور ہر عمل کا ایک دور ہے جس میں وہ مؤثر ہوتا ہے۔ اپنے دائرے سے باہر ہر مؤثر شے بے تاثیر ہو جاتی ہے۔ کچھ چہرے’ خیال اور اعمال صدیوں پر محیط  ہوتے ہیں اور زمانوں پر حاوی ہوتے ہیں۔

٭٭٭

  • گناہوں میں مبتلا انسان کا دعاؤں پر یقین نہیں رہتا۔

٭٭٭

  • بارگاہِ رسالتؐ میں ہدیہ درود بھیجنے کے لیے غریبی رکاوٹ نہیں، حضورِ اکرمؐ غریبوں ، یتیموں میں یتیم، مہاجروں میں مہاجر اور سلاطین میں سلطان زمانہ تھے۔ معاشی نا ہمواریوں آپؐ کے قرب کی راہ میں رکاوٹ نہیں، نہ سرمایہ آپؐ کی تقرب کی ضمانت۔ 

٭٭٭

  • زندگی سے تقاضا اور گلہ نکال دیا جائے تو سکون پیدا ہو جاتا ہے۔ سکون اللہ کی یاد سے اور انسان کی محبت سے پیدا ہوتا ہے۔ نفرت اضطراب پیدا کرتی ہے۔ اضطراب اندیشے پیدا کرتا ہے اور اندیشہ سکون سے محروم کر دیتا ہے’ محبت نہ ہو تو سکون نہیں۔ 

٭٭٭

  • انسان کسی کو شریکِ زندگی بنانے سے پہلے اس کے حال اور ماضی کو دیکھتا ہے لیکن یہ بھول جاتا ہے کہ اس کی رفاقت میں اس نے مستقبل گزارنا ہے۔ کامیاب ازدواجی زندگی اللہ کا احسان ہے۔

٭٭٭

  • ایک انسان کو زندگی میں با اعتماد ہونے کے لیے یہ حقیقت ہی کافی ہے کہ اس سے پہلے نہ تو کوئی اس جیسا انسان دنیا میں آیا نہ اس کے بعد ہی کوئی اس جیسا آئے گا۔ یہ عظیم انفرادیت بہت بڑا نصیب ہے۔ 

٭٭٭

  • آج کا انسان اس لیے خوف زدہ ہے کہ وہ لذتِ شوق سے محروم ہے۔ کثیر المقاصد زندگی خوف سے نہیں بچ سکتی۔ رحمتِ ھق سے مایوسی ہی خوف پیدا کر رہی ہے۔ لالچ ختم نہ ہو تو خوف کیسے ختم ہو۔ انسان اپنے آپ جتنا محفوظ کرتا ہے اتنا ہی غیر محفوظ ہوتا جا رہا ہے۔ گویا زندگی اپنی حصار بندیوں اور حفاظتوں کی زد میں آگئی ہے۔ ہر طرف خوف ہی خوف ہے۔ اس خوف سے بچنے کا واحد ذریعہ اپنی جبینِ شوق کو سجدوں سے سرفراز کرنے میں ہے۔ 

٭٭٭

  • غافل کی آنکھ اس وقت کھلتی ہے جب بند ہونے کو ہوتی ہے۔

٭٭٭

  • ذکر سے محویّت حاصل کرو۔۔۔ سکون مِل جائے گا۔ 

٭٭٭

  • حالات اور وقت کی تبدیلیوں سے بدلنے والے تعلقات سے بہتر ہے کہ انسان تنہا رہے۔

٭٭٭

  • ترقی یا ارتقاء ضروری ہے لیکن۔۔۔گہوارے سے نکل کر اپنی قبر تک کتنی ترقی چاہیے۔۔۔؟ اصل ترقی یہ ہے کہ زندگی بھی آسان ہو اور موت بھی مشکل نہ رہے!!!

٭٭٭

  • کسی شے سے اس کی فطرت کے خلاف کام لینا ظلم ہے۔

٭٭٭

  • حُسن‘ عشق کا ذوقِ نظر ہے اور عشق قربِ حُسن کی خواہش کا نام ہے۔

٭٭٭

  • طریقت کے تمام سلاسل اپنے اپنے انداز میں بالکل صحیح ہیں لیکن ملّت اسلامیہ کی فلاح اسی میں ہے کہ وہ ایک عظیم وحدت بن کر ابھرے۔ مسلک اسلام سے ہے اسلام نہیں۔۔۔اسلام اسلام ہے۔ 

٭٭٭

  • جو لوگ اللہ کی تلاش میں نکلتے ہیں وہ انسان تک ہی پہنچتے ہیں۔ اللہ والے انسان ہی تو ہوتے ہیں۔

٭٭٭

  • حضورِ اکرمؐ کو کائنات کے لیے رحمت بنا کر بھیجا گیا۔ ہم پر فرض ہے کہ حضوراکرمؐ کا اندازِ رحمت سب مخلوق تک پہنچائیں۔ اسلام خود ہی پہنچ جائے گا۔ دنیا کو جب رات کی تاریکی کے بعد روشنی میسر آتی ہے تو اس کی نظریں خود بخود سورج کی طرف اٹھ جاتی ہیں۔ سورج کا دین روشنی ہے۔ اپنے آپ کو منوانا نہیں۔

٭٭٭

  • خالق کا گلہ مخلوق کے سامنے نہ کرو اور مخلوق کا شکوہ خالق کے سامنے نہ کرو۔۔۔ سکون مل جائے گا۔

٭٭٭

  • دین و دنیا۔۔۔ جس شخص کے بیوی بچے اس پر راضی ہیں اُس کی دنیا کامیاب ہے اور جس کے ماں باپ اس پر خوش ہیں اس کا دین کامیاب۔

٭٭٭

  • ہم ایک عظیم قوم بن سکتے ہیں اگر ہم معاف کرنا اور معاف مانگنا شروع کر دیں۔ 

٭٭٭

  • سب سے بڑی قوت، قوتِ برداشت ہے۔

٭٭٭

  • جو انسان اپنی وفا کا ذکر کرتا ہے وہ اصل میں دوسرے کی بے وفائی کا ذکر کر رہا ہوتا ہے۔۔۔ وفا تو ہوتی ہی بے وفا سے ہے۔

٭٭٭

  • ترقی کے لیے محنت و مجاہدہ ضروری ہے لیکن یہ نہ بھولنا چاہیے کہ مجاہدہ ایک گدھے کو گھوڑا نہیں بنا سکتا۔

٭٭٭

  • محبت سے دیکھو تو گلاب میں رنگ ملے گا،خوشبو ملے گی، نفرت سے دیکھو تو خار نگاہوں میں کھٹکیں گے۔

٭٭٭

  • دُور سے آنے والی آواز بھی اندھیرے میں روشنی کا کام دیتی ہے۔

٭٭٭

  • ولیوں کی صحبت میں رہو۔۔۔ سکون مل جائے گا۔

٭٭٭

  • فرض اور شوق یکجا کر دو۔۔۔ سکون مل جائے گا۔

٭٭٭

  • ہوسِ زر اور لذتِ وجود چھوڑ دی جائے تو زندگی آسان ہو جاتی ہے۔

٭٭٭

  • کسی کا سکون برباد نہ کرو۔ سکون مل جائے گا۔

٭٭٭

  • دل سے کدورت نکال دو۔ سکون مل جائے گا۔

٭٭٭

  • جِس نے ماں باپ کا ادب کیا اس کی اولاد مؤدب ہو گی۔ نہیں تو نہیں۔

٭٭٭

  • خوش نصیب انسان وہ ہے جو اپنے نصیب پر خوش رہے۔

٭٭٭

  • بدی کی تلاش ہو تو اپنے اندر جھانکو۔ نیکی کی تمنّا ہو تو دوسروں میں ڈھونڈو۔
  • غم کتنا ہی سنگین ہو نیند سے پہلے تک ہے۔

٭٭٭

  • کائنات کا کوئی غم ایسا نہیں جو آدمی برداشت نہ کر سکے۔

٭٭٭

  • جوانی سولہ سال کی عمر کا نام نہیں۔ ایک اندازِ فکر کا نام ہے، ایک انداز زندگی کا نام ہے، ایک کیفیت کا نام ہے۔ یہ ہو سکتا ہے کہ ایک شخص سولہ سال میں بوڑھا ہو اور ایک شخص ساٹھ سال میں جوان ہو۔

٭٭٭

  • سانس کی موت سے پہلے بہت سی اموات ہو چکی ہوتی ہیں، ہم سانس کو موت سمجھتے ہیں۔ حالانکہ سانس تو اعلان ہے ان اموات کا جو آپ مر رہے ہیں۔ 

٭٭٭

  • جس انسان کی آنکھ میں آنسو ہیں وہ اللہ سے نہیں بچ سکتا۔ انسان کا اللہ سے قریب ترین رشتہ آنسوؤں کا ہے۔

٭٭٭

  • دنیا کے اندر سب سے بڑا انصاف یہ ہے کہ یہ دنیا گناہ کے متلاشی کے لیے گناہ دیتی ہے اور فضل کے متلاشی کو فضل دیتی ہے۔ 

٭٭٭

  • جس کو صداقت اور نیکی کا سفر کرنے کی خواہش ہے۔ وہ جان لے کے یہ منظوری کا اعلان ہے، جس کو منظور نہیں کیا جاتا۔ اس کو یہ شوق ہی نہیں ملتا۔

٭٭٭

  • جو آدمی موت سے نہیں نکل (بچ) سکتا وہ خدا سے کیسے (بچ) سکتا ہے۔

٭٭٭

  • اپنی ہستی سے زیادہ اپنا نام نہ پھیلاؤ نہیں تو پریشان ہو جاؤ گے۔

٭٭٭

  • جو بات آپ کے دل میں اتر گئی وہ ہی آپ کا انجام ہے، اگر آپ کو موت آ جائے تو جس خیال میں آپ مریں گے وہی آپ کی عاقبت ہے۔

٭٭٭

  • دور کا کوئی مقام ایسا نہیں ہے جو قریب نہ آسکے۔

٭٭٭

  • استعدار سے زیادہ کی تمنا ہلاکت ہے، اور استعداد سے کم کی خواہش آسودگی ہے۔

٭٭٭

  • حق کیا ہے ، استعداد کے مطابق حاصل، احسان کیا ہے حق سے زیادہ حاصل ، محرومی کیا ہے، حق سے کم حاصل۔

٭٭٭

  • آنسو قرب کا ثبوت ہیں، جب روح کا روح سے وصال ہوتا ہے تو آپ کو آنسو آ جاتے ہیں۔

٭٭٭

  • منافق وہ ہے جو اسلام سے محبت کرے اور مسلمانوں سے نفرت۔

٭٭٭

  • آپ کے سانس گنتی کے مقرر ہو چکے ہیں، نہ کوئی حادثہ آپ کو پہلے مار سکتا ہے۔ نہ کوئی حفاظت آپ کو دیر تک زندہ  رکھ سکتی ہے۔ 

٭٭٭

  • جھوٹے معاشرے میں عزت کے نام سے مشہور ہونے والا آدمی دراصل ذلت میں ہے۔

٭٭٭

  • دعا یہ کیا کرو کہ اے اللہ جو تو نے دینا ہے، وہ بغیر مانگے دے۔ اور جو کچھ تو نے نہیں دینا، اس کے مانگنے کی توفیق ہی نہ دے۔

٭٭٭

  • معاشرے انسان کو جنم دیتے ہیں  اور انسان معاشرے کو جنم دیتا ہے۔

٭٭٭

  • جب آپ اپنے ماضی کو حال پر فوقیت دیتے ہیں، تو آپ مذہبی آدمی بن جاتے ہیں۔ جب مستقبل کو فوقیت دیتے ہیں۔ تو پھر سائنسی آدمی بن جاتے ہیں۔ سائنس ماضی سے نجات پاتی ہے، جب کہ مذہب ماضی کی طرف رجوع کرتا ہے۔ 

٭٭٭

  •  فانی کی محبت فنا پیدا کر دے گی، باقی بقا پیدا کرے گی۔

٭٭٭

  • جو کسی مقصد کے لیے مرتے ہیں، وہ مرتے نہیں ہیں اور جو بے مقصد جیتے ہیں وہ جیتے نہیں ہیں۔

٭٭٭

  • وہ شخص مر گیا جو کسی کے دل میں نہ رہا۔ آدمی کب مرتا ہے جب دل سے اترتا ہے۔ زندہ کب ہوتا ہے جب دل میں اترتا ہے۔

٭٭٭

  • ایسا کوئی نہیں ملےگا، جو اسلام کی ایسی تعریف پیش کرے۔ جس سے سارے پاکستانی مسلمان ثابت ہو جائیں ۔ ناممکن ہے آدھے لوگ تو ضرور کافر ثابت ہوتے ہیں۔

٭٭٭

  • پسندیدہ چیز سے جدائی موت ہے۔ جن کی پسندیدہ چیزیں موت سے پرے ہیں، ان کو مرنا آسان ہے۔ جن کی پسندیدہ چیزیں یہاں رہ جائیں گی، اُن کے لیے موت مشکل ہے۔

٭٭٭

  • غصہ ایسا شیر ہے جو تمھارے مستقبل کو بکرا بنا کر کھا جاتا ہے۔

٭٭٭

  • اللہ تعالیٰ کا تقرب جنت ہے اور اللہ سے دوری دوزخ ہے، عشق نبیؐ جنت ہے اور عشق نبیؐ سے دوری دوزخ ہے۔

٭٭٭

  • اگر تیری نسبت باقی کے ساتھ ہو گئی، تو باقی ہو جائے گا۔ اب تیری نسبت فانی کے ساتھ ہے۔ اس لیے تو فانی ہے۔ فنا سے نسبت اٹھا کے بقا میں لگادے۔ تو سب آسان ہو جائے گا۔

٭٭٭

  • تصورِ شیخ کا مطلب یہ ہے کہ آپ جو بھی کام کر رہے ہیں، اگر شیخ موجود ہوتا تو وہ اس کام کو کیسا ہونا پسند کرتا۔ یعنی یہ ایسی کیفیت ہے کہ آپ جو بھی کام کر رہے ہیں، شیخ کی عدم موجودگی میں بھی اس کی مرضی کے مطابق ہو۔ 

٭٭٭

  • چور ضرورت کا نام ہے، بندہ اندر سے برا نہیں ہوتا، ضرورت ہی برا کرتی ہے اور ضرورت ہی نیک کرتی ہے۔ ضرورت نکال دو بندہ ٹھیک۔۔۔

٭٭٭

  • دنیا دار کے لیے جہاں صبر کا حکم ہے وہاں اللہ کے بندوں کا شکر کرنے کا حکم ہے۔

٭٭٭

  • کسی پسندیدہ چیز کے چھن جانے یا کسی نا پسندیدہ چیز کے آ جانے کو خوف کہتے ہیں۔

٭٭٭

  • جو شخص ہر وقت ایک ہی خیال میں رہے، اسے نہ آنے والے واقعات کا ڈر ہے، اور نہ ماضی میں ہونے والے عمل کا۔

٭٭٭

 

 

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top