کتاب: Raging Fire of Love
مصنف: کیلی جیمز کلارک
تعارف: عبدالباسط ظفر
مَحبت کا شعلہ تاباں
محبت بلا شبہ روئے زمین پر ہونے والا ایسا اُلوہی واقعہ ہے جسے انسانوں کو اپنی زبان اور شناخت کے ساتھ گزارنا پڑ سکتا ہے۔
♥♥♥
کیلی جیمز کلارک(kelly james clark) جو کہ ایک نامور فلسفی اور ابنِ خلدون یونیورسٹی، استنبول کے ممتاز پروفیسر ہیں۔ اُن کے ساتھ میری ملاقات کووِڈ پھیلنے سے پہلے ، استنبول میں ابراہیمی ادیان کی ایک ورک شاپ میں ہوئی تھی، ہماری یہ خوشگوار ملاقات، ایک علمی رفاقت میں بدل گئی۔ پھر وبا کے انتہائی دنوں میں اُنہوں نے ہمارے ساتھ اپنی کتاب پر محاضرات کا ایک دورہ کیا۔ زیرِ عنوان کتاب ، اُسی سلسلے کی ایک خالص اور پرسنل صورت کے طور پر حال ہی میں شائع ہوئی ہے۔
(Strangers, Neighbors, Friends: Muslim-Christian-Jewish Reflections on Compassion and Peace)
ایک فنڈمنٹلسٹ عیسائی گھرانے میں پیدا ہونے کی وجہ سے کلارک کا کہنا ہے کہ اُنہیں دیگر مذاہب تو دور اپنے ہی دین کے دیگر مسالک سے بھی ملنے کی یا اُن سے سیکھنے کی کوئی خواہش نہیں تھی اُن کی زندگی میں رونما ہونے والی یہ کیمیا گری ، منکسرالمزاج اور وضع دار مسلمانوں کے رہن سہن اور طرزِ عمل دیکھنے سے ممکن ہوئی، موجودہ کتاب، اُن کی اِسی فکری رواداری اور اخلاقی تربیت کی عکاسی کرتی ہے ۔
"محبت کا یہ شعلہ تاباں”، اُن کی زندگی میں دیگر اقوام اور مذاہب کے علما سے ملنے کی صورت میں بھڑک اٹھتا ہے۔وہ آسمانی صحائف سے لے کر اپنے بین الاقوامی تدریسی دوروں ،سیمینارز میں ہونے والی گفتگو اوروہاں کے عمومی ماحول سے ہمیں محبت اور ہمدردی کے مختلف مظاہردکھاتے چلے جاتے ہیں ، اِس کتاب سے ہمیں یہ پیغام بھی ملتا ہے کہ انسانی تعلقات ،کسی کا شریفانہ رویہ ، اور اچھے اخلاق ،دوسرے کی زندگی کی راہ اور اقدار متعین کرنے میں ایک بہت بڑا فیکٹر بن سکتے ہیں۔
ایک مترجم و محقق کے طور پر میرے لیے اُن کی اِس تصنیف کے عنوان کو اردو میں ترجمہ کرنا اِس لیے بھی باعثِ دشواری تھا کہ اہلِ زبان کے نزدیک اگرچہ لغوی معنی ” محبت” میں مشترک ہیں مگر لفظِ محبت کے شخصی مفاہیم مختلف ہو سکتے ہیں ۔ تو کیا اِس کتاب کے عنوان کو ”سوزِ محبت “،”آتشِ عشق “، کہا جائے یا ایک شعلہ تاباں، لہذا، یہاں مجموعی طور پر میں ”محبت کا شعلہ تاباں “ کے عنوان سے تعبیر کرنا چاہوں گا۔ اِس کتاب کا عنوان کلارک نے غزل الغزلات سے ماخوذ کیا ہے؛
”مہر کی مانند مجھے اپنے دل پر اور مُہر کی مانند اپنے بازو پر لگا کر رکھ کیوں کہ محبت اتنی ہی زبردست ہے جتنی موت، اور جذبہ اتنا سخت ہے جتنی کہ قبر۔ اس کےشعلے آ گ کے شعلوں کی طرح ہیں، یہ ایک زبردست آ گ کی طرح ہے۔ محبت کی آ گ کو پانی نہیں بجھا سکتا ،محبت کو سیلاب ڈوبا نہیں سکتا ،اگر آدمی محبت کے لئے اپنا سب کچھ دان بھی ڈالے تو کیا اسے ایسا کرنے کے لئے حقیر سمجھا جائے گا!!
غزل الغزلات کی اِن آیات کے بارے مختلف تاویلی رحجانات پائے گئے ہیں، البتہ محبت کے ایسے کسی بھی اُصول میں جس شے کی کمی ہے کلارک کے نزدیک وہ محبت کا وہ شعلہ تاباں ہے، جو خوف کے تنگ دائروں میں محبت اور ہمدردی پیدا کرتا ہے۔
———
خدا کو ایک منبہ قدرت و جلال کی بجائے ،
سرچشمہ محبت کے طور پر قبول کر لینا چاہیے!
کلارک یونیورسٹی گریجوئٹ ہونے کے باوجود اپنے مخصوص فکری اور مذہبی بیانیے سے باہر یا پرے کی کسی مذہبی اور فکری روایت سے آشنا نہیں تھے۔اُن کی زندگی اُن کے اپنے مکتبہ فکر کے لوگوں اور کمیونٹی تک محدود تھی، وہ اپنی فکری بالیدگی اور جذبہ محبت کے مذہبی پہلووں سے آگاہی کے نتیجے میں پیدا ہونے والی فکری بالیدگی بیان تو کرتے ہیں مگر اپنے بیانیے کی ہر ہر سطر میں علمی انکساری اور مخلصانہ عاجزی کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ ہمارے یہاں بھی ایسی ہی علمی انکساری(Epistemic humility) اور عاجزی کا برملا اظہار کرنے میں ہرگز تامل نہیں ہونا چاہیے۔
زیرِ موضوع کتاب اُن کے دیگر ادیان بالخصوص مسلمانوں اور یہودیوں کے ساتھ ہونے والے میل جول اور انسانی جذبات سے پیدا ہونے والی تجرباتی روش کا اظہار ہے۔ لہذا ہمارے یہاں انگریزی لفظِ محبت(Love) کا ہرگز وہ مفہوم نہیں ہے جس اخلاقی اور مذہبی بلکہ روحانی پیرائے میں کلارک کرتے نظر آتے ہیں ۔ وہ اپنے مغربی ریڈر(قاری)کو یہ بارآور کرواتے ہیں کہ قرآنِ کریم میں سوائے ایک سورة کے ہر سورت خدائے باری تعالیٰ کے نام سے اور اُس کی محبت سے شروع کی جاتی ہے، وہ مسلمانوں کی عبادات میں سے نماز کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ مسلمانوں کا دن میں پانچ مرتبہ دورانِ نماز اپنے گھٹنوں کے بل جھکنا اور سجدہ کرنا ، اِس طرف اشارہ ہے کہ مسلمان بھی خدا تعالیٰ سے رحم اور اُس کی رضا کے طالب ہیں، اور ایسے مسلمان اپنے دلوں میں بھی یہ اوصافِ خداوندی طلب کرتے ہیں۔
کلارک کہتے ہیں کہ عام طور پر یہ تصور کیاجاتا ہے کہ اسلام کی تعلیمات صرٖف انصاف کے اصولوں اور بعد از مرگ حیات پہ محیط ہیں لیکن قرآن کے مطالعہ اور اسلامی روایت کو دیکھنے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اسلام کی اساس مَحبت ہے۔ اور اس میں ایک بات بڑی صراحت سے کہی گئی ہے کہ یہ اپنے دشمنوں سے بھی محبت کا درس دیتا ہے۔ کیونکہ باہمی محبت سے ہی اصلاح ممکن ہے۔
کلارک، انجیل سے کچھ یوں حوالہ دیتے ہیں ؛ کہ جنابِ مسیح ؑ نے فرمایا کہ اپنے پڑوسی سے محبت کرنا تو بہت آسان کام ہے، یعنی اپنی ہی قوم، رنگ، نسل یا ذات برادری کے لوگوں سے میل جول رکھنا اور اُن سے ہمدردی تو ہر کوئی جتاتا ہے ،جبکہ اصل فریضہ تو یہ ہے کہ تم اپنے دشمن سے بھی محبت اور ایثار کا جذبہ فراوانی میں رکھو! وہ مسیحی اور ایک امریکی ہونے کی وجہ سے اِس تاسف کا برملا اظہار بھی کرتے ہیں کہ انجیل کی تعلیمات ہمارے روز مرہ کے رویوں اور ہمارے سیاسی اخلاق میں کیوں کر نہیں جھلکتیں ۔
———
محبت جذبے کے ساتھ ساتھ اُس کا عملی تظاہر بھی تقاضا کرتی ہے۔ محبت نیت، عزم اور ایک طرح کے ارادے کا تقاضا کرتی ہے ۔ ہم ہسپتانوں میں یا جیل خانوں میں موجود قیدیوں کی پرسش کو کیوں نہیں جاتے؟ جبکہ تینوں سماوی دین جنگی قیدیوں یا مجرموں کے ساتھ بہتراخلاقی رویوں کا پرچار کرتے ہیں اور مظلوموں کے ساتھ رواداری کی ترغیب دیتے ہیں.. ہم بھوکے، یا بے گھر لوگوں کے ساتھ نظریں نہیں ملاتے اور ہمارے شہر اور جدید لائف اسٹائل کی بُنت ایسے انداز سے ہوئی ہے کہ ہم ایسا جانتے بوجھتے نہیں کرتے…
زیرِ موضوع کتاب کئی پہلووں سے اُن کی علمی اور تحقیقی کتب سے مختلف ہے ، اِس کے پہلووں پر اختصار سے عرض کرتا چلوں.. اُن میں اول تو محبت، نفرت، بغض و عداوت کے انسانی رویوں کو اور اُن کے سماجی پہلووں کو کسی طور مکتب و مسجد کا حصہ نہیں بنایا گیا۔
———
انسانی دماغ درختوں سے پھل توڑنا یا مٹی میں بیج دبانا تو آسانی سے کر سکتا ہے ، لیکن فلسفہ پیدا کرنا یا کسی طور خدائی حقیقت کو سمجھنا اُس کے لیے دشوار اور کٹھن ہے۔ اپنے موقف سے مختلف فکری رحجانات کو خندہ دلی سے سننا اور اُن کے ساتھ تعلق روا رکھنا اخلاقی بالیدگی کا تقاضا کرتا ہے۔ نفسیات(Empirical Psychology) ہمیں اِس بارے میں بھی آگاہ کرتی ہے کہ ہم اپنے سے مختلف انسانوں کے ساتھ منصفانہ رویہ بھی اُسی صورت میں اختیار کر سکتے ہیں اگر ہم میں ہمدردی(Empathy) کا تظاہر ہو ۔ لہذا اِسی پر بنائے استدلال کرتے ہوئے اُن کا کہنا ہے کہ ہمیں عراقیوں پر بمباری کرتے ہوئے بالکل بھی برا محسوس نہیں ہوا، کیوں کہ ہم عرب اور عراقیوں کے لیے کوئی ہمدردی نہیں رکھتے ..
خوف ، محبت سے بہت زیادہ طاقت ور جذبہ ہے !
خوف دو طرح سے اثر کرتا ہے ، پہلے تو یہ ہمیں ہماری ہی طرح سوچنے والے ہماری ہی طرح اُٹھنے بیٹھنے والے لوگوں کے قریب کرتا ہے، البتہ کیلی جیمز کلارک اِس بات سے انکار نہیں کرتے کہ خوف کا یہ اظہار ایک ارتقائی عمل کا نتیجہ ہے ، جو دورانِ ارتقا ، انسانِ قدیم سے ہمارے جبلی دماغ کا حصہ رہا ہے ۔
خوف کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ جو لوگ ہمارے اُس چھوٹے سے گروپ کا حصہ نہیں ہوتے ہم اُنہیں بھی ایک گروپ کی طرح ہی خیال کرنے لگتے ہیں stereotypes بنا لیتے ہیں، اِس طرح ہم قوموں، قبیلوں، اور ذات پات کےتعصب، لطائف، تضحیک، اور تذلیل کے وہ نفرت آمیز رویے اپناتے ہیں جو نسل کشی اور بربریت تک پہنچ جاتے ہیں۔
ایسی صورتِ حال میں اُن کا کہنا ہے کہ Compassion ،ایک جذبہ ایثار و ہمدردی ہمیں ایک دوسرے پر اعتماد دلواتے ہوئے آپس کے خوف سے نجات دلوا سکتا ہے ، محبت اپنی خالص صورت میں ایک شعلہ ِ تاباں کی مانند روشن ہوتی ہے جس کی حدت سے نفرت کی دیواروں پگھل کر گرنے لگ جاتی ہیں ..
یہ فلسفیانہ خود نوشت ہمیں سماوی کتب کے اُن اقتباسات کو ایک مفسرانہ نظر (hermeneutical lens) سے دیکھنے کی دعوت بھی دیتی ہے جن میں خدا کی محبت کا اظہار برملا نہیں ہوا۔ اِسی ضمن میں قرآنِ کریم کے حوالے سے اُن کا یہ بھی کہنا ہے کہ کلامِ خدا، جنگ کے اُصول بھی وضع کرتا ہے،اور اُن اُصول و مبادی میں اولین یہی ہے کہ مسلمان کا ایک دوسرے مسلمان کی جان ، مال اور عزت آبرو کو محفوظ رکھنا لازم ہیں ..
میں سمجھتا ہوں کہ اِس انسانی جذبے کا ایک معقول اظہار کیلی جیمز کلارک کی یہ کتاب کرتی ہے ۔ اِس انفرادی سطح پر محبت کی آبیاری مجموعی سطح پر انسانی تہذیب کے لیے ایک مرہم ثابت ہوگی۔
مغرب میں یہ تعصب عام ہے کہ اسلام صرف تلوار کے ذریعے پھیلا ہے۔ لیکن پیغمبر اسلام کی تعلیمات اس سے مختلف ہیں۔ پیغمبر اسلام نے اپنے سے مختلف لوگوں کے ساتھ compassion سے رہنے کا درس دیا۔ بلکہ اُس عرب معاشرے میں یہودی عیسائی اور مسلمان اکٹھے رہتے تھے۔
مغربی سفید فال قومیت پرستوں کے لیے ایسی معلومات ایک نئی جہت متعارف کرواتی ہے،اِس کتاب میں اُنہوں نے امریکی پاپ کلچر سے کچھ گیتوں کا حوالہ براڈر آڈینس کے لیے دیا ہے۔
اس کتاب کو اگرایک نکتہ میں سمیٹا جائے تو اس کا پیغام یہ ہے کہ ہمیں اپنے سے مختلف لوگوں سے سیکھنے کی کوشش کرنی چاہیے اور آپس میں compassion کے ساتھ رہنا چاہیے!