کہانی

یہ کہانی  (ایسے کو تیسا)  نویں جماعت کے نصاب میں شامل ہے ۔ 


ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک سادہ لوح دیہاتی کسی ضروری کام سے شہر گیا۔ پورا دن مصروف گزرا۔ واپسی پر خیال آیا کہ بچوں کے لیے مٹھائی لیتا جائے۔ اس لیے وہ ایک حلوائی کی دکان پر پہنچا۔ وہ حلوائی فطرتاً بے ایمان تھا اور سادہ لوح گاہکوں  سے مال بٹورنے کے مختلف طریقے استعمال کرتا رہتا تھا۔ جیسے ہی وہ دیہاتی اس کی دکان میں داخل ہوا حلوائی اس کے حلیے ، چال ڈھال اور لباس سے بھانپ گیا کہ اس کوٹھگا جا سکتا ہے۔ بہر حال دیہاتی نے حلوائی سے مٹھائی کا بھاؤ پوچھا اور دوکلو مٹھائی تو لنے کے لیے کہا۔

حلوائی کی مکّاری اس پر غالب آئی اور اس نے پہلے تو دیہاتی کو اپنی چکنی چپڑی باتوں سے شیشے میں اتارنے کی کوشش کی اور پھر دکھاوے کے لیے جدید طرز کے ترازو پر مٹھائی کا وزن کرنے لگا۔ اس کا خیال تھا کہ دیہاتی اس کے تر از وکو سمجھنے میں ناکام رہے گا اور اس طرح اسے کم مٹھائی دے کر زیادہ پیسے وصول کر لے گا لیکن وہ اس کی چالا کی کو اچھی طرح سمجھ گیا اور حلوائی سے تول پورا کرنے کے لیے کہا۔

 حلوائی بضد تھا کہ اس نے تول پورا کیا ہے۔ جب حلوائی نے  دیکھا کہ دیہاتی کسی بھی طرح اس کی باتوں میں نہیں آرہا تو اس نے مٹھائی کا تھیلا اس کے ہاتھ میں تھماتے ہوئے کہا :  بھائی میں نے مٹھائی کا وزن پورا ہی کیا ہے اور اگر آپ کا خیال ہے کہ یہ کم ہے تو آپ کے لیے اچھا ہے کیوں کہ آپ کو دورانِ سفر زیادہ وزن اٹھانا نہیں پڑے گا۔”

 دیہاتی نے بھی ترازو پر کیے گئے وزن کے مطابق اسے پیسے دیے۔   حلوائی نے کم پیسوں کی شکایت کی تو اس نے برجستہ جواب دیا: ” بھائی ! میں نے پورے گن کر دیے ہیں۔ اگر کم ہیں تو کوئی بات نہیں آپ کو زیادہ گننے نہیں پڑیں گے۔ “

حلوائی حیران و پریشان اس کا منھ دیکھنے لگا جب کہ دیہاتی نے بڑے اطمینان سے اپناراستہ ناپا۔ کسی نے سچ ہی کہا ہے کہ ایسے کو ہمیشہ تیسا ہی ہے۔

 نتیجہ/اخلاقی سبق:

ایسے کو تیسا۔


دوسری کہانیاں پڑھیں:

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top