خواتین کے عالمی دن کے حوالے سے جبری مباشرت کے موضوع پر ایک آرٹِیکل
تحریر: حفیظ ببّر (لاڑکانہ)
کراچی کی ایک عدالت نے جب ” جاوید” نامی ایک شخص کو اپنی زوجہ "شہربانو” کے ساتھ جبری مباشرت کا جرم ثابت ہونے پر، تین سال قید کی سزا اور 30 ہزار روپیہ جرمانہ عائد کیا تو یہ پاکستان میں اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ بن گیا اور اس عدالتی فیصلے نے پوری دنیا میں کھلبلی مچادی۔ دنیا کے بہت سے علماء و مشائخ کے درمیاں بحث کاایک نیا موضوع کھُل گیا۔ لہذا یہ بات سوشل میڈیا کی بدولت اتنا پھیل گئی کہ ہر بندہ اس مسئلے کی جزئیات کو جاننا چاہ رہا ہے کہ آخر کن وجوہات کے پیش نظر یہ جرم صادر ہوا۔اور یہ سوال بذات خود بہت سے لوگوں کے لیے اچنبھے کی بات بن گیا ہے۔ بالخصوص ان لوگوں کے لیے لئے جنہوں نے “Marital rape” کی اصطلاح تک کو نہیں سُنا تھا۔ کیونکہ ہمارے ذہنوں میں یہ بات راسخ ہوتی ہے کہ میاں بیوی جو نکاح کے مقدس رشتے میں بندھے ہوئے ہوں وہ کیسے زنا بالجبر “Rape” کے مرتکب بن سکتے ہیں۔ آئیے سادہ اور مختصر الفاظ میں اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کریں۔
جبری مباشرت "Marital Rape ” کو سمجھنے کے لیے اس کو، دوحصوں میں تقسیم کیا جا رہا ہے۔ پہلا حصہ رضامندی یعنی “Consent” ہوتا ہے۔ جبکہ دوسرے حصے میں آداب یعنی “Etiquette” شامل ہوتا ہے۔
رضامندی “Consent”
رضامندی کسی بھی معاملے کی اساس ہوتی ہے۔ بغیر رضامندی کے کوئی بھی کام نہیں کیا جا سکتا۔ شادی کے بعد میاں بیوی کی ذاتی زندگی (Private Life) ان کی باہمی رضامندی سے ہی چلتی ہے۔ اگر دیکھا جائے تو شادی کا بنیادی مقصد نسل کو بڑھانے کے ساتھ ساتھ ،اپنی جنسی تسکین کو بھی پورا کرنا ہوتا ہے ۔ لیکن اپنی جنسی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے میاں بیوی کا آپس میں اطمینان بخش رابطہ ہونا لازم ہوتا ہے۔ بھوک و پیاس کی طرح، جنسی خواہش کا کوئی وقت مقرر نہیں ہوتا۔ جسمانی طاقت کو حاصل کرنے اور اپنی بھوک مٹانے کے لیے کھانا 24 گھنٹوںمیں دو سے تین مرتبہ کھایا جاتا ہے۔ لیکن جنسی خواہش کا کوئی وقت یا اس کو پورا کرنے کی کوئی مدت مقرر نہیں ہوتی۔ یہ ہر انسان کی انفرادی طبیعت اور بیرونی حالات پر منحصر ہوتا ہے۔ اس کے درمیاں سب سے پہلے حیاتیاتی پہلو (Biological Factor) حائل ہوتا ہے۔ ہر انسان کا اپنا اپنا ہارمون اور ٹیسٹوسٹیرون (Testosterone) لیول ہوتا ہے اور اس لیول کے اعتبار سے اس کی جنسی خواہشات میں کمی و زیادتی ہوتی رہتی ہے۔ یا پھر اگر کوئی ایک انسان جسمانی اعتبار سے صحت مند ہے تو اس کی جنسی خواہش اس انسان سے زیادہ ہوگی، جو بیماری کی زد میں ہے اور دوائیں، اس کےجنسی عمل میں متاثر کررہی ہیں۔ اسی طرح باہر کے کچھ ایسے عوامل بھی ہوتے ہیں، جو انسان کی جنسی زندگی (Sexual life) میں رکاوٹ ڈال سکتے ہیں۔ جیسے میاں بیوی کے باہمی تنازعات اور ان کا گھریلو معاملوں میں شدید اختلاف رائے ہونا یا میاں بیوی میں سے کوئی ایک یا دونوں جاب کرتے ہوں، جہاں ان کو سارا دن ذہنی تناؤ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہو، تو ایسے میں انسان کی جنسی خواہشات میں بے تحاشا کمی واقع ہو جاتی ہے۔ اس کے علاوہ ، بالخصوص خواتین کی بات کی جائے تو ان کا ماہواری (Menstrual cycle) جنسی خواہشات میں کمی و زیادتی کا سبب بن جاتی ہے۔ تو کبھی وہ حمل سے ہوجائیں تو، ان کی جنسی خواہش میں شدید بدلاؤ دیکھا گیا ہے۔ یا پھر جن خواتین کےساتھ ماضی میں کوئی ناپسندیدہ جنسی حادثہ ہوا ہو، تو ان کی جنسی خواہشات بدل پذیر ہو جاتی ہیں۔ کبھی وہ اس عمل کے لیے راضی ہو جاتی ہیں تو کبھی اس عمل سے کرنے سے ان کو گھبراہٹ (Depression) بھی ہو جاتی ہے۔
حاصل مطلب کہ جنسی عمل کوئی یک طرفہ (One-sided) عمل نہیں بلکہ اس عمل کو پورا کرنے کے لئے دونوں جانب سے راضی ہونا، ناگزیر ہوتا ہے۔ اگر کوئی فریق اس عمل کے لیے پوری طرح راضی نہیں تو اس کے موڈ و مزاج کو بدلنے کی کوشش کی جا سکتی ہے، لیکن صرف پیار ومحبت سے! اگر اپنی بے لگام جنسی خواہشات کو جبراً کسی پر مسلط کرنے کی کوشش کی جائے تو اس کے ہولناک نتائج مرتب ہو سکتے ہیں۔
آداب “Etiquette”
جس انسان کو جیسا ماحول یا پھر سامانِ مطالعہ جس کے اندر (Text material, Images or Videos) شامل ہوتا ہے، یا پھر جیسا اسے دوستوں کا حلقہ ملتا ہے ، وہ اس طرح سے اپنی سوچ کو بناتا ہے۔ اگر کسی انسان نے کوئی خاص قسم کی جنسیات کا مطالعہ کیا ہے یا پھر اس نے اس موضوع پر بنے منفرد وڈیوز دیکھے ہیں تو ،یہ چیزیں اس کی سوچ پر گہرا اثر ڈال سکتی ہیں۔ تو شادی کے بعد دو الگ سوچ کے حامل انسان، ایک ساتھ گذارتے ہیں تو، ان دونوں کا اپنا ایک الگ جنسی نقطہ نظر ہوتا ہے۔ جس کی بنیاد پر وہ جنسی عمل کو پورا کرنے کی کوشش کریں گے تو ان کا یہ متنوع مزاج (Diverse Mood) ان کے لیے باعثِ لذت بن سکتا ہے تو، ان میں سے کوئی ایک یا پھر دونوں انسان ڈپریشن کا شکار بھی ہو سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر، شوہر نے شادی سے پہلے جو خیالی (Fantasy) ایک ایسی سوچ رکھی ہو ، جو جنسی آداب (Sexual Etiquette) کے زمرے میں نہیں آتی۔ لیکن پھر بھی وہ اس کو اپنی بیوی کے ساتھ عمل میں لے آنا چاہتا ہے ، جو بیوی کو ناپسند ہو یا پھر اس چیز سے وہ سخت نفرت کرتی ہو ،تو یہاں سے جنسی تضاد پیدا ہوتا ہے۔ اور اگر کوئی مرد یہ عمل بار بار دہراتا ہے تو ،اس سے عورت کے ذہن پر منفی اثرات ہو سکتے ہیں یا پھر وہ اپنا ذہنی توازن کھو سکتی ہے۔ اور بہت سے کیسز میں ایسا بھی ہوا ہے کہ ایسے مسلسل عمل سےعورت کو جنسی عمل سے ہمیشہ کے لیے بیزاری ہو جاتی ہے۔ اور یہ ہی وہ کام ہے جس نے اس عورت کو نفسیاتی ایذاء پہنچایا، جس نے مجبور ہوکے عدالت سے رجوع کیا کہ اس کا شوہر اپنی Fantasy کے نشہ میں گُم ہوکر ، کافی عرصہ سے کچھ ایسا جنسی عمل کر رہا ہے، جو اس کو سخت ناپسند ہے اور جس کے نتیجے میں وہ ذہنی و جسمانی کوفت سے گذر رہی ہے اور جب طبی معائنہ کرنے کے بعد اس عورت کا الزام درست ثابت ہوا تو عدالت نے شوہر کو مجرم ٹھہرا کر، اس کو تین سال قید اور 30 ہزار جرمانے کی سزا سنا دی ۔
اب یہ قارئین کے نقطہ نگاہ پر چھوڑا جا رہا ہے کہ وہ جبری مباشرت کی اس مختصر و جامع تفصیل کے بعد، اپنے ذہن کو کس طرح ٹٹولتے ہیں ۔ خواہ وہ مرد ہو یا عورت، اپنے پارٹنر کا ہر طرح سے خیال رکھنا ، اس کا اولین فرض ہے۔ قربت کے لمحات کو شروع کرنے سے پہلے اپنے پارٹنر کی جسمانی و ذہنی سطح کو ملحوظِ نظر رکھیں۔ اگر کوئی پیچیدگی یا مشکل درپیش ہو تو خوبصورتی کے ساتھ اس کو حل کریں۔ اگر پھر بھی آپ کے پارٹنر کا من نہیں بن پا رہا ، توآپ کو چاہیے کہ اپنے جذبات کو کنٹرول کریں۔ اور آدابِ مباشرت کا بھی لحاظ رکھیں، جو چیز آپ کے پارٹنر کو ناپسند ہے، اس سے کنارہ کر لیں، اس میں ہی رشتوں کی خوبصورتی پوشیدہ ہوتی ہے۔ کیوں کہ آپ کا یہ عمل آپ کے کردار کی عکاسی کرتا ہے۔ اپنے کردار کو ہمیشہ مثبت رکھیں گے تو آپ کا رشتہ ٹھیک سے بنا رہے گا۔ آخر میں یہ گذارش ہے کہ یہ سب جاننے کے بعد ایک بار اپنی شادی شدہ زندگی پر تھوڑی سی سرسری نظر ڈالیں۔ تاکہ آپ سے کہیں کوئی ایسی غلطی نہ سرزد ہو جائے، جس کے زیر اثر سامنے والا انسان اپنی زندگی انجوائے کرنے کے بجائے ،الٹا ڈپریشن کا مریض بنتا جا رہا ہو۔ لہذا! اپنی سوچ کو بدلیں، اور اپنے جیون ساتھی کی سوچ و منشا کا بھی احترام کریں تاکہ دونوں کو ابدی سکون مل سکے۔
بہت ہی عمدہ تحریر، واقعہ کو بیان کرتے وقت بہت ہی اچھا انداز اپنایا گیا ہے