کشمیر بنے گا پاکستان: حقیقت یا نعرہ؟

کشمیر بنے گا پاکستان

کشمیر ایک ایسا خطہ ہے جو گزشتہ کئی دہائیوں سے تنازع کا شکار ہے۔ برصغیر کی تقسیم کے بعد سے، پاکستان اور بھارت کے درمیان اس مسئلے نے نہ صرف دو جنگوں کو جنم دیا بلکہ خطے میں مسلسل کشیدگی کا باعث بھی بنا ہوا ہے۔ پاکستان میں “کشمیر بنے گا پاکستان” کا نعرہ عوامی سطح پر بے حد مقبول ہے، مگر کیا واقعی ایسا ممکن ہے؟ اس مضمون میں ہم اس دعوے کا تجزیہ کریں گے، پاکستان کے سرکاری موقف پر روشنی ڈالیں گے، مقبوضہ کشمیر میں موجود مختلف سیاسی جماعتوں کے نظریات کا جائزہ لیں گے، پاکستان کے عملی اقدامات پر غور کریں گے، اور اس تنازع کے نتیجے میں ہونے والے جانی نقصانات اور آبادی کے اعداد و شمار کا جائزہ لیں گے۔

تاریخی پس منظر

1947

میں برصغیر کی تقسیم کے وقت ریاست جموں و کشمیر ایک خودمختار ریاست تھی، جس کے مہاراجہ ہری سنگھ نے ابتدا میں خودمختار رہنے کی کوشش کی۔ مگر جب کشمیری عوام کی ایک بڑی تعداد نے پاکستان کے ساتھ الحاق کی خواہش ظاہر کی اور قبائلی لشکر کشمیر میں داخل ہوئے، تو مہاراجہ نے بھارت سے مدد طلب کی اور بدلے میں بھارت کے ساتھ الحاق کا معاہدہ کر لیا۔ یہی وہ بنیادی نقطہ تھا جس نے پاکستان اور بھارت کے درمیان پہلے تنازع کو جنم دیا۔

پاکستان کا موقف

پاکستان نے ابتدا سے ہی یہ مؤقف اختیار کیا ہے کہ کشمیر ایک مسلم اکثریتی علاقہ ہے اور اسے پاکستان کا حصہ بننا چاہیے تھا۔ اس موقف کی بنیاد درج ذیل نکات پر ہے:

دو قومی نظریہ: برصغیر کی تقسیم کا اصول یہی تھا کہ مسلم اکثریتی علاقے پاکستان میں شامل ہوں گے، اور کشمیر ایک مسلم اکثریتی خطہ ہے۔
کشمیری عوام کی خواہش: پاکستان کا موقف ہے کہ کشمیری عوام کی اکثریت بھارت سے آزادی اور پاکستان کے ساتھ الحاق چاہتی ہے، جیسا کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں میں بھی ذکر کیا گیا ہے۔
ریاستی جبر: پاکستان بھارت پر یہ الزام لگاتا ہے کہ اس نے کشمیری عوام پر ظلم و ستم روا رکھا ہے اور انہیں ان کے بنیادی حقوق سے محروم کر رکھا ہے۔
کشمیر میں مختلف سیاسی جماعتوں کے نظریات
مقبوضہ کشمیر میں سیاسی جماعتوں کے دو بڑے نظریاتی دھڑے موجود ہیں:

1. پاکستان کے ساتھ الحاق کی حامی جماعتیں
یہ جماعتیں مقبوضہ کشمیر کو بھارت سے آزاد کروا کر پاکستان میں شامل کرنے کی حمایت کرتی ہیں:

جموں و کشمیر مسلم کانفرنس: یہ جماعت 1932 میں شیخ عبداللہ اور چوہدری غلام عباس نے قائم کی تھی، مگر بعد میں اس کے دھڑوں میں تقسیم کے بعد چوہدری غلام عباس کے حامیوں نے پاکستان کے ساتھ الحاق کی حمایت جاری رکھی۔
تحریک حریت جموں و کشمیر: یہ سید علی گیلانی کی قیادت میں قائم کی گئی تھی اور بھارت کے خلاف شدید مؤقف رکھتی ہے۔
لبریشن فرنٹ کے کچھ دھڑے: اگرچہ جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ (JKLF) کا ایک بڑا حصہ آزاد کشمیر کی حمایت کرتا ہے، مگر اس کے بعض دھڑے پاکستان کے ساتھ الحاق کی حمایت بھی کرتے ہیں۔
حزب المجاہدین: یہ عسکری گروپ بھی کشمیر کی آزادی کے بعد پاکستان کے ساتھ الحاق کا حامی ہے۔
2. آزاد کشمیر کی حامی جماعتیں
یہ جماعتیں پاکستان یا بھارت کے ساتھ الحاق کے بجائے ایک آزاد کشمیر کا مطالبہ کرتی ہیں:

جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ (JKLF):

یہ جماعت کشمیری خودمختاری کی حامی ہے اور پاکستان اور بھارت دونوں سے الگ ایک آزاد ریاست کے قیام کی بات کرتی ہے۔
جموں و کشمیر نیشنل کانفرنس: یہ پارٹی پہلے بھارت کے ساتھ الحاق کی حامی تھی، مگر وقت کے ساتھ اس کے کچھ دھڑے خودمختاری کی حمایت کرنے لگے۔
پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (PDP):

یہ جماعت مکمل آزادی کی بجائے کشمیر کو خودمختاری دینے کے حق میں زیادہ بات کرتی ہے۔
کیا کشمیر واقعی پاکستان کا حصہ بن سکتا ہے؟
یہ ایک اہم سوال ہے جس کے کئی پہلو ہیں:

1. قانونی اور بین الاقوامی نقطۂ نظر
اقوام متحدہ نے 1948 میں ایک قرارداد پاس کی تھی جس کے مطابق کشمیری عوام کو استصوابِ رائے (ریفرنڈم) کے ذریعے اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق دیا جانا چاہیے، مگر یہ ریفرنڈم آج تک منعقد نہیں ہو سکا۔

2. بھارت کی پوزیشن
بھارت نے 2019 میں آرٹیکل 370 کو ختم کر کے کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کر دیا اور اسے باقاعدہ طور پر بھارت کا حصہ بنا دیا۔ اس اقدام نے کشیدگی کو مزید بڑھا دیا اور کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کے امکانات مزید پیچیدہ بنا دیے۔

3. عسکری و سفارتی حقیقتیں
بھارت ایک بڑی عسکری اور اقتصادی قوت ہے اور اس کے مقابلے میں پاکستان کے لیے کشمیر کو طاقت کے ذریعے حاصل کرنا انتہائی مشکل ہے۔ عالمی سطح پر بھی کوئی بڑی طاقت بھارت کے خلاف جا کر پاکستان کے حق میں فیصلہ کرنے کو تیار نہیں۔

پاکستان کے اقدامات برائے حلِ کشمیر
پاکستان نے ہمیشہ مسئلہ کشمیر کو سفارتی اور سیاسی سطح پر اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔ کچھ اہم اقدامات درج ذیل ہیں:

سفارتی محاذ پر کوششیں: پاکستان نے اقوام متحدہ، او آئی سی اور دیگر بین الاقوامی فورمز پر کشمیر کے مسئلے کو اجاگر کرنے کے لیے کئی بار آواز بلند کی۔
یومِ یکجہتی کشمیر: 1990 سے پاکستان ہر سال 5 فروری کو یومِ یکجہتی کشمیر مناتا ہے تاکہ عالمی برادری کو مسئلے کی سنگینی سے آگاہ کیا جا سکے۔
اقوامِ متحدہ میں قراردادیں: پاکستان کئی بار اقوامِ متحدہ میں کشمیر کے حوالے سے قراردادیں جمع کروا چکا ہے۔
بین الاقوامی حمایت: پاکستان نے ترکی، ملائیشیا، چین اور دیگر مسلم ممالک سے مسئلہ کشمیر پر حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔
میڈیا کمپینز: پاکستان نے بین الاقوامی میڈیا پر بھارتی ظلم و ستم کو اجاگر کرنے کے لیے مختلف میڈیا کمپینز چلائی ہیں۔
جانی نقصانات اور آبادی کے اعداد و شمار
شہداء کی تعداد
1947 سے اب تک 250,000 سے زائد کشمیری شہید ہو چکے ہیں۔ (اردو دنیا نیوز)
1989 سے اب تک 96,000 سے زائد کشمیری شہید ہو چکے ہیں۔
دیگر ذرائع کے مطابق، 1947 سے اب تک مجموعی طور پر 500,000 سے زائد کشمیری شہید کیے جا چکے ہیں۔ (مشرق ٹی وی)
آبادی کے اعداد و شمار
آزاد کشمیر: تقریباً 40 لاکھ (4 ملین)
مقبوضہ کشمیر: تقریباً 1 کروڑ 25 لاکھ (12.5 ملین)
نتیجہ
“کشمیر بنے گا پاکستان” کا نعرہ جذباتی طور پر پاکستانی عوام کے لیے بہت اہم ہے، مگر عملی طور پر یہ ایک مشکل اور پیچیدہ مسئلہ ہے۔ پاکستان کی کوششیں اور کشمیری عوام کی جدوجہد اس نعرے کو حقیقت میں بدل سکتی ہیں، مگر اس کے لیے سفارتی، سیاسی اور عوامی سطح پر مزید مضبوط اقدامات کی ضرورت ہے۔

گزشتہ چند سالوں میں پاکستان نے مسئلہ کشمیر پر اپنی سفارتی اور سیاسی کوششوں میں کمی کر دی ہے، جس کی کئی وجوہات ہیں۔ ایک بڑی وجہ پاکستان کی داخلی معاشی مشکلات ہیں، جنہوں نے حکومت کو اندرونی مسائل پر زیادہ توجہ دینے پر مجبور کر دیا ہے۔ دوسری طرف، بھارت ایک بڑی معاشی قوت بن چکا ہے، جس نے عالمی سطح پر اپنا اثر و رسوخ بڑھا لیا ہے۔ بھارت کے ساتھ تجارتی تعلقات رکھنے والے کئی ممالک اب کشمیر کے مسئلے پر پاکستان کے موقف کی کھل کر حمایت سے گریز کرتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں، پاکستان کو اپنی معیشت مستحکم کرنی ہوگی، بین الاقوامی سطح پر اپنی سفارتی پوزیشن مضبوط کرنی ہوگی، اور عالمی برادری میں ایسا مقام حاصل کرنا ہوگا کہ وہ بھارت پر دباؤ ڈال سکے۔ جب تک پاکستان خود ایک بڑی معاشی اور عسکری طاقت نہیں بنتا، تب تک کشمیر کے مسئلے کو عملی طور پر حل کرنا مشکل نظر آتا ہے۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top