اردو ڈرامے کے فنی عناصر اور اجزائے ترکیبی
ڈرامے کے فنی عناصر/اجزا:
قدیم ہندوستانی ڈراما خارجی طور پر پانچ اجزا کی آمیزش مانا جاتا ہے۔
اہاریہ(پوشاکین اور میک اپ)
بھارت(آواز اور مکالمے)
انگت(اعضائے جسم کی اداکاری)
نرت(رقص، سنگیت )
موسیقی
بقول ارسطو ڈرامے کے فنّی عناصر چھ ہیں:
پلاٹ
کردار
مکالمہ
زبان
موسیقی
آرائش
عشرت رحمانی کے نزدیک ڈرامے کے اجزائے ترکیبی مندرجہ ذیل ہیں:
پلاٹ(موضوع یا کہانی کا مواد یا نفسِ مضمون)
کہانی کا مرکزی خیال یا تھیم
آغاز
کردار و سیرت نگاری
مکالمہ
تسلسل، کشمکش اور تذبذب
تصادم conflict
نقطہ عروج Climax
انجام
پلاٹ
کسی بھی ڈرامے میں واقعات کی منطقی ترتیب، جس میں ربط اور ہم آہنگی ہو اسے پلاٹ کہتے ہیں۔ اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر کہانی اور پلاٹ میں کیا فرق ہوا۔ اس کی سادہ سی مثال ای یم فاسٹر نے اپنی کتاب
Aspects of the Novel میں کچھ یوں دی ہے:
Let us define a plot. We have defined a story as a narrative of events arranged in their time-sequence. A plot is also a narrative of events, the emphasis falling on causality. ”The king died and then the queen died,” is a story. ”The king died, and then the queen died of grief” is a plot. The time-sequence is preserved, but the sense of causality overshadows it.(13)
”بادشاہ مر گیا اور رانی مر گئی“یہ ایک کہانی ہے ۔ اسی کہانی کو اس طرح کہنا کہ” بادشاہ مر گیا اور اس کے غم میں رانی بھی مر گئی“یہ پلاٹ ہے۔
کہانی فقط واقعات کی ترتیب ہے جبکہ پلاٹ میں اسبابِ عمل پر زور دیا جاتا ہے۔
بقول امتیاز علی تاج :
”پلاٹ تین طرح کے ہوتے ہیں سادہ،مخلوط اورمرکب ملاحظہ ہو:سادہ پلاٹ کے ڈراموں میں واقعات کسی قابل قبول نقطۂ آغاز سے بڑھ کر براہ راست کسی ایسے انجام کو پہنچتے ہیں۔جس کوبوجھ لینا مشکل نہیں ہوتا۔۔۔سادہ پلاٹ کے بہترین ڈرامے عموماً وہ ہوتے ہیں جن میں ایک اٹل انجام کی طرف بے دریغ بڑھنے کا احساس پیدا ہو۔۔۔مخلوط پلاٹ میں ڈراما ہمواری کی طرح مڑتا ہے کہ نتیجہ توقع کے خلاف نکل آتاہے۔۔۔ڈرامے کے واقعات جب دو یا دو سے زیادہ جدا جدا سلسلوں میں آزادانہ چلیں اور بالآخر ان کے سنجوک سے تشفی بخش طور پر ایک شے تکمیل پائے تو ایسے پلاٹ کو مرکب پلاٹ کہا جاتا ہے‘‘۔(14)
ارسطو نے جب اپنی کتاب”بوطیقا“میں المیہ کا بیان کیا تو ا س میں چھ اجزا کا لازم قرار دیا جس میں پلاٹ سرفہرست ہے۔ ارسطو پلاٹ کی اہمیت کو واضح کرتا ہے:
” واقعات کی ترتیب یا پلاٹ ان اجزا میں اہم ترین ہے کیوں کہ المیہ انسانوں کی نہیں، بلکہ کسی عمل اور زندگی کی تصویر کشی کرتا ہے اور زندگی عبارت ہے عمل سے ۔ اس کا اختتام بھی ایک طرح کا عمل ہی ہے۔۔۔ پلاٹ کے بغیر المیہ قائم نہیں رہ سکتا مگر کردار کے بغیر قائم ہو سکتا ہے۔ (15)“
ارسطو نے یہ بات صراحت سے بیان کر دی کہ المیہ زندگی کا ماحصل ہے اور پلاٹ المیے کی جان ہے۔ آگے جا کر پلاٹ کی وحدت کے بارے میں کہتا ہے:
” ہومر نے اوڈیسی کو نظم کرتے وقت تمام کارناموں اور واقعات کو نہیں لیا ۔۔۔ایسے واقعات جن کے درمیان کوئی ضروری یا قریں قیاس ربط نہ تھا ، اس نے نظر انداز کر دیے ہیں، بلکہ اس نے اوڈیسی اور اسی طرح الیڈ کو ایسے مرکزی واقعے کے گرد تعمیر کیا جسے ہمارے معنوں میں واحد کہا جاسکتا ہے۔ ۔۔۔اسی طرح پلاٹ، جو کسی عمل کو پیش کرتا ہے، اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ کسی واحد و سالم عمل کو پیش کرے اور اس عمل کے مختلف حصص میں اس طرح کا تعمیری ربط ہونا چاہیے کہ اگر کسی ایک کی جگہ بدل دی جائے یا اسے حذف کر دیا جائے تو سارے کا سارا درہم برہم ہو جائے۔ (16)“
اکثر نقاد پلاٹ کو چھ مزید مرحلوں میں تقسیم کرتے ہیں۔
آغاز یا تمہید
ابتدائی واقعہ
عروج کی شروعات
عروج یا منتہا
تنزل
انجام
مرکزی خیال:
پلاٹ کا اصل جزو مرکزی خیال ہے۔ مرکزی خیال کہانی کہ وحدت تاثر دیتا ہے، مرکزی خیال جتنا واضح اور عام فہم ہو گا اتنی ہی کہانی جاندار ہو گی۔ بقول عشرت
” پلاٹ کو عطر تسلیم کریں تو مرکزی خیال رُوحِ عطر ہے۔(17)“
ڈراما نگار علی اکبر عباس کہتے ہیں:
” ڈرامے کا مرکزی خیال تخلیقی سطح پر ہونا چاہیے(18)“
آغاز:
آغاز ایسا جاذبِ نظر اور تماشائیوں ، ناظرین کو اپنی طرف متوجہ کرنے والا ہونا چاہیے کہ اُن میں تجسس پیدا ہو۔ اگر کوئی ڈراما بہت ہی سست روی یا غیر دلچسپ انداز سے شروع ہو گا تو دیکھنے والا کی توجہ حاصل کرنا مشکل ہو گا۔ اس کے علاوہ آغاز ایسا ہو کہ ڈراما میں آنے والے واقعات اس سے جڑے ہوئے ہوں۔
پروفیسر سید شفیق لکھتے ہیں:
” آغاز کا مقصد آئندہ آنے والے افعال و اعمال کے متعلق مناسب اشارات کرنا، مواد کے متعلق ضروری واقفیت پیدا کرنا، کرداروں کا تعارف کرانا تا کہ آنے والے واقعات کا سمجھنا آسان اور سہل ہوجائے کوئی الجھن اور دشواری نہ رہے۔“(19)
کردار و سیرت نگاری:
ڈرامے میں پلاٹ کی اہمیت دماغ کی سی ہے اور کردار اس کے دست و بازو ہیں جن سے پلاٹ کی منشا کی تکمیل ہوتی ہے۔ ڈرامے کی جان پلاٹ ہے اور پلاٹ کی جان اس ڈرامے کے کردار۔
ڈرامے کے کردار اپنی تعلیم، ماحول، تہذیب، نفسیاتی سطح اور معاشی و معاشرتی پہلوؤں سے جڑے ہوئے ہونے چاہئیں۔ ان کی ساخت حقیقت سے قریب ہو اور ڈرامے کے پلاٹ کی مناسبت سے اُن کی تفصیلات بُنی گئی ہوں۔
سب سے اہم پہلو کرداروں کی زبان ہے۔ اُن کی زبان ایسی ہو جو اُن کے ماحول اور مرتبے کی عکاسی کرے۔ اس حوالے سے عشرت لکھتے ہیں:
” کردار نگاری میں موقعہ محل کی موزونیت کے ساتھ سب سے پہلے اس کا لحاظ رکھنا ضروری ہے کہ ہر شخصیت اپنے مرتبہ اور ماحول کے مطابق گفتگو کرے۔ یہ اسی حالت میں ممکن ہے جب تمام کرداروں کی زبان اور بیان کا اسلوب حقیقت کے رنگ میں ڈوبا ہوا ہو۔ مثلاً ایک بادشاہ یا حاکم کی سیرت و شخصیت کی کامیابی کارازیہی ہے اس کا انداز ِ بیان پُر شکوہ اور با وقار ہو۔(20) “
ڈرامے میں رنگ اس کے کردار بھرتے ہیں۔ ڈراما کرداروں کی کہانی ہوتا ہے۔ کردار جتنے مضبوط اور بھرپور ہوں گے ڈراما اُتنا ہی کامیاب تصور ہو گا۔ اس بارے میں سید وقار عظیم لکھتے ہیں:
” ہم ڈرامے کی عظمت کا اندازا واقعات کی دل کشی اور اُن کے انوکھے پَن سے نہیں بلکہ کرداروں کی عظمت و شکوہ یا اُن کی ناقابلِ فراموش انفرادیت سے لگاتے ہیں۔ کوئی اچھا ڈراما دیکھ چکنے کے بعد دیکھنے والوں کے ذہن پر واقعات کی شدت، اہمیت یا دلچسپی کا نہیں بلکہ ایک یا ایک سے زیادہ کرداروں کی انفرادی شخصیت کا نقش قائم ہوتا ہے۔ “ (21)
مکالمہ:
ڈرامےمیں مکالمہ اتنا ہی ضروری ہے جتنی زندگی میں گفتگو۔ البتہ طویل اور غیر موزوں مکالمے ڈرامے میں اکتاہٹ کاسبب بنتے ہیں۔جبکہ پُر کشش اور موقعہ محل کے مطابق مکالمے ڈرامے کی جان ہوتے ہیں۔ مکالمہ کرداروں کے خیالات و جذبات کا آئینہ ہوتے ہیں اور آئینہ جتنا شفاف ہو گا تصویر اُتنی ہی واضح نظر آئے گی۔ عشرت مکالمے کے حسنِ کلام اور عیوب کے بارے میں لکھتے ہیں:
” موزوں و مناسب اور سلیس و فصیح زبان، سادہ اور مختصر گفتگو جس میں عمل کی حرکت موجود ہو۔ ۔۔بر محل، برجستہ اور چست جملے۔۔۔جبکہ یہ باتیں معیوب ہیں: مشکل زبان، الجھے ہوئے فقرے اور ژولیدہ بیان۔ بے موقعہ بے ربط اسلوب جو کردار اور ماحول کے لیے موزوں نہ ہو۔ طویل تقریریں۔۔۔طویل خود کلامی۔۔۔۔“ (22)
ڈرامے چونکہ عمل کی چیز ہے اس لیے سب سے اہم حرکات و سکنات ہیں اور مکالمہ اُن حرکات کو معنی دیتا ہے۔ جہاں حرکات و سکنات سے بات پہنچ سکتی ہو وہاں مکالمہ غیر ضروری ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ڈراما اسٹیج ہوتا تھا تو تماشائی ڈراما دیکھنے آتے تھے سُننا ثانوی تفریح تھی۔
ڈرامائی مکالموں کے بارے میں صفدر آہ نے بڑی دلچسپ بات کہی ہے:
”ڈراما پہلے نظری آرٹ ہے پھر سمعی۔ مکالمے صرف اتنے ہونے چاہئیں جتنے ایکشن کی وضاحت کے لیے ضروری ہیں۔ ڈرامے میں بڑے بڑے مکالموں کی بہتات اس کا ثبوت ہے کہ ڈراما نگار خود اپنے ڈرامے کے ایکشن کونہیں پکڑ سکا ہے اور وہ اپنی کمزوری کو لفاظی اور ادب کے پردے میں چھپانا چاہتا ہے۔ ادب ڈرامے کا زیور ہے اصل نہیں۔(23)“
کسی بھی کام کی طرح ڈرامے میں بھی وقت کی پابندی بہت اہم ہے۔ اس لیے اکانومی آف ورڈز ضروری ہے۔ جہاں ایک جملے کی ضرورت ہے وہاں دو استعمال کرنا اس فن کے ساتھ نا انصافی ہے۔ اسی طرح جس کردار کی جو زبان اور لہجہ ہے اس سے اسی زبان میں بات کروانی چاہیے۔
مکالمے کی بحث کو سمیٹنے ہوئے محمد حسن لکھتے ہیں:
” مکالمے تین صورتوں سے خالی نہیں ہوتے اور اگر وہ ان تینوں میں سے کوئی شرط بھی پوری نہ کرتے ہوں تو ڈرامے میں ان کی گنجائش نہیں۔ یا تو مکالمہ کہانی کو آگے بڑھاتا ہو۔ یا کردار کے کسی پہلو کو واضح اور اس میں تبدیلی یا ارتقا ظاہر کرتا ہو یا فضا پیدا کرنے میں معاون ثابت ہوتا ہو۔ یہ معیار ہر مکالمے کے ہر ٹکڑے کے لیے برتا جا سکتا ہے۔ “ (24)
مکالمے لکھتے ہوئے ڈراما نگار کو یہ خیال رکھنا چاہیے کہ وہ مکالمہ لکھ نہیں رہا بلکہ بول رہا ہے۔ کیونکہ مکالمے کی ادائیگی کے تین بنیادی عناصر ہیں:لہجہ، آہنگ اور سُر)والیم(۔
اور اس کے علاوہ سب سے اہم عنصر مکالمے کے درمیان خاموشیوں کا وقفہ ہوتا ہے۔
ارسطو کے نزدیک چوتھا فنی عنصر زبان ہے۔
مکالمہ گفتگو کا نام ہے اور گفتگو کسی نہ کسی زبان میں ہو گی۔ اس لیے زبان کا مسئلہ بہت اہم ہے۔ کچھ نقادوں کے نزدیک زبان عام فہم یا عوامی ہونی چاہیے جو حقیقیت سے قریب تر ہو اور کچھ کا ماننا ہے کہ ڈراما چونکہ فنونِ لطیفہ میں سے ہے اس لیے ضروری نہیں کہ ہر شے حقیقت ہو، تخیل کی اپنی دنیا ہوتی ہے۔ پہلے ادوار میں ڈراما منظوم ہوتا تھا اب نثر کی مرہونِ منت ہے۔ شاعری کی زبان اور نثر کی زبان میں بھی فرق ہوتا ہے۔
ارسٹو فیز کے ڈرامے مینڈک میں اسکائی لس اور یورپیڈیز کا ایک فرضی مکالمہ پیش کیا گیا ہے اس مکالمے میں یورپیڈیز کہتا ہے۔
”میں اسٹیج پر وہ چیزیں پیش کرتا ہوں جو میں نے روزمرہ کی زندگی سے چنی ہیں اور ہمیں کم از کم عام انسانوں کی زبان تو بولنے دو۔ (25)“
تسلسل، کشمکش اور تذبذب
زندگی ہو یا ڈراما تسلسل ضروری ہے۔ ہماری زندگیاں واقعات کا بہاؤ ہیں۔ بہاؤ، روانی، تسلسل ڈرامے کا جزو لازم ہے۔ ڈرامے کا ہر سین دوسرے سے جڑا ہوا ہونا چاہیے۔ کہیں بھی کوئی کڑی حذف نہ ہو۔
اسی طرح کہانی میں ایک کشمکش ہونی چاہیے۔ سپاٹ کہانی تماشائیوں کے دھیان کو بانٹ دیتی ہے۔ اک حیرت کا تجسس کا عنصر کہانی میں گوندھا ہو تو ڈراما ، ڈراما کہلاتا ہے۔
تصادمConflict
دو متضاد رویوں کے درمیان ٹھن جانا تصادم کہلاتا ہے۔ تصادم ڈرامے کی روح ہے۔ یہ بہت سطحوں پر وقوع پذیر ہو سکتا ہے۔ کرداروں کا تصادم ، واقعات کا تصادم۔۔۔اک کشاکش کا عالم ہی ڈرامے کی کہانی کو آگے بڑھاتا ہے۔ اس حوالے سے عشرت لکھتے ہیں:
” عموماً یہ تصادم دو طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک داخلی، دوسرا خارجی۔۔۔داخلی تصادم انسان کے اپنے جذبات و خیالات اور شعور و تحت الشعور کے درمیان واقع ہوتا ہے۔ ۔۔ قدیم یونانی ڈراما نگاروں نے خارجی تصادم کو زیادہ اہمیت دی۔ ۔۔دو کرداروں یادماغوں اور یا کسی کردار کا نامعلوم طاقت سے مصروفِ کشمکش ہو جانا اور متضاد ٹکر لینا خارجی تصادم ہے۔ “ (26)
تصادم کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے سید وقار عظیم نے چند بڑے ڈراما نگاروں کو نقل کیا ہے۔
” والٹیر نے اپنے خط میں لکھا ہے کہ ڈرامے کے منظر کو کسی کشمکش یا تصادم کا مظہر ہونا چاہیے۔ SCHLAGEL نے المیہ کی تعریف کرتے ہوئے لکھا ہے کہ انسان کی اخلاقی آزادی المیہ کا موضوع ہے اور اخلاقی آزادی کی قوت صرف اُس وقت ابھرتی ہے یا نمایاں ہوتی ہے جب وہ SENSUOUS IMPULSES سے متصادم اور بر سرِ پیکار ہو۔ بریڈلے کہتا ہے کہ المیہ میں کسی نہ کسی قسم کی کشمکش یا تصادم کا موجود ہونا ضروری ہے۔ جذبات کا تصادم، افکار ، خواہشات ، مقاصد کا تصادم ایک دوسرے کے ساتھ، حالات اور ماحول کے ساتھ اور خود اپنی ذات کے ساتھ۔“(27)
نقطہ عروج یا کلائمکس
Climax
کسی بھی ڈراما نگار کے لیے نہایت اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ کیونکہ ڈراما بہت سے زیروبم سے گزر کر اپنے آخری مراحل میں داخل ہوتا ہے۔ پلاٹ کو مدنظر رکھتے ہوئے واقعات کے تسلسل کو برقرار رکھنا اور غیر ضروری تفصیلات کا دخل مضر ہوتا ہے۔ اس میں زیادہ سے زیادہ کشش اور جاذبیت ہو۔ نقطہ عروج کہانی میں ایسا مقام ہے جہاں ناظرین کی بے تابی بڑھے، انھیں حیرت میں مبتلا کرے کہ آگے کہانی کیا موڑ لینے والی ہے۔
ڈرامے کا کلائمکس کہانی کا سب سے شدید اور اہم لمحہ ہوتا ہے، جہاں مرکزی تنازع اپنے عروج پر پہنچ جاتا ہے۔ یہ وہ مقام ہوتا ہے جہاں سے کہانی کی گھتیاں سلجھنا شروع ہوتی ہیں۔یہاں جذباتی لمحات آتے ہیں، مشکل فیصلے لیے جاتے ہیں اور ناظرین پہ نئی حقیقتوں کا انکشاف ہوتا ہے۔ یہ لمحہ ڈرامائی طور پر کرداروں کے حالات کو بدل دیتا ہے اور کہانی کے اختتام کا راستہ ہموارکرتا ہے۔
انجام
پلاٹ کو انجام تک پکڑے رہنا ڈراما نگار کے فن کی مہارت کا ثبوت ہے۔ آغاز و انجام کا آپس میں ربط ہونا اور مرکزی خیال سے جڑے رہنا انجام کی کامیابی ہے۔
جیسے کہ اوپر ذکر ہو چکا ہے کہ ارسطو کے نزدیک پانچواں عنصر موسیقی ہے اور چھٹا آرائش۔
آرائش کا تعلق ڈراما نگار سے کم اور کاریگروں سے زیادہ ہے اس لیے ارسطو اس کو زیادہ اہمیت نہیں دیتا جبکہ موسیقی کو پسند کرتا ہے۔ ہندوستانی ڈرامے میں بھی رقص و موسیقی ڈرامےکے لا زمی جزو رہے ہیں۔
-
سابقے اور لاحقے کی مثالیں|sabqay lahqay
-
(492) الفاظ متضاد | ALFAZ MUTAZAD
-
47 اردو محاورات، معنی اور جملے | muhavare in urdu
-
272 مذکر مونث |muzakar monas in urdu
-
50 اردو محاورات، معنی اور جملے | muhavare in urdu
-
100+ | الفاظ مترادف | alfaz mutradif in urdu
-
اردو حروف تہجی (Urdu Alphabets)
-
غلط فقرات کی درستی
-
واحد جمع (254) | wahid jama in urdu list
-
(42) اردو محاورات، معنی اور جملے | Muhavare in urdu