کہانی

یہ کہانی  (عقل مند بیوی)  نویں جماعت کے نصاب میں شامل ہے ۔ 



دو پہر اور چلچلاتی دھوپ ، گرمی شباب پر تھی۔ ایک بزاز ( کمال )اپنی دکان پر کپڑا بیچنے میں مصروف تھا۔  ایک بڑھیا لاٹھی کے سہارے چلتی ہوئی آئی اور   بزاز کی دکان پر بیٹھ گئی ۔ دکاندار نے ہانپتی ہوئی بڑھیا کو پانی پلایا اور گاہکوں کو کپڑا دکھانے میں مصروف ہو گیا۔

بڑھیا بیٹھی رہی اور گاہکوں کی گفت گوسنتی رہی۔ گاہک چلے گئے تو بزاز نے اپنے نو عمر ملازم سے کہا یہ لوبُرقع گھر میں دے دینا اور کہنا کہ فلاں صندوق میں کپڑے کا ایک تھان رکھا ہے وہ نکال کر دے دیں گاہک کو دینا ہے۔

ملازم نے برقع لیااور دکان سے نیچے اترا۔ بڑھیا بھی اٹھی اور چل دی۔ اب ملازم آگے آگے اور بڑھیا پیچھے پیچھےچل رہی تھی۔جونہی دوکان سے ذرا  دور ہوئی، اس نے ملازم کو آواز دے کر ٹھہرایا اور باتوں باتوں میں بزاز کا گھر دریافت کر لیا۔

اچانک بڑھیا کو کچھ یاد آتا۔ ملازم سے بولی : میرے اچھے بیٹے ! میں تمھاری دکان پر اپنی نقدی کی پوٹلی بھول آئی ہوں۔ ذرا دوڑ کر جاؤ اور لے آؤ، ایسا نہ ہو کہ کوئی اور لے جائے۔ یہ برقع مجھے دو اور جلدی آنا۔ میں یہیں کھڑی انتظار کرتی ہوں ۔“

 ملازم بڑھیا  کی باتوں میں ایسا آیا کہاس نے برقع بڑھیا کو د یا ادردکان کی طرف چل دیا۔ بڑھیا نے موقع غنیمت سمجھااورجلدی جلدی قدم اٹھاتی ہوئی بزازکے گھر آ پہنچی۔ دروازہ کھٹکھٹایا ،بزاز کی بیوی نے دروازہ کھولا اور پوچھا: ” بڑی بی ! کیا بات ہے؟ 

بڑھیا نے کہا: "یہ لو برقع ! تمھارے خاوند نے بھیجا ہے اور کہا ہے کہ جلدی سے فلاں صندوق میں سے ایک تھان نکال کر دے دو ۔ گاہک دکان پر بیٹھا انتظار کر رہا ہے۔“

بزاز کی بیوی نے برقع لے لیا اور کہا: ” تو جانے کون ہے؟ میں تجھے تھان نہیں دوں گی ۔

بڑھیا نے بہتیرا کہا۔ میں دکان سے آرہی ہوں۔ ملازم مصروف تھا، اس لیے مجھے ہی آنا پڑا مگر بزاز کی عورت ٹس سے مس نہ ہوئی ۔ آخر بڑھیا نے کہا : ” تھان نہیں دیتی ہو تو برقع ہی دے دو ۔ میں دکان پر دے دوں گی ۔“

بزاز کی بیوی نے کہا: "برقع میرے خاوند نے بھیجا ہے، میں نے لے لیا ہے۔ اب میں تجھے نہ برقع دے سکتی ہوں نہ تھان“ بڑھیا نے سوچا کہ یہ فریب میں نہیں آئے گی ۔ ملازم پہنچ گیا تو پولیس کے حوالے ہونا پڑے گا۔ چپکے سے بھاگی اور پیچھے مڑ کر بھی نہ دیکھا۔ اس روز سارے شہر میں ڈونڈُونڈی   پِٹ گئی کہ ایک کُٹنی شہر میں گھسی ہوئی ہے۔

نتیجہ /اخلاقی سبق:

دانائی بہترین حکمت عملی ہے۔


 

دوسری کہانیاں پڑھیں:

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top