اسلوبیاتی تنقید کی تعریف | (Stylistic Criticism)

اسلوبیات کے اساسی مباحث اور اصول و ضوابط کا شعر و ادب پر اطلاق اسلوبیاتی تنقید ہے۔ اس میں شعر و ادب کا مطالعہ صرف لسانیاتی نقطہ نظر سے کیا جاتا ہے۔ فن کیونکہ زبان کا اظہار ہے اس لیے اسلوبیاتی تنقید میں متن کے تجزیہ و تحلیل پر بہت زیادہ زور دیا جاتا ہے۔ اس مقصد کے لیے الفاظ ، ان کی صوتیات، معنویات پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے اور یوں اس امر کا تعین کیا جاتا ہے کہ شاعر یا ادیب زبان کے تخلیقی امکانات کو بروئے کار لانے میں کامیاب رہا یا نہیں، اپنی انتہائی صورت میں اسلوبیاتی تنقید صوتیات

(Phonetics)

میں تبدیل ہو جاتی ہے اور نقاد یہ گنتی کرتا ہے کہ کیسی آوازوں والے الفاظ کتنی مرتبہ اور کس طرح استعمال ہوئے ۔ یوں زبان کے صوتیاتی ڈھانچوں

(Phonetic Patterns)

کے حوالہ سے تخلیق کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔
اسلوبیاتی تنقید کے حامی اسے سائنٹفک تنقید قرار دیتے ہیں اس لیے کہ تاثراتی تنقید کی مانند تخلیق سے اخذ تاثرات کے برعکس تخلیق میں الفاظ اور ان کے استعمال سے غرض رکھی جاتی ہے۔ مارکسی تنقید کی مانند اس میں بھی اقتصادیات ، طبقاتی کشمکش، سیاسیات اور انقلاب سے کسی طرح کی دلچسپی نہیں لی جاتی ۔ نہ سماجی علوم ( تاریخ، عمرانیات) کو قابل اعتنا سمجھا جاتا ہے اور نہ ہی نفسیات کی مانند تخلیق کار کو تحلیل نفسی کے محذب شیشہ میں سے دیکھا جاتا ہے۔
اسلوبیاتی تنقید مطالعہ کسان ہے۔ پروفیسر گوپی چند نارنگ’ادبی تنقید اور اسلوبیات میں رقمطراز ہیں:
”اسلوبیاتی تجزیہ میں ان لسانی امتیازات کو نشان زدہ کیا جاتا ہے جن کی وجہ سے کسی فن پارے، مصنف ، شاعر، ہیئت ، صنف یا عہد کی شناخت ممکن ہو۔ یہ امتیازات کئی طرح کے ہو سکتے ہیں۔ (1) صوتیاتی: آوازوں کے نظام سے جو امتیازات قائم ہوتے ہیں، ردیف و قوافی کی خصوصیات یا معنویت، ہکاریت یا محسنیت کے امتیازات یا مضمونوں اور مضمونوں کا تناسب وغیرہ (2) لفظیاتی: خاص نوع کے الفاظ کا اضافی تواتر ، اسماء، اسمائے صفت، افعال وغیرہ کا تواتر اور تناسب، تراکیب وغیرہ (3) نحویاتی: کلمے کی اقسام میں سے کسی کا خصوصی استعمال، کلمے میں لفظوں کا درو بست وغیرہ

(4) بدیعی (Rhetorical):

بدیع و بیان کی امتیازی شکلیں، تشبیه، استعاره، کنایه تمثیل ، علامت ، امیجری و غیره (5) عروضی امتیازات: اوزان، بحروں ، زحافات وغیرہ کا خصوصی استعمال اور امتیازات ۔“ (ص: 17)
اسلوبیاتی تنقید کی اساس لسانیات پر استوار ہے۔ اسلوبیاتی نقاد ادب کی تحسین و تفہیم میں خود کو صرف لسانیاتی نکات تک ہی محدود رکھتا ہے۔ اس لیے اسلوبیاتی تنقید میں تخلیق کے سیاسی ، نفسیاتی ، سماجی ، اخلاقی اور افادی تناظرسے کسی قسم کی دلچسپی کا اظہار نہیں کیا جاتانہ ہیتخلیق کار کا مقام ومرتبہ متعین کیا جاتا ہے اور نہ ہی دو تخلیق کاروں (جیسے انیس ودبیر ) کے فن کا موازنہ کیا جاتا ہے۔ اس لحاظ سے اسلوبیاتی تنقید خاصی محدود ہو جاتی ہے۔ اسلوبیاتی تنقید میں تخلیقات کے مطالعہ کے لیے صوتیات، تشکیلیات ( الفاظ کیسے تشکیل پاتے ہیں)
نحو، معنیات ( الفاظ کیسے مخصوص معانی حاصل کر لیتے ہیں) یہ چار عناصر ہوں تو بنتی ہے اسلوبیاتی تنقید!
اسلوبیاتی تنقید اسی لیے مروج اسالیب نقد سے جدا گانہ ہے کہ یہ صرف اور صرف تخلیق کی زبان کے تجزیاتی مطالعہ سے ہی دلچسپی رکھتی ہے۔ اس میں تخلیق کار کے نفسیاتی تجزیہ کی گنجائش نہیں ، نہ ہی تاریخی اور اقتصادی عوامل کو اہمیت دیتی ہے۔
مزید معلومات کے لیے ملاحظہ کیجیے:
گوپی چند نارنگ، پروفیسر ادبی تنقید اور اسلوبیات ( دیلی: 1989ء) خلیل احمد بیگ، پروفیسر مرزا ” تنقید اور اسلوبیاتی تنقید ( علی گڑھ: 2005ء)


مآخذ: تنقیدی اصطلاحات از ڈاکٹر سلیم اختر

اگر آپ چاہیں تو یہ بھی پڑھ سکتے ہیں

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!
Scroll to Top