ادبِ لطیف کیا ہے؟

ادبِ لطیف، اردو نثر میں اسلوب کی حسن کاری کا وہ انداز جس کی اساس ادب برائے مسرت / حظ پر استوار تھی۔ اگر چہ ادبی اسلوب میں جمالیات ہمیشہ ہی سے موثر کردار ادا کرتی رہی ہے لیکن ادب لطیف میں جمالیات برائے جمالیات تھی۔ ادب لطیف لکھنے والے ادب برائے ادب کے قائل تھے ۔ ( ہر چند کہ اس زمانہ میں یہ اصطلاح وضع نہ کی گئی تھی ) اسی لیے ان کی نثر حسن سے عیش کوشی اور لذتیت کی ترجمان تھی ۔
ادب لطیف کو سرسیدتحریک کی عقلیت، مقصد پسندی، قومی درد، ملّی اصلاح اور مستقبل بینی کے خلاف رد عمل بھی سمجھا جا سکتا ہے۔ ادب لطیف کے رسیا ان سب امور سے منکر تھے۔ وہ صرف لمحہ موجود سے لذت کا رس کشید کرنے کے تخلیقی عمل کے قائل تھے جس کا اظہار وہ حسن پرستی کے ذریعہ سے کرتے تھے۔ یہ حسن عورت کے وجود سے مشروط تھا۔ وہ صحیح معنوں میں وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ … کے قائل تھے۔ چنانچہ کسی مصور کی مانند لفظوں کو رنگوں کی مانند استعمال کرتے ہوئے وجودِزن کی مصوری میں محو رہے ۔ حسن کا دوسرا روپ فطرت پرستی میں ظاہر ہوا۔ چنانچہ اسلوب بدل بدل کر مناظر فطرت کی مرقع نگاری بھی کی گئی مگر ان کی فطرت پرستی ، فطرت کے حوالہ سے کسی فلسفیانہ فکر یا متصوفانہ سوچ کی مظہر نہ تھی ، فطرت پسندی برائے حسن پرستی تھی جس کا اظہار فطرت کی لفظی تصویر کشی میں ہوا۔
جہاں تک اردو میں ادب لطیف کے آغاز اور ترویج کا تعلق ہے تو ڈاکٹر عبدالودود خاں اپنے تحقیقی مقالہ اردو نثر میں ادب لطیف میں رقمطراز ہیں:
”یلدرم ادب لطیف کو با قاعدہ طور پر رائج کرنے والے کہے جاسکتے ہیں۔ یلدرم سے پہلے شاعرانہ نثر کافی مقبولیت حاصل کر چکی تھی ۔ لوگوں میں یہ احساس پیدا ہو چکا تھا که اردو نثر کو لطیف بنانا چاہیے۔ یلدرم سے پہلے شرر اور ناصر علی کا نام لیا جا سکتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ شرر کو اولیت دی جائے یا ناصر علی کو ۔ شرر اور ناصر علی کے علاوہ ادب لطیف کے ادیبوں پر مولانا ابوالکلام آزاد کی نثر کے اثرات بھی ہیں، الہلال والبلاغ کی شعریت سے لوگ متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ شرر کے دلگداز ، میر ناصر علی کے تیرہویں صدی اور صلائے عام اور سر عبد القادر کے مخزن کے علاوہ نقاد، ہمایوں ، نگار اور نیرنگ خیال اس نئے ادبی رجحان کے پر زور حامی تھے۔“ (ص: 101-102)
جہاں تک اسلوب کی رنگینی کا تعلق ہے تو اس لحاظ سے مولانا محمد حسین آزاد کے ”نیرنگ خیال “کے مضامین بلکہ آب حیات کا بھی نام لیا جا سکتا ہے۔ “آب حیات” تنقید کی کتاب ہے مگر اس کا اسلوب جملہ شاعرانہ خوبیوں کا حامل ہے۔ “آب حیات” 1880ء میں طبع ہوئی جبکہ ناصر علی کے مجلہ “صلائے عام کا 1908 ء اور عبد الحلیم شرر کے دلگداز کا اجراء 1887ء میں ہوا۔
ادب لطیف کے لیے کسی زمانہ میں ٹیگوریت“ کا مترادف بھی مستعمل تھا۔ رابندر ناتھ ٹیگور کی بنگلہ شاعری کے مجموعہ ” گیتانجلی (1) کو نیاز فتح پوری نے اردو روپ عطا کیا تو اس نے بے حد مقبولیت حاصل کی


(1)
گیتا بجلی ” کا ڈبلیو بی ایس نے انگریزی میں ترجمہ کیا ہے ۔ 1946ء میں مکلیمن نے لندن سے شائع کیا ۔’نگار پاکستان ( کراچی:شمارہ اکتوبر 1962ء) میں گیتانجلی” کا اردو ترجمہ ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔


اور ٹیگور کے اسلوب کی پیروی سے اردو اد یوں نے بھی اپنے اسلوب کا رنگ چوکھا کیا لیکن اسلوب کی یہ حسن کاری ٹیگور کی روحانیت سے مُعرّا تھی، لہذا یہ تجربه محض کاغذی پھول ثابت ہوا اور سارا زور نثر کو زیادہ سے زیادہ جذباتی بنانے پر صرف ہونے لگا اور فقروں میں جذباتی تموج کے اظہار کے لیے اس سے کام لیا جانے لگا۔
ادب لطیف کا محرک کوئی فلسفہ یا نظریہ و تصور نہ تھا اس لیے یہ بدلتے ادبی ذوق کا مقابلہ نہ کر سکا۔ ادھر 1936 ء میں ترقی پسند ادب کی تحریک کے تحت جنم لینے والے نئے ادبی شعور اور ادب برائے زندگی کے تصور کی بادِتند نے ادب لطیف کے ٹمٹماتے چراغ کو گل کر دیا مگر ترقی پسنداد یہوں سے پہلے ہی ثقہ حضرات نے اس سے اظہار بے زاری شروع کر دیا تھا۔ جب رشید احمد صدیقی نے 1926ء میں سہیل (علی گڑھ) جاری کیا تو پہلے شمارہ (جنوری۔ 1926ء) کے اداریہ میں ادب لطیف کی ان الفاظ میں مذمت کی :
”سہیل میں اس قسم کے کوئی مضامین راہ نہ پاسکیں گے جن کو آج کل عرف عام میں ادب لطیف بتایا گیا ہے۔ ادب لطیف اور ٹیگوریت نے سب سے بڑا ظلم یہ کیا کہ اس نے الفاظ کی ایک چیستان مقرر کر دی ہے جن کے سمجھنے یا ان سے مستفید ہونے کے لیے ضرورت سے زیادہ عقل و دماغ یا رقیق جذبات کی ضرورت ہے۔ یہ صنف ہمارے ان نو جوانوں میں بہت مقبول ہے جو ادب کو ہی صبح بنارس اور شام اود ھ سمجھتے ہیں ۔“
اس ضمن میں ڈاکٹر فرمان فتح پوری “قمر زمانی بیگم میں تحریر کرتے ہیں : ” رومان پرور انشا پردازی کا دوسرا نام ” انشائے لطیف یا شعر منشور تھا ۔ مہدی افادی، ابوالکلام آزاد، یلدرم، خلیقی ، میر ناصر علی، نیاز فتح پوری اور دلگیر اکبر آبادی وغیرہ اس قسم کی نثر کے علم بردار تھے۔ دراصل انہیں کی بدولت رومان نگاری نے ایک مستقل اور مقبول رجحان کی حیثیت اختیار کر لی تھی۔”
(بحوالہ : ” نگار پاکستان کراچی ۔ اکتوبر 2005ء)
اس عہد کے ان رومانی انشا نگاروں کی سوچ کا محور عورت اور ان کے قلم کا مدار ، عورت سے وابستہ جزئیات کا لذیذ بیان و تشریح۔ ان کی تحریر سے عورت خارج کر دی جائے تو انشا نگاری کا سارا جوش سرد ہو جاتا ہے اور ولولے بگولوں کی مانند اڑ جاتے ہیں۔ ڈاکٹر فرمان فتح پوری کی متذکرہ تحریر سے چند اقتباسات پیش ہیں جن سے کسی حد تک اس کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ رومانی انشاء پرداز کس اسلوب میں وجودِ زن میں رنگ بھرتے ہیں۔
”نقاد“کا پہلا پرچہ جنوری 1913ء میں بڑی آب و تاب کے ساتھ منظر عام پر آیا اور دیکھتے ہی دیکھتے فضائے ادب پر چھا گیا۔ مولانا شبلی ، مہدی افادی، اکبر الہ آبادی، شوق قدوائی ، مولانا حسرت موہانی، ابوالکلام آزاد، ریاض خیر آبادی، مولانا حامد حسن قادری نظم طباطبائی کبھی اس کی محفل شعر وادب میں شریک ہو گئے ۔ ہر چند کہ نقاد میں زبان وادب کے ساتھ ساتھ دوسرے علم وفنون پر بھی تنقیدی وتحقیقی مضامین شائع ہوتے تھے لیکن اس کے لکھنے والوں کا حلقہ کچھ ایسا تھا کہ یہ رسالہ بہت جلد اردو میں رومانوی تحریروں کا دلکش مرقع اور انشائے لطیف کی تحریک کا نمائندہ بن گیا۔ بات یہ تھی کہ اس رنگ کے بڑے انشاء پرداز مثلاً مہدی افادی، نیاز فتح پوری خلیقی ، ضیا عباس ہاشمی اور خود نقاد کے مدیر دلگیر اکبر آبادی جن کی نثر رومان کا جادو جگاتی تھی سب کے سب حسن و عشق یا جمالیات کے سلسلے میں سقراط کے ایک شاگرد اور مشہور یونانی مفکر ز مینوفن کے فلسفہ حسن و عشق سے متاثر تھے۔ اس فلسفے میں حسن و عشق اور عورت ایک ہی چیز کے مختلف نام تھے اور اسی کو اردو کے یہ رومان نگار اپنے فکر و خیال کا محور بنائے ہوئے تھے۔ چنانچہ نقاد کے پہلے ہی پرچے میں مہدی افادی کا مضمون “فلسفہ حسن و عشق“ شائع ہوا۔ اس فلسفے کو سمجھنے کے لیے اس کی چند سطریں دیکھتے چلیے :
”عورت کیا ہے۔ دنیا میں کیوں آئی؟ اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ وہ محبت کی چیز ہے اور وہ محض اسی لیے آئی ہے۔ محبت ایک مقناطیسی شے ہے۔ عورت بغیر چاہنے والے کے نہیں رہ سکتی ۔
عورت کتنی ہی پاکیزہ وش کیوں نہ ہو، اس خیال سے خالی نہیں ہوتی کہ کوئی اس کی کافر ادائی کا شیدائی ہو۔ اس کی فتوحات اس کا سرمایہ نشاط ہیں جن سے اس کے دل کو راحت ملتی ہے اور جن سے وہ جیتے جی کبھی دستبردار نہیں ہو سکتی۔ وہ وار کر کے رہے گی کیونکہ یہ اس کی فطرت میں داخل ہے۔ شانہ سے آنچل خود نہ گرائے لیکن اگر اتفاق سے گر جائے تو وہ دل میں خوش ہو گی۔
آہ عورت تو فسانہ زندگی ہے تو جس طرح ایک جھونپڑے کو اپنی صاف شفاف ہستی سے شیش محل بنا سکتی ہے۔ بڑے بڑے ایوان عیش کی تکمیل اس وقت تک ممکن نہیں جب تک تیری موجودگی کے آثار اس میں نہ پائے جائیں۔ اس کے لیے چھڑوں کی مجھنکار ضروری نہیں محض تیرا پس پردہ ہونا کہیں ہر کسی کے لیے ہو، کافی ہے۔“
ڈاکٹر فرمان فتح پوری مزید رقم طراز ہیں:
”اردو نثر نگاری کا یہ رنگ اس زمانے میں حد درجہ مقبول تھا۔ نوجوان لکھنے پڑھنے والے تو اس پر جان چھڑکتے تھے۔ نقاد کے مدیر دلگیر کی طبیعت کو بھی اس رنگ سے خاص مناسبت تھی اور وہ بھی اسی رنگ میں لکھتے تھے۔ نثر ہو یا نظم دونوں میں تخیل کی جولانیاں حد سے بڑھی ہوئی ہوتی تھیں اور حقیقی دنیا کے مقابلے میں خیالی دنیا زیادہ کیف پرور نظر آتی تھی۔

دلگیرکے مضمون کا ایک ٹکڑا دیکھیے جو ” تصویر جاناں“ کے عنوان سے فروری 1913ء کے نقاد میں شائع ہوا ہے۔
”سنتے ہیں عاشق نامراد فرہاد کو جو لطف کوہ بے ستون میں اکیلے بیٹھ کر شیریں کے یاد کرنے اور شیریں کے ساتھ خیالی پیکر میں گفتگو کرنے میں آتا تھا۔ کبھی خود شیریں کی محبت میں نہ آیا اور ایسے ہی ہم کو بھی دلر با صورتوں سے لگاؤ ہے۔ ان کے تصور کو ہر وقت تازہ رکھنے میں جو مزہ آتا ہے، خود ان سے مل کر نہیں آتا ۔“
مضمون کے اختتام پر ملٹن کا یہ قول درج ہے:
” اے عورت تو مخلوق کی سب سے بہتر نمونہ ہے ۔ تو خدا کی انتہائی اور سب سے اعلی مخلوق ہے۔ تجھ میں یعنی تیری ہستی میں سب اچھی چیزیں جو خیال اور نظر میں آسکتی تھیں ، بدرجہ کمال موجود ہیں تو پاک ہے تو شانِ عرفان رکھتی ہے تو نرم اور خلیق ہے تو بہت مرغوب طبع ہے اور تو بہترین کائنات ہے۔”
اس سلسلے میں خلیقی دہلوی کے ایک مضمون کا اقتباس بھی بطور نمونہ دیکھتے چلیے
”میری محبت کی نسبت انہیں اب کوئی حسن ظن نہیں رہا۔ نہ سہی ، یہ میرا مقدر۔ میرے واسطے ان کی قلب میں اب کوئی گنجائش نہیں رہی نہ سہی۔ یہ میری تقدیر مگر جن الزامات کو میرے ذمہ یقین کر لینے کی بنا پر وہ مجھ سے رنجیدہ ہوئے ہیں جن تہمتوں کی مجھ سے روٹھ کر انہوں نے عملاً تصدیق کر دی۔ کاش ان سے مجھ کو آگاہ کیا جاتا۔ مجھے برات پیش کرنے کا موقع ،مجھے عذر گناہ کے لیے فرصت عطا کی جائے ۔“
” میں سچ عرض کرتا ہوں، میں دربار محبت میں شرمندہ عمل نہیں۔ میں نے کوئی گناہ نہیں کیا۔ محبت کے خلاف میرے دل میں بھی کوئی مذموم تحریک پیدا نہیں ہوئی۔ میں نے ہر دعوت آزمائش کو لبیک کہا۔ میں نے تمام احکامات کی غلامانہ اطاعت کی۔ میں نے خدا کی قسم دل میں کبھی معصیت کی پرورش نہیں کی۔ دیکھ لینا تم اپنے عملی وہم سے شرمندہ ہو گے اور افسوس کہو گے ، آہ مجھے معلوم نہیں ۔ کیوں ان کی محبت شک وشبہ میں بدل گئی ۔“
ڈاکٹر فرمان صاحب اس ضمن میں مزید لکھتے ہیں:
ضیائے عباسی ہاشمی صاحب کے انداز انشاء پردازی اور تصویر خیالی کی بھی ایک جھلک دیکھتے چلیے:میں کیا کہوں“ کے عنوان سے فروری 1913ء کے پرچے میں لکھتے ہیں:
”میں ایک مجسم خیال ہوں۔ میں ایک فرضی تصویر ہوں ۔ میں عکس ہوں کسی کا۔ خدا معلوم کس کا۔ میں یہ کچھ بھی نہیں۔ میں خانہ معشوق کی دیوار پر ایک قد آدم آئینہ ہوں ۔ مجھ میں یار اور اغیار دونوں کی صورتیں عکس فگن ہیں ۔“

چونکہ میری ابتداء عشق اور خواہش کے ضمیر سے ہے۔ اس لیے میں خواہشوں کا ایک مجموعہ ہوں ۔ بیاضِ عشق کا مرقع ہوں ۔ کتاب محبت کا ایک ورق ہوں۔ ورق کی طرح مجھے بھی نہیں معلوم مجھ میں کیا لکھا ہے اور یہ بھی خبر نہیں کہ مجھے کون پڑھے گا ۔”
لیکن اس قسم کے نوجوان انشاء پردازوں کے امام حقیقتہً نیاز فتح پوری تھے ۔ اس وقت ان کا قیام دلّی میں تھا اور ان کے قلم کی جولانیاں اردو نثر میں غضب کا رنگ و نور بکھیر رہی تھیں ۔ یونانیوں کے فلسفہ حسن و عشق کا انہوں نے گہرا مطالعہ کیا تھا اور یورپ کے جمال پرست انشا نگاروں سے بھی وہ بہت متاثر تھے۔ طبعاً بھی حد درجہ رومان پسند واقع ہوئے تھے اور جیسا کہ خود انہوں نے کئی جگہ اس کا اظہار کیا ہے۔ عورت ان کی کمزوری تھی لیکن یہی کمزوری ان کی تحریر کا حسن و زور بن گئی تھی۔ عورت اور اس کے حسن و جمال پر انہوں نے افسانے کی شکل میں ”نقاد“ میں مسلسل لکھا اور ایسی جادو اثری کے ساتھ کہ نوجوان طبقے کا ہر فرد عورت ہو یا مردان کی تحریروں پر ریجھ گیا۔ چنانچہ ان کے وہ رومانی افسانے جو تخیل کی رنگینی میں ڈوبے ہوئے ہیں پہلے پہل نقاد ہی میں شائع ہوئے۔ ان افسانوں میں عشق وحسن کے جس فلسفے کو انہوں نے موضوع بنا رکھا تھا، اس میں عورت کا مقام بہت بلند ہے۔ اس بلندی کا ذکر ایک جگہ نہیں بلکہ جگہ جگہ ان کے افسانوں میں ملتا ہے۔ بطور نمونہ چندٹکڑے دیکھے :
”عورت ایک لذت ہے۔ مجسم ایک تسکین ہے۔ مثل ایک سحر ہے مرئی ایک نور ہے مادی“
☆☆☆
”ایک حسین عورت کی جو حرکت ہے وہ ایک لطیف موسیقی ہے۔ حسن کا ساز نسائیت اور صرف نسائیت ہے۔ وہ ہاتھ ہلاتی ہے تو گویا ہوا میں نقش ترنم بنا دیتی ہے۔ وہ چلتی ہے اور اپنے پیروں سے زمین پر نشان موسیقی چھوڑ جاتی ہے ۔“
☆☆☆
”عورت کا ئنات کی ساری حسین چیزوں کا نچوڑ ہے اور اس کے بغیر زندگی بے کیف اور بے روح ہے۔“
☆☆☆
”عورت ایک روشنی ہے جسے ہم چھو سکتے ہیں۔ ایک نکہت ہے جس سے ہم گفتگو کر سکتے ہیں۔ وہ ایک شیرینی ہے جو ہاتھ سے چکھی جاسکتی ہے۔ وہ ایک موسیقی ہے جو آنکھوں سے سنی جاسکتی ہے ۔“
”محبت ایک قسم کی نعمت ہے جو روح کی شگفتگی سے پیدا ہوتی ہے۔”
ڈاکٹر فرمان فتح پوری کے بموجب:
”یہ تو عورت اور محبت کے متعلق نیاز کے رومانی خیالات ہیں لیکن اگر عورت فی الوقت ان کے سامنے آجائے تو ان کے دل پر کیا گزرتی تھی اور وہ اس کی تصویر کس طرح کھینچتے تھے ۔

اس کی بھی ایک آدھ مثالیں دیکھتے چلیے۔ اجے گڑھ کی راجپوت لڑکیوں کے متعلق لکھتے ہیں:
”ایک بات اور ہے۔ کان میں کہنے کی تھی مگر خیر سن لو۔ حزیں کو بنارس میں ہر براہمن کچھمن درام نظر آتا تھا لیکن یہاں ہر قدم پر سیتا و رادھا کا سامنا ہے۔ راجپوتوں کی لڑکیاں ہیں، بلند و بالا پیچ و توانا، تیوریاں چڑھی ہوئی ، گردنیں تنی ، آنکھوں میں تیر، مانگوں میں بھیر، ابرو میں خنجر ، بالوں میں عنبر، ہاتھوں میں مہندی ماتھے پر بیندی۔ کیا پوچھتے ہو کیا عالم ہے۔“
☆☆☆
”چار بجے کا وقت ہے۔ گہرا ابر محیط ہے۔ پہاڑی کی خنک ہوائیں جس میں سردی لیکن دماغ میں شراب کی سی گرمی پیدا کر رہی ہیں کہ دفعتہًبنگلہ سے باہر چہل پہل سی معلوم ہوئی۔ میں باہر نکلتا ہوں ۔ معلوم نہیں غالب کا نگار آتشیں سرکھلا کیا تھا۔ یہاں تو ایک کٹی ہوئی روشنی تھی ۔ پیکر انسان میں ایک قید کی ہوئی بجلی تھی ۔ عالم آب و گل میں ۔ آنکھیں یکسر سحرِ بابل – لب ہمہ خون صد میخانہ اور اب پوچھیے کہ سِن کیا تھا۔ بس یوں سمجھیے کہ جوانی کانٹے پر تل رہی تھی ۔“
☆☆☆
انہوں نے مزید لکھا:
انشائے لطیف کا آج کل کا جو مفہوم عام ہے اس کے خلاف جہاد کرنا صحت منطق کی دلیل ہے۔“
انہوں نے اپنے انداز میں انشائے لطیف کی یہ تعریف کی:
انشائے لطیف کے یہ معنی ہیں کہ آپ کے خیالات اور وسیلہ اظہار خیالات یعنی تحریر دونوں میں ایک مناسبت ہو ۔ ان میں جس قدر نسبت صحیح ہوگی اتنا ہی کمال انشاء پردازی نمایاں اور روشن ہو گا ۔“
( بحوالہ : عبدالودود، ڈاکٹر اردو نثر میں ادب لطیف“ لکھنو : 1980ء (ص: 29-428)


مآخذ: تنقیدی اصطلاحات از ڈاکٹر سلیم اختر

اگر آپ چاہیں تو یہ بھی پڑھ سکتے ہیں

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top