ادب کیا ہے؟

ادب عالیہ”Classic”

کے لیے استعمال ہوتا ہے یعنی ماضی کی ایسی تخلیق یا تخلیق کار جو دائمی شہرت کا حامل ہونے کی بنا پر زمان و مکاں کی حدود سے ماورا ہو جائے۔ سید عابد علی عابد نے ولیؔ دکنی کواردو کا کلاسیک قراردیا تھا۔ زردادب

“Yellow Literature”

فحش ، مبتذل، جنسی کنایوں والے ذومعنی فقرات / الفاظ اور گالیوں پر مبنی ادب ۔
فحش ادب: جنسی موضوعات پر واشگاف اسلوب میں قلم بند کرنا۔ تحریر میں جنسی الفاظ ومحاورات کا استعمال، جنسی افعال اور مناظر کا برانگیختہ کرنے والے اسلوب میں بیان، انگریزی میں اس کے لیے

Pornography

کی اصطلاح مستعمل ہے۔ بحیثیت مجموعی ادبی اور غیر ادبی تحریر یا تخلیق کے تعین کے ضمن میں یہ امر توجہ طلب ہے کہ ہمارے سامنے لاتعداد تحریر میں ہوتی ہیں لیکن ان میں سے ہم صرف چند اور مخصوص نوعیت کی تحریروں ہی کو ادب قرار دیتے ہیں۔ آخر دیوان غالب کیوں ادب ہے اور ریلوے ٹائم ٹیبل، کیمسٹری کی کتاب یا اخبار کی خبر کیوں نہیں؟ حالانکہ عملی افادہ کے لحاظ سے غالباً یہ تینوں ہی دیوانِ غالب سے زیادہ اہم قرار دی جاسکتی ہیں جبکہ دیوان کو ان پر فوقیت دیتے ہوئے ادب قرار دیتے ہیں تو شعوری یا لاشعوری طور پر ہمارے ذہن میں ایک معیار ہوتا ہے۔
ہم نثر اور نظم میں تقسیم ادب کے عادی ہیں۔ اس طرح خشک اور ٹھوس موضوعات یعنی غیر ادبی موادکے لیے صرف نثر ہی کو وسیلہ اظہار سمجھا جاتا ہے لیکن تاریخ ادبیات کے مطالعہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ بعض ممالک خصوصیت سے قدیم یونان میں۔۔۔ طبی اور سائنسی موضوعات پر منظوم رسالہ تحریر کرنے کا رواج تھا بلکہ یہ تعجب خیز سہی لیکن حقیقت ہے کہ تمام دنیا کو اصطلاحات کا ذخیرہ بہم پہنچانے اور فن شاعری پر پہلی باضابطہ تصنیف
”بوطیقا “دینے والی یونانی قوم کے پاس تخلیقات کے لیے ”ادب یا لٹریچر “ایسا جامع اور موزوں لفظ ہی نہ تھا۔
مختلف نقادوں نے ادبی اور غیر ادبی تحریروں میں تفریق کے لیے معیار وضع کرنے کی کوشش کی ہے۔ مثلاً ہڈسن ادب کے لیے مواد، موضوع اور پیشکش کے انداز میں عمومی دلچسپی کے حامل عناصر کے ساتھ ساتھ مخصوص ہیئت اور اس سے جنم لینے والے جمالیاتی حظ کو لازم سمجھتا ہے جبکہ سکاٹ جیمز قوت استدلال کو امتیاز کا باعث تسلیم کرتا ہے۔
عام طور سے ادب اور غیر ادب کے ضمن میں موضوعات کی فہرست گنوادی جاتی ہے لیکن یہ گمراہ کن ہے کیونکہ اس معاملہ میں موضوع ثانوی اہمیت رکھتا ہے۔ اصل چیز تو مقصدِتحریر ہے، ایسا کوئی ادبی قانون نہیں جس کی رو سے ادبی اور غیر ادبی موضوعات کا تعین کیا جا سکتا ہو۔ ادیب ہر موضوع پر قلم اٹھا سکتا ہے۔
ادب کی تفہیم کے لیے قارئین کا جائزہ لینا بھی ضروری ہے۔ جب ” مقصد تحریر پر زور دیا گیا تو دراصل وہ قارئین ہی کی بات تھی یعنی لکھنے والا قارئین کے کس طبقہ سے خطاب کرتا ہے۔ یہ درست ہے کہ کسی کتاب پر یہ نہیں لکھا ہوتا کہ اسے صرف فلاں طرح کا قاری ہی پڑھ یا خرید سکتا ہے لیکن اس کے باوجود عمومی انداز سے قارئین کے کچھ حلقے سے بنے ہوتے ہیں اور یوں کتابیں زیادہ تر ایسے حلقوں میں ہی مقبول ہوتی ہیں۔
تنقید یا ایسے ہی کسی اور دقیق موضوع پر لکھنے والا منطق اور استدلال کے ساتھ ساتھ زبان کو اصطلاحات اور حوالوں سے بو جھل بھی بنا سکتا ہے اور اس موضوع سے دلچسپی رکھنے والوں میں ہی زیادہ تر مقبول ہوگی۔
قارئین سے بھی یہ واضح ہو جاتا ہے کہ مصنف کے قلم سے نکلنے کے بعد ایک تحریر اس کے نام کی حامل ہونے کے باوجود بھی اس کی اپنی نہیں رہتی اور اس کا افادی تخلیقی اور غیر تخلیقی ہونا اس کے استقبال اور پھر اد بی عمر کا تعین کرتا ہے۔
اس بحث سے کم از کم یہ تو واضح ہو ہی جاتا ہے کہ ادب کی ماہیت کا تجزیہ آسان نہیں ۔ موضوع، اسلوب اور دیگر عوامل کے مطالعہ سے ادبی خصائص کا تعین اور بات ہے لیکن ان میں سے کسی ایک عصر کو بھی ادبی اور غیر ادبی تحریروں میں امتیاز کے لیے بنیاد نہیں بنایا جاسکتا۔
ادبی اور غیر ادبی (یا افادی) تحریروں میں تخلیقی اُپج سے امتیاز کیا جا سکتا ہے۔ یہ تخلیقی جدت ہی تو ہے جو لغوی مفہوم سے قطع نظر الفاظ کو علامات، استعارات ، محاورات ، تلمیحات وغیرہ کی صورت میں ایک نیا اور دلکش روپ عطا کرتے ہوئے اسلوب کے حسن سے قاری کے تخیل کو متاثر کرتی ہے۔
غیر ادبی یا افادی تحریر معلومات بخشنے اور مواد کی درستی کے باوجود بھی تخیل کے لیے تحریک مہیا کرنے میں ناکام رہتی ہے۔ ادبی تحریر کی تاثیر اور اس کے دیر پا اثرات کی بھی یہی وجہ ہے کہ قاری تصورات اور تخیل کی بنا پر ادب پارہ کے تاثرات کو مکمل طور سے جذب کر لیتا ہے۔ عام ڈگر سے ہٹ کر منفرد اظہار کی جدت اور خیال کے انوکھے پن سے قاری پر جو خاص کیفیت طاری ہوتی ہے، اس کی بنا پر جب بھی ادب کا مطالعہ کیا جائے گا، وہ کیفیت طاری ہوگی۔ مثلاً جغرافیہ دان جب ہمالیہ کی بلند ترین چوٹیوں کی پیمائش بتا کر ہماری معلومات میں اضافہ کرتا ہے تو ہمیں اس سے کسی طرح کا جمالیاتی حظ حاصل نہیں ہوتا۔ نہ ہی ماؤنٹ ایورسٹ کی بلندی ہمارے تخیل کے لیے مہمیز ثابت ہوتی ہے لیکن جب اقبال کہتا ہے


اے ہمالہ!اے فصیل کشور ہندوستاں
چومتا ہے تیری پیشانی کو جھک کر آسماں

 

تو ایک منظر نگاہوں کے سامنے آجاتا ہے جس سے تخیل متاثر ہوتا ہے اور جمالیاتی حظ حاصل ہوتا ہے۔ یہی ادبی تحریر کا وہ وصف ہے جس کے لیے سنسکرت میں رس“ کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے اور جس سے غیر ادبی ، معلومات بخش یا افادی تحریر عاری ہوتی ہے۔
مزید مطالعہ کے لیے ملاحظہ کیجیے:

Hudson, William Henry” An introduction to the Study of
Literature.” London, 1957


مآخذ: تنقیدی اصطلاحات از ڈاکٹر سلیم اختر

اگر آپ چاہیں تو یہ بھی پڑھ سکتے ہیں

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top