بہار

  بہار ایک وجد آفریں موسم ہے۔گلستانوں  میں نئی کونپلیں، نئے شگوفے پھوٹتے ہیں۔ ڈالی ڈالی خوشنما پھول کھل اُٹھتے ہیں۔ رنگا رنگ پرندوں کے سہانے نغمے دل لبھاتے ہیں۔ فضا میں ہر سو مسرتوں اور مسکراہٹوں کی لہر سی دوڑ جاتی ہے۔ خشک ویرانوں میں بھی شادابی کا رنگ جمنے لگتا ہے۔ پریشان ذہنوں اور پژمرده چہروں پراُمید اور زندگی نئی کروٹیں لینے لگتے ہیں۔

پھر جوں جوں دن گزرتے جاتے ہیں بہار کی رونق ماند پڑتی جاتی ہے۔ پھول مرجھانے لگتے ہیں۔ ہنستےبستے چمن زار سونے سونے لگتے ہیں۔ اور ایک دن ایسا بھی آتا ہے جب پھولوں کی تمام خوش بو غائب ہو جاتی ہے اور لوگ اگلی بہار تک سبزہ اورمہک کو ترستے ہیں۔


سدا بہار پھولؐ کی مہک

کوئی ڈیڑھ ہزارہ برس کی بات ہے کہ ہماری اس کائنات میں ایک ایسی حیرت انگیز بہار آئی تھی جو پھر کبھی ختم ہی نہ ہوئی. اُس بہار ایک باغ میں ایک خوشنما پھول کھلا تھا جس کی مہک بے حدمفرّح تھی ۔ بہا رختم ہوئی۔خزاں گزری – گرما شروع ہوا۔ سرما کے تند و تیز جھونکے چلے۔ پودوں اور درختوں سے رونق ختم ہوئی۔ پرندوں نےچہچہانا چھوڑ دیا۔ مگر اس سدا بہار پھول پر اس سے کوئی ناگوار اثر مرتب نہ ہوا۔ اس کی مہک بس بڑھتی ہی چلی گئی۔ پھر ہوا کے جھونکوں نے اُس حسین پھول کے بیج اور کونپلیں دنیا کے بے شمارہ باغوں میں پھیلا دیں۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے کائنات کے گوشے گوشے میں خوش نما پھولوں کی ایسی دلفریب قسمیں پھیلنے لگیں جن کی مہک سدا بہا رتھی۔ جن کے گردپرندے ہر موسم میں محبت اور مسرت کے گیت گاتے تھے اور جو افسردہ چہروں کو نئی رونق اور نئی زندگی بخشتے تھے۔ وہ حسین پھول آج بھی ساری دُنیا کے باغوں کی زینت ہے۔ ہر خطہ کے لوگ اس سدا بہار پھول کی خوشبو سے لطف اندوز ہوتے چلے آرہے ہیں۔ اس خوشنما پھول کو کھلے، مدتیں بیت چکی ہیں۔ مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی مہک میں مسلسل اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے ۔

اور آج سبھی لوگ مانتے ہیں کہ ایسا دلفریب پھول کبھی کہیں کھلا ہے اور نہ کھلے گا۔ سدا بہار کے اس حسین پھول کی کہانی انوکھی بھی ہے اور دل چسپ بھی۔


بہترین انسان کی پیدائش

یہ  پیارا پھول موسم بہار میں جزیرہ نمائے عرب کے مشہور شہر مکہ میں کِھلا تھا۔ اُس علاقے کے مروجہ کیلنڈر کے مطابق یہ مبارک دن پیر ۱۲ ربیع الاول عام الفیل تھا۔ عیسوی حساب سے آپ کا یوم ولادت 22 اپریل 571 بنتا ہے۔ اُس مسرتوں  بھرے دن دُنیا کے سب سے بڑے اور سب سے پیارے انسان یعنی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئے تھے ۔

آپ کے والد ماجد کا نام عبد اللہ اور والدہ محترمہ کا نام آمنہ تھا۔ عبداللہ بہت نیک سیرت اور بلند کردار نوجوان تھے۔ حضرت آمنہ اپنے نیک شوہر کی طرحنہایت بلند اخلاق خاتون تھیں۔ آپؐ کے دادا عبدالمطلب مشہور قبیلہ قریش کے معزّز  سردار بھی تھے اور مکہ شہر کے رئیس بھی۔ چنانچہ آنحضورؐ والد اور والدہ دونوں اطراف سے اعلیٰ خاندانی اوصاف اور اچھی شہرت میں پروان چڑھے ۔ 

اُس زمانے کے عرب میں دستور تھا کہ شادی کے بعد دلہا میاں کچھ عرصہ دلہن کے ہاں قیام کیا کرتا تھا۔ چنانچہ جناب عبد اللہ شادی کے بعد تین دن تک اپنی محترم بیوی آمنہ کے گھر ٹھہرے رہے۔ پھر آمنہ بی بی کو ساتھ لے کر اپنے آبائی گھر لوٹ آئے۔ کچھ عرصہ بعد تجارت کے سلسلہ میں آپ کو شام جانا پڑا۔ واپسی پہ چند ماہ سفر میں رہنے کے بعد آپ مکہ لوٹتے ہوئےمدینہ ٹھہرے تو بیمار پڑ گئے۔ یہ علامت جان لیوا ثابت ہوئی اور آپ انتقال

 فرما گئے۔ آپ کو مدینہ ہی میں دفن کر دیا گیا ۔ 

آپ کی وفات کی خبر مکہ پہنچی تو آپ کے گھر کہرام مچ گیا۔ اپنے جواں سال رفیق حیات کی بے وقت موت کے صدمہ سے حضرت آمنہ رنج و غم میں ڈوب گئیں۔ سردار عبد المطلب بھی نوجوان بیٹے کی ناگہانی موت سے بے حد پریشان ہوئے ۔


ولادت کی مسرّتیں اور ضیافتیں

دن گزرتے گئے اور کچھ عرصہ بعد غم زدہ آمنہ کے ہاں ایک خوبصورت بچہ پیدا ہوا ۔ جس سے اُن کی افسردہ طبیعت قدرے سنبھلنے لگی ۔ 

آپؐ کے دادا عبدالمطلب کو پوتے کی پیدائش کی خبرملی تو خوشی سے  جھوم اُٹھے۔ سب کام کاج چھوڑ کر اپنی بہو کے گھر پہنچے ۔نو مولود کو سینے لگایا اور اُسے چومتے  خانہ کعبہ میں جا داخل ہوئے۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا اور آپ کے لیے دعائیں مانگیں۔ پھر واپس لوٹے اور بچے کو آرام سے حضرت آمنہ کی گود میں ڈال دیا۔ کافی سوچ بچار کے بعد آپ نے پوتے کا نام محمد ﷺرکھا ۔ اس خوبصورت عربی لفظ کا مطلب ہے  ۔”قابل تعریف “گو عرب میں اس قسم کے ناموں کا رواج نہ تھا مگر آپ کو یہی نام پسند آیا ۔

ولادتِ  سعید کے ساتویں روز سردار عبدالمطلب نے ایک نفیس اُونٹ ذبح کیا اور قبیلہ قریش کے تمام لوگوں کو اپنے ہاں ضیافت پر مدعو کیا ۔ کھانے کے بعد مہمانوں نے پوچھا کہ آپ نے نومولود کا نام آباء و اجداد کے ناموں پہ رکھنے کی بجائے ایک قدرے غیر مانوس سے نام کا انتخاب کیوں کیا ہے ؟

  آپ نے جواب دیا : میری خواہش ہے کہ یہ بچہ خدا بندوں کے نزدیک آسمان اور زمین پر تحسین در آفرین کا اہل ثابت ہو۔

مکہ مکرمہ کا وہ تاریخی مکان (بائیں جاب) جہاں آنحضورؐ پیدا ہوئے۔
مکہ مکرمہ کا وہ تاریخی مکان (بائیں جاب) جہاں آنحضورؐ پیدا ہوئے۔

دودھ ماں کی تلاش میں دِقّتیں

مکہ کے شریف اور امیر گھرانوں کا دستور تھا کہ جب ان کے نوزائیدہ  بچےآٹھ دن کے ہو جاتے تو وہ انھیں دُودھ پلانے والی ایسی مخصوص عورتوں کے حوالے کر دیاکرتے  جو صحراؤں میں رہتی تھیں۔ ان عورتوں کو فن دایہ گری میں خاص مہارت ہوتی تھی۔ وہ شرفاء شہر کے ان شیرخوار بچوں کو اپنے ساتھ صحرا کی کھلی فضا میں لے جاتیں اور وہیں اُن کی تربیت اور پرورش میں مصروف ہو جاتیں ۔ ان خدمات کا اُنھیں باضابطہ معاوضہ ملتا۔ بچوں کی پرورش کرنے والی یہ صحرانورد عورتیں اکثر مکہ میں آتی جاتی رہتیں اور اپنی پسند کے شیر خوار بچوں کی تلاش میں رہتیں۔ جب ایسے بچے ذرا سیانے ہو جاتے تو انھیں ان کے والدین کو لوٹاکر اپنی محنت کا معقول معاوضہ وصول کر لیتیں۔ 

آنحضرتؐ کی ولادت کے چند روز بعد مکہ کے نواحی صحراؤں کی چند دایہ عورتیں شیر خوار  بچوں کی تلاش میں قافلہ کی صورت شہر میں داخل ہوئیں۔ اس قافلہ میں بوڑھی اور لاغر حلیمہ سعدیہ بھی شامل تھیں۔ اتفاق سے قافلے کی سب عورتوں کو کوئی نہ کوئی شیر خوار بچہ مل گیا۔ مگر ضیف و ناتواںحلیمہ کی گود خالی کی خالی رہی۔ حضورؐ کی والدہ نے تقریباً تمام عورتوں سے آپ کے لیے بات چیت کی مگر اس خیال سے کہ ایک یتیم بچے کے گھر سے کیا معاوضہ ملے گا ہر دایہآپ کو گود لینے سے صاف انکار کرتی رہی ۔ 

جب حضرت آمنہ نے بی بی حلیمہ کو اس کام کے لیے آمادہ کرنے کی کوشش کی تو اس کے دل میں یہی خیال آیا کہ وہ ایک یتیم بچے کو لے کر کیا کرے گی۔ اُس کی بے سہارا والدہ پرورش کی محنت کا معقول معاوضہ کیسے ادا کر سکے گی۔

چنا نچہ باقی دایوں  کی طرح اُس نے بھی ننھے محمدؐ کو گود میں لینے سے معذوری ظاہر کر دی ۔ اتنے میں دایہ عورتوں کا قافلہ صحرا کی جانب واپسلوٹنے لگا تو حلیمہ کو کوئی کام نہ ملنے سے فکر دامن گیر ہوئی۔ وہ سخت شش و پنج میں پڑ گئی ، اس نے اپنے خاوند حارث سے صلاح مشورہ شروع کیا۔ اُس کا خیال تھا کہ خالی ہاتھ گھرلوٹنے سے بہتر ہے کہ اس یتیم بچے ہی کو ساتھ لے لیا جائے ، جسے گود لینے کو کوئی بھی راضی نہ ہوتا تھا۔ حارث کو بھی یہ بات پسند آگئی۔ وہ بولا  ” ہاں، یہ ٹھیک ہے ۔ کیا عجب کہ ہمارے لیے اسی میں بہتری ہو ” چنانچہ حلیمہ نے بالآخر حضرت آمنہ کی تجویز قبول کر لی اور حضورؐ کو گود میں لے لیا۔

مریل گدھی اور بوڑھی اونٹنی

اس رسمی کارروائی کے بعد دونوں میاں بیوی قافلہ کے ہمراہ اپنے صحرائی خیمہ کی طرف لوٹنے کی تیاری میں مصروف ہو گئے ۔ حلیمہ کے پاس سواری کیلئے فقط بھورے رنگ کی ایک دبلی پتلی گدھی اور دودھ کے لیے ایک بوڑھی اونٹنی تھی۔ اُن دنوں مکہ کے گرد و نواح کا علاقہ سخت خشک سالی اور شدید قحط کی زد میں تھا۔ جانوروں کے لیے چارہ وغیرہ  مہیا کرنے میں بہت دقتیں پیش آتی تھیں ۔ آتی دفعہ حلیمہ بی بی اس دُبلی پتلی اوربھوکی پیاسی گدھی پر سوار ہو کر بڑی مشکل سے مکہ پہنچی تھیں۔ راستہ میں اُن کی مریل گدھی قافلہ کیباقی گدھیوں سے بار بار پیچھے رہ جاتی تھی ۔ اس کی ہمسفر عورتوں کو علیمہ کی اس سست رفتاری پر بہت الجھن محسوس ہوتی تھی اور وہ غصے میں حلیمہ بی بی کو سارا راستہ کوستی چلی آئیں تھیں ۔

ننھے محمدؐ کی والدہ سے بات طے ہو گئی تو بی بی حلیمہنے آپ کو سینے سے لگا لیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے اُن کی خشک چھاتی میں دودھ اُتر آیا ۔ حضورؐ نے خوب جی بھر کے دُودھ پیا۔ آپ کے ساتھ حلیمہ  بی بی کے اپنے بچے یعنی آپ کے دُودھ بھائی نے بھی خوب سیر ہو کر دودھ پیا۔ اور دونوں بچے اطمینان سے سو گئے۔ حلیمہ حیران بھی تھیں اور خوش بھی ۔ انھیں اچھی طرح یاد تھا کہ انھوں نے اس سے پہلی رات پریشانی کے عالم میں جاگ کر کاٹی تھی ۔ کیونکہ ماں کا دودھ نہ ملنے کی وجہ سے اُن کا بچہ رات بھر روتا رہا تھا ۔ اُسے اوٹنی کا دودھ بھی میسر نہ آسکا تھا کیونکہ بوڑھی اونٹنی کے تھن بھی خشک تھے ۔

بی بی حلیمہ کا شوہر حارث اپنی بوڑھی اونٹنی کے پاس گیا تو کیا دیکھتا ہے کہ اُس کے تھن دودھ سے لبالب بھرے ہوئے ہیں۔ جب اُسے دو ہا گیا تو اُس سے دُودھ بکثرت حاصل ہوا۔ جسے میاں بیوی نے خوب سیر ہو کر پیا اور وہ رات اُنھوں نے سکون سے گزاری ۔ صبح ہوئی تو حارث نے حیرت سے کہا : "اے حلیمہ! مجھے تو پختہ یقین ہونے لگا ہے کہ جس بچے کو ہم نے گود میں لیا ہے، برکتوں والی کوئی خاص ہستی معلوم ہوتا ہے ” حلیمہ مسکرائیں اور بولیں : ” مجھے بھی ایسے ہی دکھائی پڑتا ہے۔ کیونکہ ہم پر تو ابھی سے ہی برکتوں اور نعمتوں کی بارش شروع ہو چکی ہے ۔ جب وہ اپنے صحرائی گاؤںلوٹنے کے لیے تیار ہو گئے تو حلیمہ نے اپنی مریل گدھی پر سوار ہو کر ننھےمحمدؐ کو گود میں بٹھا لیا اور باقی قافلے کے ساتھ شامل ہو گئیں۔

قدرت خدا کی وہی مریل گدھی جو آتی  دفعہ بار بار سب سے پیچھے رہ جاتی تھی اور سب کی پریشانی کا باعث بنی ہوئی تھی اس بار آگے آگے بھاگنے لگی۔ یہاں تک کہ قافلے کی باقی عورتیں بار بار چلاتی : ”اری حلیمہ ، ذرا دھیرے دھیرے چل۔ یہ وہ مریل گدھی تو دکھائی نہیں دیتی جس پر سوار ہو کر تو ہمارے ساتھ گھر سے نکلی تھی ” جبحلیمہ  انھیں کہتیں کہ یہ تو وہی گدھی ہے تو کسی کو یقین نہیں آتا تھا ۔

شام کے قریب بی بی حلیمہ تھے محمدﷺ کو خوشی خوشی اُٹھائے اپنے صحرانی خیمہ پہنچ گئیں ۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top