بی بی حلیمہ تھےمحمدؐ کو گود میں لیے بخیریت تمام اپنے صحرائی گاؤں پہنچ گئیں ۔ اس سال قحط کی وجہ سے چراگاہوں میں سبزہ وغیرہ کا نام ونشان تک نہ تھا۔ چنانچہ بکریاں پالنے والے چرواہوں کو بہت دقتوں کا سامنا تھا۔ مگر جب حلیمہ کی بکریاں چراگاہ سے لوٹتیں تو دودھ سے بھری ہوتیں ۔ دوسرے لوگ جب اپنی بکریاں دوہتے تو خشک تھنوں سے دُودھ کا ایک قطرہ تک ہاتھ نہ آتا۔ مگر حلیمہ کی بکریوں میں دُودھ کی ریل پیل تھی۔ دونوں میاں بیوی جی بھر کے دُودھ پیتے اور بچوں کو بھی پلاتے ۔ گاؤں کے باقی چرواہوں کو حلیمہ کی بکریوں پر بہت رشک آتا تھا۔ وہ اپنی بکریوں کو بھی اُسی جگہ چرواتے جہاں حلیمہ کی بکریاں چرتی تھیں۔ مگر اس سے کوئی فرق نہ پڑتا۔ اُن کی بکریاں ویسی کی ویسی بھوکی پیاسی لوٹتیں اور دودھ کا ایک قطرہ تک نہ دیتیں۔ چنانچہ رفتہ رفتہ گھر گھر اس بات کا چرچا ہونے لگا کہ بی حلیمہ نے جس بچے کو گود لیا ہے اُس میں خیرو برکت کا کوئی خاص ہی راز پوشیدہ ہے۔
پانچ سال صحرا میں
بی حلیمہ کی ایک نیک خصلت بچی شیماء بھی تھی۔ اُسے آنحضرتؐ سے بہت اُنس تھا۔ وہی آپؐ کو کھلایا پلایا کرتی تھی ۔ حلیمہ ہر چھ سات ماہ بعد حضورؐ کو مکہ لے آتیں اور آپؐ کی والدہ ماجدہ اور رشتہ داروں کو دِکھاکر واپس لے جاتیں۔ جب آپؐ دو برس کے ہوئے تو آپؐ کا دودھ چھڑوا دیا گیا ۔ آپؐ شکل و صورت سے بہت صحت مند نظر آتے تھے۔ بی حلیمہ آپؐ کو لے کر حضرت آمنہ کی خدمت میں حاضر ہوئیں ۔
حلیمہ اب تک اپنی آنکھوں سے دیکھ چکی تھیں کہ وہی ننھا مُنّا یتیم جسے گود لینے کے لیے کوئی بھی تیار نہ ہوتا تھا ، کس قدر حیرت انگیز بچہ تھا۔ انھیں آپؐ سے بے پناہ انس بھی ہو چکا تھا۔ اس لیے وہ آپ کو کچھ عرصہ اور اپنے ہاں رکھنا چاہتی تھیں۔ چنانچہ انھوں نے حضرت آمنہ سے اس خواہش کے بارے میں بات چیت کی۔ اپنی بات پر اصرار کرتے ہوئے بی حلیمہ نے کہا ” صحرا کی کھلی فضا ننھے محمدؐ کو بہت راس آئی ہے۔ ویسے بھی مکہ میں وبا پھیلی ہوئی ہے اس لیے بہتر یہی ہو گا کہ آپ اس نیک شگون بچے کہ کچھ عرصہ اور میرے صحرائی خیمہ ہی میں رہنے کی اجازت دے دیں "
یہ استدلال اس قدر معقول تھا کہ حضرت آمنہ کچھ عرصہ اور اپنے لخت جگر سے جدا رہنے پر راضی ہو گئیں۔ چنانچہ حضور کچھ اور مدت کے لیے حلیمہ کی تحویل میں رہائش کے لیے لوٹا دیے گئے ۔ جُوں جُوں آپ بڑے ہوتے گئے
آپ اپنے دُودھ بھائیوں کے ساتھ اکثر بکریاں چرانے بھی نکل جایا کرتے تھے۔ بکریاں چرانے اور گلہ بانی کے ابتدائی تجربہ کے علاوہ آنحضورؐ کو بعد کی زندگی ہیں بھی اس دلچسپ اور مفید شغل کا موقع ملتا رہا۔ چنانچہ آپ کئی سال تک اپنے خاندان اور مکہ کے بعض دیگر اشخاص کی بکریاں چراتے رہے ۔ گلہ بانی کے دوران آپ کو کائنات اور زندگی پر غور کرنے کے مواقع ملتے رہے۔ آپ اپنے اس تجربہ کا ذکر بڑے فخر سے کرتے اور اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کی کرتے تھے۔
ننھے محمد ﷺکی گُم شُدگی
جب آپ پانچ برس کے ہوئےتو بی حلیمہ نے سوچا کہ اب آپؐ کو اپنی والدہ کے پاس لوٹا دینا چاہیے۔ چنانچہ وہ آپ کو لے کر مکہ چلی گئیں اتفاق سے آپ ان سے چھوٹ کر لوگوں کی بھیڑ بھاڑ میں کھو گئے۔ حلیمہ کے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی۔ انھوں نے بہتیرا تلاش کیا مگر آپؐ کا کوئی سراغ نہ ملا۔ تھک ہار کر وہ روتی چلاتی آپ کے دادا سردار عبد المطلب کے پاس پہنچیں اور اُنھیں سارا واقعہ کہہ سنایا ۔ حضرت عبد المطلب سخت پریشان ہوئے اور آپ کے مل جانے کی دُعائیں کرتے ہوئے سیدھے خانہ کعبہ جا پہنچے۔ ابھی وہاں کھڑے ہی تھے کہ آپ کوورقہ بن نوفل اور قریش کے ایک اور نوجوان ملے ۔ وہ حضورؐ کو اُٹھائے ہوئے تھے۔ انھوں نے بتایا کہ ننھامحمدؐ انھیں مکہ کی پہاڑیوں میں ملا تھا۔ حضرت عبدالمطلب نے دونوں نوجوانوں کا شکریہ ادا کیا۔ آپ نے حضورؐ کو کندھے پر بٹھا لیا ۔ خانہ کعبہ کے گرد گھومتے رہے اور اپنے پوتے کے لیے دُعائیں مانگتے رہے۔ اس کے بعد انھوں نے آپؐ کو اپنی والدہ کے ہاں بھجوا دیا۔
سفر میں والدہ کی وفات
حضورؐ کی والدہ آپؐ کو پا کر بے حد خوش ہوئیں۔ چنانچہ آپ اپنے گھر میں اپنی والدہ ماجدہ کے ساتھ ہنسی خوشی رہنے لگے ۔ نگہداشت کے لیے ایک نیک خصلت خاتون اُمِّ ایمن، آپؐ کی دا یہ مقرر ہوئیں ۔ آپؐ تقریباً چھ برس کے تھے کہ آپؐ کی والدہ نے سوچا کہ مدینہ لے جا کہ آپ کو اپنے ماموں سے ملایا جائے اور اپنے والد ماجد کی قبر بھی دکھائی جائے۔ چنانچہ آپ کی والدہ آپ، آپ کے دادا عبدالمطلب اور آپ کی دایہ اُمِّ ایمن کو ساتھ لے کر مدینہ کی جانب روانہ ہوئیں ۔
مدینہ میں ان لوگوں نے ایک ماہ قیام کیا۔ آپؐ نے وہاں وہ مکان بھی دیکھا جس میں آپ کے والد محترم کا انتقال ہوا تھا۔ غم زدہ والدہ نے آپؐ کو آپؐ کے والد ماجد کے حالات سُنائے ہوں گے۔ چنانچہ اُن دنوں آپ کو اپنی یتامت کا احساس ہونے لگا۔ پھر یہ لوگ مکہ لوٹنے کے لیے روانہ ہوئے ۔مگر ابھی راستے ہی میں تھے کہ ابواء نامی گاؤں میں آپؐ کی والدہ ماجدہ بیمار ہوئیں اور وفات پاگئیں ۔ اُنھیں وہیں دفن کر دیا گیا ۔
ننھے محمدؐ پیاری والدہ کی اچانک موت پر آبدیدہ ہو گئے ۔ اُنھوں نے والدہ کو والد کی ناگہانی موت پر چُپکے چُپکے آنسو بہاتے دیکھا تھا۔ اب جب آپؐ کی والدہ بھی آپ کو تنہا چھوڑ کر دنیا سے رُخصت ہو گئیں تو یتیمی کا پورا بوجھ آپؐ کے نازک کندھوں پر آپڑا ۔ آپؐ بے حد افسردہ خاطر ہوئے۔ شفیق دا یہ اُمِّ ایمن نے آپ کی دلجوئی کی اور دلاسے دیتی ہوئی آپؐ کو اپنے ساتھ لے کر مکہ واپس پہنچ گئیں ۔
پرانی یادیں ، پرانی محبتیں
اگر چہ اس سفر میں مدینہ میں آپؐ کا قیام بے حد مختصر تھا تاہم پھر بھی کئی باتیں آپؐ کے حافظہ میں جوں کی توں محفوظ رہ گئیں۔ چنانچہ کئی سال بعد جب مدینہ سے گزرے تو ایک مکان کی طرف دیکھ کر فرمایا ” اسی مکان میں میری والدہ نے قیام کیا تھا “۔ ایک تالاب کی طرف اشارہ کر کے فرما یا” یہی وہ تالاب ہے جس میں نے پیرا کی سیکھی تھی “ ایک میدان کو دیکھا تو فرمایا : "یہی وہ میدان ہے جہاں میں ننھی انیسہ سے کھیلا کرتا تھا ۔”
اسی طرح بی بی حلیمہ اور اُمِّ ایمن کی یاد اور احترام لمحہ بھر کے لیے بھی آپ کے دل سے محو نہ ہوئے۔ آئندہ زندگی میں جب بھی وہ آپؐ کے پاس آتیں ، آپؐ احتراماً کھڑے ہو جاتے۔ میری ماں ! میری ماں !“ کہہ کر ان سے لپٹ جاتے ، اُن کے بیٹھنے کے لیے اپنی چادر اپنے ہاتھوں سے بچھاتے ، جب تک وہ بیٹھ نہ جائیں آپ احتراماً کھڑے رہتے اور ان سے اس قدر شفقت اور احترام سے باتیں کرتے کہ دیکھنے والے حیرت اور رشک سے دنگ رہ جاتے ۔
ایک دفعہ خشک سالی کی وجہ سے مکہ میں قحط پڑا تو بی بی حلیمہ حضورؐ کے پاس تشریف لائیں۔ آپؐ نے اُن کی بڑی خاطر مدارت کی۔ جب وہ واپس لوٹنےلگیں تو آپ نے انھیں ایک اونٹ اور چار بکریاں تحفہ میں پیش کیں۔
ایک مرتبہ حلیمہ بی بی کی بیٹی شیماء چند اور جنگی قیدیوں کے ساتھ آپؐ کے سامنے پیش کی گئیں ۔ آپؐ اُن سے بڑی شفقت اوراحترام سے پیش آئے اور اُن کی خواہش کے مطابق اُنھیں فوراً اپنے قبیلہ واپس بھجوا دیا۔