آزاد غزل کی تعریف اور مثالیں
ہیئت و اسلوب اور مضامین کے لحاظ سے غزل پابند ( بلکہ بعض امور کے لحاظ سے تو بند ) صنف سخن ہے لیکن جس طرح نظم کی پسلی سے آزاد اور پھر نثری نظم نے جنم لیا اس طرح پابند غزل سے آزاد غزل حاصل کی گئی۔
آزاد غزل میں (آزاد نظم کی مانند) مکمل بحر کے بجائے صرف رکن سے کام لیا جاتا ہے۔ قافیہ اورردیف البتہ برقرار رکھا جاتا ہے۔
بھارت میں سب سے پہلے آزاد غزل کا تجربہ کیا گیا اور زیادہ تر وہاں کے ناقدین نے ہی اس کے جواز اور عدم جواز پر خامہ فرسائی کی۔ چنانچہ علیم صبا نویدی کی مرتبہ ” آزاد غزل: شناخت کی حدود میں)“مدراس 1983ء( جس میں ڈاکٹر کرامت علی کرامت، مہدی جعفر، ڈاکٹر نوراکسن ہائی ، مظہر امام، مناظر عاشق ہرگانوی ظہیر غازی پوری علیم صبانویدی، ڈاکٹر عنوان چشتی، حسن، فیاض ، ظفر ہاشمی ، ناوک حمزہ پوری ، فرحت قادری، وحید امجد، اعجاز شاکری اور کاظم نالکلی کے مضامین و تاثرات شامل ہیں جبکہ راقم نے پاکستان کی نمائندگی کی۔
ڈاکٹر کرامت علی کرامت ”آزاد غزل ، ایک محاسبہ (“مطبوعہ ماہنامہ ” صریر سالنامہ جون ۔ جولائی2004ء ۔ کراچی) میں لکھتے ہیں:
آزاد غزل کا نام اس صنف سخن کے لیے چل نکلا ہے جسے مظہر امام نے1945ء میں آزمایا۔۔۔ سلیم شہزاد نے بعد میں اس صنف سخن کے لیے آزاد غزل کے بجائے ”غزلیہ کا نام تجویز کیا۔“
جگن ناتھ آزاد نے بھی مظہر اسلام کے بارے میں تحریر کردہ مضمون بعنوان ” مظہر امام وہ کہ جسے جان و دل کہوں ( مطبوعہ ماہنامہ الحمرا‘ لاہور جنوری 2004ء) میں بھی مظہر امام کو آزاد غزل کا موجد قرار دیتے ہوئے لکھا:
”مظہر امام آزاد غزل کے بھی موجد ہیں “
بھارت میں مظہر امام کے علاوہ آزاد غزل کے ان شعراء کے اسماء گنوائے جا سکتے ہیں۔ رفعت
سروش ، حرمت الاکرام، یوسف حمال، ساحر ہوشیار پوری، نازش پرتاب گڑھی ، رفعت غوری، زرینہ ثانی ، کرشن موہن ، عابد کاشمیری، آزاد گلائی ، خالد رحیم ، بدیع الزماں خاور۔
خود مظہر امام نے بھی یہی دعویٰ کیا ہے:
”میں نے محسوس کیا کہ اگر آزاد نظم ہی کی طرح آزاد غزل کہی جائے اورمصرعوں میں ارکان کی کمی بیشی روا رکھی جائے تو غیر ضروری الفاظ اور فقروں سے نجات پائی جاسکتی ہے اور خیال کو وسعت بھی بخشی جا سکتی ہے۔ میں نے غزل کے دوسرے لوازمات اور صنفی خصوصیات پر حرف نہیں آنے دیا۔ چونکہ ارکان کی کمی بیشی سے ہی آزاد نظم کی تشکیل ہوتی تھی اس لیے مجھے اس کے مقابل آزاد غزل ہی مناسب نام معلوم ہوا ۔
( بحوالہ مقالہ ” غزل کی ہیئت میں تجربات “از ڈاکٹر ارشد محمود ناشاد مطبوعہ
جمالیات (2) اٹک ۔ اپریل 2009 ء
اسی مقالہ میں مظہر امام کی پہلی آزاد غزل ( مطوعہ سہ ماہی رفتار نو در بهنگا) جنوری 1962ء)درج ہے۔
ڈاکٹر ارشد محمود ناشاد کے محولہ بالا مقالہ میں آزاد غزل اور غزل میں ہیئت کے تجربات پر سیر حاصل گفتگو کی گئی ہے اسی مقالہ سے یہ علم ہوتا ہے کہ 1995ء میں محمد اقبال نجمینے ”پاکستانی آزاد غزل“ کے نام سے ایک مجموعہ مرتب اور شائع کیا۔ اس مجموعے میں قتیل شفائی، ماجد الباقری، سجاد مرزا، محمد اقبال نجمی ، قاضی اعجاز محمور اور سعید اقبال سعدی کی آزاد غزلیں شامل ہیں۔ ان آزاد غزلوں میں ردیف اور قافیہ کا التزام رکھا گیا ہے مگر وزن کے لحاظ سے مصرعے بڑے چھوٹے ہیں۔“
تامل ناڈو کے شاعر علیم صبا نویدی کی رد کفر ( 1979)ء آزاد غزلوں کا اولین باضابطہ مجموعہ
ہے۔ پاکستان میں قتیل شفائی کا نام لیا جاسکتا ہے۔
ڈاکٹر کرامت علی کرامت مقالہ ”آزاد غزل میری نظر میں “آزاد غزل: شناخت کی حدوں
میں ص: 16) لکھتے ہیں کہ زیادہ تر آزاد غزلیں بحر ریل ، متدارک متقارب، ہرج نخبث ، مصارع میں کہی گئی ہیں اسی مقالہ میں فیض احمد فیض کی یہ آزاد غزل درج ہے:
شوق دیدار کی منزلیں
پیار کی منزلیں
دل میں پہلی ایک عشق کے نور کی
حسنِ دلدار کی منزلیں
منزلیں منزلیں
قول واقرار کی منزلیں
پھول کھلنے کے دن
حسن عالم کے گلزار کی منزلیں
قتیل شفائی کا یہ شعر درج ہے:
دیر تک جاگتے رہنے کی عادت ہے مجھ کو
آزما لےشب فرقت مجھ کو
مظہر امام نے ”آزاد غزل پر ایک نوٹ“ میں اسے ”اچھوت صنف سخن “قرار دیتے ہوئے
1945ء میں تحریر کردہ اپنی اور اردو زبان کی پہلی آزاد غزل تحریر کی ہے۔
ڈوبنے والوں کو تنکے کا سہارا آپ ہیں
عشق طوفاں ہے، سفینہ آپ ہیں
آرزوؤں کی اندھیری رات میں
میرے خوابوں کے افق پر جگمگایا جوستارہ آپ ہیں
کیوں نگاہوں نے کیا ہے آپ ہی کا انتخاب
کیا زمانہ بھر میں یکتا آپ ہیں؟
میری منزل بے نشاں ہے لیکن اس کا کیا علاج؟
میری ہی منزل کی جانب جادہ پیما آپ ہیں
ہائے وہ ایفائے وعدہ کی تحیر خیزیاں
ان کی آہٹ پر ہی گھر کا کونا کونا چیخ اٹھا تھا کہ”اچھا آپ ہیں“
(آزاد غزل شناخت کی حدوں میں ص: 75-74)
آزاد غزل تجربہ کی حد تک تو رہی لیکن یہ باضابطہ تحریک کی صورت اختیار نہ کر سکی۔ حالانکہ آزاد غزل گو شعراء میں معروف نام بھی نظر آتے ہیں۔ دراصل مروّج غزل سے قاری کی جو کنڈیشننگ ہو چکی ہے، آزاد غزل کی صورت میں قاری کو جوڈی کنڈیشننگ کرنا پڑتی ہے اس کی وجہ سے آزاد غزل اگر بے معنی نہیں تو کم از کم بے نمک ضرور نظر آتی ہے۔ اصل کمال فنی پابندیاں تو ڑ کر شاعری کرنے میں نہیں بلکہ اصل کمال صنف کی حدودو قیود میں رہتے ہوئے اچھی شاعری کرنا ہے۔
مزید مطالعہ کے لیے ملاحظہ کیجیے۔ ماہنامہ شاعر ۔ نثری نظم اور آزاد غزل نمبر ( بمبئی : 1983ء)
مآخذ: تنقیدی اصطلاحات از ڈاکٹر سلیم اختر
-
انشائیہ کی تعریف اور روایت
-
انشا کی تعریف
-
امیجری کی تعریف اور مثالیں
-
امتزاجی تنقید کی تعریف
-
امالہ کی تعریف اور مثال
-
الہام
-
ارسطو کا تصور المیہ/Tregedy
-
مختصر ترین افسانہ / مختصر مختصر افسانہ
-
افسانہ / مختصر افسانہ کی تعریف
-
علامتی افسانہ کی تعریف
-
طویل مختصر افسانہ کی تعریف
-
تجریدی افسانہ کی تعریف
-
اظہاریت کی تعریف
-
اظہار کی تعریف | (Expression)
-
اصطلاح / اصطلاح سازی کی تعریف
-
اشاریہ کی تعریف
-
اسلوبیاتی تنقید کی تعریف
-
اسلوب کی تعریف اور اہمیت
-
استقرائی تنقید (Inductive Criticism) | منطق استقرائی
-
اسپرانتو (Esperanto)
-
اردو نثر میں ادب لطیف اور رومانیت
-
ادب کیا ہے؟
-
ادب کی لفظی/ لغوی و اصطلاحی تعریف
-
ابہام (Ambiguity)
-
ابلاغ (Communication)
-
آورد
-
آمد
-
آزادنظم (Verse Libry / Free Verse)
-
آزاد غزل کی تعریف
-
آپ بیتی