بحر کی تعریف

فرہنگ آصفیہ کے بموجب “وزنِ شعر (مجازاً) نظم کے 19 وزنوں میں سے ہر ایک وزن کو بحر کہتے ہیں ۔ اس امر کے تعین کے لیے شعر میں بحر درست ہے جو عمل کیا جاتا ہے اسے تقطیع کرنا ( قطع کرنا ،ٹکڑے کرنا) کہا جاتا ہے۔ تقطیع کے اصول و قواعد مقرر ہیں اور ان سے روگردانی نا پسندیدہ ہے لیکن اچھے اچھے شاعروں سے بھی چوک ہو جاتی ہے۔ تب یہ معاملہ ہوتا ہے:
بحر رجز میں ڈال کے بحر رمل چلے
اس غلطی کو اصطلاح میں ” تحرید” کہتے ہیں۔ اسی لیے بعض اوقات شعراء یہ کہتے پائے گئے:
من نه دانم فاعلاتن فاعلاتن فاعلات
تقطیع میں یہ اصول اساسی اہمیت رکھتا ہے کہ زبان سے ادا ہونے والے حروف تقطیع میں آتے ہیں لیکن وہ حروف جو بولنے میں تو ادا نہیں ہوتے لیکن لکھنے میں آتے ہیں وہ تقطیع میں نہیں آتے ۔ اشعار کی بحر کی جانچ کے لیے جو آٹھ مخصوص الفاظ ہیں وہ رکن “ کہلاتے ہیں۔ فعلن فعولن فاعلن مفاعیلن ، فاعلاتن، متفاعلتن منفعلن اور مفعولات ۔ بعض اوقات ضرورت شعری کے تحت ارکان کے حروف میں کمی بیشی کر لی جاتی ہے۔ اسے اصطلاح میں زحاف ( جمع زحافات) کہتے ہیں۔ چند معروف بحروں کے نام: متقارب ، رجز ، رمل، ہنرج ، متدارک
دیکھے : وزن
اگر چہ شعراء بحور کی پابندی کرتے رہے ہیں لیکن اس کے باوجود اس ضمن میں اظہارِ بے زاری بھی کیا گیا۔ مولانا روم کہتے ہیں:

من ندانم فاعلاتن فاعلات
شعر می گویم به از قندد نبات


مآخذ: تنقیدی اصطلاحات از ڈاکٹر سلیم اختر

اگر آپ چاہیں تو یہ بھی پڑھ سکتے ہیں

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top