اردو ڈراما کا آغاز و ارتقاء

اردو ڈرامے کی ابتدا کب ہوئی اس پہ سیرحاصل بحث تاریخِ ادب میں موجود ہے۔ اس لیے کوئی بھی حتمی رائے قائم کرنا ذرا مشکل ہے۔ پہلا نظریہ ہے کہ سنسکرت کا ڈراما شکنتلا کا اردو ترجمہ بادشاہ فرخ سیر کے دور میں نواز نامی ایک شاعر نے کیا جسے اردو زبان کا پہلا ڈراما کہا جا سکتا ہے۔ لیکن بعض ناقدین کا ماننا ہے کیونکہ یہ ترجمہ برج بھاشا میں تھا اس لیے اسے اردو ترجمہ کہنا مناسب نہ ہو گا۔
”نواز نامی ایک مصنف نے فرخ سیر کے عہد میں شکنتلا کا ترجمہ بھاشا میں لکھا۔ (44)
ایک نظریہ یہ بھی ہے کہ کاظم علی جوان نے فورٹ ولیم کالج کے زیرِ انتظام 1801 میں شکنتلا کا ترجمہ برج بھاشا سے اردو میں سُکنتلا ناٹک کے نام سے کیا۔
”کاظم علی جوان کی یہ شکنتلا اردو میں پہلا ناٹک یا ڈراما ہے۔ (45)“
اس لیے یہ بات وثوق سے نہیں کہی جا سکتی کہ باقاعدہ اردو کا پہلا ڈراما کون سا ہے۔ اس بارے میں اسلم قریشی کی تحقیق ہے:
” کاظم علی جوان کا سُکنتلا ناٹک، اور نواز کے برج بھاشا کے منظوم قصے ، کالی داس کے سنسکرت ڈرامے “شکنتلا “ کا ترجمہ ہر گز نہیں ہیں۔(46) “
اردو ڈرامے کی تاریخ کی روشنی میں اس امر کی وضاحت نہایت ضروری تھی جسے بالائی سطور میں واضح کیا گیا ہے۔
دوسرا نظریہ یہ ہے کہ واجد علی شاہ کی مثنوی”افسانہ عشق(“رادھا کنھیا کی داستانِ محبت)سب سے پہلے ڈرامائی انداز میں پیش کی گئی ۔ لیکن افسوس اب اس کے ایک دو نسخے ہی دستیاب ہیں ۔
” قرائن سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اُردو ڈراما کا پہلا نقش افسانہ عشق تھا۔ جو رہس)کرشن جی اور گوپیوں کے ناچ کی نقل‏، ناچ رنگ کی محفل( یا اوپرا کی شکل میں پیش کیا گیا اور اس طرح اردو کے سب سے پہلے ڈراما نگار سلطان واجد علی شاہ تھے۔ اور ان کے بعد سیّد امانت نے اندر سبھا کا دوسرا نقش پیش کیا۔ (47)“
تاریخ اردو ڈراما پہ نظر رکھتے ہوئے راقم کا خیال یہ ہے کہ سید امانت لکھنوی سے پہلے بہت سے جلسے اور رہس ہوئے ہوں گے لیکن جو پہلا ڈراما سٹیج کیا گیا جسے فنی اعتبار سے ڈراما کہا جانا چاہیے وہ اردو ڈرامے کا نقشِ اول”اِندر سبھا “ہی ہے۔ گو کہ مشہور نقاد جنھوں نے اردو ڈرامےکےحوالے سے چار جلدیں لکھیں ہیں۔ اُن کی تحقیق کے مطابق :
” اب تک ہم کو یہ بات باور کرانے کی کوشش کی گئی ہے کہ اردو ڈراما اندر سبھا ہے جو امانت لکھنوی نے1853-54ء میں تصنیف کیا۔۔۔اصل یہ ہے کہ جس زمانے میں امانت لکھنوی۔۔۔اندرسبھا لکھ رہے تھے اسی زمانے میں اردو ڈرامے عام طور پر گرانٹ روڈ کے ”بمبئی تھیٹر “ میں دکھلائے جا رہے تھے۔(48) “
اپنے اس دعویٰ کی دلیل میں وہ اردو تھیٹر کے باب میں”راجہ گوپی چند اور جالندھر“کو اردو کا پہلا سٹیج ڈراما گردانتے ہیں۔
”اگرچہ اردو سٹیج کی ابتدا ایک مذہبی ڈراما راجہ گوپی چند اور جالندھر سے ہوئی۔ (49)“
اردو ڈرامے کی ابتداکی بحث کو سمیٹے ہوئے ڈاکٹر طاہر شہیر لکھتے ہیں:
”اندر سبھا کی تاثیریت کے پیشِ نظر ڈاکٹر نامی کے منقولہ بیان کو ڈرامے کے نقش اول کی بجائے، تھیٹر کے آغاز کے تناظر میں پڑھا جانا چاہیے۔ اس امر سے اتفاق کیا جاسکتا ہے کہ ہندوستان میں تھیٹر کا آغاز اودھ میں اندر سبھا کی پیش کاری سے قبل بمبئی میں ہو چکا تھا۔ “(50)

اندر سبھا کا تنقیدی جائزہ

”اندر سبھا “اردو کا باقاعدہ پہلا منظوم ناٹک یا ڈراما ہے۔ جو 1270 ہجری بمطابق 1853 عیسوی میں مکمل ہوئی۔ اس کی زبان نہایت سلیس اور فصیح ہے۔ گو کہ کچھ گانے ہندی میں ہیں لیکن یہ اس دور کی عام بول چال کی زبان ہے۔
اندر سبھا جو سٹیج کیا گیا تو اس کی کیفیت کچھ یوں تھی:
” ایک سُرخ پردہ تان دیا جاتا تھا جس کے پیچھے اداکار بن سنور کر بہروپ بھر کر بیٹھ جاتے تھے۔ ایک شخص پردہ کے سامنے اسٹیج پر آ کر اداکار کی آمد کا اعلان کرتا۔ مہتابی چھوٹتی اور پردہ ہٹایا جاتا۔ اور اداکار تماشائیوں کے سامنے نمودار ہو کر انھیں جھک کر سلام کرتا۔ پھر موسم کے لحاظ سے ہولی یا کوئی گانا گاتا۔ بعد ازاں اصل ڈراما شروع کرنے کےلیے اپنے پارٹ کا ابتدائی حصہ ادا کرتا۔ (51)“
جہاں تک قصے کا معاملہ ہے تو اس پہ میر حسن اور نسیم کی مثنویوں کا رنگ غالب اور سٹیج پر نبھانے کے حوالے سے رام لیلا اور اسی نوع کے مختلف ڈراموں کا اثر جھلکتا ہے۔ اور اگر کہانی کی بات کی جائے تو اس پہ سید وقار عظیم کا بیان ملاحظہ ہو:
”اندرسبھا میں کہانی کی اہمیت کا احساس سرے سے ناپید ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کردار اور مکالمے کا تصور بھی اس میں بالکل نہیں۔ سب سے زیادہ، بلکہ پورا زور رقص و سرور پر صرف کیا گیا ہے۔“ (52)
اندر سبھا کی ابتدا اشعار سے ہوتی ہے۔

؎سبھا میں دوستو اِندر کی آمد آمد ہے
پری جمالوں کے افسر کی آمد آمد ہے

تعارف کا پہلا شعر

؎ راجا ہوں میں قوم کا اِندر میرا نام
بِن پریوں کی دید کے مجھے نہیں آرام

اِندر سبھا پڑھنے والے کو یہ خوب اندازا ہو جاتا ہے کہ اس کھیل کا محور موسیقی اور رقص ہے۔ یہ ناٹک راجا اِندر کی کہانی ہے جو اپنی سبھا سجانے کا حکم دیتا ہے۔
اس کے مرکزی کرداروں میں راجا اِندر جو عیش و کامرانی کا دیوتا اور تمام دیوتاؤں کا راجا ہے۔ پکھراج پری، نیلم پری ، لال پری، سبز پری، دیو گلفام ، کالا دیو، لال دیو اورہندوستان شہزادہ شامل ہیں۔ جس میں سبز پری کو گلفام سے عشق ہو جاتا ہے۔ اس کا پلاٹ انتہائی سپاٹ ہے لیکن اس زمانے کے اعتبار سے قابلِ قبول تھا۔
اس قصے کے بارے میں محمد عمر نور الہٰی لکھتے ہیں:
”ظاہر میں یہ دیو پری کا ایک بے سرو پا قصہ معلوم ہوتا ہے لیکن حقیقت میں ایک مرادی افسانہ ہے(Allegory) ۔ جس کے ذریعے سے امانت نے پاسِ شرافت اور حسن و عشق کے نہایت نازک اور اہم معاملات کو فوٹو کھینچ کر دکھایا ہے۔ “ (53)
مولانا موہانی فرماتے ہیں:
”زبان و بیان کی خوبیوں کے علاوہ موسیقی کے لحاظ سے بھی امانت نے اندر سبھا کو دلچسپ بنانے میں کوئی دقیقہ اٹھا نہیں رکھا۔ ہولی، ٹھمری، بسنت،ملار ساون ، غزل ہر قسم کی چیزیں لکھی ہیں۔ اور ایسی لکھی ہیں جو مختلف دھنوں میں گائی جاتی ہیں۔ میں نے ایک استاد سے سُنا ہے کہ اندر سبھا کے گانوں میں ایک بڑا حصہ تمام راگ اور راگنیوں کا آجاتا ہے۔ زبان و بیان کے لحاظ سے دیکھیے تو بھی اندر سبھا امانت کی سب تصانیف میں سب سے ممتاز پائی جائے گی۔ اس میں جا بجا درد نہیں تو زور ضرور ہے۔ اور زبان بھی بیشتر رعایتوں کی قید سے آزاد ہے۔(54) “

؎زروئے وجد بول اٹھے پری زاد
خلائق میں ہے دھوم اِندر سبھا کی

اندر سبھا کی دھوم آہستہ آہستہ پورے ہندوستان میں پھیلنے لگی ۔ ڈھاکہ اور بمبئی میں اردو ڈرامے کا طوطی بولنے لگا۔ اسے لیے سید وقار عظیم نے اسے اُردو کا اندر سبھائی دور کہا ہے۔ اور اس بارے میں عشرت رحمانی رقمطراز ہیں:
”۔۔۔امانت کی اندر سبھا کھیلی جانے لگی۔۔۔ اُردو اسٹیج کا ذوق و شوق کافی ترقی کرنے لگا۔ اسی عرصے میں شیک پیر بخش کانپوری نے اندر سبھا کی طرز پر ایک ناٹک ”ناگر سبھا“ لکھا۔اس وقت ڈھاکہ میں چھوٹی موٹی متعدد ناٹک سبھائیں قائم تھیں۔ لیکن ان میں سب سے زیادہ مشہور اور بلند پایہ شیخ فیض بخش کی کمپنی ”فرحت افزا تھیٹریکل کمپنی“ سمجھی جاتی تھی۔ جو باقاعدہ تجارتی انداز پر قائم تھی۔ نفیس کانپوری اس کمپنی کے خاص ڈراما نویس تھے۔ مختلف ڈراما نگاروں کے لکھے ہوئے 30۔35 کھیل اس وقت تک تمثیل کیے جا چکے تھے۔ ناگر سبھا بھی اسی کمپنی نے کھیلا۔ “ (55)

اس دور کے مشہور ڈرامے

اس کے بعد 1856ء کے اوائل میں ماسٹر احمد حسین وافر نے ایک ڈراما ”بلبل بیمار “لکھا ۔ جس میں انھوں نے پہلی بار نظم کے ساتھ مکالمے بھی لکھے۔ اسی لیے بلبلِ بیمار کو اردو کا پہلا نثری ڈراما بھی مانا جاتا ہے۔ جس کی نثر سلیس اور شستہ ہے۔ لیکن اسے ابتدائی کوشش کے سوا کچھ نہیں کہا جا سکتا ہے۔
دوسری جانب ممبئی میں بھی اردو ڈرامے داغ بیل ڈل چکی تھی۔ یہاں پارسیوں کے لکھے ہوئے کچھ منظوم ڈرامے اسٹیج ہو چکے تھے۔ یہاں 19 تھیٹریکل کمپنیوں کے قیام کا سراغ ملتا ہے جن میں اکثر اُردو ڈرامے سٹیج ہوتے تھے۔ ممبئی میں بلا شبہ اسے پارسیوں کی ڈراما نگاری کا دور کہا جا سکتا ہے۔
1870 کی دہائی میں دادا بھائی پٹیل نے وکٹوریہ ناٹک منڈی خریدی تو ایک منظوم ڈراما ”بےنظیر بدر منیر “خان صاحب نوشیروان جی مہروان جی آرامؔ سے لکھوایا۔
اس دور کے مشہور ڈرامے:
خورشید اور نور جہاں، لعل وگوہر، پدماوت، لیلیٰ مجنوں، گوپی چند ، حاتم طائی، باغ و بہار، گل بکاؤلی وغیرہ مشہور ہوئے۔
اس عہد میں دوسری مشہور کمپنی الفرید تھیٹریکل کمپنی تھی۔ اس کے لیےمہدی حسن، احسن لکھنو ، بیتاب بنارسی اور پھر آغا حشر نے ڈرامے لکھے۔
انیسوی صدی کے آخر تک اردو ڈراموں کا طرز ایک سا ہے جس میں منظوم ڈرامے کثرت میں سٹیج کیے گئے جن میں ناچ گانا کو زیادہ اہمیت دی گئی، ان ڈراموں کا مقصد اعلیٰ لوگوں کو تفریح فراہم کرنا تھا۔ کیونکہ جو کمپنیاں ان ڈراموں کو لوگوں تک پہنچا رہی تھیں ان کو وہاں کے رئیسوں اور نوابوں کی سرپرستی حاصل تھی۔ جو کہ خالص تفریح اور کاروباری مقاصد کو مدِ نظر رکھتے تھے۔ اس لیے خیال کی ندرت بھی خال خال ہی ملتی ہے۔
احسن لکھنوی اور بیتاب بنارسی یہ ایسے دو اشخاص تھے جنھوں نے اگر ذرا سے بھی مختلف کام کیا تو داد پائی۔ اسی دور کے ایک اور ڈراما نگار حافظ محمد عبداللہ ہیں۔ جنھوں نے انڈین امپیریکل تھیٹریکل کمپنی کی بنیاد رکھی۔

تھیٹریکل کمپنیاں

انیسویں صدی کی آخری تین دہائیاں اردو سٹیج کی ابتری کا زمانہ ہے گو پارسیوں نے اردو ڈراما کی ترویج میں اہم کردار کیا ۔ اُس دور میں تقریباً 27 تھیٹریکل کمپنیاں وجود میں آئیں لیکن صرف 6 ہی باقی رہ سکیں۔
 پارسی وکٹوریہ ناٹک کمپنی
 پارسی اوریجنل تھیٹریکل کمپنی
 وکٹوریہ ناٹک منڈلی
 الفریڈتھیٹریکل کمپنی
 نیو الفریڈ تھیٹریکل کمپنی
 اولڈ پارسی تھیٹریکل کمپنی(56)
یہ وہ دور تھا جب ہندوستان سیاسی و معاشرتی سطح پر زوال کا شکار تھا۔ جس کے اثرات اردو ڈرامے پر بھی ہوئے۔ جس میں سب سے اہم کردار غیر پیشہ ور ڈراما نگاروں کا ہے۔ اس کے علاوہ جو تماشا گر تھے اُن میں بھی قحط الرجال کا زمانہ تھا۔
اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اردو کے نامور اور اچھے لکھاری ڈراما لکھنے کو معیوب تصور کرتے تھے۔ عام اور قابلِ قبول قسم کے شاعر اور ڈراما نگار اس شعبے کی جانب متوجہ رہے جس کا خمیازہ تھیٹر نے بھگتا۔

آرام کے ڈرامے 

بہت سے نام تاریخ کے دھندلکوں میں کھو گئے۔ چند نام جو بقا کی جنگ جیت سکے اُن میں آرام، رونق، ظریف ، حافظ عبداللہ اور نظر بیگ شامل ہیں۔
آرام ایک پارسی ڈراما نگار تھے اور وہ پہلے لکھاری تھے جنھوں نے بطور پیشہ ڈراما نگاری کا آغاز کیا۔ آرام نے منظوم اور نثر دونوں میں ڈرامے لکھے۔ اس کے ڈراموں کی معلوم تعداد 23 ہے۔ جن میں سےچند یہ ہیں:
بے نظیر بدر منیر، ہوائی مجلس، لعل و گوہر اور گل بہ صنوبر چہ کرد۔

رونق کے ڈرامے 

دوسرا نام رونق کا ہےجن کا پورا نام محمود میاں رونق تھا۔ محقیقین نے انھیں بنارسی کا خطاب دیا ہے۔
نامی کی تحقیق کے مطابق:
”رونق نے صرف پارسی وکٹوریہ ناٹک منڈلی میں ملازمت کی اسی میں وہ ایک اداکار کی حیثیت سے ملازم ہوئے تھے اور اسی کے اسٹیج پر وہ خودکشی کے مرتکب ہوئے۔ ۔۔۔اپنی پوری زندگی پارسی وکٹوریہ کی خدمت میں گذار دی اور کبھی دوسری کمپنی کے لیے کوئی ڈراما نہیں لکھا۔(57) “
رونق کے مشہور ڈراموں میں ”خورشید “اور” نور جہاں (تراجم)
منظوم ڈرامے: لعل و گوہر، بے نظیر، لیلیٰ مجنوں وغیرہ
نثری ڈرامے: گوپی چند، حاتم طائی، باغ و بہار وغیرہ

میاں ظریف کے ڈرامے 

حسینی میاں ظریف، وطن میسور تھا لیکن ممبئی میں سکونت اختیار کی۔ ظریف نے امانت کے کام کو آگے بڑھایا۔ ان کے کچھ ڈراموں کے نام یہ ہیں۔
نتیجہ عصمت عرف رنج و راحت یعنی آف و مہوش، گلزار عصمت عرف نیرنگ عشق، شریف وکمینہ عرف فریب و فتنہ۔

احسن لکھنوی کے ڈرامے 

اردو ڈرامے کو ایک نیا رُخ دینے میں احسن لکھنوی کا کردار اہم ہے۔ انھوں نے نہ صرف گانوں کو ادبی رنگ دیا کیونکہ وہ خود بھی ایک اچھے شاعر تھے بلکہ مکالموں میں بھی ادبی اسلوب کو پروان چڑھایا۔ اس کے علاوہ انگریزی ڈراموں کے جو تراجم کیے وہ آج بھی مشہور ہیں۔ اس بارے میں سیدوقارعظیم کا بیان ہے:
” احسنؔ کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے پہلے پہل شیکسپیئر کو اُردو داں طبقے سے روشناس کروایا۔ خونِ ناحق، شہیدِ وفا اور دلفروش ، شیکسپیئر کے مشہور ڈراموں، ہیملٹ، آتھیلو اور مرچنٹ آف وینس کے ترجمے ہیں۔ (58) “

امانت لکھنوی

اردو ڈرامے کے ابتدائی نقوش ، جس کا پہلا قابلِ ذکر نام امانت لکھنوی ہے، اس کے بعد آرامؔ، ظریفؔ، رونقؔ، حافظ عبداللہ اور نظیر بیگ نے اس کو سہارا دیا۔ بعد ازاں طالب بنارسی ، احسن لکھنویؔ اور بیتاب بنارسیؔ نے ڈرامے کی بہتری کے لیے اپنی سی کوشش جاری رکھی۔لیکن مجموعی طور پر ان میں سے کوئی بھی ایسا نہ تھا جسے عالمی ڈراما نگاروں کے سامنا کھڑا کیا جاسکے ۔ اس کے بعد سب سے اہم نام آغاحشر کاشمیری کا ہے جنھیں اردو ڈراما نگاری کا شیکسپیئر کہا جاتا ہے۔ اس کے بعد امتیاز علی تاج نے اردو ڈرامے کو نئی معراج پہ پہنچایا۔ ڈراما کی اب تک کی روایت کے بارے میں سید وقار عظیم کہتے ہیں:
”ہمارے ڈرامے میں اس وقت جو کچھ بھی نظر آتا ہے وہ زیادہ سے زیادہ ڈیڑھ سو برس میں بکھر اور سنور کر ہم تک پہنچا ہے۔ واجد علی شاہ نے رہس لکھ کر امانت کو اُردو کا پہلا غنائیہ )اندرسبھا( لکھنے کی راہ سُجھائی۔ ۔۔ایک اہم منزل یا نام ، آغا حشر کاشمیری کا ہے جو پُرانے اثر سے اپنا دامن محفوظ رکھ سکے اور پھر ایک بڑا نام امتیاز علی تاج کا۔۔۔جنھوں نے انارر کلی لکھ کر پہلی مرتبہ اُردو ڈرامے کی تاریخ میں احساسِ فن کی ایک ایسی لہر دوڑائی جو ایک نسل کی نسل کو اپنی رَو میں بہائے لیے جا رہی ہے۔“(59)

آغا حشر کاشمیری کی ڈرامہ نگاری

اردو ڈرامے کی تاریخ میں اک نئے دور کا آغاز ہوا چاہتا ہے۔ جسے بِلا شبہ آغا حشر کاشمیری کا زمانہ کہا جاسکتا ہے۔ جن کا لکھا ہوا ڈراما تھیٹر کمپنیوں کی کامیابی کی ضمانت ہوتا تھا۔
آپ کا اصل نام آغا محمد شاہ، تاریخی نام محمد خلیل شاہ اور قلمی نام آغا حشر کاشمیری تھا۔ جو بنارس میں 4 اپریل 1879ء میں پیدا ہوئے۔ وہ نا صرف ڈراما نگار تھے بلکہ شاعر ، خطیب اور فلم ساز بھی تھے۔
آغا حشر کاشمیری نے پہلا ڈراما” آفتابِ محبت 1897“ء میں لکھا۔ اس کے علاوہ انھوں نے تقریباً 34 ڈرامے لکھے جو سٹیج کیے گئے۔ جن میں، مرید شک، مار آستین، اسیرِ حرص، میٹھی چھری عرف دو رنگی دنیا ، دام حسن، یہودی کی لڑکی، رستم و سہراب، خونِ جگر وغیرہ شامل ہیں۔
ڈاکٹر شبنم حمید نے آغا کے ڈراموں کو تین ادوار میں تقسیم کیا ہے جبکہ خودآغا حشر نے اپنی ڈرامانگاری کو چار ادوار میں تقسیم کیا گیا ہے۔
عہدِ آغاز 1901 سے شروع ہوتا ہے اور 1905ء تک پہنچتا ہے۔ جس میں بیشتر ڈرامے مغربی ڈراموں سے مستعار تھے یا تراجم تھے۔ جن میں مرید شک، دامِ حسن اور اسیرِ حرص شامل ہیں۔ آغا جمیل کی رائے نقل کرتے ہیں:
”آغا حشر نے مغربی ڈرامے کے پیکر کو ہندوستانی ملبوس پہنا کر زبان وبیان کے زیورات اور آتش نو خطابت سے آراستہ کر کے شائقین کو ڈرامے کی افادیت کی جانب متوجہ کر لیا تھا۔ “ (60)
دوسرا دور 1906 سے 1909 تک کا ہے جس میں شہیدِ ناز، خوبصورت بلا، سفید خون اور صید ہوس لکھے۔ تیسرا دور 1910 سے 1916 کا ہے جس میں ساور کنگ، خوابِ ہستی، یہودی کی لڑکی اور پہلا پیار وغیرہ لکھے گئے۔ چوتھا دور کلکتہ کا زمانہ ہے جس میں زیادہ تر ہندی ڈرامے لکھے گئے۔
جیسا کہ بالائی سطور میں اس بات کا اعادہ کیا گیا ہے کہ آغا حشر کو اردو ڈرامے کا شیکسپیئر کہا جاتا ہے اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ آغا حشر نے شیکسپیئر کے پلاٹ کو اپنے ڈراموں کا حصہ بنایا ۔ آغا حشر کا نام اس لیے بھی نمایاں ہے کہ روایت سے ہٹ کر اُن کے ڈراموں کے موضوعات میں تنوع ہے۔ اس لیے اُن کے ڈراموں کے موضوعات کو پانچ مختلف حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے:
1۔ ترجمے اور ماخوذ ڈرامے2 ۔ دیو مالائی موضوعات کے ڈرامت 3 ۔ معاشرتی موضوعات کے ڈرامے 4 ۔ سیاسی اور قومی ڈرامے5 ۔ متفرق ڈرامے
آغا حشر جس روایت کو آگے لے کر چل رہے تھے اس سے ایک قدم آگے بڑھنے کے لیے انھیں بھی کچھ وقت درکار تھا۔ پہلے دو ادوار کے ڈرامے فنی اعتبار سے کچھ زیادہ ممتاز نہیں تھے۔ اس بارے میں اقبال جاوید لکھتے ہیں:
”وہ خود بھی اپنے دوسرے دور کے ڈراموں میں بعض جگہ روایتی حدود سے باہر نہیں نکل سکے اور فرسودہ اور روایتی دیوار کو ڈھانے میں کامیاب نہیں ہوئے اور انھیں اس زنجیر کو توڑ کر فرار ہونے میں کامیابی حاصل نہیں ہوئی بلکہ وہ اس زنجیر میں جکڑے ہوئے قید نظر آئے(61)“
یہ ایک فطری عمل ہے کہ انسان ارتقائی مراحل سے گزرتا ہے آج کا انسان کل کے انسان سے مختلف ہے۔ اسی طرح ایک فنکار ، آرٹسٹ بھی اپنی آرٹ کے ارتقائی مراحل سے گزرتا ہے۔ اگر وہ اپنے فن میں سچا اور کھرا ہے تو اُس میں فکری بالیدگی پیدا ہوتی ہے۔ اُس کا فن نکھر کر سامنے آتا ہے۔ انجم آرا انجمن کہتی ہیں:
”جوں جوں حشر نے فن کی ارتقائی منازل طے کی ہیں ان کی زبان میں برجستگی، شائستگی اور حسن پیدا ہوتا گیا ہے۔ اشعار کی جگہ نثر نے لے لی ہے، قافیے کو اس حد تک جائز رکھا گیا ہے کہ وہ ناظرین میں جوش اور عمل میں شدت پیدا کر سکے۔۔۔۔ حشر کے پہلے اور آخری دور کے فنِ ڈراما نگاری میں زبردست فرق نظر آتا ہے۔ اس دور کی تخلیقات میں گانوں کا استعمال نہیں ہے۔ نہ قافیہ کی جھنکار ہے اور نہ اشعار کی فراوانی۔ اس دور کے فن کار نے ڈرامے کے فن کو گہرائی بخشی ہے اسے زبان و بیان کی لطافتوں سے آراستہ کیا ہے اور ساتھ ہی اچھی کرادر نگاری کا نمونہ پیش کیا ہے کرداروں کے عمل اور شخصیت میں مطابقت پیدا کی ہے۔“ (62)
آغا حشر بالعموم ادب اور بالخصوص ڈراما نگاری کی دنیا میں ایک بڑا نام ہے جس کے فن کو سمجھنے کے لیے بیسیوں کُتب لکھیں گئیں اور سینکڑوں مقالات رقم ہوئے اور سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ ان کے فن پہ عبدالمجید سالک کی رائے ہے:
”آغا صاحب سے پہلے اگرچہ احسنؔ، بیتابؔ اور طالب بنارسی کا طوطی بولتا تھا لیکن ان کی نظم و نثر میں وہ شان و شوکت وہ پاکیزگی اور وہ قوت بالکل مفقود تھی جو حشر کی تحریرات میں نمایاں تھی۔ لچھ تو آغا صاحب کے اسلوب میں ان کی طبعی شور انگیزی اور زور آزمائی کا اثر تھا اور کچھ خطابت و مناظرہ کے مشاغل نے انھیں ایسے فقرے چست کرنے کی صلاحیت بخش دی تھی جنھیں عوام بےحد پسند کرتے تھے۔۔۔۔“(63)

امتیاز علی تاج کی ڈرامہ نگاری

آغا نے کم بیش 35 سال تک ڈراما نگاری کی۔ ان کا ڈراما آج بھی توجہ کا مرکز ہے۔
بیسویں صدی میں ڈراما کی دنیا میں بہت سے نابغہ روزگار شخصیات نے اس فن کی ترویج میں اپنا کردار ادا کیا جن میں آغا حشر کے بعد اگلا سنگِ میل سید امتیاز علی تاج ہیں۔
سید امتیاز علی تاج 13 اکتوبر 1900ء کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ امتیاز علی تاج کا پورا خاندان ہی تعلیم یافتہ اور نابغہ شخصیات سے بھرپور ہے۔ ان کے دادا سید ذوالفقار علی اسسٹنٹ کمشنر کے عہدے پر فائز رہے۔ ان کے والد ممتاز علی شیخ، جو سرسید احمد خاں کے قریبی دوست تھے۔ جنھوں نے خواتین کے لیے ”تہذیب نسواں “جیسا رسالہ شائع کیا اور بچوں کے لیے ”پھول“ کے نام سے اخبار نکالا۔ آپ کی والدہ محمدی بیگم” تہذیبِ نسواں “اور ”مشیرِ مادر “کی مدیر تھیں۔ ان کی زوجہ حجاب امتیاز علی اپنے وقت کی نامور افسانہ نگار اور برصغیر کی پہلی خاتون پائلٹ تھیں۔
یہ وہ خاندانی پسِ منظر اور ماحول تھا جس میں امتیاز علی تاج نے اپنےفن کو جِلا بخشی۔ تاج ؔنے گورنمنٹ کالج سے بی ۔اے کیا۔ وہ ایک افسانہ نگار، شاعر، مترجم ، سوانح نگار ، صحافی اور ڈراما نگار تھے۔ اردو میں گاندھی جی کی سوانح” بھارت سپوت“ کے عنوان سے لکھی۔
امتیاز علی تاج نے ڈراما نگاری کے علاوہ فلمیں بھی لکھیں اور بنائیں۔ ان کی فلم کمپنی کا نام” تاج پروڈکشن لیمیٹڈ “تھا۔
18 اپریل 1970ء کو آپ پر ایک قاتلانہ حملہ ہوا اور زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے 19 اپریل 1970ء کو خالق حقیقی سے جا ملے۔ تا حال قاتلوں کا سُراغ نہ لگایا جا سکا۔

انارکلی ڈرامہ کا تنقیدی جائزہ

امتیاز علی تاج کالج کے زمانے ہی سے ادبی سرگرمیوں میں مشغول رہے اور کالج تھیٹر کی زینت بنے رہے۔ ان کا شاہکار ڈراما جو اب کلاسیکی ادب کی حیثیت رکھتا ہے ۔ یہ ڈراما 1922ء میں لکھا گیا ۔جبکہ 1932ء میں پہلی بار مکمل شائع ہوا۔ یہ ڈراما کئی ممتاز تھیٹر کمپنیوں نے سٹیج کرنے کا ارادہ کیا لیکن بد قسمتی سے مروجہ تھیٹر پر کھیلا نہ جا سکا۔ تاج نے صرف ایک ہی ڈراما سٹیج کے لیے لکھا جو کھیلا نہ جا سکا۔ اس بارے میں عشرت رحمانی کی رائے ہے:
”حقیقت ہے کہ”انارکلی“فنی عروج اور دلکش ادبیت کے لحاظ سے بے مثال کارنامہ ہے۔ زبان کی خوبی، مکالموں کی چستی اور برجستگی اور ڈرامائی تدبیرگری کی نادرکاری لاجواب ہے۔۔۔یہ ڈراما کئی باوقار ناٹک کمپنیاں نے کھیلنے کا ارادہ کیا۔۔۔یہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی اور اربابِ ذوق انار کلی کو با ضابطہ اسٹیج پر دیکھنے سے محروم رہے“۔(64)
انار کلی کا پلاٹ تین بنیادی کرداروں اکبرؔ، شہزادہ سلیمؔ اور انارکلیؔ کے گرد گھومتا ہے۔ اس کہانی کو نیم تاریخی کہانی کے طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔ کیونکہ ان کا مآخذ ٹھوس تاریخی حقائق کی بجائے روایت ہے۔اس لیے اسے ایک فرضی کہانی سمجھا گیا۔
بظاہر یہ ڈراما عشق و محبت کی کہانی ہے جس میں ایک بادشاہ نے اپنے بیٹے کی محبت کو دیوار میں چُنوا دیا لیکن دراصل یہ ڈراما ارسطو کے نظریے کے مطابق ایک المیہ ہے۔ کچھ نقادوں کے خیال میں یہ انار کلی کا المیہ ہے کچھ اسے سلیم کی داستان سمجھتے ہیں اور کچھ اکبر کا المیہ گردانتے ہیں۔ انار کلی کے مقدمے میں ڈاکٹر قمر رئیس اسے انار کلی کا المیہ کہتے ہیں:
”یوں تو ڈراما کو اکبر کا المیہ بھی کہا گیا ہے لیکن واقعہ یہ ہے کہ اپنے مجموعی تاثر کے اعتبار سے یہ انارکلی کا المیہ ہی کہا جائے گا۔ ڈراما کا نام بھی اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ شخصی حکومت کے جابرانہ نظام میں یہ ایک فرد۔ ایک انسان کی معصوم روح اور اس کے معصوم خوابوں کا المیہ ہے۔(65)
جیسا کہ ارسطو نے کہا تھا کہ اعلیٰ ترین پلاٹ وہ ہے جس میں ٹریجدی ہو۔ قدیم یونانی ڈرامے بھی المیہ کی تمثیل ہیں۔ انار کلی کسی بھی کردار کا المیہ ہو ۔ اس ڈرامے نے جدید ڈراما نگاری کو ایک نئی راہ سُجھائی۔
تاج کے ڈراموں کے بارے میں ڈاکٹر طاہر شہیر کی تحقیق ہے:
” تاج نے اپنی ڈرامائی زندگی میں بہت سے ڈرامے تحریر کیے۔ ان میں خوشی ، دندان ساز کی کرسی، بوکس لوکس، صیاد، قرطبہ کا قاضی، بیگم کی بلی، شیخ برادران، امن و سکون، میری جان کس نے لی۔ کمرہ نمبر 5 ۔عید کے تحفے، برف باری کی ایک رات، چچا چھکن۔ شامل ہیں۔(66) “
تاج نے سٹیج کے علاوہ بہت سے ڈرامے ریڈیو کے لیے لکھے اور کافی محض تحریر ہوئے اور سٹیج نہ ہو سکے۔اب تک جو ڈرامے لکھے جا رہے تھے وہ صرف سٹیج کے لیے لکھے گئے اور عام خیال یہ تھاکہ صرف کھیلے جائیں گے پڑھے نہیں جائیں گے اس لیے ان کی ادبی خصوصیات پر توجہ نہیں دی گئی۔ انار کلی شاید پہلا ایسا ڈراما تھا جس کی ادبی حیثیت آج تک قائم ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ امتیاز علی تاج ایک وسیع المطالعہ شخصیت تھے۔ اوہ مغربی ڈرامے سے بخوبی واقف تھے اور وہ جانتے تھے مغربی ڈراما نا صرف کھیلا جاتا ہے بلکہ پڑھا بھی جاتا ہے۔ ہو سکتا یہ کوئی شعوری کوشش کا نتیجہ نہ ہو لیکن ایک لاشعوری عمل ضرور تھا۔

بیسویں  صدی کے اہم ڈراما نگار

بیسویں صدی کی دوسری دہائی تک تھیٹر زوال کی جانب گامزن تھا۔ لیکن ڈراما اپنی ارتقائی منزلیں طے کر رہا تھا۔ اس میں کچھ نام اور ڈرامے قابلِ ذکر ہیں۔
حکیم احمد شجاع کا میلوڈراما”باپ کا گناہ“۔خان احمد حسین خان کا” بازارِ حسن“۔ امراؤ علی کا”البرٹ بل“۔ مرزا محمد ہادی رسواؔ جو ناول”امراؤ جان ادا“ کے خالق ہیں، ان کا ڈراما” مرقع لیلیٰ مجنوں“۔
اردو ڈراما کا ایک انداز اسٹیج اور تھیٹر سے بالکل الگ خالص ادبی بھی ہے۔ ان میں وہ مصنفین اور ادبا شامل ہیں جنھوں نے اس صنف کو صرف ادب کے پہلو سے دیکھا ۔ ان میں سب سے پہلا نام مولانامحمد حسین آزاد کا ہے۔جنھوں نے شیکسپیئر کے ڈرامے” میکبتھ “کا اردو ترجمہ کیا۔ اس قبیل میں عبدالحلیم شرر،)شہیدِ وفا( عبدالماجد دریا آبادی، ظفر علی خاں)جنگِ روس و جاپان(محمد مجیب، ڈاکٹرعابد حسین، ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی ، نور الٰہی، سید عابد علی عابد، سید سجاد حیدر یلدرم، پطرس بخاری،سید ذوالفقار علی بخاری، شاہد احمد دہلوی، میرزا ادیب، وغیرہ شامل ہیں۔
برصغیر پر مغربی اقوام کے تسلط سے یہاں کے بودوباش اور ادب میں بہت سے تبدیلیاں واقع ہوئیں۔ مغربی علوم و فنون کے اثرات ہمارے ادب اور ڈرامے پر بھی ہوئے۔ اردو ادب کو ایک صنف ایکانکی کھیل یعنی ایک ایکٹ کا ڈراما مغرب نے دیا۔ مختصر افسانے کی طرح مختصر ڈرامے نے بھی خوب نام کمایا۔ قدیم طویل ڈراما اختتام پذیر تھا اور ایکانکی ڈراما کا آغاز ۔۔۔

ریڈیو ڈراما

1936-37ء میں آل انڈیا ریڈیو کا آغاز ہوا تو ایک ایکٹ کے ڈرامے نے ریڈیو کارُخ کیا ۔ اب ڈراما باقاعدہ سٹیج سے نکل کر نشری ڈرامے کی شکل اختیار کرنے لگا۔ بقول عشرت رحمانی”:نشری ڈراما کانوں سے دیکھنے کی چیز ہے۔ “
ریڈیو ڈرامے میں جن افسانہ نویس اور انشا پردازوں نے اہم کردار ادا کیا اُن میں سب سے اہم نام رفیع پیرزادہ کا ہے۔ وہ ریڈیو سے بھی واقف تھے اور ڈراما سے بھی۔ اُن کے نشری ڈرامے لیلیٰ اورعقبیٰ کا میزان ہیں۔ شوکت تھانوی کا ،خدا حافظ، کرشن چندر کا ،سرائے کے باہر۔ احمد ندیم قاسمی کا، دارا شکوہ، عصمت چغتائی کا، ایک بات، راجندر سنگھ بیدی کا ،خواجہ سرا۔ محمود نظامی کا ،دُخترِ بابل۔ مختارصدیقی کا ،مغالطہ۔ جاوید اقبال کا ،نو وارد، کمال احمد رضوی ،کا گاہے خنداں گاہے گریاں۔مجتبیٰ حسین کا، یہ زندگی ہے۔ اس کے علاوہ بھی بہت سے ادیبوں نے نشری ڈرامے لکھے۔

پی ٹی وی کے ڈرامے

تقسیم ہند کے بعد ڈرامے میں بھی تبدیلیاں وقوع پذیر ہوئیں۔ ریڈیو کے بعد اب ٹیلی وژن کا زمانہ آ چکا تھا۔ پاکستان ٹیلی وژن کی نشریات کا آغاز 1964ء میں ہوا۔ جس فن کا آغاز تھیٹر سے ہوا تھا وہ اب برقی پردہ سکرین تک پہنچ چکا تھا۔ اس کا تعلق زمانے کی برق رفتاری سے بھی تھا۔
پی ٹی وی پر بہت سے ڈرامے دکھائے گئے ۔ جن کے بنیادی موضوعات میں سماجی، نفسیاتی، معاشی مسائل، طبقاتی کشمکش، جاگیردانہ نظام کے خلاف آواز، جرم و سزا شامل ہیں۔
پی ٹی وی کے پہلے چند ڈراموں کے بارے میں ڈاکٹر طاہر شہیر کی تحقیق ہے:
” اس سلسلے میں نجمہ فاروقی کا نذرانہ۔ اشفاق احمد کا”یقین نہیں آتا “اور”شہر کنارے“۔ سٹوڈیو تھیٹر، آج کا کھیل، جیسے ڈراموں میں خاندانی زندگی اور رشتوں ناتوں کے اتار چڑھاؤ کو موضوع بنایا گیا۔(67)“
اس کے علاوہ پی ٹی وی نے نہایت ہی اعلیٰ پائے کے ڈرامے نشر کیے جو آج تک لوگوں کے اذہان سے نہیں اترے۔ جن میں شوکت صدیقی کا”خدا کی بستی “جو ایک ناول تھا اور اسے پہلی بار 1969ء کو دوسری بار 1974ء کو نشر کیا گیا۔ یہ ایک مفلوک الحال خاندان کے مسائل کی داستان ہے جو تقسیمِ ہند کے بعد ایک بستی میں آباد ہوتا ہے۔ انھیں زندگی کی تلخ حقیقتوں کا سامنا کرنا پڑا۔
الف نون 1965ء میں نشر ہوا ، یہ کمال احمد رضوی کے کاٹ دار قلم کی تحریر تھی۔ جس میں معاشرتی برائیوں کو تفریحی انداز میں پیش کیا گیا۔
شہزوری1970ء۔ یہ حسینہ معین کا پہلا سیریل تھا۔ یہ ایسے نوجوان جوڑے کی کہانی ہے جو اپنے والدین کی اجازت کے بغیر رشتہ ازدواج میں بندھ جاتے ہیں۔ یہ سیریل شادی شدہ زندگی کے نشیب و فراز کو بیان کرتی ہے۔ اس ڈرامے کا سب سے مشہور ڈائیلاگ ”میں بہت بری آدمی ہوں“ نیلوفر عباسی نے ادا کیا۔
انکل عرفی1972ء۔ یہ 26 اقساط پر مشتمل ڈراما جو حسینہ معین کی تحریر ہے۔ گھریلو زندگی کی پیچیدگیوں پر مبنی یہ کھیل بہت مشہور ہوا۔ اس کا مرکزی کردار انکل عرفی ہے جو کافی عرصہ ملک سے باہر رہنے کے بعد وطن لوٹتا ہے تو اس کے ساتھ کیا بیتتی ہے ،وہ آخر تک کیوں کنوارہ رہتا ہے اور پھر اسے بالآخر واپس کیوں جانا پڑتا ہے۔
شمع 1976ء۔ اے آر خاتوں کے ناول شمع کو فاطمہ ثریا بجیا نے ڈرامائی شکل دی۔ اس ڈرامے میں جدت پسندی اور قدامت پسندی باہم دست و گریباں ہیں۔
ففٹی ففٹی1978ء۔ انور مقصود کی تحریر اور شعیب منصور اس کے ہدایتکار تھے۔یہ ایک کامیڈی خاکے ہیں۔ اس میں معاشرے میں موجود برائیوں کو نہایت شگفتہ انداز سے دکھایا گیا ہے۔ جس کا مشہور کردار اسماعیل تارا آج بھی لوگوں کے اذہان پہ نقش ہے۔
وارث1979ء۔ امجد اسلام امجد کی تحریر اور ہدایتکار نصرت ٹھاکر اور یاور حیات تھے۔ یہ ڈراما جاگیرادی نظام کے اثرات ، اس میں باہم تصادم ، ذاتی مفادات اور دشمنیوں سے عبارت ہے۔
جانگلوس1989 ء۔ شوکت صدیقی کے ایک اور شہرہ آفاق ناول سے ماخوذ۔ یہ دو قیدیوں کی کہانی ہے جو جیل سے فرار ہو جاتے ہیں۔ اس کا موضوع با اختیار طبقے، جاگیردارانہ نظام کی اصل کہانی ہے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ اس ناول کا صرف ایک حصہ ہی نشر ہو سکا۔ اس ناول کو پنجاب کی”الف لیلیٰ بھی کہا گیا۔ یہ ناول استحصالی قوتوں کی قلعی کھولتا ہے۔
دہلیز1981ء۔امجد اسلام امجد کی تحریر اور یاور حیات کی ہدایت کاری کا ماسٹرپیس ہے۔ ڈراما تین کہانیوں پر مشتمل ہے ، پہلی کہانی میں مادی اور اخلاقی قدروں کے تصادم سے انسان پہ کیسی کیسی قیامتیں گزرتی ہیں۔ دوسری کہانی میں جیل، مجرم اور معاشرے کے باہمی تعلق پہ روشنی ڈالی گئی ہے۔ تیسری کہانی میں محبت، لالچ، پچھتاوے پر مبنی ہے۔
امجد اسلام امجد اپنے ڈرامے کے بارے میں کہتے ہیں:
”وارث“ کی غیر معمولی مقبولیت کے بعد ٹی وی کے لیے سیریل لکھنا میرے لیے ایک بہت بڑا چیلنج تھا۔ میں نے کہانی، کردار نگاری اور انداز تینوں سطحوں پر اس بات کی خصوصی کوشش کی ہے کہ ”دہلیز“ نہ صرف ہر اعتبار سے ایک مختلف ڈراما ہو بلکہ معیار کے اعتبار سے بھی یہ ”وارث“ سے دو قدم آگے ہو۔ اس میں کچھ تجربے بھی کرنے کی کوشش کی ہے جن میں سب سی اہم تین کہانیوں کو ایک ساتھ اس طرح چلانا تھا کہ وہ ایک جان ہو جائیں۔(68) “
ان کہی1982ء۔ حسینہ معین کے قلم کا شاہکار اور شعیب منصور کی ہدایت کاری نے اسے چار چاند لگا دیے۔
سونا چاندی1983ء۔ یہ ڈراما مُنو بھائی کی تحریر ہے۔ جس میں دو کردار سونا اور چاندی لوگوں کے گھروں میں کام کاج کر کے اپنی زندگی بسر کرتے ہیں۔ یہ حقیقی جوڑے کی کہانی ہے جسے لوگوں نے بہت پسند کیا۔
آنگن ٹیڑھا1984ء۔ یہ ڈراما انور مقصود کی قلم کا شاہکار ہے جسے متعدد بار پیش کیا گیا۔ یہ مزاح سے بھرپور ، سماجی شعور اجاگر کرتا ایک ہلکا پھلکا ڈراما ہے ۔
اندھیرا اجالا1984ء۔ یہ ڈراما یونس جاوید کی تحریر ہے۔ یہ ایک کامیڈی تھریلر ہے۔ جس میں پولیس اہلکار جرائم کی تحقیقات کرتے ہیں۔
تنہائیاں1985ء۔ حسینہ معین کا سکرپٹ ہے جو دو بہنوں کے گرد گھومتا ہے جو زندگی کے نشیب وفراز سے گزرتی ہیں۔
دھوپ کنارے 1987ء۔حسینہ معین کی تحریر ہے جس کی کہانی دو ڈاکٹر احمر اور ڈاکٹر زویا کے گرد گھومتی ہے۔ یہ ان دو کرداروں کی بے نام محبت کی کہانی ہے۔
ہوائیں1990 کی دہائی میں نشر ہوا۔ فرزانہ ندیم سید کی تحریر اور حیدر امام رضوی کی ہدیتکاری۔ یہ ڈراما ایک خاندان کی مشکلات کی تصویر ہے۔ جس کے سربراہ کو قتل کے جھوٹے الزما میں سزائے موت ہوتی ہے۔ پھانسی کا منظر آج بھی لوگوں کے لیے دکھ کا باعث ہے۔
گیسٹ ہاؤس1990ء۔ اس ڈرامے نے افضل خان کو جان ریمبو کے لازوال کردار سے نوازا۔ اس میں مسافروں کے مسائل کو ہلکے پھلکے انداز میں پیش کیا گیا ہے۔
دھواں 1992ء۔ المیہ ڈرامے کا شاندار نمونہ ہے۔ عاشر عظیم کی تحریر اور خود ہی مرکزی کردار ادا کیا۔ کہانی، پاکستانی معاشرے میں جرائم اور پولیس کے کردار کے گرد گھومتی ہے۔ جس میں چار دوست اپنا فرض نبھاتے ہیں۔ یہ اردو ڈرامے میں ایکشن پلے کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
آنچ1993ء۔ ناہید سلطان اختر کے ناول سے ماخوذ یہ کہانی گھریلو زندگی کے مسائل ، پہلی اور دوسری شادی کی پیچیدگیوں کا احاطہ کرتی ہے۔ یہ ڈراما اتنا مقبول ہوا کہ سڑکیں سنسان ہو جایا کرتی تھیں۔
عینک والا جن1993ء۔ اس ڈرامے کو اے حمید نے لکھا۔ ڈراما بچوں کے لیے لکھا گیا اور 90 ء کی دہائی کے بچوں کے لیے ہیری پورٹر سے کم نہیں۔ اس کی کہانی سائنس فکشن، جادو کے مکسچر پر مبنی ہے۔ نسطور جن، ہامون جادوگر، زکوٹا جن اور بل بتوڑی ، یہ کردار امر ہو گئے۔
روزی1995ء۔ اس کا مرکزی کردار معین اختر نے نبھایا ۔ جس میں مرکزی کردار ، کام دھونڈتے ڈھونتے خاتوں بننے پر بھی مجبور ہو جاتا ہے۔ اس نے اپنے دور میں ریکارڈ قائم کیے۔
جنجال پورہ1997ء۔ تحریر شاہد ندیم کی ہے۔ یہ ایک چھوٹے سے شہر کے باسیوں کے گرد گھومتا ہے۔ جہاں مختلف جذبات اور خیالات کے لوگ رہتے ہیں۔ اور دوسروں پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتے ہیں اور سب ایک دوسرے سے نا خوش ہیں۔
الفا براوو چارلی1998ء۔یہ ڈراما پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے تعاون سے بنایا گیا۔ یہ ڈراما سیریل تین دوستوں کی لازوال دوستی ، محبت الوطنی پر مبنی ہے۔ اس ڈرامے نے عام عوام میں فوج کی جانب مجت کے جذبے کو پروان چرھایا۔
راہیں1999ء۔منشا یاد کے پنجابی ناول” ٹاواں ٹاواں تارا“ کا اردو ترجمہ ہے۔ اس کا موضوع شہری اور دیہاتی زندگی کے مسائل ہیں۔ اس ڈرامے کو پی ٹی وی نیشنل ایوارڈ سے نوازہ گیا۔

اکیسویں صدی کا ڈراما

پاکستان میں اس وقت جو ڈیجیٹل میڈیا کا فروغ ہے اس کی جڑیں دور تک پھیلی ہوئی ہیں۔
پاکستان میں اکیسویں صدی کا آغاز مشرف دور سے ہوا۔ جس نے ایک لبرل میڈیا پالیسی متعارف کروائی۔ پاکستان میں معلوماتی انقلاب کے ایک نئے دور کی شروعات ہوئیں۔
اس سے پہلے الیکٹرانک میڈیا صرف پی ٹی وی اور ریڈیو پاکستان کا نام تھا۔ 160 ملینکی ایک بڑی آبادی لاکھوں لوگ صرف پی ٹی وی دیکھنے کے پابند تھے۔ زیادہ تر پاکستانی خاص طور پرکراچی، لاہور اور اسلام آباد کے شہری پہلے ہی کیبل ٹی وی کا رخ کر چکے تھے، توجب انڈس ٹی وی نیٹ ورک نے 14 اگست 2001 کو اپنی نشریات شروع کیں تو یہ ایک نیاانقلاب تھا۔
پاکستان کے میڈیا کے منظر نامے پر لوگ اس چینل میں دلچسپی لینے لگے۔دیکھنے والوں کی تعداد مہینوں میں کئی گنا بڑھ گئی۔ پھر دوسرے بزنس ٹائیکونز اس میں کود پڑے۔
نئے ٹی وی چینلز کے آغاز میں انڈس کے بعد، جیو ٹی وی، جس کی بنیاد میر شکیل الرحمان نے رکھی، جو جنگ گروپ کے مالک تھے۔کوئی شک نہیں کہ یہ مشرفہیتھاجس نے زندگی کے ہر شعبے میں روشن خیالی کا فلسفہ دیا،جس میں میڈیا بھی شامل ہے۔
اس کے علاوہ دنیا کے منظر نامے پر جو ٹیکنالوجی کی بہتری آ رہی تھی اس نے بھی اس تبدیلی میں اہم کردار نبھایا۔
”گیلپ کے مطابق 2009 میں ٹی وی دیکھنے کی آبادی 68 فیصد تک پہنچ گئی۔
2004 میں63 ملین سے 2009 میں 86 ملین تک پہنچ چکی تھی۔ (69)“
پچھلی دہائی کے دوران پاکستان کی میڈیا مارکیٹ نے خاصی توجہ حاصل کی ہے۔اربوں ڈالر کی رینج میں سرمایہ کاری اور سینکڑوں ملین ڈالر کی کمائی کی۔ پاکستان کا ٹیلی ویژن ڈراما شان و شوکت کی لہر پر سوار ہے۔ بہت سے چینلزلانچ کیے گئے، تفریحی صنعت کو ترقی کی منازل طے کرنے کے لیے بہترین ماحول فراہم کیا گیا ۔
70 اور 80 کی دہائی میں ٹیلی ویژن ڈراموں نے بڑے پیمانے پر ناظرین کو اپنے سحر میں جکڑے رکھا۔ یہ ڈرامے ناظرین نے ایک مذہبی فریضہ سمجھتے ہوئے دیکھےاور ہر طبقہ نے اس کا لطف اٹھایا۔ سڑکیں ویران ہو جاتی تھیں اور دکاندار اپنی دکانیں جلدی بند کر دیا کرتے تاکہ ڈراما دیکھ سکیں۔ پاکستانی ڈراموں کی تاریخ کے اس دور کو اکثر ٹیلی ویژن کے ’سنہری دور‘ کے طور پر یاد کیا جاتا ہے، معیاری اسکرپٹ اور مضبوط اداکاری اس کی پہچان تھی۔
2000 کی دہائی کے اوائل میں ہندوستانی” سوپ“کا رجحان ابھرا اور پاکستان کے گھروں میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گیا۔ ان کمرشل ڈراموں کا الگ فارمولہ ناظرین کے لیے خاصا مقبول ہوا، جنھوںنے ساس اور بہو کے جھگڑوں، بد اخلاق بہوؤں اور تضاد پر مبنی موضوعات کو لوگوں تک پہنچایا۔
ہندوستانی ڈراموں کی مقبولیت کے پیشِ نظر ،ان کے پاکستانی ہم منصبوں نے سابقہ سوپ اوپیرا فارمیٹ کی تقلید شروع کر دی، پس منظر میں تیز موسیقی، بار بار کلوز اپس، میک اپ سے لدی خواتین اور ظاہری طور پر سجائے گئے سیٹوں پر انحصار کیا گیا۔
خوش قسمتی سے پاکستان میںچندپروڈیوسروں اور ہدایت کاروں نے کمرشل ازم کی قوتوں کے سامنے جھکنے سے انکار کر دیا اور اس کے بجائے مزید بامعنی ڈرامے بنانے پہ اصرار کیا۔ حقیقت پسندانہ تھیمز کے پیرامیٹرز کے اندر رہتے ہوئے انھوںنے جمالیات کے تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک الگ انداز سے ڈراما پیش کیا۔
ٹیلی ویژن کے ناظرین نے آہستہ آہستہ اس تبدیلیکو پسند کیا اور پاکستانی ڈراموں کے شائقین بڑھنے لگے۔
ہدایت کار سرمد سلطان کھوسٹ کا سیریل ہمسفر، جس کا پلاٹ مختلف سماجی پس منظر سے تعلق رکھنے والے دو کزنز کے درمیان طے شدہ شادی کے گرد گھومتا ہے،۔ یہ ڈراما ناظرین کے اعصاب پر سوار رہا ہے۔ ’ہمسفر‘نے نہ صرف پاکستان میں بلکہ بیرون ملک مقیم جنوبی ایشیائی مداحوں کو بھی مسحور کیا ۔
70 اور 80 کی دہائی کے بعد یہ پہلا موقع تھا جب کسی ڈراماسیریز نے بلاک بسٹر کا درجہ حاصل کیا تھا۔’ ہمسفر ‘ڈراما سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پہ کافی مقبول رہا اور اس کے ٹکڑے شئیر کیے جاتے رہے۔
پاکستان میں ٹیلی ویژن نے ایک غیر معمولی سنیما انڈسٹری کے چھوڑے ہوئے دیرینہ خلا کو پر کر دیا تھا۔
پاکستان میں ٹیلی ویژن کے اس”نئے دور“میں، نوجوان فلم ساز، جن میں سے کچھ نے بیرون ملک سے پیشہ ورانہ ڈگریاں حاصل کی ہیں،پاکستان میں نئے پروجیکٹس پہ کام کرتے رہے۔
پی ٹی وی ڈراموں کا دور اکیسویں صدی کی پہلی دہائی میں پرائیویٹ چینلز آنے سے ختم ہوا چاہتا ہے۔ اس دور میں جو ڈرامے مقبولِ عام ہوئے ان کے مآخذ ناول اور افسانے تھے۔
ان میں ہم سفر، میری ذات ذرہ بے نشان، داستان، شہرِ ذات، متاعِ جان ہے تو، دیارِ دل، بن روئے، یقین کا سفر، یہ تمام ڈرامے ناولوں پر مبنی تھے۔
پہلے ایک ٹی وی چینل تھا وہ بھی بلیک اینڈ وائٹ، اس کی جگہ رنگین سکرین نے لی، وقت گزرتا گیا، بیسیوں ٹی چینل در آئے۔ سینکڑوں ڈرامے نشر ہوئے۔ وقت نے ایک اور کروٹ لی، اب ڈیجیٹل کا زمانہ ہے۔ قصہ یہ ہے کہ اب تو ٹی وی چینلز نے بھی کاروباری ضروریات کے تحت اپنے ڈیجیٹل چینل لانچ کر دیے ہیں۔
اے آر وائی ڈیجیٹل HD کے مطابق اس چینلز کی باقاعدہ ابتدا 2016ء میں ہوئی ۔
انٹرنیٹ نے دنیا بھر میں تمام کاروبارِ حیات کی نوعیت کو تبدیل کر کے رکھ دیا ہے۔ یہی معاملہ انٹرٹینمنٹ اندسٹری کے ساتھ بھی ہوا۔
ڈراما الف ہو یا پری زاد، خدا اور محبت ہو یا میرے پاس تم ہو، لوگ انھیں اپنے موبائلز کی سکرینز پر دیکھنا پسند کرتے ہیں۔
ٹی وی سے لے کر ڈیجیٹل میڈیا تک اردو ڈرامے کی کامیابی کا ایک راز یہ بھی تھا کہ وہ اڈاپٹیشن کی پیداوار تھے، ایوب خاور اس نقطے کی وضاحت کرتے ہیں:
70 ”کی دہائی میں پی ٹی وی پر اوریجنل ڈرامے آنے کے بعد بھی ڈرامائی تشکیل دے کر سماجی اور تاریخی ادب کو اسکرین پر لانے کا سلسلہ ختم نہیں ہوا جو خوش آئند ہے۔ تاہم اڈاپٹیشن کا سلسلہ پی ٹی وی کے زوال اور پرائیویٹ پروڈیوسروں کے آنے کے بعد ختم ہوا۔(70) “
پچھلی دو دہائیوں میں پرائیویٹ چینلز کی بھرمار ہوئی اور بے تحاشا ڈرامے ناظرین کے سامنے پیش کیے گئے لیکن ان میں زیادہ تر ڈراموں میں عورت کو روتا بسورتا دکھایا گیا۔ ساس بہو، کا مسئلہ ہی زیرِبحث رہا۔ جو کہ ہمارے ڈرامے کی روایت کے خلاف تھا۔ ڈیجیٹل میڈیا کے آنے کے بعد ایک واضح تبدیلی جو دیکھنے میں آئی وہ ناظرین کی رائے کا اظہار تھا۔ اب ڈراما فوراً اور تواتر سے یو ٹیوب اور دیگر پلیٹ فارمز پہ نشر ہو جاتا ہے اور ناظرین اس پہ کھل کر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں۔
اس رویے نے ڈراما نگاروں اور پروڈکشن کمپنیوں کو باور کرایا ہے کہ عوام اب گھسے پٹےموضوعات سے تنگ آ چکی ہے۔ وہ ڈراموں میں مضبوط کرداردیکھنے کے خواہاں ہیں۔ اس لیے یہاں چند ایک ڈراموں کا ذکر کرنا ضروری ہے جن میں ایک طاقت ور اور ایسی عورت کی کہانیاں دکھائی گئیں ہیں جومعاشرے میں اپنا جائز مقام حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہے۔
ڈراما ”کچھ ان کہی“میں عالیہ کا کردار جسے سجل علی نے نبھایا، جو رئیل اسٹیٹ کے پیشے سے منسلک ہوتی ہے اور اپنے خاندان کی کفالت کرتی ہے۔ اس کا کردار محنت، عزم اور خودمختاری کا استعارہ ہے۔اس کے علاوہ ڈراما”سرِ راہ“میں بھی عورت کا کردار رانیہ، جسےسجل علی نے ادا کیا وہ ایک ٹیکسی ڈرائیور ہوتی ہے۔ جو صنفی امتیاز کو بالا طاق رکھتے ہوئے محنت اور جرات سے اپنے خاندان کے لیے روزی کماتی ہے۔
ڈراما سیریل بادشاہ بیگم میں زارا انور نے مرکزی کردار نبھایا۔ جو اندرونی سندھ کے جاگیردانہ نظام کے خلاف سینہ سپر ہے۔
عمیر علوی کا خیال ہے:
”ہم ٹی وی کے ڈرامہ ‘بادشاہ بیگم’کو پاکستانی ‘گیم آف تھرونز’ کہا جا رہا ہے جب کہ چند کے خیال میں یہ اسی کی دہائی میں بننے والے پی ٹی وی ڈراموں کی طرز پر بنا ہے۔ اس بارے میں ساجی گل کا کہنا تھا کہ انہوں نے بھارتی شاعر و ہدایت کار گلزار صاحب کی تکنیک استعمال کی جو شاہی کہانیوں کو فلم کے اسکرپٹ میں خوبصورتی سے ڈال دیتے ہیں “۔ (71)
ڈراما دراڑ ایک ایسی لڑکی کی کہانی ہے جو لوگوں کی تنگ نظری کے باوجود باعزت روزگار کی تلاش میں نوکری کرتی ہے۔

ڈیجیٹل دور میں ڈراما

پاکستانی ڈراما اب باقاعدہ ایک ڈیجیٹل دور میں داخل ہو چکا ہے۔ 2020 میں پیش کی جانی والی ویب سیریز چڑیلز نے دیکھنے والوں کو حیرت میں ڈال دیا۔ یہ سیریز بھارت کی گلوبل آن لائن وڈیو سٹریمنگ سروس زی فائیو کی جانب سے نشر کی گئی۔ اس میں خواتین کی کہانیاں ذرا ہٹ کے پیش کی گئی ہیں۔ جس میں تیسری جنس اور ہم جنس پرستی کے موضوعات کو بھی دکھایا گیا ہے۔ ہم جنس پرستی پہ کئی دہائیوں پہلے عصمت چغتائی افسانے لکھ چکی ہیں لیکن ایسے موضوعات کو کبھی ٹی وی سکرین پہ دکھایا نہیں گیا۔

حسن کاظمی اپنے آرٹیکل میں لکھتے ہیں:
”عاصم عباسی نے اس سیریز کو ایسے تخلیق کیا ہے کہ پاکستانی ٹی وی کے روایتی مکالموں کی ضرورت نہیں رہتی۔ عکاسی اس انداز سے کی گئی ہے جو کہانی دکھائے، سنائے نہیں۔
اس میں آپ کو جہاں پدرشاہی معاشرے کی ستائی خواتین کی کہانیاں دیکھنے کو ملیں گی وہیں ایک تیسری جنس کا کردار بھی ملے گا۔ اس سیریز میں کچھ ہم جنس پرست کردار بھی ہیں جن کی روایتی پاکستانی ڈرامے میں جگہ ممکن نہیں۔(72) “
یہ ڈراما فیمینزم سے بھرپور ہے۔
ویب سیریز نے پاکستانی ڈرامے کے لیے نئی راہیں ہموار کی ہیں۔ نا صرف موضوعات کے اعتبار سے بلکہ معاشی لحاظ سے بھی۔
گو کہ چند ایک ڈرامے مثبت موضوعات کو لوگوں تک پہنچا رہے لیکن اکثریت اس کے منافی ہے۔ اس بارے میں مہوش خان کا تجزیہ ہے:
’’عورت دشمن رویے، ساس بہو کے جھگڑے، سالی، دیور یا باس کے ساتھ عشق اور تعصب تو پاکستانی ٹی وی ڈراموں میں عام سی باتیں ہیں۔ عورت کو محکوم دکھا کر اس کو اصل زندگی میں بھی محکوم بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ماضی میں ’’تنہائیاں‘‘، ’’شہزوری‘‘ اور کئی دیگر بہت پسندیدہ ڈرامے ایسے بھی تو تھے جن میں لڑکیوں کو مضبوط، فیصلہ کن رویوں کی مالک اور زندگی سے بھرپور دکھایا جاتا تھا۔ تو اس وقت معاشرے میں یہی سب کچھ رواج پاتا بھی دیکھا گیا۔ ایسی الیکٹرانک تفریح کے لیے تحریری مواد کے معیار میں جتنا زوال اب دیکھا جا رہا ہے، پہلےکبھی دیکھنے میں نہیں آیا تھا۔(73) “
ڈیجیٹل میڈیا کی ترقی نے بہت سے ذہنی مسائل کو بھی جنم دیا ہے۔ یہ بات سچ ہے کہ معاشرے میں اگر گند ہو گا تو وہ ابلاغ عامہ کا بھی حصہ بنے گا۔ کامیڈی کےنام پر فحش گوئی عام ہے۔ غیر ازدواجی جنسی تعلقات کو غیر محسوس انداز نے لوگوں کے اذہان میں راسخ کرنا۔
جہاں عورت کےمسائل کو زیرِ غور لایا جاتا ہے وہاں مرد کی مظلومیت کا تذکرہ خال خال ہی ملتا ہے۔
ڈیجیٹل میڈیا کی آمد سے ریگولیٹری اتھارٹی کی افادیت شدید متاثر ہوئی۔ مواد اتنی برق رفتاری اور بین الاقوامی پلیٹ فارمز پر دکھایا جاتا ہے کہ کسی کو بھی اختیار حاصل نہیں کہ کوئی بند باندھ سکے۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ آن لائن سٹریمنگ ایپس کے آنے کے بعد ناطرین کی رسائی دنیا بھر کے ڈرامے تک ہو چکی ہے اب انھیں معیاری ڈراما دکھا کر ہی پذیرائی حاصل کی جا سکتی ہے۔ لیکن ابھی بھی ریٹنگ کی دور میں عامیانہ موضوعات پہ ڈرامے بن رہے ہیں۔
اس ضمن میں آمنہ حیدر عیسانی ذرا مایوس نظر آئیں۔ وہ کہتی ہیں کہ :
”فارمولا نہیں بدلےگا جب تک آپ کی ٹارگٹ آڈیئنس نہیں بدلے گی اور آڈیئنس کیسے بدلے گی کیونکہ آپ کی نوجوان نسل کو بالکل بھی ٹارگٹ نہیں کیا جا رہا۔
اکثریت میں آپ کی جو پڑھی لکھی کلاس ہے اُسے ٹارگٹ نہیں کیا جارہا۔
ہمیں اُن کو ٹارگٹ کرنے کی ضرورت ہے جو او ٹی ٹی پلیٹ فارمز جیسے کہ نیٹفلکس، پرائم وڈیو یا آن لائن دستیاب کانٹینٹ کی طرف جارہے ہیں۔ اور اگر عوام کو ٹارگٹ کررہے ہیں تو جب تک عوام میں لٹریسی ریٹ یعنی خواندگی کی شرح نہیں بڑھے گی، اُس وقت تک اُن کو یہی چیزیں اپیل کریں گی چاہے وہ خواتین کے خلاف تشدد ہو، ظلم و ستم ہو، یا ساس بہو کی کہانیاں ہوں“۔(74)

ڈیجیٹل میڈیا میں نشر ہونے والے چند ڈرامے درج ذیل ہیں:
من جوگی، رد، تیری چھاؤں میں، کفارہ، کبھی میں کبھی تم، شدت، جان نثار، جینٹل مین، جوڑی بن جائے گی، خانی، مسز اینڈ مسٹر شمیم، زرد پتوں کا بَن، وغیرہ، فہرست بہت طویل ہے۔
زیرِ نظر مقالے میں جن پانچ ڈراموں کا انتخاب کیا گیا ہے ان کی مشترکہ خصوصیت یہ ہے کہ ان ڈراموں نے مقبولیت کے تمام ریکارڈ توڑے اس لیے ان پانچوں ڈراموں کی آخری قسط سینما گھروں میں نشر ہوئی حالانکہ یہ سب ڈرامے ڈیجیٹل چینلز پہ نشر ہو رہے تھے۔
”میرے پاس تم ہو “کی پہلی قسط 17 اگست 2019 اورآخری قسط 25 جنوری 2020 کو نشر ہوئی۔
”تیرے بن “کی پہلی قسط 28 دسمبر 2022 اور آخری قسط 6 جولائی 2023 کو نشر ہوئی۔
”عہد وفا “کی پہلی قسط 22 دسمبر 2019 اور آخری قسط 15 مارچ 2020 کو نشر ہوئی۔
”پری زاد “کی پہلی قسط 20 جولائی 2021 اور آخری قسط فروری 2022 میں نشر ہوئی۔
عشق مرشد کی پہلی قسط 8 اکتوبر 2023 اور آخری قسط 14 اپریک 2024 کو نشر ہوئی۔
 

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!
Scroll to Top