ڈراما/ڈرامہ کی تعریف اور ڈراما کیا ہے؟

نقالی اور اظہارِ ذات، یہ دو اعمال انسان کی جبلّت ہیں۔ بقول ارسطو، انسان باقی مخلوقات سے صرف اس لیے ممتاز ہے کہ وہ نقال ہے۔ دوسرا انسان نا صرف عمرانی حیوان ہے بلکہ اسے حیوان ناطق بھی کہا گیا۔

انسانی سرشت ہے کہ وہ ابلاغ چاہتا ہے۔ اظہارِ ذات اس کی بنیادی ضرورت ہے۔وہ کیا سوچتا ہے، کون سےجذبات اس کے اندر طلاطم برپا کرتے ہیں۔ وہ اپنی نفرتوں اور محبتوں کا اظہار کرکے ایک طرح کی طمانیت حاصل کرنا چاہتا ہے۔ دنیا میں جتنا بھی ادب تخلیق ہوا اس کی تحریک میں یہی ابلاغ کارفرما ہے۔ کہانی وجود میں آئی، داستان بنی، ناول ہوا، افسانے میں سمٹ آئی۔ شاعری ہوئی، نظم، غزل،کہی جانے لگی۔ اس کے علاوہ کئی طرح کی اصناف کے ذریعے اظہار کا سلسلہ جاری رہا۔ اب تک جتنی بھی اصنافِ ادب تخلیق ہوئیں وہ پڑھنے یا سُننے کی چیز تھیں۔ ڈراما ایسی صنفِ ادب ہےجس نےانسان کو ناصرف بول کے بلکہ ”کر کے “اظہار کا موقع مہیا کیا۔
یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ ابلاغ کا پہلا ذریعہ حرکات و سکنات ہی تھا۔
ناچ کو تمام فنون لطیفہ کی بنیاد قرار دیا جاتا ہے۔ اس کی دلیل میں محمد اسلم قریشی نے مختلف ناقدین کے اقوال نقل کیے ہیں:
Sheldon Cheney

”اپنی تصنیف میں کہتا ہے کہ انسان کی مادی ضروریات۔۔۔خوراک اور پناہ گاہ کے بعد انسانی مشاغل میں ناچ کو اوّلیت حاصل ہے۔۔۔اور ناچ تمام فنون کی ماں ہے۔۔۔

John Drink water

اپنی تالیف

The outline of Literature

کا آغاز اس جملے سے کرتا ہے کہ ادب کی تاریخ انسان کے لکھنا سیکھنے سے بہت قبل شروع ہو جاتی ہے۔ ناچ کو تمام فنون پر اوّلیت حاصل ہے انسان ابتدائی مسکن میں الاؤ کے گرد جمع ہو کر اپنے دشمن کی شکست اور قتل پر خوشی سے ناچتا تھا۔(1) “
یہ بات تو واضح ہو گئی کہ رقص، ناچ ہی تمام فنون کی ابتدا ہے،اب سوال یہ ہے کہ زندگی اور ڈرامے کا کیا تعلق ہے !کیوں یہ صنف اتنی مقبول عام ہے؟
دلچسپ امر یہ ہےکہ باقی جتنی بھی ادبی اصناف ہیں ان کا تعلق فرد سے ہےجبکہ ڈرامے کا تعلق معاشرے سے ہے، جمہور سے ہے!کسی بھی کتاب کا مخاطب ایک شخص ہو سکتا ہےلیکن ڈرامے کا مخاطب اشخاص رہے ہیں۔اس لیے ڈراما اس معاشرے کی مجموعی کیفیت کا نباض ہو گا تو لوگ اس کی پذیرائی کریں گے۔ اس بارے میں سید وقار عظیم نے ڈرائڈن کا قول نقل کیا ہے:
”انہی لوگوں نے اسٹیج پر سب سے زیادہ کامیابی حاصل کی ہے جنھوں نے فطانت کو اپنے عہد کے سانچے میں ڈھالا۔
They who have best succeeded on the stage have still confronted their genius to the age drydon.”(2)
ڈراما کیا ہے کا سوال اس بات کا متقاضی ہے کہ اس کی تعریف پہ نظر کی جائے۔ریختہ ڈکشنری کے مطابق،ایسا قصہ جو اسٹیج پر اداکاری کے لیے لکھا جائے۔ناٹک ساگر میں درج ہے:
”ڈراما یونانی لفظ ڈراؤ سے مشتق ہے جس کے معنی کام کرنے اور ایکٹ کرنے کے ہیں، یہ دراصل نظم کی ایک صنف تھا مگر رفتہ رفتہ اسے وہ اہمیت حاصل ہوئی کہ بجائے خود ایک فن بن گیا۔ خواہ اسے تفنن طبع کے سامان کا تقاضا کہیے یا مذہبی عنصر کی برکت خیال کیجیے۔ بہرحال ڈراما تمام دیگر فنونِ لطیفہ سے سبقت لے گیا اور یونانی تمدن پر ایسا چھایا کہ بغیر اس کے ذکر کے یونان کی تاریخ ادھوری رہ جاتی ہے۔ ڈراما افعال انسانی کی جیتی جاگتی متحرک نمائش کا نام ہے اس میں مسلسل اور روح پرور گفتگو سے داستان یاپلاٹ پیدا ہوتا ہے اور تذکرہ یا حکایات راویانہ سے کام نہیں لیا جاتا (3)“
یہ بات تو واضح ہے کہ تاریخِ یونانی میں ڈراما کو ایک مذہبی حیثیت حاصل تھی۔ ڈراما ، حرکت کا نام ہے۔ لفظ جب انسانی افعال میں متحرک ہوتے ہیں تو ڈراما بن جاتے ہیں۔ اس میں کیوں کہ تمام فنونِ لطیفہ سما جاتے ہیں اس لیے اسے باقی تمام فنونِ پر برتری حاصل ہے۔

ڈاکٹر محمد شاہد حسن لکھتے ہیں:
”ناقدین اس بات پہ متفق ہیں کہ رِیت

Ritual

نے ڈرامے کو جنم دیا۔ یونانی زبان میں رِیت کو

Dromenon

ڈرومینن کہتے ہیں جن کے معنی ہیں ” کیا ہوا“اور کی ہوئی چیز پر اس کا اطلاق ہوتا ہے۔(4) “
ڈرو مینن(Dromenon) ،

ایک یونانی اصطلاح ہے ۔جس کےمعنی ہیں”کچھ انجام دیا ہوا“ یا ”عملی رسم“۔تاریخی طور پر مذہبی یا عامرسم و رواج کے سیاق و سباق میں استعمال ہوتی تھی۔
ڈورین قوم ڈرامے کے موجد ہونے کی دعویدار ہے۔ وہ اپنے اس دعوے کی یہ دلیل پیش کرتی ہے کہ :
”ڈراما ڈورک بولی کے لفظ ڈرین

Drain

کے مترادف ہے جس کے معنی ”کرنا“ یا ” عمل“ہے۔(5) “
ڈورک بولی

Doric dialect))

،جو قدیم یونانی زبان کی ایک خاص شکل ہے، میں ”ڈراما“ کا لفظ ایک ایسے عمل کو بیان کرنے کے لیے استعمال ہوتا تھا جو ایک خاص مقصد کے تحت وقوع پذیر ہو رہا ہو، جیسے”ڈرین “کا مطلب ہے کہ کسی چیز کا اخراج یا بہاؤ ہونا۔
اس تناظر میں،”ڈرین“ ایک مسلسل عمل کو ظاہر کرتا ہے، جیسے پانی کا بہنا ۔اسی طرح، ”ڈراما“ بھی ایک مسلسل عمل ہے جس میں کرداروں کی حرکات، جذبات، اور واقعات ایک ترتیبسے ناظرین کے سامنے پیش ہوتے ہیں۔ ان دونوں الفاظ میں حرکت اور جاری رہنے کا پہلو شامل ہے۔
لہٰذا، ڈورک بولی میں ”ڈراما“ کو ”ڈرین“ کے مترادف کے طور پر دیکھنا اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ زندگی کی طرح ڈراما بھیایک جاری عمل ہے، جس میں واقعاتاور جذبات کا ایک تسلسل ہوتا ہے۔
شیلڈن چینی کے بقول:
’’ڈراما اس یونانی لفظ سے ماخوذ ہے جس کے معنی ہیں ’’میں کرتا ہوں‘‘ اور جس کا اطلاق ’’ کی ہوئی چیز پر ہوتا ہے‘‘(6)
سنسکرت قواعد کے مطالعہ سے یہ بات سامنے آتی ہے:
”سنسکرت قواعد کی رو سے ڈرامے کی یہ تعریف کی جاتی ہے کہ یہ ایک ایسی نظم ہے جسے دیکھا جاسکے یا ایسی نظم جسے دیکھا اور سُنا جا سکے۔ (7)“
اسکے معنی یہ ہیں کہ ڈراما محض تحریری یا زبانی اظہار کا محتاج نہیں ہوتا بلکہ یہ ایک مکمل بصری اورسمعی تجربہ اورمشاہدہہے۔ ڈراما کے فن میں کرداروں کی حرکات، چہرے کے تاثرات، جسمانی زبان، مکالمے اور پس منظر اہم ہوتا ہے، جو دیکھنے والوںکو کہانی کا مکمل احساس اور تجربہ فراہم کرتے ہیں۔
سنسکرت زبان میں ڈرامے کو کیا کہتے ہیں اس پہ ڈاکٹر محمد اسلم قریشی رقمطراز ہیں:
”قدیم یونانی ادب کی مانند سنسکرت میں بھی ڈرامے اور شاعری کا چولی دامن کا ساتھ رہا ہے۔۔۔۔ڈرامے کو سنسکرت میں”روپک“کی اصطلاح سے موسوم کیا جاتا ہے۔ یہ لفظ ”روپ“ سے مشتق ہے اس سے مراد کرداروں اور کیفیات کو مشخّص کرنا اور جذبے کے فطری مظاہرات کو پیش کرنا ہے۔ (8)“
سنسکرت زبان میں ”روپک“ لفظ ”روپ“ سے مشتق ہے، جس کا معنیہے”شکل“ یا ”صورت“۔ ”روپک“ ایک ایسی ادبی اصطلاح ہے جو کسی کردار،چیز یا حالت کو مجازی یا علامتی طور پر پیش کرنے کے لیے استعمال ہو۔ اس کا مقصد جذبات، خیالات اور کرداروں کو اس طرح مجسم کرنا ہے کہ وہ واضح طور پر ناظرین کے سامنے آ جائیں، جیسے وہ حقیقت میں موجود ہوں۔ ”روپک“ کا استعمال خاص طور پر شاعریاور ڈرامامیں کیا جاتا ہے تاکہ ناظرین ان جذبات اور کیفیات کو محسوس کر سکیں جو کرداروں کے ذریعے دکھائی جاتی ہیں۔
بقول ارسطو:
’’ڈراما انسانی افعال کی ایسی نقل ہےجس میں الفاظ موزونیت اور نغمے کے ذریعے کرداروں کو محو گفتگو اور مصروف عمل ہو بہو ویسا ہی دکھایا جائے جیسے کہ وہ ہوتے ہیں۔ یا ان سے بہتر یا بدتر انداز میں پیش کیا جائے‘‘۔(9)
سید محمد حسین رضوی کے مطابق:
”ڈراما اصطلاح میں اس صنف کلام کو کہتے ہیں جو بلا تخصیص نظم و نثر وجدانی مضامین پر حاوی ہو اور ایکٹروں کے ذریعہ سے سٹیج پر پبلک کے سامنے پیش کیا جائے اور جو ہمیشہ تہذیب و اخلاق یا اصلاح کا پہلو لیے ہوئے ہو۔ چونکہ سچا عشق ایک عطیہ الہٰی ہے اور کشش قلوب کے لیے جذب مقناطیس کا حکم رکھتا ہے اس لیے ڈراما میں اس کو زیادہ دلکش بنانے کے لیے اس کی چاشنی بھی ضمناً ضروری ہو جاتی ہے۔(10) “
محمد شاہد حسین کی رائے ہے:
”ڈراما ایک ایسی کہانی ہے جو چند کرداروں کی مدد سے اسٹیج پر اسٹیج کے دیگر لوازمات کے ساتھ تماشائیوں کی موجودگی میں عملی طور پر پیش کی جاتی ہے۔ اس کہانی کا بنیادی مقصد تفکراتِ غم کا مداوا اور معاشرتی اصلاح ہے۔ لیکن سنسکرت قواعد کی رو سے ڈراما ایک ایسی نظم ہے جسے دیکھا جا سکے یا ایسی نظم جسے دیکھا اور سنا جا سکے۔ (11)“
یعنی ،ڈرامےمیں کرداروں، اسٹیج اور تماشائیوں کو ہونا لازم ہے اور اس کے دو بنیادی مقاصد بھی ہونے چاہئیں ؛ کتھارسس اور لوگوں کی اصلاح کا پہلو ضرور نکلنا چاہیے۔
ڈرامے کی تعریف میں محمد حسن کہتے ہیں:
”اسے ایک مکمل اکائی کی شکل میں سامنے رکھنا چاہیے ادب کی دوسری اصناف کی طرح ڈراما بھی پڑھے جانے کے لیے نہیں ہے اس کا لازمی رشتہ اسٹیج سے ہے)یا پھر عوامی ذرائع ترسیل کے دوسرے طریقوں یعنی فلم ریڈیو یا ٹیلی ویژن سے ہے(یعنی ڈرامے پیش کیے جانے کے لیے لکھے جاتے ہیں صرف پڑھنے کے لیے نہیں لکھے جاتے اس لیے ڈرامے کو صرف مکالموں کا مجموعہ سمجھنا درست نہیں ، نہ اسے محض افسانوں کی طرح پڑھنا پڑھانا کافی ہے بلکہ اس کے مکالموں کو اسٹیج پر)یا ریڈیو، فلم، ٹیلی ویژن پر (پیش ہونے والے فن پارے کا ڈھانچہ یا اس کا ایک حصہ سمجھ کر پڑھنا چاہیے“۔(12)
مندرجہ بالا وضاحت سے ایک بات سامنے آتی ہے کہ یونانیوں اور ہندوستانیوں کے ہاں ڈرامے کی بنیادی تعریف ایک ہی ہے کہ تماشائیوں کے سامنے کر کے دکھانا ۔ پہلے اسٹیج تھا اور حاضرین تھے اب ٹی وی ہے اور ناظرین ہیں۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!
Scroll to Top