ہندوستانی ڈراما آغاز و ارتقاء

یہ بات زبان زدِ عام ہے کہ ڈراما کا آغاز یونانیوں سے ہوا۔ جیسا کہ بالائی سطور میں ایک اجمالی جائزہ لیا گیا ہے لیکن تاریخ کے اوراق سے جیسے جیسے گرد صاف ہوتی ہے تو نئی حقیقتیں جنم لیتی ہیں یا یوں کہہ لیجیے نئے نظریے اور زاویے وجود میں آتے ہیں ۔ یہ تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ ہندوستانی تہذیب دنیا کی قدیم ترین تہذیوں میں سے ایک ہے۔ ہندوستان میں ناٹک اور ناچ یہاں کے مذاہب کا لازمی جزو رہے ہیں۔ اور یہاں بھی مذہبی تعلیمات کو لوگوں تک پہنچانے کے لیے کہانی کا سہارا لیا گیا ہے ۔ اسی لیے سیّد وقار عظیم بھی یہ سمجھتے ہیں یو نانیوں سے بھی پہلے ڈراما کا آغاز ہندوستان سے ہوتا ہے اور ایک روایت بیان کرتے ہیں۔
”کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ دیوتاؤں کے دل میں اپنی ہموار، سپاٹ، بے تغیّر اور بے لُطف زندگی سے ایسی اکتاہٹ پیدا ہوئی کہ وہ سب مل کر راجا اندر کے پاس گئے اور اپنی بے کیف اور بے مزہ زندگی کے لیے کسی دلچسپ مشغلے کے طالب ہوئے۔ راجا اندر نے کہا کہ چلو برہما کے پاس چلیں، ممکن ہے کہ کوئی صورت نکلے۔ چنانچہ سب برہما کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنی عرض داشت پیش کی۔ برہما نت تھوڑے ست سوچ بچار کے بعد ایک ترکیب نکالی۔ انھوں نے رگ وید سے رقص، سام وید سے سرود، یجر وید سے حرکات و سکنات اور اتھر وید سے اظہارِ جذبات کا طریقہ اخذ کر کے ایک پانچواں وید ترتیب دیا اور ”نٹ وید “اس وید کا نام ہوا۔ یہ عجیب و غریب نسخہ دیوتاؤں کے ہاتھ آیا تو وہ خوش خوش واپس آئے اس نسخہ کیمیا اثر کو عملی طور پر آزمایا اور یہی نسخہ آگے چل کر دُنیا والوں کے لیے بھی شمع ہدایت بنا اور اس کی بنیاد پر”شکنتلا “جیسے ناٹک لکھے گئے۔ “(38)

صفدر آہ ہندوستانی ڈرامے کی ابتدا کے بارے میں لکھتے ہیں:
”قدیم یونانی ڈرامے کی سب سے پہلی جھلک ہمیں چھٹی صدی قبل مسیح میں غیر ترقی یافتہ فوک ڈرامے کی صورت میں نظر آتی ہے لیکن ہندوستانی ڈراما اس عہد سے مدتوں پہلے اس سطح پر تھا جس کے پیچھے ایک منظّم فنی قانون ”بھرت ناٹیہ شاستر “موجود تھا۔ قدیم ہندوستانی اسٹیج کی شکل وصورت قدیم ہندوستانی اداکاری کا ہُنر اور قدیم ہندوستانی ڈرامے کا فن یہ سب بھرت ناٹیہ شاستر ہی کی دین ہیں۔(39) “
اور اس کے بعد مہا بھارت کا زمانہ ہے ، اس دور میں رنگ شالے)شاہی تھیٹر( بڑے اعلیٰ پیمانے پر بنے ہوئے تھے۔
”کچھ ناقدین کا خیال ہے کہ ہندوستانی ڈراما ، یونانی ڈرامے سے ماخوذ ہے۔ لیکن یہ بات قابلِ فہم نہیں کیونکہ ہندوستانی ڈراما کی شکل و صورت اور روح یونانی ڈرامے سے یکسر مختلف ہے۔ “مغربی عالم میکڈانلڈ اور میکسمولر دنیا کی سب سے پرانی کتاب رگ وید کے مکالمے والے منتروں کو ہندوستانی ڈرامے کی شکلِ اوّل بتاتے ہیں۔ “(40)
اس کے برعکس کچھ مغربی عالم اس نظریے کے مخالف ہیں۔ اُن کا ماننا یہ ہے کہ جب بھی انسان نے زبان ایجاد کی ہو گی تو مکالمہ کا وجود پیدا ہوا جبکہ ڈراما مکالمے کو حرکت میں لانے کا نام ہے۔کیوں کہ ڈرامے کی ابتدائی شکل مکالمہ نہیں اداکاری ہے۔
ناٹیہ شاستر ہندوستانی ڈرامے کا ایک صحیفہ قانون ہے جس میں اسٹیج اداکاری، رقص، ڈراما نگاری اور ڈرامے کے فن کے دیگر جزئیات کے لیےبالکل واضح اصول اور قانون موجود ہیں انسانی حرکات اور بھاؤ کا جتنا جزو در جزو جائزہ ناٹیہ شاستر میں ہے اس کی مثال تمام دنیا کے ڈرامے کی تکنیک میں نہیں مل سکتی۔
جیسا کہ اب اس میں تو کوئی ابہام نہیں کہ قدیم ہندوستانی ڈراما ایک مذہبی عمل کے طور پہ دیکھا جا سکتا ہے ۔ اس لیے اس میں جو لوگ اداکاری کرتے تھے وہ بھی اسے بطور پیشہ نہیں بلکہ مذہبی فریضہ کے طور پر سر انجام دیتے تھے۔ اس لیے ناٹیہ شاستر میں خود بھرت منی نے اپنے لڑکوں کو رول دینے کا ذکر کیا ہے
رگ وید میں اس بات کے ثبوت بھی ملتے ہیں کہ ڈراما کی ابتدائی صورت ناچ گانا تھی۔ اس دور میں دوشیزاؤں کے ناچ گانے کا عام رواج تھا اور بعض مواقعوں پہ مرد بھی اپنے جوہر دکھاتے تھے۔
انسانی تاریخ میں ناچ تفریح کا ذریعہ بھی رہا ہے اور اسے جسم کے مکالمے سے بھی تعبیر کیا گیا ہے ۔ جبکہ جدید تعریف میں اسے اعضا کی شاعری بھی کہا جاتا ہے۔
”غاروں میں بنی ہوئی قدیم ترین تصویرین اور پتھروں کی مُورتیان ناچ کی وجد آفرین حرکات کو پیش کرتی ہیں۔ مصر کے قدیم انسانوں میں ناچ کو بڑی اہمیت حاصل تھی۔ قدیم مصریوں میں کسی خیال کو ظاہر کرنے کے لیے مجسمہ سازی کا رواج تھا۔ یہاں کے سنگ تراشوں نے جو پہلا مجسمہ تراشا اس میں انسانی خوش طبعی اور شادمانی کے اظہار کے لیے انسان کو ناچتا ہوا پیش کیا گیا ہے۔ (41)“

ہندوستان کا پہلا ڈراما نگار 

ہندوستان کا پہلا ڈراما نگار ناٹیہ شاستر کے مصنف بھرت منی ہی کو سمجھا جاتا ہے۔ اس کے بعد سنسکرت ڈراموں میں کالی داس کا ”شکنتلا“بہترین ڈراما سمجھا جاتا ہے۔
”اس وقت تک جو سنسکرت ڈرامے مہیا ہوسکے ہیں ان کی تعداد 500 سے زیادہ ہے ان ڈراموں میں کالی داس کا رومانوی ڈراما شکنتلا تمام دنیا کے ڈرامائی ادب کےتین بہترین ڈراموں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔ (42)“
ڈرامے کی جدید روایت میں جن تین ڈراموں کو پیش کیا جاسکتا ہے اُن میں ذیل کے ڈرامے شامل ہیں۔
1۔ شیکسپیر کا ہیلمٹ
2۔ گوئٹے کا فاؤسٹ
3۔ کالی داس کا شکنتلا
نقاد کہتے ہیں کہ فاؤسٹ کے بہت سے کردار شکنتلا کے کرداروں سے متاثر ہو کے لکھے گئے۔ اس پہ خود گوئٹے شکنتلا کی تعریف میں لکھتا ہے:


“Spring blossoms, Autumn harvest Gold
In one large word wouldst thou enfold,
All that delights and satisfies
In single Phrase wouldst thou comprise,
I “Shakuntla” name and there,
At once speak all that is good and fair.(43)


یورپی ڈراما جو یونانی ڈرامے کا پرتو ہے اس کی مایہ ناز صفت ٹریجدی ہے۔ جبکہ ہندوستانی ڈرامے میں گانوں میں تو کہیں کہیں ٹریجدی ملے گی لیکن عمومی تاثر بہت مختلف ہے۔ کیونکہ ہندوستان کا تماشائی ایک مکمل ڈرامے کا متلاشی تھا اس لیے اس میں ٹریجدی، طربیہ، گانے ، ناچ، ہر طرح کی تفریح دیکھنے کو ملتی ہے۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!
Scroll to Top