کہانی

یہ کہانی  (کوے کا انتقام)  نہم جماعت(class 9) کے نصاب میں شامل ہے ۔ 


ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ کوؤں کا ایک جوڑا کسی جنگل میں ایک درخت پر رہتا تھا۔ جنگل میں ہر طرح کے جان دار تھے  ۔ جس درخت پر کوؤں کا گھونسلا تھا اس کی جڑ میں ایک سانپ بھی رہتا تھا۔ وہ سانپ بہت زہر یلا تھا اور بہت بڑا بھی۔ اس لیے اکثر و بیشتر دیگر چھوٹے جانداروں کو تنگ کرتا رہتا تھا۔

تمام چھوٹے جاندار اس سے بہت تنگ تھے  کیونکہ وہ ہر کسی کو اپنی خوراک بنانے کی فکر میں رہتا تھا۔ حتیٰ کہ وہ اپنی برادری یعنی چھوٹے سانپوں کو بھی معاف نہ کرتا اور انھیں بھی ہڑپ کر جاتا تھا۔

کوؤں کے گھونسلے میں انڈوں سے جب ننھے ننھے بچے نکلے تو وہ بہت خوش تھے۔ نرکوا اس خوشی میں پھولے نہیں سمار ہا تھا لیکن مادہکوا اچانک پریشان ہوگئی ۔ نرکوے نے اس سے اس اچانک پریشانی کی وجہ پوچھی تو اس نے کہا: کیوں نہ ہم یہ درخت چھوڑ دیں اور کسی دوسرے درخت پر اپنا گھونسلا بنالیں۔“

 

نر کوے نے کہا وہ کیوں؟ مادہ کوے نے ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے جواب دیا ” کیا تمھیں معلوم نہیں کہ اس درخت کی جڑ  میں وہ زہریلا سانپ  ہے جو ہر کسی کو اپنی خوراک بنانے کی فکر میں رہتا ہے ۔

نر  کوے نے اسے تسلّی دیتے ہوئے کہا: تماطمینان رکھو! ہمارا گھونسلا بہت اونچی شاخ پر ہے۔ سانپ یہاں تک نہیں پہنچ پائے گا۔ لیکن مادہ کوا ماں تھی اور اسے تسلی نہیں ہو رہی تھی  اور وہ درخت چھوڑنے پر بار بار اصرار کر رہی تھی ۔ اس کے بار بار اصرار پر نر کوے نے کہا ، دیکھو تم پریشان نہ ہو۔

ہم ایک ہی وقت میں گھونسلا نہیں چھوڑیں گے۔ بچوں کے لیے ایک خوراک کا انتظام کرے گا جب کہ دوسرا ان کی نگرانی کے لیے گھونسلے میں ہی رہے گا۔ کو ے اسی منصوبے پر عمل کرتے رہے اور دن گزرتے رہے۔ ننھے بچے بھی اب قدرے بڑے ہو گئے تھے اور گھونسلے میں اٹکھیلیاں کرتے رہتے تھے۔ ان کی اس ہل چل سے سانپ کو بھی ان کی موجودگی کا احساس ہو چکا تھا اور وہ موقع کے انتظار میں تھا۔

چند دن سکون سے گزرنے کی وجہ سے کوے بھی اطمینان میں تھے کہ اب ان کے بچوں کو خطرہ نہیں ہے۔ اس لیے ایک دن وہ بچوں کو تنہا چھوڑ کر دونوں ہی خوراک کی تلاش میں نکل گئے۔ سانپ کو موقع ملا، وہ درخت پر چڑھا اور کوؤں کے بچوں کو ہڑپ کر گیا۔ جب شام کو کوؤں کا جوڑا واپس آیا تو بچوں کو وہاں نہ دیکھ کر بہت دکھی ہوئے ۔ وہ سمجھ گئے کہ ہو نہ ہو یہ اسی سانپ کی ہی حرکت ہے۔ مادہ کوے نے کہا: ہمیںاب تو اپنا ٹھکانا تبدیل کر لینا چاہیے ۔ لیکن نرکوا  انتقام کی آگ میں جل رہا تھا ، وہ مادہ کوے کی یہ تجویز تب بھی نہ مانا۔ اس کے ذہن میں ایک ترکیب آئی۔ وہ وہاں سے اُڑا اور اڑتے اڑتے شاہی محل کی منڈیر پر جا بیٹھا۔ اس نے چاروں طرف دیکھا۔ ایک جگہ کھونٹی پر ایک قیمتی ہار لٹک رہا تھا۔ اس نے پھرتی سے وہ ہار چونچ میں دبایا اور محل کے اوپر جا کر بیٹھا تا کہ سپاہیوں کی توجہ حاصل کر سکے۔ سپاہیوں کی جب اس پر نظر پڑی تو انھوں نے ہار کی واپسی کے جتن شروع کیے۔پیادے  دوڑے لیکن کوے نے بھی اپنے گھو نسلے کی طرفاڑنا شروع کر دیا ۔ پیادوں نے ہمت نہ ہاری وہ بھی کوے کے تعاقب میں بھاگتے رہے۔کوا جب درخت کے قریب پہنچا تو اس نے دیکھا کہ سانپ اپنے بل سے باہر تھا اور پھن پھیلائے جھوم رہا تھا۔ کوے نے انتہائی ہوشیاری سے وہ ہار سانپ کے پھن میں ڈال دیا اور خود اپنے گھونسلے میں جا چھپا۔ اسی اثنا میںپیادے  بھی وہاں پہنچ گئے۔ سانپ کے پاس مہلت ہی نہ تھی کہ وہ ہار کو اپنے پھن سے نکال سکتا اس لیے وہ ڈر کے مارے ہار سمیت اپنے بل میں گھس گیا۔ پیادے ، جنھوں نے ہار کے لیے اتنی بھاگ دوڑ کی تھی وہ خالی ہاتھ کیسے واپس جا سکتے تھے۔ اس لیے انھوں نے آن کی آن میں سانپ کا بل کھود ڈالا،

سانپ کو مار دیا اور ہار لے کر واپس چلے گئے  کوے نے بھی خوب انتقام لیا۔ بچے  تو واپس نہ سکتے تھےلیکن اس انتقام سے نہ ڈڑف اس کے دل کو سکون ملا بلکہ

 دوسرے جان داروں کو بھی اس بلا سے نجات مل گئی۔

نتیجہ/ اخلاقی سبق:

جیسا کرو گے ویسا بھرو گے


دوسری کہانیاں پڑھیں:

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top